لاہور ہائی کورٹ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا حکم دے دیا
کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سیاسی بنیادوں پر کی گئی جبکہ سیاسی مسائل کو قومی مفادات پر حاوی نہ ہونے دیا جائے,عدالت
ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے مشترکہ مفادات کونسل کے 1991 کے فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے مقامی وکلا کی جانب سے دائر ایک رٹ پٹیشن پر اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں نے متفقہ طور پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق جو فیصلہ دیا تھا اس پر عمل درآمد کرانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے کہا کہ کئی دہائیوں سے تیار ہونے والی فزیبلیٹی اور لاگت عوامی پیسہ ہے، کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سیاسی بنیادوں پر کی گئی جبکہ سیاسی مسائل کو قومی مفادات پر حاوی نہ ہونے دیا جائے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کوئی نیا حکم نامہ نہیں ہے ، مشترکہ مفادات کونسل کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا پہلے ہی فیصلہ کرچکی ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 1991 میں مشترکہ مفادات کونسل نے جب کالاباغ ڈیم سے متعلق فیصلہ دیا تھا اس وقت نواز شریف کا دورتھا اوریہ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کو سندھ کا مفاد کتنا عزیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کی قرارداد کے برعکس 3 صوبوں کی اسمبلیاں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف قراردادیں پاس کرچکی ہیں۔
دوسری جانب اے این پی نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ ملک کے لئے بہتر نہیں ہے۔ پشاور میں ایکسپریس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے اے این پی کے ترجمان سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ جب تک اے این پی کا ایک بھی کارکن زندہ ہے کالا باغ ڈیم کو کوئی نہیں بناسکتا، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ملک کے لئے بہتر نہیں ہے۔ زاہد خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کےفیصلے کا سوموٹو نوٹس لیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے مقامی وکلا کی جانب سے دائر ایک رٹ پٹیشن پر اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں نے متفقہ طور پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق جو فیصلہ دیا تھا اس پر عمل درآمد کرانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے کہا کہ کئی دہائیوں سے تیار ہونے والی فزیبلیٹی اور لاگت عوامی پیسہ ہے، کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سیاسی بنیادوں پر کی گئی جبکہ سیاسی مسائل کو قومی مفادات پر حاوی نہ ہونے دیا جائے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کوئی نیا حکم نامہ نہیں ہے ، مشترکہ مفادات کونسل کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا پہلے ہی فیصلہ کرچکی ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 1991 میں مشترکہ مفادات کونسل نے جب کالاباغ ڈیم سے متعلق فیصلہ دیا تھا اس وقت نواز شریف کا دورتھا اوریہ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کو سندھ کا مفاد کتنا عزیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کی قرارداد کے برعکس 3 صوبوں کی اسمبلیاں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف قراردادیں پاس کرچکی ہیں۔
دوسری جانب اے این پی نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ ملک کے لئے بہتر نہیں ہے۔ پشاور میں ایکسپریس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے اے این پی کے ترجمان سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ جب تک اے این پی کا ایک بھی کارکن زندہ ہے کالا باغ ڈیم کو کوئی نہیں بناسکتا، لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ملک کے لئے بہتر نہیں ہے۔ زاہد خان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ لاہور ہائی کورٹ کےفیصلے کا سوموٹو نوٹس لیں۔