کچرا اور ڈسپلن

گزشتہ دو ہفتوں میں سے ایک استنبول اور دوسرا لندن میں گزرا

h.sethi@hotmail.com

گزشتہ دو ہفتوں میں سے ایک استنبول اور دوسرا لندن میں گزرا۔ باقی چیزوں کا ذکر چھوڑیے ''عادتوں کی حد تک معلوم ہوتا تھا کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے دونوں شہروں کے رہائشیوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے جو ہمہ وقت جاری رہتا ہے اور میں کہ واپس پاکستان روانہ ہونے کو ہوں دل میں یہ حسرت لیے آ رہا ہوں کہ کاش ہم اس مقابلے میں تھرڈ پوزیشن ہی کے اہل ہو سکیں۔

یہاں سرکار سڑکیں، پل، فلائی اوور، انڈر پاس بناتے وقت فٹ پاتھ بنانا نہیں بھولی بلکہ بعض جگہ تو بائیسکل ٹریک، جن پر سائیکل کے پہیوں کے نشان بھی فٹ پاتھوں پر نظر آتے ہیں جن پر مردوزن آتے جاتے ہیں اور کوئی بھی اپنے ٹریک سے اتر کر دوسرے پر قبضہ نہیں کرتا ٹریفک کا شور صرف موٹروں کے انجن کی آواز تک محدود ہے۔

ہارن یا سائرن کی آواز کبھی کبھار ایمبولینس یا پولیس گاڑی کی آ جاتی ہے۔ ٹریفک سگنل تو یوں لگتا ہے جیسے خود موٹروں کا چلنا رکنا کنٹرول کرتے ہیں اور یہ اختیار موٹر یا بس ڈرائیور سے چھین لیا گیا ہے۔ یہی حال پیدل چلنے والوں کا ہے جو آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر سڑک کراس کرتے ہیںجب کہ ہمارے لوگ ان کے برعکس منیر نیازی کا یہ شعر پڑھ کر گھر سے نکلتے ہیں کہ؎

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

چونکہ لندن اور استنبول میں کاروں سے زیادہ بس سروس کا نظام بہت تیز رفتار اور آرام دہ ہے اس لیے لوگ کاریں صرف اشد ضرورت کے تحت یا پھر امرأ استعمال کرتے ہیں جب کہ پیدل چلنے اور جوگنگ کرنے یا سائیکلنگ کرنے والے بھی کثیر تعداد میں نظر آتے ہیں۔

استنبول میں گزشتہ ہفتے والے ایئرپورٹ دہشتگردی کے سانحے کے باوجود مسافروں اور سیاحوں کے ہجوم سے بھرا ہوا تھا۔ ہمارا جہاز رات گیارہ بجے اتاترک ایئرپورٹ پر اترا تو مسافروں کی تعداد دیکھ کر حیرت ہوئی۔ سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے اتنی زیادہ قطاریں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا لیکن مجال کہ کسی کی کہنی بھی دوسرے کو چھوئی ہو۔ لندن کے پر ہجوم ریلوے اسٹیشنوں پر بھی ڈسپلن کا یہی عالم تھا۔ نہ دھکے، نہ شور، نہ بدتمیزی۔ ان ہزاروں مسافروں یا سیاحوں میں سے کسی نے اپنی قطار نہ توڑی جب کہ ہمارے 5 آدمیوں نے بجلی کے بل جمع کرانے ہوں تو وہ قطار میں کھڑے ہونا توہین سمجھتے ہیں۔

وقت کی پابندی کا اپنے ہاں جو حال ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے استنبول اور لندن میں ان کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ہو جائیں تو ٹرینوں کی آمدورفت کے بارے میں ڈسپلے لائٹس ہر ٹرین کی آمد کا وقت منٹوں کی کمی بیشی کے ساتھ بتاتی رہتی ہیں۔ ہم نے پاکستان میں ٹیلیویژن پر اکثر ہوائی جہازوں کے لیٹ ہونے کی پٹیاں چلتی دیکھی ہیں کہ قومی ایئرلائن کا جہاز دس گھنٹے لیٹ ہو کر اب اڑان بھرنے کے لیے تیار تھا کہ وی وی آئی پی شخصیت کی دیر سے آمد کی وجہ سے مزید ایک گھنٹہ لیٹ پرواز کریگا۔ یہاں بہت سوں کو بابائے قوم کا کہا UNITY FAITH DISCIPLINE کا یاد آ جانا بلاوجہ نہیں کہ پابندی وقت سے ڈسپلن قائم ہوتا ہے۔


جن دو شہروں میں پائے جانے والے ڈسپلن اور لوگوں کے شائستہ و CIVILIZED ہونے کا ذکر ہوا ان کی صفائی پسندی بھی متقاضی ہے کہ اس کا ذکر ہو۔ ان کی سڑکیں، گلیاں، بازار، پارکس، اسٹور، فٹ پاتھ، مارکیٹیں، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹاپ، ریسٹوران، فلائی اوور، انڈر پاس، ہوٹل تو خیر وہ جگہیں ہیں جہاں ہر کوئی جا سکتا ہے اس لیے ان کے بارے میں رائے زنی بھی آسان ہے یہ جگہیں دیکھنے گھومنے والوں کو معلوم ہے کہ ان ہر دو شہروں کے مذکورہ مقامات صاف ستھرے ہوتے ہیں اور پبلک مقامات جن کی صفائی ستھرائی ملازموں اور محکمے کے سپرد ہوتی ہے اس لیے وہاں گندگی ہونے کا امکان ہو سکتا ہے لیکن ان پبلک مقامات کی صفائی پر مامور ملازم بھی نہایت ذمے داری سے ڈیوٹی دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ کہ کسی جگہ چھلکا یا کاغذ کا فالتو ٹکڑا تک دیکھنے کو نہیں ملتا۔

سڑکوں، بازاروں اور تمام پبلک مقامات پر ڈسٹ بن رکھے نظر آتے ہیں اور کم عمر بچے بھی لفافہ کاغذ چھلکا یا فالتو چیز ادھر ادھر پھینک کر جان چھڑانے کی بجائے ڈسٹ بن میں پھینکنے جاتے ہیں۔ خود میرے ساتھی نے کچھ کھا پی کر ٹھکانے لگانے والے کاغذ اور خالی لفافے وغیرہ کافی دیر پکڑے رکھے اور ڈسٹ بن نظر آنے پر اس میں گرا کر آیا۔

سڑکیں رستے گلیاں کسی بھی جگہ توڑ پھوڑ کے نشان یا مرت کے بعد وہاں چھوڑا ہوا سمینٹ پتھر مٹی کا ڈھیر نہ دیکھا بلکہ کوئی رستہ مرمت طلب نہ پایا اگر کسی جگہ مرمت کا کام ہوتے دیکھا بھی تو اسے پولی تھین کی چادر سے لوگوں کی نظروں سے دور اور ٹریفک سے محفوظ کیا ہوا پایا۔ قریباً ہر مارکیٹ، ریستوران ایریا اور لوگوں کے رش والے علاقے میں صفائی پر مامور اور مصروف عملہ دیکھنے کو ملا اور خوشگوار حیرت یہ تھی کہ عملہ صفائی میلا کچیلا نہیں تھا صاف ستھری یونیفارم میں ملبوس، دلچسپی سے کام کرتا اور خوش اخلاق پایا۔

اگر آپ کو استنبول اور لندن کی سڑکوں گھروں کے اردگرد اور مارکیٹوں میں گندگی کوڑا اور کچرا نظر نہیں آتا اور لاہور میں ترکی کو صفائی کا ٹھیکہ دیے جانے کے باوجود دکھائی دیتا ہے تو کیا یہ ہماری نالائقی اور سسٹم کی خرابی ہے یا اس الزام میں حقیقت ہے کہ ہم فطری طور پر گندے لوگ ہیں یعنی صفائی اور گندگی میں تمیز کرنے سے عاری ہیں۔ مجھے ایک منظر یاد آ گیا ہے کل میں ایک سٹ اسٹاپ پر کھڑا تھا دیکھا کہ ایک بچہ سامنے سے اپنے والدین کے ہمراہ بس اسٹاپ کی طرف آ رہا ہے اس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا وہ قریب پڑے ڈسٹ بین کی طرف گیا شاپر کو اس ڈسٹ بن میں پھینکا اور اپنے والدین کے ساتھ اسی بس کے اسٹاپ پر کھڑا ہو گیا جہاں میں بس کا منتظر کھڑا تھا۔ کیا خرابی ہم ہے یا سسٹم میں۔

مجھے بچے کو کچرا ڈسٹ بن میں پھینکتے دیکھ کر اپنے تجسس کا جواب مل گیا۔ صرف صبح کے وقت ہی یہ دونوں شہر صاف ستھرے نہیں ہوتے رات گئے تک یہاں صفائی کا عمل جاری رہتا ہے۔ ہر گھر کے اندر اور باہر ڈسٹ بن چوبیس گھنٹے اپنا کمال دکھاتے ہیں چونکہ یہاں یادہ تر چھوٹے اپارٹمنٹس میں رہائش ہے اس لیے ہر اپارٹمنٹ کا رہائشی دن بھر کا اندرون خانہ ڈسٹ بن میں جمع شدہ کچرا ایک مخصوص Common جگہ یا کمرے میں رکھ دیتا ہے جہاں سے کارپوریشن کا ملازم اسے اکٹھا کر کے اٹھا لے جاتا ہے۔ ہر شخص کی گھٹی میں یہ عادت داخل ہے کہ اس نے کوئی گندگی ماسوائے کوڑے دان کے کسی جگہ نہیں گرانی۔

ان دو شہروں کی دو خوبیوں اور مشترکہ خصوصیات کے ذکر کے بعد دو قابل ذکر ضدین کی بات بھی ہو جائے۔ لندن میں اکثر چرچ ناگفتہ بہ حالت میں دیکھے خستہ حال مرمت طلب جب کہ کسی جگہ نیا اور خوبصورت چرچ زیر تعمیر نہیں دیکھا۔ اس کے برعکس تاریخی اہمیت کی مساجد جن میں مسجد سلطان احمد، بلیو مسجد، نیو مسجد، سلیمانیہ مسجد، بیازد مسجد، ایوب سلطان مسجد شامل ہیں۔ ان کا تو کیا ہی کہنا جو نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور ہر علاقے میں موجود ہیں وہ فن تعمیر میں یکتا ہیں۔ استنبول میں جہاں اسلامی تاریخ کا بے بہا خزانہ ہے وہاں کی مساجد آرکیٹیکچر اور مصوری میں بھی بے مثال ہیں۔

ان دونوں شہروں کی مشترکہ خوبیوں کے بعد دونوں کی عبادت گاہوں کا ذکر ہوا۔ اب صفائی کے اس حصے کا ذکر بھی ضروری ہے جسے طہارت کا نام دیا جا سکتا ہے۔ لندن کے اصل باسی ٹائیلٹ میں ٹشو پیپر ہی کو کافی سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں تو لوٹے کے بعد مسلم شاور بھی عرصہ دراز سے متعارف ہو چکا ہے۔ استنبول والوں نے جاپان میں استعمال ہونے والے کموڈ کی نقل کرتے ہوئے کموڈ کے اندر پشت پر ایک ٹونٹی کا اضافہ کر رکھا ہے۔ ضرورت پڑتے ہی اس کی ناب کھولی جا سکتی ہے جس پر پیچھے سے پانی کی دھار نکل کر مسلم شاور والا کام سنبھال لیتی ہے۔

ان دو شہروں کی سیاحت کے لیے ایک ایک ہفتہ ناکافی ہے۔ لندن تو عرصہ دراز سے ہمارے امرأ اور حکمران کا سیکنڈ ہوم ہے کسی کو سوئی بھی چبھ جائے تو وہ اپنے لندن والے فلیٹ میں بغرض علاج جا پہنچتا ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل ہمارے وزیراعظم وہاں سے علاج کرا کے ایک ماہ بعد لوٹے ہیں۔ استنبول میں ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔ لندن کے مقابلے میں البتہ زبان کا مسئلہ رہتا ہے یہ لوگ محبت میں بعض اوقات ''جیوے جیوے پاکستان'' تو بول جاتے ہیں لیکن ہم سے اشاروں کی زبان ہی میں بات کرتے ہیں۔
Load Next Story