پتھریلی کاشتکاری

قدرتی موسم بھی جوں کا توں ہے اور سیاسی موسم بھی معمول کے مطابق جوں کا توں ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

قدرتی موسم بھی جوں کا توں ہے اور سیاسی موسم بھی معمول کے مطابق جوں کا توں ہے بس کوئی فرق ہے تو وہ مجھ میں ہے جو حسب معمول جوں کا توں نہیں ہے کچھ باہر ہو تو مجھ میں بھی کچھ فرق پڑے باہر کی دنیا خاموش بلکہ سو رہی ہے۔

تمام سیاستدان خراٹے لے رہے ہیں اور قوم کی نیند میں مخل ہیں جو اس سال گندم کی فصل ضرورت سے زیادہ ہونے پر حال مست ہیں۔ ہم زیادہ تر گندم خور قوم ہیں خصوصاً چاول کی کاشت کے علاقے سے باہر کے لوگ مرغن پراٹھے کھاتے ہیں اور یک گونہ نشے کی کیفیت میں کم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی زندگی بڑے سکون کے ساتھ بلا خوف و خطر گزر رہی ہے۔ میں کاشتکاروں کی بات کر رہا ہوں چونکہ خود بھی ایک برائے نام کاشتکار ہوں اس لیے اپنی روزی کے لیے اس زمین کا محتاج ہوں جس پر قدم تک رکھنے کی نوبت بھی کم ہی آتی ہے۔ یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ کہلایا تو کاشتکار جائے لیکن زمین کے ساتھ ایک کمزور سا برائے نام رشتہ رکھا جائے۔

کاشتکار کہلانے کے حقدار تو ہمارے بزرگ تھے جن کا تعارف انھی زمینوں کے ساتھ تھا اور وہ زمینوں سے پہچانے جاتے تھے۔ شہروں کی آرام دہ دنیا میں رہنے والے اصل میں دیہاتی ہی تھے لیکن وہ اپنا تعارف ایک کاشتکار کا کرتے تھے۔ ایک بار کسی قانونی ضرورت کے تحت جناب گورنر گورمانی کا نام چھپا۔ انھوں نے مشتاق احمد کے نام کے بعد اپنا تعارف بطور کاشتکار کرایا کیونکہ ان کا کوئی اور تعارف تھا ہی نہیں۔ وہ اپنے ضلع کی کم یا زیادہ زمینوں کے کاشتکار ہی تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ ہمارے گاؤں سے ہمارے ضلع کا فاصلہ کوئی 26 میل ہے اور ہر کام ضلع سے ہی پڑتا تھا۔


ہمارے بزرگ صبح سویرے بیدار ہوتے گھوڑی تیار ہوتی وہ اس کی گردن پر پیار کی تھپکی دے کہ اس کی کاٹھی پر سوار ہو جاتے اور پھر وہ ایک آدھ وقفے اور کہیں ذرا سے آرام کے ساتھ عموماً کچہری کے وقت پر خوشاب یا ضلعی مقام شاہ پور پہنچ جاتے یا پھر دوسرے روز صبح سویرے کچہری کھلنے پر حاضر ہوتے اور کام کے بعد سیدھے گاؤں کی راہ لیتے راستے میں وہ اپنی پسند کی سبزی یا گوشت خرید لیتے اور گاؤں میں گھر کے درازے پر پہنچ کر یہ سامان اندر بھجوا دیتے اور خود اپنے کسی کھیت کی طرف نکل جاتے جہاں وہ کوئی کام کرا رہے ہوتے اور اس کی رفتار دیکھنی ضروری ہوتی تھی۔

آج کے نوخیز کاشتکاروں کو حیرت ہوتی ہے کہ ان کے بڑوں کے سامنے ان کے کھیت کا ایک ایک پتا ہوتا تھا اور زمین کے کسی ٹکڑے کو آباد رکھنے کے لیے کوئی منصوبہ وہ زمین کے کارکن مزارع سے مشورہ کرتے اور پھر بارانی زمین کے اس ٹکڑے کو نئی زندگی دینے کا منصوبہ تیار کرتے۔ آج میں جب گاؤں جاتا ہوں اور زمین کے کسی رقبے پر جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے ان سرتاپا خشک زمینوں کو کس طرح نئی زندگی دی تھی۔ شہری زندگی سے لطف اندوز ہونے والے تصور بھی نہیں کر سکتے کہ سنگین سخت اور نیم پتھریلی زمینوں کو نرم فصلوں کا گھر کیسے بنایا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہی ہوا اور اس کے جو نتائج نکلے ہم نے صرف وہ دیکھے اس محنت اور صبر آزما کاشتکاری کو نہیں دیکھا جس میں نسلیں کھپ گئیں اور نئی دنیا آباد کر گئیں ایک ایسی دنیا جس کا ان کے زمانے میں تصور بھی آسان نہ تھا۔

نہتے انسانوں نے اپنی غیر معمولی محنت کے ساتھ کیا کچھ کر دیا وہ صرف دیکھا جا سکتا ہے اس کو سنا نہیں جا سکتا۔ پتھر کے بنے ہوئے ان لوگوں نے اپنی غیر معمولی لگن اور خانفشانی کے ساتھ دنیا ہی بدل دی اور دنیا بھی پہاڑ کی پتھریلی دنیا۔ وادی سون میں پہاڑ اور زمین ایک ساتھ زندہ ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں زمین ختم ہوتی ہے وہاں سے پہاڑی شروع ہو جاتی ہے اور جہاں پہاڑی ختم ہوتی ہے وہاں سے زمین شروع ہو جاتی ہے۔ اس زمین کو برسات میں ان پہاڑوں کا پانی سیراب کرتا ہے اور جب یہ کھیت بھر جاتے ہیں تو کاشتکار ان کے کنارے جشن مناتے ہیں اور ان کے قابل کاشت ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور جب ان کا پانی خشک ہوتا ہے اور زمین ہل کو قبول کرنے تیار ہو جاتی ہے تو پھر نئے موسم کی نئی فصل ان زمینوں میں کاشت ہوتی ہے اور ان زمینوں کو لہلہاتے فصلوں سے آراستہ کرتی ہے۔

زندگی کا یہ سلسلہ مسلسل چلتا ہے اور اسی سلسلے پر وادی سون کی زندگی کا دارومدار ہے یہ زندگی اسی انداز میں بڑھتی اور پھلتی پھولتی ہے اور اپنی پتھریلی زمینوں کو زندہ رکھتی ہے اور اپنے بچوں کو آباد و شاد کرتی ہے۔ جب کبھی قحط کی کیفیت ہوتی ہے تو آپ اس سختی کا تصور گر نہیں کر سکتے۔ خشک زمینوں میں بھوک کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوتا اور یہ انسان ہی ہے جو اس جان لیوا قحط کو برداشت کر جاتا ہے۔
Load Next Story