معاشی ناہمواریاں غریب عوام کی اکثریت علاج سے محروم
امراض نسواں میں ایک لاکھ میں سے400خواتین جاں بحق ہورہی ہیں، ماہرین
طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں مختلف بیماریوںکی بوجھ میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے، پالیسی بنانے والوں سمیت سیاستدانوں اور حکومت نے بھی صحت کے اہم مسائل سے چشم پوشی اختیارکرلی ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کی زندگی اجیران بن گئی ہے، مہنگا علاج اور معاشی ناہمواریوںکی وجہ سے غریب عوام کی اکثریت علاج سے محروم یا ادھورا علاج کرانے پر مجبور ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈنگی وائرس سے ہرسال ایک ہزار افراد جاں بحق ہورہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ہر سال5 کروڑ سے زائد افراد ڈنگی بخار کا شکار ہوتے ہیں، ماہرین طب کے مطابق یہ بخار جان لیوا نہیں ہے لیکن عوا م کوچاہیے کہ وہ اس سے بچنے لیے مچھردانیاں، کوائل، لوشن، مچھر مار اسپرے کا استعمال کریں جبکہ پانی کے ٹینک کو ڈھانپ کر رکھیں، پانی کو جمع نہ ہونے دیں، انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کے صدر اور ڈائو یونیورسٹی کے پروفیسر آف پتھالوجی ڈاکٹر رفیق خانانی نے کہاکہ پاکستان میں بیماریوں کا ڈیٹا جمع کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں اس لیے کسی بھی مرض کے اعداد و شمار ایک محتاط اندازے کے مطابق جاری کیے جاتے ہیں،
انھوں نے کہاکہ ملک میں ہر سال60 ہزار افراد ٹائیفائیڈ سے ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ سالانہ50ہزار افراد ٹی بی کے مرض کا شکارہورہے ہیں، گرمیوں کے موسم میں ہر سال3 لاکھ بچے ڈائریا، ہیضہ اور گیسٹرول کا شکار ہوجاتے ہیں، ایک ہزار میں سے5سال عمر تک کے90 زندگی کی بازی ہار رہے ہیں جبکہ نوزائیدہ میں ان کی شرح اموات100ہورہی ہے،
انھوں نے کہاکہ پاکستان میںہیپاٹائٹس بی، سی کی مرض شدت اختیار کررہا ہے، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کی صدر ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی نے کہاکہ ملک میں امراض نسواں میں ایک لاکھ میں سے4سو خواتین جان بحق ہورہی ہیں، انھوں نے کہاکہ صحت کے شعبے میں قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے،
ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ سے ڈنگی کا موسم شروع ہوگیا لیکن محکمے کی جانب سے متاثرہ مریضوں کے علاج کیلیے کوئی گائیڈلائن جاری نہیں کی گئی، انھوں نے کہا کہ ڈنگی بخار،ملیریا بخار سمیت دیگر کسی بھی بیماری کا شک ہونے پر فوری طور پر اپنا ٹیسٹ ضرور کرائیں تاکہ ان کا فوری علاج کیا جاسکے،ان کا کہنا تھا کہ18ویں ترمیم کے بعد اب صحت کے شعبے میں ازسرنو پلاننگ کی ضرورت ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈنگی وائرس سے ہرسال ایک ہزار افراد جاں بحق ہورہے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ہر سال5 کروڑ سے زائد افراد ڈنگی بخار کا شکار ہوتے ہیں، ماہرین طب کے مطابق یہ بخار جان لیوا نہیں ہے لیکن عوا م کوچاہیے کہ وہ اس سے بچنے لیے مچھردانیاں، کوائل، لوشن، مچھر مار اسپرے کا استعمال کریں جبکہ پانی کے ٹینک کو ڈھانپ کر رکھیں، پانی کو جمع نہ ہونے دیں، انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کے صدر اور ڈائو یونیورسٹی کے پروفیسر آف پتھالوجی ڈاکٹر رفیق خانانی نے کہاکہ پاکستان میں بیماریوں کا ڈیٹا جمع کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں اس لیے کسی بھی مرض کے اعداد و شمار ایک محتاط اندازے کے مطابق جاری کیے جاتے ہیں،
انھوں نے کہاکہ ملک میں ہر سال60 ہزار افراد ٹائیفائیڈ سے ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ سالانہ50ہزار افراد ٹی بی کے مرض کا شکارہورہے ہیں، گرمیوں کے موسم میں ہر سال3 لاکھ بچے ڈائریا، ہیضہ اور گیسٹرول کا شکار ہوجاتے ہیں، ایک ہزار میں سے5سال عمر تک کے90 زندگی کی بازی ہار رہے ہیں جبکہ نوزائیدہ میں ان کی شرح اموات100ہورہی ہے،
انھوں نے کہاکہ پاکستان میںہیپاٹائٹس بی، سی کی مرض شدت اختیار کررہا ہے، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کی صدر ڈاکٹر ثمرینہ ہاشمی نے کہاکہ ملک میں امراض نسواں میں ایک لاکھ میں سے4سو خواتین جان بحق ہورہی ہیں، انھوں نے کہاکہ صحت کے شعبے میں قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے،
ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ سے ڈنگی کا موسم شروع ہوگیا لیکن محکمے کی جانب سے متاثرہ مریضوں کے علاج کیلیے کوئی گائیڈلائن جاری نہیں کی گئی، انھوں نے کہا کہ ڈنگی بخار،ملیریا بخار سمیت دیگر کسی بھی بیماری کا شک ہونے پر فوری طور پر اپنا ٹیسٹ ضرور کرائیں تاکہ ان کا فوری علاج کیا جاسکے،ان کا کہنا تھا کہ18ویں ترمیم کے بعد اب صحت کے شعبے میں ازسرنو پلاننگ کی ضرورت ہے۔