ترک صدر کا اوباما کو فون فتح گولن کی حوالگی کا مطالبہ

عالمی برادری کی جانب سے ترکی کی صوتحال پراظہارتشویش،جمہوریت کی حمایت

عالمی برادری کی جانب سے ترکی کی صوتحال پراظہارتشویش،جمہوریت کی حمایت۔ فوٹو: فائل

ترکی میں عوام کی جانب سے فوجی بغاوت میں ناکام بنانے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے امریکی ہم منصب بارک اوباما کو ٹیلیفون کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ فتح اللہ گولن پر مقدمہ چلائے یا اسے ہمارے حوالے کرے۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ترکی کو فوجی بغاوت کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے ہوئے کہا ہے کہ اگر انقرہ کے پاس فتح اللہ گولن کیخلاف کوئی ثبوت ہیں تو ہمیں فراہم کئے جائیں۔دوسری طرف پنسلوانیا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فتح اللہ گولن نے بغاوت سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا اورکہا ہے کہ طیب اردوان موجودہ دورکے ہٹلر ہیں، فوجی بغاوت ڈرامہ ہے، اردوان کا مقصد مجھے بدنام کرنا ہے، ترک عوام کوکسی بھی فوجی کارروائی کا ساتھ دینے کی نہ کبھی اپیل کی ہے اور نہ کبھی کریں گے۔

امریکی صدر بارک اوباما اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سمیت عالمی رہنماؤں نے ترکی کی صورتحال پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے تشدد اور خونریزی سے گریزکی اپیل کی ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ نے ترکی میں ہونیوالے واقعات پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ ترکی میں خون خرابہ نہیں ہونا چاہیے۔


سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون نے بھی ترک عوام سے پْرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی جانب سے ملکی معاملات میں مداخلت کسی صورت قبول نہیں، یونان کے وزیراعظم نے بھی ترکی میں بغاوت کے بعد اپنے ترک ہم منصب کو پیغام بھجوایا ہے جس میں جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔ نیٹو افواج کے سربراہ نے ترکی میں جمہوری حکومت کی حمایت کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ نیٹو ترکی کے جمہوری اداروںکی عزت کرتا ہے تاہم ترک عوام پر امن رہیں اور تشدد سے گریزکیا جائے۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ترکی میں جمہوریت اور جمہوری اداروںکا ہر صورت میں احترام کیا جانا چاہیے۔ قطرنے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی مذمت کی ہے۔ ایران کی جانب سے بھی ترکی کی صورتحال پر تشویش کا اظہارکیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ترکی میں فوجی بغاوت کی مذمتی قرارداد پیش کردی گئی۔

 
Load Next Story