درپیش ہوں جو کٹھن لمحے۔۔۔ بچوں کو اظہار ہم دردی کے برتائو سکھائیے
جیسے جیسے دنیا گلو بلائز ہو تی جا رہی ہے، ویسے ویسے ہم اپنی روایات سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔
پہلے اپنی اقدار پر عمل کرنے کو اہمیت دی جاتی تھی، لیکن جیسے جیسے دنیا گلو بلائز ہوتی جا رہی ہے، ویسے ویسے ہم اپنی روایات سے دور ہو تے جا رہے ہیں۔ وہ رشتے جو کبھی بہت قریبی مانے جاتے تھے، یعنی خالہ چچا ماموں پھوپھو وغیرہ اب ان کے لیے بھی وقت نہیں رہا۔ اب لوگ فیس بک، واٹس اپ، ٹوئٹر، اسکائپ، اور اسی جیسے دوسرے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ میل ملاقات کے لیے بھی فقط غمی اور خوشی کے مواقع ہی باقی بچے ہیں، اس میں بھی گویا ایک رسم ادا ہوتی یا جان چھڑائی جاتے ہے۔
شادی وغیرہ کی تقریبات میں تو پھر بھی لوگ شریک ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ کسی کی عیادت یا تعزیت پر جاتے ہوئے کتراتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلواتے ہیں اعلیٰ کھا نا اور عمدہ لباس مہیا کر تے ہیں۔
ساتھ ہی ان کی دیگر خواہشات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میںہمارا نام روشن کریں، کوئی بلند مقام حاصل کرلیں، لیکن ان کی بنیاد پر توجہ دینے سے غافل ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سارے آداب اور اخلاق بتاتے ہیں کہ چھری کانٹے سے ایسے کھانا ہے اور کوئی آئے تو کیسا رویہ رکھنا ہے وغیرہ۔ ہماری تربیت میں دنیا جہاں کی خوبیاں ہوتی ہیں۔ مانا کہ یہ سب سیکھنا بہت ضروری ہے، لیکن اس سے بھی ضروری ایک اور بات بھی ہے، جو ہم میں سے بیش تر لوگ اپنی اولاد کو سکھاتے ہوئے کتراتے ہیں یعنی کسی بیمار کی عیادت کیسی کرنی ہے اور کوئی دنیا سے چلا جائے، تو اس کے لواحقین سے تعزیت کے آداب کیا ہیں۔
آج کل اس قدر ''مصروفیت'' ہوگئی ہے کہ اگر کو ئی بیما ر ہو جائے، تو اس کی عیا دت پر جاتے ہی نہیں۔ بہت ضروری ہوا تو فون کرلیا اور فرض کریں کہ جائیں بھی تو بچوں کو تو ہر گز نہیں لے کر جا تے کہ اچھا نہیں لگے گا! حالاں کہ یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہے اور بچوں میں شروع سے ہی عادت ڈالنی چا ہیے کہ ان میں بیمار کی عیا دت کا سلیقہ اور دوسروں کے درد میں شریک ہو نے کی عادت پیدا ہو اور یہی حالت کسی کے انتقال کے مو قع پر ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے بیمار کی عیادت کا حکم دیا ہے، بلکہ اس کی عیا دت کو مسلمان کا مسلمان پر حق قرار دیا ہے۔
جب ہم اپنے بچوں کو یہ سب سکھاتے ہی نہیں تو بڑے ہوکر جب انہیں ایسے کسی موقعے سے سابقہ پڑتا ہے تو وہ عیادت و تعزیت کے آداب سے بالکل نا واقف ہو تے ہیں۔
ہمیں بچوں کو سکھانا چاہیے کہ عیادت کے لیے مریض کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ یہ نہ ہو کہ آپ کی عیادت سے مریض ہی بے آرام ہو جائے۔ اس کے علاوہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھیریں کہ اسے آپ کی وجہ سے کسی تکلیف یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ البتہ اگر مریض کی چاہ ہے کہ آپ اس کے پاس ٹھیریں اور وہ واقعی آپ کی موجودگی سے خوشی محسوس کر رہا ہے، تو بے شک کچھ دیر بیٹھا جا سکتا ہے۔
عیادت کے لیے جاتے ہوئے تیز خوش بو لگائیں اور نہ ہی اونچی آواز میں گفتگو کریں، کہ مر یض کو گراں گزرے۔ عیادت کے لیے جاتے ہو ئے کوئی پھل یا پھول ساتھ لے جائیں، تو زیادہ مناسب ہے کہ تحفہ دینا ویسے بھی محبتوں کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے مر یض کو خوش گورا احساس ہوتا ہے۔
تعزیت کے موقع پر اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے میت کے قریبی افراد کو دلاسہ دینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے لیے بھی وہ غم اتنا ہی شدید ہو جتنا کسی بھی قریبی فرد کے لیے ہوسکتا ہے، لیکن دوسرے کو پرسہ دینے کے لیے اپنے دکھ کو دبا لینا چاہیے۔ اس موقع پر کپڑے نہایت سادہ ہونے چاہئیں، ناکہ شوخ اور تیز رنگوں کے۔ میک اپ کے حوالے سے بھی بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں ہے کہ جس کے لیے خوب تیار ہوکر جایا جائے۔
اسی طرح زیورات اور لباس کی تراش خراش پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لباس نہایت باوقار اور مودبانہ ہونا چاہئیے۔ اس کے ساتھ کوشش کرنی چاہیئے کہ فضول اور غیر ضروری گفتگو سے گریز کریں۔ ایسا نہ ہو کہ دنیا جہاں کی باتیں ہی شروع ہو جائیں۔
لواحقین کے ساتھ رویہ نہایت محتاط ہونا چاہیے، وہ پہلے ہی ایک صدمے میں ہوتے ہیں۔ اگر ہمارا کوئی عمل انہیں پریشان کرے یا تکلیف دے، تو یہ نہایت بری بات ہوگی۔
ہم جب ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں گے، تو ہمارے بچوں میں تربیت اپنے آپ آجائے گی۔ عملاً جب وہ ایک رویہ اور برتاؤ دیکھیں گے تو زیادہ اچھی طرح سیکھیں گے۔
تربیت کے فقدان کی وجہ سے بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے کوئی نقصان یا دھوکا ہو جائے تو بہ جا ئے افسوس کرنے کے ہنستے ہیں اور اس بات کا مذاق بناتے ہیں۔ یہ نہایت افسوس ناک رویہ ہے کہ ہم ایسی باتوں کو بھی تمسخر میں اڑاتے ہیں۔ تعزیت سے مراد وہ اچھے کلمات اور مسنون دعائیں ہیں، جن کے ذریعے پس ماندگان کو تسلی دی جائے، اظہار افسوس کیا جائے۔
تعزیت کرنا ایک مستحب ہے۔ یہ ہماری مشرقی روایات کااہم جزو ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دکھ اور ہم دردی کے مواقع پر بھی جس قدر ممکن ہو، اپنے بچوں کو بھی شریک کریں ، تاکہ وہ بھی زندگی کے اس رخ کو سمجھ سکیں اور اس اہم موقع پر اپنوں کی دل جوئی کرسکیں اور باوقار طریقے سے ان کا ساتھ نبھا سکیں۔
شادی وغیرہ کی تقریبات میں تو پھر بھی لوگ شریک ہو جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ کسی کی عیادت یا تعزیت پر جاتے ہوئے کتراتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلواتے ہیں اعلیٰ کھا نا اور عمدہ لباس مہیا کر تے ہیں۔
ساتھ ہی ان کی دیگر خواہشات کو بھی پورا کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میںہمارا نام روشن کریں، کوئی بلند مقام حاصل کرلیں، لیکن ان کی بنیاد پر توجہ دینے سے غافل ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سارے آداب اور اخلاق بتاتے ہیں کہ چھری کانٹے سے ایسے کھانا ہے اور کوئی آئے تو کیسا رویہ رکھنا ہے وغیرہ۔ ہماری تربیت میں دنیا جہاں کی خوبیاں ہوتی ہیں۔ مانا کہ یہ سب سیکھنا بہت ضروری ہے، لیکن اس سے بھی ضروری ایک اور بات بھی ہے، جو ہم میں سے بیش تر لوگ اپنی اولاد کو سکھاتے ہوئے کتراتے ہیں یعنی کسی بیمار کی عیادت کیسی کرنی ہے اور کوئی دنیا سے چلا جائے، تو اس کے لواحقین سے تعزیت کے آداب کیا ہیں۔
آج کل اس قدر ''مصروفیت'' ہوگئی ہے کہ اگر کو ئی بیما ر ہو جائے، تو اس کی عیا دت پر جاتے ہی نہیں۔ بہت ضروری ہوا تو فون کرلیا اور فرض کریں کہ جائیں بھی تو بچوں کو تو ہر گز نہیں لے کر جا تے کہ اچھا نہیں لگے گا! حالاں کہ یہ سب ہماری زندگی کا حصہ ہے اور بچوں میں شروع سے ہی عادت ڈالنی چا ہیے کہ ان میں بیمار کی عیا دت کا سلیقہ اور دوسروں کے درد میں شریک ہو نے کی عادت پیدا ہو اور یہی حالت کسی کے انتقال کے مو قع پر ہوتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے بیمار کی عیادت کا حکم دیا ہے، بلکہ اس کی عیا دت کو مسلمان کا مسلمان پر حق قرار دیا ہے۔
جب ہم اپنے بچوں کو یہ سب سکھاتے ہی نہیں تو بڑے ہوکر جب انہیں ایسے کسی موقعے سے سابقہ پڑتا ہے تو وہ عیادت و تعزیت کے آداب سے بالکل نا واقف ہو تے ہیں۔
ہمیں بچوں کو سکھانا چاہیے کہ عیادت کے لیے مریض کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ یہ نہ ہو کہ آپ کی عیادت سے مریض ہی بے آرام ہو جائے۔ اس کے علاوہ مریض کے پاس زیادہ دیر نہ ٹھیریں کہ اسے آپ کی وجہ سے کسی تکلیف یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ البتہ اگر مریض کی چاہ ہے کہ آپ اس کے پاس ٹھیریں اور وہ واقعی آپ کی موجودگی سے خوشی محسوس کر رہا ہے، تو بے شک کچھ دیر بیٹھا جا سکتا ہے۔
عیادت کے لیے جاتے ہوئے تیز خوش بو لگائیں اور نہ ہی اونچی آواز میں گفتگو کریں، کہ مر یض کو گراں گزرے۔ عیادت کے لیے جاتے ہو ئے کوئی پھل یا پھول ساتھ لے جائیں، تو زیادہ مناسب ہے کہ تحفہ دینا ویسے بھی محبتوں کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے مر یض کو خوش گورا احساس ہوتا ہے۔
تعزیت کے موقع پر اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے میت کے قریبی افراد کو دلاسہ دینا چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے لیے بھی وہ غم اتنا ہی شدید ہو جتنا کسی بھی قریبی فرد کے لیے ہوسکتا ہے، لیکن دوسرے کو پرسہ دینے کے لیے اپنے دکھ کو دبا لینا چاہیے۔ اس موقع پر کپڑے نہایت سادہ ہونے چاہئیں، ناکہ شوخ اور تیز رنگوں کے۔ میک اپ کے حوالے سے بھی بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں ہے کہ جس کے لیے خوب تیار ہوکر جایا جائے۔
اسی طرح زیورات اور لباس کی تراش خراش پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لباس نہایت باوقار اور مودبانہ ہونا چاہئیے۔ اس کے ساتھ کوشش کرنی چاہیئے کہ فضول اور غیر ضروری گفتگو سے گریز کریں۔ ایسا نہ ہو کہ دنیا جہاں کی باتیں ہی شروع ہو جائیں۔
لواحقین کے ساتھ رویہ نہایت محتاط ہونا چاہیے، وہ پہلے ہی ایک صدمے میں ہوتے ہیں۔ اگر ہمارا کوئی عمل انہیں پریشان کرے یا تکلیف دے، تو یہ نہایت بری بات ہوگی۔
ہم جب ان تمام باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں گے، تو ہمارے بچوں میں تربیت اپنے آپ آجائے گی۔ عملاً جب وہ ایک رویہ اور برتاؤ دیکھیں گے تو زیادہ اچھی طرح سیکھیں گے۔
تربیت کے فقدان کی وجہ سے بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ سڑک پر کوئی حادثہ ہو جائے کوئی نقصان یا دھوکا ہو جائے تو بہ جا ئے افسوس کرنے کے ہنستے ہیں اور اس بات کا مذاق بناتے ہیں۔ یہ نہایت افسوس ناک رویہ ہے کہ ہم ایسی باتوں کو بھی تمسخر میں اڑاتے ہیں۔ تعزیت سے مراد وہ اچھے کلمات اور مسنون دعائیں ہیں، جن کے ذریعے پس ماندگان کو تسلی دی جائے، اظہار افسوس کیا جائے۔
تعزیت کرنا ایک مستحب ہے۔ یہ ہماری مشرقی روایات کااہم جزو ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دکھ اور ہم دردی کے مواقع پر بھی جس قدر ممکن ہو، اپنے بچوں کو بھی شریک کریں ، تاکہ وہ بھی زندگی کے اس رخ کو سمجھ سکیں اور اس اہم موقع پر اپنوں کی دل جوئی کرسکیں اور باوقار طریقے سے ان کا ساتھ نبھا سکیں۔