کمیونٹی پولیسنگ وقت کا تقاضا
اگر کمیونٹی پولیسنگ کا نظام قائم ہوجاتا ہے، تو عام شہری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں آجائے گا۔
گذشتہ دنوں گورنر سندھ، ڈاکٹر عشرت العباد کی زیرِ صدارت ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کراچی میں امن وامان کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق گورنر نے اجلاس میں موجود اعلیٰ افسران اور آئی جی سندھ، فیاض لغاری کو احکامات جاری کیے کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کا نظام قائم کیا جائے۔
یاد رہے کہ کراچی میں کمیونٹی پولیسنگ کا خیال نیا نہیں۔ کچھ عرصہ قبل، جب فیاض لغاری آئی جی سندھ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، اُس وقت بھی کمیونٹی پولیسنگ کا نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کئی تھانوں کی حدود میں کمیونٹی پولیسنگ کے لیے عارضی چوکیاں یا لکڑی کے کیبن بھی بنائے گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اہل کاروں کا چناؤ بھی شروع ہوگیا تھا، اور اِس ضمن میں کمیٹیاں تشکیل دی جارہی تھیں کہ فیاض لغاری کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا، جس کے بعد یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ اب فیاض لغاری دوبارہ آئی جی کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، تو اِس منصوبے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔
سندھ، خصوصاً کراچی کمیونٹی پولیسنگ کا پہلے بھی تجربہ کر چکا ہے۔ فیروزآباد پولیس اسٹیشن کی حدود میں کمیونٹی پولیسنگ کا نظام دس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ اب بہادر آباد اور کلفٹن کے تھانوں کی حدود میں بھی اِس نظام کے تحت کام ہورہا ہے۔ اس نظام کے تحت کمیونٹی اور پولیس مل کر جرائم کے خاتمے کے لئے کام کرتے ہیں۔ اِن سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے کہ متعلقہ تھانے کی کیا ضروریات ہیں؟ متعلقہ محکمے کو اِس کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں؟ شہری کیسے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ پولیس افسران اور شہریوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ شہری تھانے جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ پولیس سے دُور رہنا مناسب سمجھتے ہیں۔ اگر کسی ضرورت کے تحت تھانے جانا بھی پڑے، تو ساتھ علاقے کا کوئی بااثر شخص ضرور ہوتا ہے، جو پولیس میں تھوڑی جان پہچان رکھتا ہو۔ اِسی فاصلے کے باعث شہری جرائم کے سدباب میں اپنا کردار ادا نہیں کرپاتے، تاہم اِس سسٹم کے طفیل عوام اور پولیس میں رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ شہریوں کو پولیس کا نظام سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس سلسلے کے شروع ہونے سے عوام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اور یہ فاصلہ گھٹ جائے گا۔
پولیس شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ پولیس کا اولین فرض ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، جرائم کا خاتمہ کرے، اور اُن عناصر کو، جو بدامنی کا سبب بنتے ہیں، کیفر کردار تک پہنچائے، تاہم عام طور سے ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار قانون نافذ کرنے والے اہل کار جرائم پیشہ گروہوں سے مل جاتے ہیں۔ رشوت بھی عام ہے۔ ایسے میں عوام کے کردار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ شہری اپنے علاقوں کے مسائل کا بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے علاقے میں جنم لینے والے مسائل کا ماخذ کیا ہے۔
بھتا خوروں، منشیات فروشوں کی کون پشت پناہی کر رہا ہے، مگر خوف کی وجہ سے وہ بے چارے خاموش رہتے ہیں۔ یوں جرائم پیشہ عناصر اور کرپٹ پولیس اہل کاروں کا گٹھ جوڑ کام یابی سے چلتا رہتا ہے۔ اگر کمیونٹی پولیسنگ کا نظام قائم ہوجاتا ہے، تو عام شہری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں آجائے گا۔ اُسے پولیس کے اعلیٰ افسران تک رسائی مل جائے گی، یوں صورت حال میں تبدیلی کا امکان پیدا ہوگیا۔ پولیس اور شہریوں میں اعتماد پیدا ہوگیا، تو کئی مسائل علاقے ہی کی سطح پر احسن طریقے سے حل ہوجائیں گے۔ یوں متعلقہ اداروں پر بھی بوجھ کم ہوگا۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کے لیے جو کمیٹیاں بنائی جائیں، اُن کے لیے ایسے ارکان کا انتخاب کیا جائے، جن پر کمیونٹی اعتماد کرے۔ عام شہری کمیٹی کے ارکان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ سکے، اور اسے یقین ہو کہ کمیٹی کسی سیاسی اور مذہبی دباؤ کے بغیر، غیرجانب دار ہو کر اقدام کرے گی۔ پڑھے لکھے باشعور، معاملہ فہم شہریوں کا انتخاب ضروری ہے۔ ریٹائرڈ جج، وکلا، ڈاکٹر، اساتذہ اور سماجی کارکنان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ اگر انتہائی ناگزیر ہو، تب ہی سیاسی جماعتوں کو نمایندگی دی جائے۔
اِس احتیاط کا سبب سیاسی جماعتوں کے حوالے سے پائی جانے والی بداعتمادی ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ حکم راں جماعتیں پولیس کے محکمے کو سیاست زدہ کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ دبائو ڈال کر بھرتیاں کروائی جاتی ہیں۔ شاید عام آدمی اِسی لیے پولیس پر اعتبار نہیں کرتا۔ اعتماد کی فضا صرف اُسی وقت بہتر ہوسکتی ہے، جب محکمۂ پولیس کے اہل کار سیاست زدہ نہ ہوں۔ فقط میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہو، اور عام شہری بلاخوف و خطر اُن کے سامنے اپنی بات کہہ سکے۔
لاہور کی آبادی کراچی سے کم ہے، مگر وہاں پولیس کی نفری کراچی سے زیادہ ہے۔ کراچی میں تعینات آدھی پولیس تو سیاست دانوں اور مذہبی راہ نماؤں کی سیکیورٹی پر مامور ہے۔ سپریم کورٹ، کراچی میں امن و امان کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران وی آئی پیز کی سیکیورٹی پر مامور اہل کاروں کی بابت اپنی رائے دے چکی ہے، مگر عدلیہ کے واضح احکامات کے بعد بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری جاری ہے، اور پولیس بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنا تو درکنار، اُنھیں تو اپنے تحفظ کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے۔
بدقسمتی سے آج کوئی ایسا محکمہ نہیں، جہاں شہری سہولت اور آزادی سے اپنی بپتا سنا سکیں۔ اِس صورت حال میں عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے، جس نے اُن کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے۔ اعلیٰ افسران عوام کے پاس جائیں، کھلی کچہریاں لگائی جائیں۔ اِس کے بعد ہی اعتماد بحال ہوگا، جو جرائم کی بیخ کنی کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ اِس رابطے سے جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں مانیٹر کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔ پویس کی نفری کے ساتھ رضاکاروں کی تعداد میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ پولیس سے سیاست زدہ اہل کاروں کا خاتمہ وقت کا تقاضا ہے۔
اب دیکھنے یہ ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کا نظام کب شروع ہوتا ہے، اور اِسے کتنا شفاف رکھا جاتا ہے، کیوں کہ کمیونٹی پولیسنگ پروگرام فقط اِسی صورت میں سودمند ثابت ہوسکتا ہے، جب اِسے کرپشن سے پاک رکھا جائے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق گورنر نے اجلاس میں موجود اعلیٰ افسران اور آئی جی سندھ، فیاض لغاری کو احکامات جاری کیے کہ شہر میں امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کا نظام قائم کیا جائے۔
یاد رہے کہ کراچی میں کمیونٹی پولیسنگ کا خیال نیا نہیں۔ کچھ عرصہ قبل، جب فیاض لغاری آئی جی سندھ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، اُس وقت بھی کمیونٹی پولیسنگ کا نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کئی تھانوں کی حدود میں کمیونٹی پولیسنگ کے لیے عارضی چوکیاں یا لکڑی کے کیبن بھی بنائے گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق اہل کاروں کا چناؤ بھی شروع ہوگیا تھا، اور اِس ضمن میں کمیٹیاں تشکیل دی جارہی تھیں کہ فیاض لغاری کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا، جس کے بعد یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ اب فیاض لغاری دوبارہ آئی جی کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں، تو اِس منصوبے کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔
سندھ، خصوصاً کراچی کمیونٹی پولیسنگ کا پہلے بھی تجربہ کر چکا ہے۔ فیروزآباد پولیس اسٹیشن کی حدود میں کمیونٹی پولیسنگ کا نظام دس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔ اب بہادر آباد اور کلفٹن کے تھانوں کی حدود میں بھی اِس نظام کے تحت کام ہورہا ہے۔ اس نظام کے تحت کمیونٹی اور پولیس مل کر جرائم کے خاتمے کے لئے کام کرتے ہیں۔ اِن سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے کہ متعلقہ تھانے کی کیا ضروریات ہیں؟ متعلقہ محکمے کو اِس کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہییں؟ شہری کیسے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟ پولیس افسران اور شہریوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ شہری تھانے جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ پولیس سے دُور رہنا مناسب سمجھتے ہیں۔ اگر کسی ضرورت کے تحت تھانے جانا بھی پڑے، تو ساتھ علاقے کا کوئی بااثر شخص ضرور ہوتا ہے، جو پولیس میں تھوڑی جان پہچان رکھتا ہو۔ اِسی فاصلے کے باعث شہری جرائم کے سدباب میں اپنا کردار ادا نہیں کرپاتے، تاہم اِس سسٹم کے طفیل عوام اور پولیس میں رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ شہریوں کو پولیس کا نظام سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس سلسلے کے شروع ہونے سے عوام کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سمجھنے میں مدد ملے گی، اور یہ فاصلہ گھٹ جائے گا۔
پولیس شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ پولیس کا اولین فرض ہے کہ وہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، جرائم کا خاتمہ کرے، اور اُن عناصر کو، جو بدامنی کا سبب بنتے ہیں، کیفر کردار تک پہنچائے، تاہم عام طور سے ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار قانون نافذ کرنے والے اہل کار جرائم پیشہ گروہوں سے مل جاتے ہیں۔ رشوت بھی عام ہے۔ ایسے میں عوام کے کردار کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ شہری اپنے علاقوں کے مسائل کا بہتر ادراک رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے علاقے میں جنم لینے والے مسائل کا ماخذ کیا ہے۔
بھتا خوروں، منشیات فروشوں کی کون پشت پناہی کر رہا ہے، مگر خوف کی وجہ سے وہ بے چارے خاموش رہتے ہیں۔ یوں جرائم پیشہ عناصر اور کرپٹ پولیس اہل کاروں کا گٹھ جوڑ کام یابی سے چلتا رہتا ہے۔ اگر کمیونٹی پولیسنگ کا نظام قائم ہوجاتا ہے، تو عام شہری قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں آجائے گا۔ اُسے پولیس کے اعلیٰ افسران تک رسائی مل جائے گی، یوں صورت حال میں تبدیلی کا امکان پیدا ہوگیا۔ پولیس اور شہریوں میں اعتماد پیدا ہوگیا، تو کئی مسائل علاقے ہی کی سطح پر احسن طریقے سے حل ہوجائیں گے۔ یوں متعلقہ اداروں پر بھی بوجھ کم ہوگا۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کے لیے جو کمیٹیاں بنائی جائیں، اُن کے لیے ایسے ارکان کا انتخاب کیا جائے، جن پر کمیونٹی اعتماد کرے۔ عام شہری کمیٹی کے ارکان کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ سکے، اور اسے یقین ہو کہ کمیٹی کسی سیاسی اور مذہبی دباؤ کے بغیر، غیرجانب دار ہو کر اقدام کرے گی۔ پڑھے لکھے باشعور، معاملہ فہم شہریوں کا انتخاب ضروری ہے۔ ریٹائرڈ جج، وکلا، ڈاکٹر، اساتذہ اور سماجی کارکنان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔ اگر انتہائی ناگزیر ہو، تب ہی سیاسی جماعتوں کو نمایندگی دی جائے۔
اِس احتیاط کا سبب سیاسی جماعتوں کے حوالے سے پائی جانے والی بداعتمادی ہے۔ یہ عام خیال ہے کہ حکم راں جماعتیں پولیس کے محکمے کو سیاست زدہ کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ دبائو ڈال کر بھرتیاں کروائی جاتی ہیں۔ شاید عام آدمی اِسی لیے پولیس پر اعتبار نہیں کرتا۔ اعتماد کی فضا صرف اُسی وقت بہتر ہوسکتی ہے، جب محکمۂ پولیس کے اہل کار سیاست زدہ نہ ہوں۔ فقط میرٹ کی بنیاد پر بھرتی ہو، اور عام شہری بلاخوف و خطر اُن کے سامنے اپنی بات کہہ سکے۔
لاہور کی آبادی کراچی سے کم ہے، مگر وہاں پولیس کی نفری کراچی سے زیادہ ہے۔ کراچی میں تعینات آدھی پولیس تو سیاست دانوں اور مذہبی راہ نماؤں کی سیکیورٹی پر مامور ہے۔ سپریم کورٹ، کراچی میں امن و امان کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران وی آئی پیز کی سیکیورٹی پر مامور اہل کاروں کی بابت اپنی رائے دے چکی ہے، مگر عدلیہ کے واضح احکامات کے بعد بھی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری جاری ہے، اور پولیس بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنا تو درکنار، اُنھیں تو اپنے تحفظ کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے۔
بدقسمتی سے آج کوئی ایسا محکمہ نہیں، جہاں شہری سہولت اور آزادی سے اپنی بپتا سنا سکیں۔ اِس صورت حال میں عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے، جس نے اُن کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کا سلسلہ فوری شروع کیا جائے۔ اعلیٰ افسران عوام کے پاس جائیں، کھلی کچہریاں لگائی جائیں۔ اِس کے بعد ہی اعتماد بحال ہوگا، جو جرائم کی بیخ کنی کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ اِس رابطے سے جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیاں مانیٹر کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔ پویس کی نفری کے ساتھ رضاکاروں کی تعداد میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ پولیس سے سیاست زدہ اہل کاروں کا خاتمہ وقت کا تقاضا ہے۔
اب دیکھنے یہ ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ کا نظام کب شروع ہوتا ہے، اور اِسے کتنا شفاف رکھا جاتا ہے، کیوں کہ کمیونٹی پولیسنگ پروگرام فقط اِسی صورت میں سودمند ثابت ہوسکتا ہے، جب اِسے کرپشن سے پاک رکھا جائے۔