اور عوام جیت گئے

ترکی کے نہتے عوام نے مسلح فوجی بغاوت کو اپنے اتحاد اور سیاسی وسماجی شعور سے ناکام بنا دیا۔

muqtidakhan@hotmail.com

ترکی کے نہتے عوام نے مسلح فوجی بغاوت کو اپنے اتحاد اور سیاسی وسماجی شعور سے ناکام بنا دیا۔ یہ عوام کے حق رائے دہی کی فتح ہے، جمہوریت کی فتح ہے۔ آمریت اور آمرانہ سوچ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ترک عوام نے اپنے اس مزاحمتی اقدام سے ان ممالک کے عوام کو جو فوج کو نجات دہندہ تصور کرتے ہیں، یہ پیغام دیا ہے کہ وطن کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں سے محبت اور عقیدت اپنی جگہ بجا، مگر انھیں اقتدار نہیں سونپا جا سکتا۔ کیونکہ فوج کو ملک کے دفاع کے لیے تربیت دی جاتی ہے، ملک چلانے کی نہیں۔ ترک عوام نے اس ہفتے اس تصور پر مہر صداقت ثبت کر دی۔

ترکی سمیت تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں گزشتہ ایک صدی کے دوران ہونے والی فوجی مداخلتوں کا مطالعہ کریں تو ان کے اقتدار میں آنے کی چند وجوہات پیش کی جاتی ہیں۔ اول، سویلین حکومت نااہل ہے، اس نے کرپشن اور بدعنونیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ دوئم، آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ سوئم، عوام کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لے رہی۔ لیکن ان تمام ''کودیتا'' (Coup d' Etat) کا مطالعہ کرنے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج تک کسی بھی فوجی حکومت نے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں پیچیدہ بنا دیا۔ دوسرے فوجی حکومتیں، جس کرپشن اور بدعنوانی کو بہانہ بنا کر اقتدار میں آتی ہیں، ان کا خاتمہ تو کجا مزید اضافہ کا باعث بن جاتی ہیں۔

اب جہاں تک ترکی کی مثال ہے، تو یہاں پہلا فوجی کودیتا (Coup d' Etat) انتہائی نامساعد حالات میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلی عالمی جنگ میں جرمنی کے ساتھ اسے بھی شکست ہوئی اور اتحادی فوجوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی حکمرانوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اپنے ملک کو اس استعماریت سے بچا سکیں۔ چنانچہ جون 1919ء سے نومبر 1922ء کے دوران جاری رہنے والی مزاحمتی تحریک رہنما مصطفیٰ کمال پاشا کی سربراہی میں انقلاب بپا ہوا، جو خلافت کے خاتمے اور جدید ترکی کی تشکیل کا باعث بنا۔ ترکی کو جدید آئین اور طرز حکمرانی دیا گیا، لیکن ساتھ ہی آئین میں فوج کا کردار بھی متعین کر دیا گیا کہ وہ جب چاہے اور مناسب سمجھے منتخب حکومت کو معزول کر سکتی ہے۔ آئین کی اس شق کی وجہ سے وہاں چھ دہائیوں کے دوران چار کودیتا ہوئے۔

اس ملک کی سیاسی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیں تو اکتوبر 1923ء میں جدید ترکی کی تشکیل کے بعد سے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک ملک پر یک جماعتی اقتدار قائم رہا۔ 1946ء میں ملک میں کثیرالجماعتی سیاست کا دور شروع ہوا۔ 1950ء کے عام انتخابات میں پہلی بار اپوزیشن جماعت نے کامیابی حاصل کی اور عدنان میندریس وزیراعظم منتخب ہوئے۔ لیکن مئی 1960ء میں جنرل جمال گورسل نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور میندریس پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر سولی پہ چڑھا دیا۔ ستمبر 1980ء میں جنرل کنعان ایورن نے تیسرا کودیتا (Coup d' etat) کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ چوتھی بار 1993ء میں کودیتا سامنے آتا ہے۔ بری حکمرانی، آئین کی خلاف ورزی، کرپشن اور بدعنوانی ہر کودیتا کی بنیاد ٹھہری تھی۔

دراصل سردجنگ کے پورے دور (1948ء سے 1993ء) میں امریکا نے تیسری دنیا کے ممالک میں بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص فوجی آمریتوں کی سرپرستی کی۔ ان ممالک میں سویلین حکومتوں کی نااہلی، بدعنوانی اور کرپشن کو بنیاد بنایا گیا۔ عوام نے ابتداً فوجی کودیتا کی مخالفت اس لیے نہیں کی، کیونکہ عوام اپنی منتخب حکومتوں کی ناقص کارکردگی سے نالاں تھے۔ مگر چند ہی برس بعد انھیں یہ اندازہ ہوا کہ جن وجوہات کی بنیاد پر انھوں نے اپنی منتخب حکومت کو ختم کیا تھا، ان سے زیادہ بدتر حالات سے انھیں دوچار کر دیا گیا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں جن ممالک میں فوجی آمریتیں قائم رہیں، ان کی ترقی کی رفتار ان ممالک کے مقابلے میں خاصی سست رہی، جہاں جمہوری حکومتیں تھیں۔ نیز ان ممالک میں مختلف نوعیت کے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل نے بھی سر اٹھایا۔ اقتدار واختیار کی مرکزیت کے نتیجے میں قومی وسائل کی بدترین بندر بانٹ ہوئی اور معاشی اور سماجی ترقی کی سمت میں کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔


جدید دنیا میں جمہوریت کا استحکام صنعتی معاشرت سے مشروط ہے۔ صنعتی معاشرت ہی سول سوسائٹی کے استحکام کا باعث بنتی ہے۔ جاگیردارانہ معاشروں میں جمہوریت کا پنپنا مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ فیوڈل مائنڈ سیٹ جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہوتا، بلکہ آمریت کی ایک شکل ہوتی ہے۔ بظاہر حکمران مقبول ووٹ کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں، مگر منصوبہ سازی میں عوام کا کردار نہیں ہوتا۔ یہ رویہ عوام میں مایوسی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کوئی ریاستی ادارہ اٹھ کر پورے نظام کو لپیٹ دے۔ کسی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے اور الگ کرنے کا حق اور اختیار صرف اور صرف عوام کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے کسی قسم کا کوئی ایڈونچر نئے سیاسی وسماجی مسائل کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔

پاکستان کی مثال لیجیے، قیام پاکستان کے بعد 1958ء تک کولمبو پلان کے تحت بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لا نے ابتداً اس پورے ڈھانچے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ جو لوگ اس مارشل لا کے ابتدائی دور سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ پہلے دو برس کاروباری سرگرمیاں کس طرح متاثر رہیں۔

صنعتکاروں کو فنی معاونت فراہم کرنے کے لیے 1950ء میں قائم کیے جانے والے PIDC کی سمت کو کس طرح تبدیل کیا گیا۔ یہ تو عالمی حالات کا جبر تھا، جس نے ایوب خان کو صنعتکاری کے عمل کو جاری رکھنے پر مجبور کیا، وگرنہ وہ اسے ختم کرنے کا منصوبہ لے کر آیا تھا۔ لیکن اس نے بعض ایسے اقدامات کیے جو ملکی معیشت کی تباہی کا باعث بنے۔ جیسے دارالحکومت مرگلہ کی پہاڑیوں میں منتقل کیا جانا ہے۔ نسلی و لسانی تعصبات بھی اسی کے دور میں پروان چڑھے۔ غلط حکمت عملیوں کے باعث مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے رجحانات میں اضافہ ہوا۔ فضائیہ کے سابق سربراہ ائیر مارشل اصغر خان اپنی کتاب "The war of 1965"ء میں لکھتے ہیں کہ جنگ شروع کر کے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہ غلط تاثر ہے کہ اس جنگ میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی تھی، بلکہ پاکستان صرف لاہور کو بچا سکا تھا۔ بھارت کے مقابلے میں ہمارا زیادہ علاقہ دشمن کے قبضہ میں تھا۔

دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان اور ان کے دست راست جنرل عبدالحمید خان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک دولخت ہوا۔ 93 ہزار فوجی دشمن کے قیدی بنے، جنھیں ایک سویلین حکمران ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنی حکمت عملیوں کے ذریعے رہا کرایا اور مقبوضہ علاقے واپس لیے۔ تیسرے آمر ضیاالحق نے ایک منتخب وزیراعظم ہی کو پھانسی کے پھندے پر نہیں لٹکایا، بلکہ اپنی غلط پالیسیوں سے پورے ملک کو پھانسی گھاٹ بنا دیا۔ صرف سیاچن کا مسئلہ پیچیدہ نہیں بنایا بلکہ پورے سماجی Fabric کو تباہ و برباد کر دیا۔ افغان جنگ میں الجھ کر پاکستان کو بارود کا ڈھیر بنا دیا۔ متشدد فرقہ واریت کی آماجگاہ بنا دیا اور پھر جن کے اشاروں پر یہ آگ لگائی تھی، ان ہی کی حکم عدولی کا شکار ہوا۔ چوتھے آمر نے ایک منتخب حکومت کا خاتمہ کیا، کارگل میں بے مقصد ایڈونچر کر کے ملک کے لیے نئے مسائل پیدا کییاور ملک میں افقی اور عمودی تقسیم کو مزید بڑھاوا دیا۔

ترکی میں حالیہ کودیتا کی ناکامی نے یہ پیغام دیا ہے کہ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ جس جماعت کو چاہیں اقتدار میں لائیں اور جب چاہیں اسے اقتدار سے الگ کردیں۔ ریاست کے کسی ادارے کو یہ اختیار نہیں۔ اسی طرح کسی ادارے کو یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ عوام کو بتائے کس جماعت کی قیادت کو پسند کرنا ہے اور کس جماعت کو ووٹ دینا ہے۔ ریاستی اداروں کی یہ بھی ذمے داری نہیں کہ وہ سیاسی جماعتیں تشکیل دے کر انھیں زبردستی عوام پر مسلط کریں۔ چنانچہ پاکستان کے شہریوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی وفاقی اور صوبائی حکومت کی کارکردگی سے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان پر تنقید کریں، انھیں راہ راست پر لانے کے لیے احتساب کریں، اگلے انتخابات میں ووٹ نہ دے کر ان کی سرزنش کریں۔ مگر کسی ریاستی ادارے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام کے فیصلوں کو اپنی مرضی و منشا کی خاطر تبدیل کر دے۔
Load Next Story