ترک جمہوریت پر شب خون کیسے ناکام ہوا اب کیا ہوگا

باغیوں کے طیارے اُس ایئرپورٹ سے اُڑے جو امریکی تحویل میں تھا

باغیوں کے طیارے اُس ایئرپورٹ سے اُڑے جو امریکی تحویل میں تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

ISLAMABAD:
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ترکی میں ایک فوجی ٹولے کی بغاوت ناکام ہونے پر سب سے بڑا سبق یہی ملتاہے کہ حکمرانوں نے عوام کو کچھ دیا ہوتو عوام ایسی حکومت کی حفاظت کرتے ہیں اور اگر حکومت عوام کو بہت کچھ دے تو عوام ایسی حکومت کو بچانے کے لئے ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتے ہیں۔

ترکی میں فوجی بغاوت ایسے اندازمیں ناکام ہوئی ہے کہ پوری دنیا میں جمہوریت دشمن قوتیں منہ چھپائے پھر رہی ہیں۔ جیسے ہی چند سو پر مشتمل ایک فوجی ٹولے نے ترک صدر طیب اردوان کے غیرملکی دورے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جمہوریت کی بساط لپیٹنا شروع کی، انقرہ اور استنبول میں حقیتاً لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آگئے، وہ فوجی ٹینکوں اور ٹرکوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے والے ٹینکوں اور ٹرکوں کی راہ بھی روک لی۔



بعض ٹینک اور فوجی ٹرک عوام کے سمندر کے سامنے رک گئے لیکن کچھ نے عوام پر ٹینک چڑھانے کی کوشش کی، تب وہاں عوام میں اشتعال پھیل گیا، لوگوں نے ڈنڈوں کے ساتھ ٹرکوںکی توڑپھوڑ شروع کردی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب باغی فوجی حرکت میں آئے اور حکومت نے اس کا نوٹس لیا تو مساجد سے اعلان ہونے لگے کہ حکومت کا تختہ الٹنے والوں کی راہ روکی جائے، ساتھ ہی مساجد کے لاؤڈسپیکرز سے اذانیں اور صدر اردوان کی سلامتی اور درازی عمر کی دعائیں شروع ہوگئیں۔

باغی فوجی ٹولے کی بغاوت کب اور کیسے شروع ہوئی اور پھر کیسے ناکام ہوئی، آئیے! اس کی لمحہ بہ لمحہ روداد جانتے ہیں:

٭15جولائی2016ء کو ترک وقت کے مطابق ساڑھے دس بجے شب لوگوں کو معلوم ہوا کہ استنبول کے دو بڑے سمندری پلوں باسفورس پل اور فاتح سلطان محمد پل پرٹریفک جام ہوگئی ہے، کیوں ہوئی؟ جواب ملا کہ فوجی اہلکاروں نے بند کردی ہے، اگلے ہی لمحات میں استنبول شہر میں آرمی یونٹس کی نقل وحرکت کی تصاویربھی سوشل میڈیا پر جاری ہونے لگیں۔ گیارہ بجے سے چند منٹ پہلے جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹرز دارالحکومت انقرہ کی فضاؤں میں اڑنے لگے۔ استنبول کی فضاؤں میں بھی ہیلی کاپٹر نمودار ہو گئے۔ ساتھ ہی خبریں آئیں کہ انقرہ میں فائرنگ کے واقعات بھی ہورہے ہیں۔



٭گیارہ بجے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا کہ غیرقانونی فوجی نقل وحرکت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ باغی فوجی ملک کے غدار ہیں، جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ملٹری قیادت نے فوجیوں کو بیرکوں میں واپس جانے کا حکم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی کوئی تیسری دنیا کا ملک نہیں ہم اس طرح کی صورتحال سے نمٹنا جانتے ہیں۔ انھوں نے عوام سے پرسکون رہنے کی اپیل کی اور کہا کہ حکومت امن وامان بحال کرنے کیلئے ضروری اقدامات کررہی ہے۔ دوسری طرف بارہ بجے سرکاری خبررساں ادارے نے خبر جاری کی کہ ترک آرمی چیف سمیت متعدد فوجی افسروں کو کچھ باغی فوجیوں نے یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن چینل 'ٹی آر ٹی' کے ایک نمائندے نے خبررساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا کہ فوجیوں نے ٹیلی ویژن سٹیشن پر دھاوا بول دیاہے۔

غیر ملکی میڈیا پر بھی خبریں آنے لگیں کہ فوج کے ایک مسلح باغی گروپ نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی جس میں کرنل رینک کے افسران شامل تھے، اس گروپ کی جانب سے استنبول کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں کئی رہنماؤں کو یرغمال بنالیا گیا اور ترک فوج کے سربراہ جنرل حلوثی آکر سمیت دیگر جرنیلوں کو نظر بند کردیا گیا۔باغی فوجی گروہنیایوان صدر اور پارلیمنٹ کا بھی محاصرہ کیا گیا، اتاترک ایئرپورٹ پر تمام پروازیں منسوخ کردی گئیں اور ایئرپورٹ کو بند کردیا گیا، ملک بھر کے ایئرپورٹس بند کرکے ان پر ٹینک پہنچادیئے گئے، باغی فوج کی بھاری نفری نے ملک کے اہم مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا جب کہ فوجی گروپ نے ترکی کے سرکاری ٹی وی پر بھی قبضہ کرلیا۔ بتایا گیا کہ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت سماجی رابطوں کی تمام ویب سائٹس بند کردی گئیں اور ملک میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر بند کرتے ہوئے انٹرنیٹ کو بھی بند کردیا گیا۔



ترکی کے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت منتخب جمہوری حکومت ہی قائم ہے۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی حامی فوج باغی ٹولے پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے، فوج کے باغی گروپ کے پاس چند ٹینک اور ہیلی کاپٹر ہیں اور اسی کے سہارے انہوں نے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس باغی گروپ کے عزائم کو جلد ناکام بنادیا جائے گا، آمریت کو ہر صورت پیچھے دھکیل دیں گے، باغیوں کا ٹولہ زیادہ تر علاقوں میں ناکام ہوگیا ہے، ایسے باغیوں کو شرمناک ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

٭سوا بارہ بجے سرکاری ٹی وی چینل سے بیان جاری ہوا کہ فوج نے ملک کا انتظام مکمل طورپر سنبھال لیاگیاہے، اب ایک نئے آئین کی تیاری شروع کی جائے گی، بیان میں ترک صدر طیب اردوان کی حکومت پر الزام عائد کیاگیا کہ وہ جمہوریت کو تباہ کررہی تھی۔ بیان کے مطابق پورے ملک میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے مارشل لاء لگادیاگیاہے، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس پر بھی قبضہ کرلیا گیا۔ اب ملک کا نظم و نسق امن کونسل چلائے گی۔ بیان میں مزید کہاگیاکہ ہماری کارروائی مصر کی فوجی بغاوت سے مختلف ہے، ملک میں آئینی و جمہوری انسانی حقوق کی بحالی اور جمہوری اقدار کے لیے اقتدار سنبھالا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکی تمام ممالک سے اپنے تعلقات جاری رکھے گا، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے گا اور خارجہ امور سے متعلق بھی تعلقات قائم رکھیں گی جب کہ قانون کی مکمل پاسداری کی جائے گی۔ یہ بیان پڑھنے والی نیوزاینکر نے بعدازاں بتایا کہ اسے گن پوائنٹ پر یہ بیان پڑھنے پر مجبور کیا گیا تھا۔



٭ساڑھے بارہ بجے شب ترک وزیراعظم نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹویٹ کی کہ بغاوت کو کچل دیاجائے گا چاہے اس میں ہلاکتیں بھی ہوں۔ دوسری طرف ترک صدر( جو غیرملکی دورے پر تھے) نے ایک غیرملکی ٹی وی چینل کے صحافی کے موبائل پر ایک ویڈیو پیغام دیا، جس میں عوام سے سڑکوں پر نکل آنے کی اپیل کی اور کہا کہ طاقت کے اوپر طاقت کو جبر کے ذریعے لانے والے اپنے انجام سے بے خبر نہ ہوں۔ میں ترک قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ سڑکوں اور چوکوں میں آ کر باہمی اتحاد اور یکجہتی کا اظہار کریں، انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ انھوں نے اپنے دشمنوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس چالیں ہیں اور میرے پاس اللہ ہے، ایک ناکام شب خون جو فوج میں موجود گلن گروپ کی طرف سے تیار کیا گیا۔ترک قوم اتحاد اوریکجہتی کیلیے پرْامن رہے، حالات مکمل طور پر ترکی کے ہاتھ میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بغاوت کرنے والوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

٭ایک بجے شب عینی شاہدین نے بتایا کہ فوجی ہیلی کاپٹروں سے انقرہ میں فائرنگ کی گئی ہے اور پارلیمنٹ کے باہر ٹینک پہنچ گئے ہیں۔ شہر میں بم دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ ترک وزیرانصاف نے بیان جاری کیا کہ امریکہ میں مقیم ترک سکالر فتح اللہ گلن کے حامی اس بغاوت کے پیچھے ہیں۔




٭دو بجے شب خبر موصول ہوئی کہ ترک جنگی طیارے نے باغی فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا ہے۔ سرکاری خبررساں ایجنسی ' اناطولو' نے بتایا کہ باغی فوجیوں نے 17پولیس افسروں کو قتل کر دیا ہے۔ دوسری طرف سے یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ انقرہ ائیرپورٹ میں داخل ہونے والے فوجیوں کو عوام نے باہر نکال دیا جبکہ استنبول میں پولیس ہیڈ کوارٹر میں گھسنے والے باغی فوجیوںکو گرفتار کرلیا گیا۔

٭دو بج کر پچاس منٹ پر استنبول میں بم دھماکوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ وزیراعظم یلدرم نے بیان جاری کیاکہ حکومت نے بغاوت کی کوشش مکمل طور پر ناکام بنادی ہے اور حکومت کا حالات پر مکمل کنٹرول ہے۔ انھوں نے بتایا کہ فوج نے کارروائی کرتے ہوئے باغیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور یرغمالیوں کو بازیاب کرالیا۔ ان کا کہنا تھا کہ باغیوں کے کنٹرول میں موجود گن شپ ہیلی کاپٹرز اور جیٹ طیاروں کو مار گرانے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں جبکہ جنرل امیت دندار کو فوج کا قائم مقام سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔یادرہے کہ اس وقت تک آرمی چیف کا کچھ اتاپتا نہیں چل رہاتھا کہ وہ کہاں ہیں۔ ترک وزیراعظم نے بھی خودساختہ جلاوطن رہنما فتح اللہ گلن کے حامیوں کو حالات خراب کرنے کا ذمہ دار قراردیا۔ تاہم گلن موومنٹ کی طرف سے کہاگیا کہ وہ اس بغاوت میں ملوث نہیں ہیں۔

٭3بجکر20 منٹ پر ترک صدر طیب اردوان استنبول ائیرپورٹ پر آن اترے، انھوں نے وہاں جمع ہونے والے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سازشیوں نے عوام کی گنیں عوام پر ہی تان لی ہیں۔ تاہم ان کی طرف سے اقتدار پر قبضہ کی کوشش ناکام ہوگی۔

٭ساڑھے تین بجے انقرہ پارلیمنٹ ہاؤس کے پاس بھی بم دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ تاہم ساتھ ہی یہ خبریں بھی آنا شروع ہوگئیں کہ باغیوں نے استنبول کے کئی علاقوں میں ہتھیار ڈالنا شروع کردئیے ہیں۔ترک وزیرداخلہ افکن اعلیٰ نے کہا کہ بغاوت کی کوشش کچل دی گئی ہے۔

٭پونے چاربجے ترک پولیس نے استنبول کے مرکزی چوک 'تقسیم سکوائر' میں موجود باغی فوجیوں کو گھیرے میں لے لیا اور انھیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔

٭سولہ جولائی کی صبح پانچ بجے ایوان صدر کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ 60 لوگ قتل ہوئے ہیں اور 130باغی گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ سرکاری ٹی وی چینل پر ایسے مناظر دکھائے جانے لگے جن میں بڑی تعداد میں باغی فوجی استنبول کے ایک پل پر ہتھیار ڈال رہے ہیں۔اب حکومت کی طرف سے دعویٰ کیاگیا کہ قریبا 700 فوجیوں کو گرفتار کرلیاگیا ہے اور بغاوت کی کوشش مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔



ترک خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے ملک میں بغاوت ناکام بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ باغی فوجیوں کو سرکاری عمارتوں سے باہر نکال دیا گیا ہے اور بڑی تعداد میں باغی فوجی گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ترک فوج نے سرکاری ٹی وی کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا جبکہ سرکاری ٹی وی کے دفتر اور صدارتی محل میں گھسنے والے باغی فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

بغاوت کیوں ہوئی؟

اسلام پسند رہنما طیب اردوان گزشتہ چودہ برس سے ترکی میں برسراقتدار ہیں، پہلے وزیراعظم کے طورپر اور اب صدرکی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سن 2002ء سے اب تک ان کی جماعت مسلسل برسراقتدار ہے۔ اس سے پہلے اسلام پسند رہنما نجم الدین اربکان کی پارٹی میں رہی جنھیں ترک فوج بار بار اقتدار سے بے دخل کرتی رہی اور ان کی جماعت کو کالعدم قراردیدیاجاتاتھا۔ تاہم جب نوے کی دہائی کے آخری برسوں میں اربکان کی رفاہ پارٹی کو اقتدارسے بے دخل اور کالعدم قراردیاگیاتو طیب اردوان ( جو استنبول کے کامیاب مئیر رہے تھے) نے ایک مختلف حکمت عملی اختیارکی، وہ اربکان کی نئی قائم ہونے والی فضیلت پارٹی سے الگ ہوئے اور سن 2001ء میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی قائم کرلی اورسن 2002ء کے عام انتخابات میں سب سے زیادہ (34فیصد) ووٹ حاصل کرکے ترک اسٹیبلشمنٹ سمیت پوری دنیا کو حیران کردیا۔ یادرہے کہ وہ بذات خود ان انتخابات میں حصہ نہ لے سکے تھے، انھیں ایک نظم لکھنے پر 1998ء میں جیل جانا پڑاتھا ، عدالت نے ان پر پانچ سال تک انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد بھی کی تھی۔ چنانچہ اردوان نے پابندی کے عرصہ میں اپنے قابل اعتماد ساتھی عبداللہ گل کو وزیراعظم بنادیا۔ سزاختم ہونے پر اردوان نے ضمنی الیکشن لڑا اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے جبکہ عبداللہ گل ملک کے صدرمنتخب ہوگئے۔ سن 2007ء اور 2011ء کے عام انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔

اس سارے عرصہ میں فوج کی طرف سے ان کے خلاف بغاوت کا منصوبہ تیار کیاگیا تاہم طیب اردوان نے سازش کا پتہ چلایا اور اس میں ملوث تمام فوجی اور غیرفوجی افراد پر مقدمات قائم کئے۔ اس سازش میں ترک نژاد امریکی اسلامی سکالر فتح اللہ گلن کے حامیوں کا نام آیا جو فوج، پولیس اور میڈیا میں تھے۔ اپوزیشن جماعتیں بالخصوص کمال اتاترک کی قائم کردہ جماعت ری پبلیکن پیپلز پارٹی طیب اردوان کا سیاسی اندازمیں مقابلہ کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہی، ہرآنے والے انتخابات میں اس کے ووٹ بنک میں کمی ہوتی رہی جبکہ اردوان کی پارٹی کا ووٹ بنک بڑھتارہا۔

عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے والے طیب اردوان اپنے اقتدار میں فوج کی اقتدارپسندی کے پر بتدریج کاٹتے رہے، فوج اس پر مضطرب بھی رہی لیکن طیب اردوان کو حاصل بھرپور عوامی اعتماد کے سبب کسمسانے کے علاوہ کچھ نہ کرسکی۔حتیٰ کہ امریکہ سمیت مغربی طاقتیں بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ ہر عام انتخابات کے موقع پر مغربی ذرائع ابلاغ طیب اردوان کے خلاف بھرپور پراپیگنڈہ کرتے رہے لیکن ترک عوام نے اس پر کان نہیں دھرا۔

چودہ سالہ اقتدار کے دوران جناب اردوان فوج سمیت تمام اداروں کو اپنی اوقات میں رہنے پر مجبور کر چکے ہیں۔ گزشتہ روز ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں بھی فتح اللہ گلن کے حامیوں کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ بغاوت کرنے والے طیب اردوان کی قوت کا غلط اندازہ لگا بیٹھے تھے۔ بہرحال اب طیب اردوان کے مخالفین کو اس سازش کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ بڑے پیمانے پرگرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، صدر اردوان نے کہا ہے کہ اس سازش کے ذریعے انھیں جمہوریت دشمنوں کی صفائی کا موقع میسر آیا ہے، وہ اس کا بھرپورفائدہ اٹھائیں گے۔ اب فوج سے میڈیا تک ہرشعبے کی صفائی ہوگی۔ اب تو اپوزیشن جماعتیں بھی طیب اردوان کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہیں، حالیہ بغاوت میں انھوں نے حکومت کا مکمل ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگرکہاجائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مخالفین کی غلطی کے سبب طیب اردوان اور ان کی جماعت کو مزید مضبوطی عطاہوچکی ہے۔



بغاوت کچلنے کے بعد طیب اردوان نے کیا کہا؟

بغاوت کی کوشش ناکام ہونے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک اقلیتی فوجی گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے عوام، پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں اور جمہوریت میں عوام کی طاقت سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہوتی، فوج کو بتانا چاہتا ہوں کہ انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق کام کرنا ہو گا، باغیوں کو پنسلوانیا سے احکامات مل رہے ہیں، جس ہوٹل میں قیام پذیر تھا اس پر بھی بمباری کی گئی لیکن اب میں عوام میں موجود ہوں۔ انھوں نے کہا کہ فوج کو دشمن کے خلاف استعمال کے لئے اسلحہ اور ٹینک دیئے لیکن اقلیتی فوجی گروہ نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر بغاوت کی، جن لوگوں نے بغاوت کی انھیں سخت سزا دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ اپنی فوج سے گندے عناصر کا خاتمہ کیا جائے، باغی فوجی گروہ کے 120 افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے، دیگر باغی لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ خود سے گرفتاری دے دیں تو انھیں عدالت سے کم سے کم سزا دلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ ترکی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ آج کا ترکی بہت مختلف ہے، ترکی کی خوشحالی کا سفر جاری رہے گا۔

 
Load Next Story