جونیئر ہاکی ورلڈ کپ قومی ٹیم توقعات پر پورا اتر سکے گی
شیڈول کے مطابق ٹیم 19 جولائی کو چار ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے جرمنی جائے گی
پاکستان ہاکی ایک عرصہ سے کسی بڑی کامیابی کی منتظر ہے مگر مراد بر نہیں آتی، اب صورتحال یہ ہے کہ عوام نے اس کھیل میں بہتری کے حوالے سے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیئے ہیں۔
جب سے قومی کھیل زوال آمادہ ہوا ہے فیڈریشن کے کئی عہدیداروں نے اقتدار کے مزے لوٹے، خوب سیر سپاٹے کئے اور اپنے قریبی دوستوں کو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا بھر پور موقع فراہم کیا، وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبوں سے بھی فنڈز اکٹھے گئے مگر قومی ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے چند گنے چنے چہروں پر انحصار کا رویہ برقرار رہا، نتیجہ یہ ہوا کہ ورلڈ کپ میں تاریخ کی برترین شکستوںسے دوچار ہوئے اور 12ویں اور آخری پوزیشن کی شرمندگی گرین شرٹس کا مقدر بنی۔
ایک عرصہ گراس روٹ سطح پر نظر انداز ہونے والے کھیل میں نئے ہیروز تلاش کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لئے پروانوں سے ہی امیدوں کو وابستہ کرناپڑا جس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ تاہم اب محسوس ہو رہا ہے کہ پی ایچ ایف نئے باصلاحیت کھلاڑیوںکی کھوج لگانے میں سنجیدہ ہے، اس لئے جونیئرز کو آگے آنے کے مواقع دیئے جا رہے ہیں جس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں چند نئے باصلاحیت کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بن کر اپنے شاندار کھیل سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کریں گے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ کو رواں برس شیڈول جونیئر ورلڈکپ کے چیلنج کا سامنا ہے،یہ اب تک کا 11 ویں ایڈیشن ہے جو 8دسمبر سے بھارت کے شہر لکھنؤ میں شروع ہو گا، جرمنی ایونٹ کی سب سے کامیاب ٹیم ہے جو مسلسل 4 فتوحات سمیت 6 مرتبہ فاتح رہی، ارجنٹائن، بھارت اور آسٹریلیا بھی ایک ایک مرتبہ کامیاب رہے، پاکستان نے 1979میں میگا ایونٹ کا اولین ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، 1993 میں گرین شرٹس کو فائنل میں جرمنی کے ہاتھوں شکست ہوئی جبکہ 1982، 1985 اور 1989میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
کہا جاتا ہے کہ جونیئر کھلاڑی کسی بھی ٹیم کے مستقبل کے سٹارز ہوتے ہیں، 1979ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم کے پلیئرز بعد میں دنیائے ہاکی کے درخشاں ستارے بنے اور پاکستان کو ہر میدان میں کامیابیاں دلوائیں، پاکستان میں 2009ء میں سانحہ لبرٹی کے بعد جہاں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے وہیں قومی کھیل بھی متاثر ہوا، 2004ء میں چیمپئنز ہاکی ٹرافی آخری بڑا ایونٹ تھا جو پاکستان میں کھیلا گیا، ملک میں انٹرنیشنل ہاکی میچز نہ ہونے سے ٹیم کو نیوٹرل وینیوز پر کھیلنا پڑا جس کی وجہ سے نہ صرف فیڈریشن کے اخراجات بڑھے بلکہ ہوم گراؤنڈ پر نہ کھیل پانے کی وجہ سے کھلاڑیوں کا اعتماد بھی متزلزل ہوا جبکہ پڑوسی ملک بھارت لگاتار انٹرنیشنل ایونٹس کروا رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں ہاکی پھل پھول رہی ہے۔
ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لئے قومی ٹیم کو پہلے یورپ یاترا کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لئے کھلاڑیوں کا تربیتی کیمپ نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں جاری ہے31 کھلاڑی مدعو ہیں جن میں 5گول کیپرز علی رضا، حافظ علی عمیر، عثمان غنی، منیر الرحمان، رومان خان، 4 فل بیکس عاطف مشتاق، حسن انور، مبشر علی، زاہد اللہ، 9 ہاف بیکس ابوبکر محمود، جنید کمال، ایم عثمان، محمد قاسم، تنظیم الحسن، محمد عدنان، احمد شکیل بٹ، علی رضا، 13فارورڈز شان ارشد، اظہر یعقوب، محمد دلبر، محمد عتیق، بلال قادر، محسن صابر، رانا سہیل ریاض، سمیع اللہ، محمد رضوان، محمد نوید، بلال، محمود، فہد اللہ اور عامر علی شامل ہیں۔
شیڈول کے مطابق ٹیم 19 جولائی کو چار ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے جرمنی جائے گی، پاکستانی ٹیم کے صرف 16 کھلاڑیوں اور 2 کوچز کو ہی یورپی سفارتخانے کی طرف سے شینجن ویزہ کی بجائے صرف جرمن ویزے جاری کئے گئے جس کی وجہ سے ٹیم ہالینڈ کا دورہ نہیں کر سکے گی اور صرف چارملکی ٹورنامنٹ کے دوران ہی ایکشن میں دکھائی دے گی، 29اگست سے یکم ستمبر تک ٹیم بارسلونا میں سپین کے خلاف تین میچز کھیلے گی اور 2سے 10 ستمبر تک فرانس کی جونیئر اور سینئر ٹیموں کیساتھ 3,3 میچز کھیلے گی.
ہیڈ کوچ طاہر زمان کے مطابق دورئہ یورپ کیلئے صرف 16 کھلاڑیوں اور 2 کوچز کو جرمن ویزے ملنے سے اتنا فائدہ تو نہیں ہوگا تاہم جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیئم کے خلاف کھیلنے سے کھلاڑیوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور ٹیم مینجمنٹ کو جونیئر ورلڈ کپ کیلئے مؤثر حکمت عملی بنانے کے مواقع میسر آئیں گے۔گزشتہ جونیئر ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نویں پوزیشن حاصل کر سکی تھی، میگا ایونٹ میں کوارٹر فائنل تک رسائی ہدف ہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی پالیسیاں عدم تسلسل کا شکار ہیں، ایک طرف تو فیڈریشن نے وسائل کی کمی کا رونا روتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی جیسے بڑے ایونٹ میں قومی ٹیم کو شرکت کیلئے نہ بھیجا اور اب جونیئر ٹیم کو یورپ کے دورے کروائے جا رہے ہیں حالانکہ جونیئر ورلڈ کپ بھارت میں منعقد ہونے جا رہا ہے جہاں گرم موسم ہوتا ہے اور یورپی ممالک میں کنڈیشنز یکسر مختلف ہیں.
ٹیم کو یورپ کے دورے کروانے کی بجائے بھارت، چین اور دیگر ایشیائی ٹیموں سے میچز کھلائے جاتے تو کھلاڑیوں کو کنڈیشنز سے آگاہی حاصل ہوتی جو میگا ایونٹ میں ان کے کام آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایچ ایف اپنی پالیسیوں میں تسلسل لے کر آئے اور نت نئے تجربات کی بجائے ایک منظم حکمت عملی مرتب کرے تاکہ پاکستان اپنے قومی کھیل میں دوبارہ ماضی کی طرح بلندیوں کی جانب گامزن ہو سکے۔
جب سے قومی کھیل زوال آمادہ ہوا ہے فیڈریشن کے کئی عہدیداروں نے اقتدار کے مزے لوٹے، خوب سیر سپاٹے کئے اور اپنے قریبی دوستوں کو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا بھر پور موقع فراہم کیا، وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبوں سے بھی فنڈز اکٹھے گئے مگر قومی ٹیمیں تشکیل دیتے ہوئے چند گنے چنے چہروں پر انحصار کا رویہ برقرار رہا، نتیجہ یہ ہوا کہ ورلڈ کپ میں تاریخ کی برترین شکستوںسے دوچار ہوئے اور 12ویں اور آخری پوزیشن کی شرمندگی گرین شرٹس کا مقدر بنی۔
ایک عرصہ گراس روٹ سطح پر نظر انداز ہونے والے کھیل میں نئے ہیروز تلاش کرنا ممکن نہ تھا۔ اس لئے پروانوں سے ہی امیدوں کو وابستہ کرناپڑا جس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ تاہم اب محسوس ہو رہا ہے کہ پی ایچ ایف نئے باصلاحیت کھلاڑیوںکی کھوج لگانے میں سنجیدہ ہے، اس لئے جونیئرز کو آگے آنے کے مواقع دیئے جا رہے ہیں جس کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں چند نئے باصلاحیت کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بن کر اپنے شاندار کھیل سے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کریں گے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ کو رواں برس شیڈول جونیئر ورلڈکپ کے چیلنج کا سامنا ہے،یہ اب تک کا 11 ویں ایڈیشن ہے جو 8دسمبر سے بھارت کے شہر لکھنؤ میں شروع ہو گا، جرمنی ایونٹ کی سب سے کامیاب ٹیم ہے جو مسلسل 4 فتوحات سمیت 6 مرتبہ فاتح رہی، ارجنٹائن، بھارت اور آسٹریلیا بھی ایک ایک مرتبہ کامیاب رہے، پاکستان نے 1979میں میگا ایونٹ کا اولین ٹائٹل اپنے نام کیا تھا، 1993 میں گرین شرٹس کو فائنل میں جرمنی کے ہاتھوں شکست ہوئی جبکہ 1982، 1985 اور 1989میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
کہا جاتا ہے کہ جونیئر کھلاڑی کسی بھی ٹیم کے مستقبل کے سٹارز ہوتے ہیں، 1979ء میں ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم کے پلیئرز بعد میں دنیائے ہاکی کے درخشاں ستارے بنے اور پاکستان کو ہر میدان میں کامیابیاں دلوائیں، پاکستان میں 2009ء میں سانحہ لبرٹی کے بعد جہاں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے وہیں قومی کھیل بھی متاثر ہوا، 2004ء میں چیمپئنز ہاکی ٹرافی آخری بڑا ایونٹ تھا جو پاکستان میں کھیلا گیا، ملک میں انٹرنیشنل ہاکی میچز نہ ہونے سے ٹیم کو نیوٹرل وینیوز پر کھیلنا پڑا جس کی وجہ سے نہ صرف فیڈریشن کے اخراجات بڑھے بلکہ ہوم گراؤنڈ پر نہ کھیل پانے کی وجہ سے کھلاڑیوں کا اعتماد بھی متزلزل ہوا جبکہ پڑوسی ملک بھارت لگاتار انٹرنیشنل ایونٹس کروا رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں ہاکی پھل پھول رہی ہے۔
ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لئے قومی ٹیم کو پہلے یورپ یاترا کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لئے کھلاڑیوں کا تربیتی کیمپ نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں جاری ہے31 کھلاڑی مدعو ہیں جن میں 5گول کیپرز علی رضا، حافظ علی عمیر، عثمان غنی، منیر الرحمان، رومان خان، 4 فل بیکس عاطف مشتاق، حسن انور، مبشر علی، زاہد اللہ، 9 ہاف بیکس ابوبکر محمود، جنید کمال، ایم عثمان، محمد قاسم، تنظیم الحسن، محمد عدنان، احمد شکیل بٹ، علی رضا، 13فارورڈز شان ارشد، اظہر یعقوب، محمد دلبر، محمد عتیق، بلال قادر، محسن صابر، رانا سہیل ریاض، سمیع اللہ، محمد رضوان، محمد نوید، بلال، محمود، فہد اللہ اور عامر علی شامل ہیں۔
شیڈول کے مطابق ٹیم 19 جولائی کو چار ملکی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لئے جرمنی جائے گی، پاکستانی ٹیم کے صرف 16 کھلاڑیوں اور 2 کوچز کو ہی یورپی سفارتخانے کی طرف سے شینجن ویزہ کی بجائے صرف جرمن ویزے جاری کئے گئے جس کی وجہ سے ٹیم ہالینڈ کا دورہ نہیں کر سکے گی اور صرف چارملکی ٹورنامنٹ کے دوران ہی ایکشن میں دکھائی دے گی، 29اگست سے یکم ستمبر تک ٹیم بارسلونا میں سپین کے خلاف تین میچز کھیلے گی اور 2سے 10 ستمبر تک فرانس کی جونیئر اور سینئر ٹیموں کیساتھ 3,3 میچز کھیلے گی.
ہیڈ کوچ طاہر زمان کے مطابق دورئہ یورپ کیلئے صرف 16 کھلاڑیوں اور 2 کوچز کو جرمن ویزے ملنے سے اتنا فائدہ تو نہیں ہوگا تاہم جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیئم کے خلاف کھیلنے سے کھلاڑیوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور ٹیم مینجمنٹ کو جونیئر ورلڈ کپ کیلئے مؤثر حکمت عملی بنانے کے مواقع میسر آئیں گے۔گزشتہ جونیئر ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم نویں پوزیشن حاصل کر سکی تھی، میگا ایونٹ میں کوارٹر فائنل تک رسائی ہدف ہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کی پالیسیاں عدم تسلسل کا شکار ہیں، ایک طرف تو فیڈریشن نے وسائل کی کمی کا رونا روتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی جیسے بڑے ایونٹ میں قومی ٹیم کو شرکت کیلئے نہ بھیجا اور اب جونیئر ٹیم کو یورپ کے دورے کروائے جا رہے ہیں حالانکہ جونیئر ورلڈ کپ بھارت میں منعقد ہونے جا رہا ہے جہاں گرم موسم ہوتا ہے اور یورپی ممالک میں کنڈیشنز یکسر مختلف ہیں.
ٹیم کو یورپ کے دورے کروانے کی بجائے بھارت، چین اور دیگر ایشیائی ٹیموں سے میچز کھلائے جاتے تو کھلاڑیوں کو کنڈیشنز سے آگاہی حاصل ہوتی جو میگا ایونٹ میں ان کے کام آتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایچ ایف اپنی پالیسیوں میں تسلسل لے کر آئے اور نت نئے تجربات کی بجائے ایک منظم حکمت عملی مرتب کرے تاکہ پاکستان اپنے قومی کھیل میں دوبارہ ماضی کی طرح بلندیوں کی جانب گامزن ہو سکے۔