ترکی میں فوجی بغاوت تاریخ کے آئینے میں
گزشتہ50 سال میں ترک فوج نے 3 بڑی بغاوتیں کیں جس میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئےاور ملک کو سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
ترکی کی فوج کو دنیا کی مضبوط افواج میں شمار کیا جاتا ہے جو ملکی سیاست میں بھی اثرورسوخ رکھتی ہے لیکن ترکی میں فوجی بغاوت کوئی پہلا واقعہ نہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترکی میں عوام نے فوج کی اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادی
ترکی کی فوج خود کو ان آئیڈیاز کا محافظ سمجھتی ہے جو کمال اتاترک نے ماڈرن ترکی بنانے کے لیے نافذ کیے تھے۔ گزشتہ 50 سال میں ترک فوج نے 3 بڑی بغاوتیں کیں جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور ملک کو کئی بار سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ 1960 اس وقت کے وزیراعظم عدنان میندیرس اور صدرسیلال بیئر کی حکومت میں مخالف پارٹیوں اور فوج میں سیاسی تناؤ بڑھنے پر ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور حکومت کا تختہ الٹ کروزیراعظم سمیت کابینہ کے کئی اراکین کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ وزیراعظم عدنان میندیرس کو ملٹری کورٹ سے سزائے موت کا حکم ہونے پر پھانسی دے دی گئی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: فوجی بغاوت میں جلاوطن رہنما فتح اللہ گولن ملوث ہیں، ترک صدر
1971 میں بھی سیاسی بحران کے شدت اختیار کرنے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم سلیمان دی میرل کو استعفیٰ دینا پڑا اورترکی میں عبوری حکومت قائم کردی گئی۔ 70 کی دہائی میں بھی ترکی کو سیاسی بحران کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جاں بحق اور 11 وزیراعظم تبدیل ہوئے۔ ستمبر 1980 میں ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور اس مارشل لاء کے بعد ملک کے سیاسی بحران کی شدت میں کمی آئی لیکن ہزاروں افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترک وزیراعظم کا ہر سال 15 جولائی کو یوم جمہوریہ منانے کا اعلان
1997 میں اسلامک ویلفیئر پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو اسی سال فوج نے حکومت کو پالیسی گائیڈ لائن دی جسے اگلے ہی سال نافذ کردیا گیا۔ اس گائیڈ لائن کے تحت جامعات میں سر پر اسکارف لینے پر پابندی اور 8 سالہ تعلیمی پروگرام شامل تھا تاکہ کم عمر نوجوان مذہبی اسکولوں میں داخلہ نہ لیں سکیں جس کے بعد وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا اور ان پر 5 سال تک سیاست کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترکی میں عوام نے فوج کی اقتدار پر قبضے کی کوشش ناکام بنادی
ترکی کی فوج خود کو ان آئیڈیاز کا محافظ سمجھتی ہے جو کمال اتاترک نے ماڈرن ترکی بنانے کے لیے نافذ کیے تھے۔ گزشتہ 50 سال میں ترک فوج نے 3 بڑی بغاوتیں کیں جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور ملک کو کئی بار سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ 1960 اس وقت کے وزیراعظم عدنان میندیرس اور صدرسیلال بیئر کی حکومت میں مخالف پارٹیوں اور فوج میں سیاسی تناؤ بڑھنے پر ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور حکومت کا تختہ الٹ کروزیراعظم سمیت کابینہ کے کئی اراکین کو حراست میں لے لیا گیا جب کہ وزیراعظم عدنان میندیرس کو ملٹری کورٹ سے سزائے موت کا حکم ہونے پر پھانسی دے دی گئی۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: فوجی بغاوت میں جلاوطن رہنما فتح اللہ گولن ملوث ہیں، ترک صدر
1971 میں بھی سیاسی بحران کے شدت اختیار کرنے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم سلیمان دی میرل کو استعفیٰ دینا پڑا اورترکی میں عبوری حکومت قائم کردی گئی۔ 70 کی دہائی میں بھی ترکی کو سیاسی بحران کا سامنا رہا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد جاں بحق اور 11 وزیراعظم تبدیل ہوئے۔ ستمبر 1980 میں ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور اس مارشل لاء کے بعد ملک کے سیاسی بحران کی شدت میں کمی آئی لیکن ہزاروں افراد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: ترک وزیراعظم کا ہر سال 15 جولائی کو یوم جمہوریہ منانے کا اعلان
1997 میں اسلامک ویلفیئر پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو اسی سال فوج نے حکومت کو پالیسی گائیڈ لائن دی جسے اگلے ہی سال نافذ کردیا گیا۔ اس گائیڈ لائن کے تحت جامعات میں سر پر اسکارف لینے پر پابندی اور 8 سالہ تعلیمی پروگرام شامل تھا تاکہ کم عمر نوجوان مذہبی اسکولوں میں داخلہ نہ لیں سکیں جس کے بعد وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا اور ان پر 5 سال تک سیاست کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔