انگورہ کی بکریاں اور مولانا کے درویش
وسطی ایشیا کا ایک کوہستانی قبیلہ اپنے مویشیوں کے لیے سبز چارے کی تلاش میں سرگرداں تھا
وسطی ایشیا کا ایک کوہستانی قبیلہ اپنے مویشیوں کے لیے سبز چارے کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ یہی اس کی زندگی تھی اور اسی تلاش میں ایک دن اس کی ایک گھاٹی سے گزر ہوئی جہاں کچھ قبائلی آپس میں لڑ رہے تھے۔ قبیلے کے سردار نے دیکھا کہ آپس میں لڑنے والوں میں ایک قبیلہ کمزورہو رہا ہے چنانچہ اس نے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ وہ کمزور قبیلے کا ساتھ دے اور اس طرح یہ کمزور قبیلہ جیت گیا۔
وقت کے حکمران کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے جیتنے والے قبیلے کی دعوت کی اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ترکی کا قونیہ کا علاقہ تھا اور یہاں سلجوقیوں کی حکمرانی تھی۔ سلجوقی حکمران نے اپنے پسندیدہ قبیلے کی پذیرائی کی اور اسے زمین کا ایک ٹکڑا شکریے کے طور پر عطیہ میں دے دیا۔ اس قبیلے کا سردار عثمان تھا جس نے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کی حکومت پھیلتی گئی اور رفتہ رفتہ وہ ایک قبائلی ریاست بن گئی۔ تاریخ کا ایک طویل قصہ ہے کہ قبائلی سردار عثمان خان کی حکومت اس قدر پھیل گئی کہ سلجوقی حکمران نے اس کی مراعات میں مزید اضافہ کر دیا اور پھر عثمانی حکومت مسلمانوں کی عثمانی خلافت بن کر دنیا پر چھا گئی۔
اس کی تاریخ بہت طویل اور شاندار ہے دنیا نے عثمانی خلافت کا یہ زمانہ دیکھا۔ خصوصاً غیر مسلم حکومتوں نے اس ریاست کی عملداری کو بہت محسوس کیا اور اس خطے میں مسلمانوں کی خلافت کو ختم کرنے کے در پے ہو گئی۔ ایک طویل کہانی ہے کہ عثمانی خلافت کس طرح ختم ہوئی جس کا مرکز ترکی تھا۔ یہ خلافت مسلمانوں کے عالمی اقتدار کی علامت بن گئی تھی۔ ہم ہندوستان کے مسلمان اس خلافت کا حصہ نہیں تھے لیکن جب مغربی دنیا نے اس کو ختم کیا تو ہمارے ہاں خلافت کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوئی جسے 'تحریک خلافت' کہا گیا۔ ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں ہر تحریک مسلم قومیت کا ایک سنگ میل تھی۔
مسیحی دنیا کا مشرقی مرکز قسطنطنیہ مسلمانوں کی نگاہوں میں کھٹکتا رہا اور اس کو فتح کرنے کی بارہا کوشش کی گئی افسوس کہ اس وقت میرے پاس تاریخ کے مستند حوالے موجود نہیں ہیں ورنہ ترکی کی سرزمین مسلمانوں کے جہاد کے کئی نظارے پیش کرتی ہے اور قسطنطنیہ کی فتح تو آنحضرتﷺ کو بھی بہت پسند تھی۔ حضور پاک نے فرمایا تھا کہ خوش نصیب ہو گا وہ لشکر جو قسطنطنیہ پر یلغار کرے گا چنانچہ حضورؐ کے اس فرمان کے بعد مسلمان فوج اس شہرکو فتح کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھنے لگی یہانتک کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد حضور پاک مدینہ کے جس گھر اور جس مدنی کے ہاں مقیم ہوئے یعنی حضرت ایوب انصاری وہ اپنی ضعیف العمری کے باوجود مسلمان لشکر میں بھرتی ہو گئے اور وصیت فرمائی کہ میں اگر اس جہاد میں جان دے دوں تو مجھے قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ترین جگہ پر دفن کیا جائے۔
آج استنبول میں ان کا مزار خلق خدا کی محبت و عقیدت کا مرکز ہے جس کے قریب ترک سلطان نے مسجد سلیمانیہ جیسی عالی شان مسجد تعمیر کی۔ یہاں یہ بھی ذکر کر دیں کہ حضور پاک جب ہجرت کی حالت میں مدینہ پاک پہنچے تو میزبانی کے لیے پورا شہر امنڈ آیا۔ حضورﷺ نے یہ دیکھ کر فیصلہ کیا کہ میری اونٹنی جہاں خود بیٹھ جائے گی وہ گھر میرا میزبان ہو گا۔ اتفاق سے یہ گھر حضرت ابو ایوب انصاری کا تھا جہاں آپ نے قیام فرمایا تھا۔ حضرت انصاری کی زندگی میں تو قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا لیکن یہ شہر ان کے فیض کا مرکز بن گیا جو اب تک جاری ہے اور میں اس کی دیواروں کو چوم کر آیا ہوں اور مزار سے متصل مسجد سلیمانیہ میں نماز جمعہ ادا کی ہے۔
قسطنطنیہ بعد میں نوجوان محمد نے فتح کیا جو فاتح کے لقب سے مشہور ہوا اور جس جنگی حکمت عملی کو اختیار کیا اس نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تاہم میں تبرکاً اس مختصر سی سفید بجری والی سڑک پر چل کر مسجد صوفیہ میں داخل ہوا جہاں سے محمد فاتح سفید گھوڑے پر سوار ہو کر مسیحی دنیا کے اس مشرقی قبلے میں داخل ہوا تھا اور اسے مسجد بھی قرار دے دیا تھا۔ محمد نے جو فاتح کہلایا تاریخ ہی بدل دی۔ بعد میں یہ شہر استنبول کہلایا یعنی اسلام آباد جو رفتہ رفتہ استنبول بن گیا۔ یہ سب گزشتہ تاریخ ہے جس کا ذکر حیرت انگیز اور ایمان افروز ہے اور یہ دنیاداری کے لحاظ سے بھی اس قدر قیمتی سرمایہ ہے کہ مشہور ہے اگر استنبول کا ٹوپ کاپی محل فروخت کر دیا جائے تو اس سے پوری دنیا کا چھ دن کا خرچ چل سکتا ہے لیکن ایسی باتیں خلافت عثمانیہ کی عظمت کے سامنے بے معنی ہیں۔
یورپ کی دنیا کے شاہی خاندان اپنا وارث عثمانی خلیفہ کی منظوری سے مقرر کرتے تھے اور جس زمین پر سلطان سلیمان کے گھوڑے کے قدم پڑ جاتے تھے وہ اس کی ملکیت ہو جاتا تھا۔ ہم آج کے مسلمانوں کے لیے یہ سب باتیں قصے کہانیاں ہیں لیکن تاریخ ان کی حقیقت کی شہادت دیتی ہے۔ اس جذبات انگیز طویل داستان کے آخر میں سلطان سلیمان کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ ضعیف العمری میں سلطان سلیمان نے ایک دن اپنے وزیراعظم سے پوچھا کہ ہمارے بعد کیا باقی رہ جائے گا۔ وزیراعظم پیری پاشا نے عرض کیا، یہ بات سلطان ہی جانتا ہے پھر اس عظیم المرتبت بادشاہ نے جواب دیا ''پیری پاشا، ہمارے بعد انگورہ کی بکریاں اور مولانا روم کے درویش باقی رہ جائیں گے''
وقت کے حکمران کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے جیتنے والے قبیلے کی دعوت کی اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ یہ ترکی کا قونیہ کا علاقہ تھا اور یہاں سلجوقیوں کی حکمرانی تھی۔ سلجوقی حکمران نے اپنے پسندیدہ قبیلے کی پذیرائی کی اور اسے زمین کا ایک ٹکڑا شکریے کے طور پر عطیہ میں دے دیا۔ اس قبیلے کا سردار عثمان تھا جس نے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کی حکومت پھیلتی گئی اور رفتہ رفتہ وہ ایک قبائلی ریاست بن گئی۔ تاریخ کا ایک طویل قصہ ہے کہ قبائلی سردار عثمان خان کی حکومت اس قدر پھیل گئی کہ سلجوقی حکمران نے اس کی مراعات میں مزید اضافہ کر دیا اور پھر عثمانی حکومت مسلمانوں کی عثمانی خلافت بن کر دنیا پر چھا گئی۔
اس کی تاریخ بہت طویل اور شاندار ہے دنیا نے عثمانی خلافت کا یہ زمانہ دیکھا۔ خصوصاً غیر مسلم حکومتوں نے اس ریاست کی عملداری کو بہت محسوس کیا اور اس خطے میں مسلمانوں کی خلافت کو ختم کرنے کے در پے ہو گئی۔ ایک طویل کہانی ہے کہ عثمانی خلافت کس طرح ختم ہوئی جس کا مرکز ترکی تھا۔ یہ خلافت مسلمانوں کے عالمی اقتدار کی علامت بن گئی تھی۔ ہم ہندوستان کے مسلمان اس خلافت کا حصہ نہیں تھے لیکن جب مغربی دنیا نے اس کو ختم کیا تو ہمارے ہاں خلافت کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوئی جسے 'تحریک خلافت' کہا گیا۔ ہمارے ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ میں ہر تحریک مسلم قومیت کا ایک سنگ میل تھی۔
مسیحی دنیا کا مشرقی مرکز قسطنطنیہ مسلمانوں کی نگاہوں میں کھٹکتا رہا اور اس کو فتح کرنے کی بارہا کوشش کی گئی افسوس کہ اس وقت میرے پاس تاریخ کے مستند حوالے موجود نہیں ہیں ورنہ ترکی کی سرزمین مسلمانوں کے جہاد کے کئی نظارے پیش کرتی ہے اور قسطنطنیہ کی فتح تو آنحضرتﷺ کو بھی بہت پسند تھی۔ حضور پاک نے فرمایا تھا کہ خوش نصیب ہو گا وہ لشکر جو قسطنطنیہ پر یلغار کرے گا چنانچہ حضورؐ کے اس فرمان کے بعد مسلمان فوج اس شہرکو فتح کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھنے لگی یہانتک کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد حضور پاک مدینہ کے جس گھر اور جس مدنی کے ہاں مقیم ہوئے یعنی حضرت ایوب انصاری وہ اپنی ضعیف العمری کے باوجود مسلمان لشکر میں بھرتی ہو گئے اور وصیت فرمائی کہ میں اگر اس جہاد میں جان دے دوں تو مجھے قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب ترین جگہ پر دفن کیا جائے۔
آج استنبول میں ان کا مزار خلق خدا کی محبت و عقیدت کا مرکز ہے جس کے قریب ترک سلطان نے مسجد سلیمانیہ جیسی عالی شان مسجد تعمیر کی۔ یہاں یہ بھی ذکر کر دیں کہ حضور پاک جب ہجرت کی حالت میں مدینہ پاک پہنچے تو میزبانی کے لیے پورا شہر امنڈ آیا۔ حضورﷺ نے یہ دیکھ کر فیصلہ کیا کہ میری اونٹنی جہاں خود بیٹھ جائے گی وہ گھر میرا میزبان ہو گا۔ اتفاق سے یہ گھر حضرت ابو ایوب انصاری کا تھا جہاں آپ نے قیام فرمایا تھا۔ حضرت انصاری کی زندگی میں تو قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا لیکن یہ شہر ان کے فیض کا مرکز بن گیا جو اب تک جاری ہے اور میں اس کی دیواروں کو چوم کر آیا ہوں اور مزار سے متصل مسجد سلیمانیہ میں نماز جمعہ ادا کی ہے۔
قسطنطنیہ بعد میں نوجوان محمد نے فتح کیا جو فاتح کے لقب سے مشہور ہوا اور جس جنگی حکمت عملی کو اختیار کیا اس نے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تاہم میں تبرکاً اس مختصر سی سفید بجری والی سڑک پر چل کر مسجد صوفیہ میں داخل ہوا جہاں سے محمد فاتح سفید گھوڑے پر سوار ہو کر مسیحی دنیا کے اس مشرقی قبلے میں داخل ہوا تھا اور اسے مسجد بھی قرار دے دیا تھا۔ محمد نے جو فاتح کہلایا تاریخ ہی بدل دی۔ بعد میں یہ شہر استنبول کہلایا یعنی اسلام آباد جو رفتہ رفتہ استنبول بن گیا۔ یہ سب گزشتہ تاریخ ہے جس کا ذکر حیرت انگیز اور ایمان افروز ہے اور یہ دنیاداری کے لحاظ سے بھی اس قدر قیمتی سرمایہ ہے کہ مشہور ہے اگر استنبول کا ٹوپ کاپی محل فروخت کر دیا جائے تو اس سے پوری دنیا کا چھ دن کا خرچ چل سکتا ہے لیکن ایسی باتیں خلافت عثمانیہ کی عظمت کے سامنے بے معنی ہیں۔
یورپ کی دنیا کے شاہی خاندان اپنا وارث عثمانی خلیفہ کی منظوری سے مقرر کرتے تھے اور جس زمین پر سلطان سلیمان کے گھوڑے کے قدم پڑ جاتے تھے وہ اس کی ملکیت ہو جاتا تھا۔ ہم آج کے مسلمانوں کے لیے یہ سب باتیں قصے کہانیاں ہیں لیکن تاریخ ان کی حقیقت کی شہادت دیتی ہے۔ اس جذبات انگیز طویل داستان کے آخر میں سلطان سلیمان کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ ضعیف العمری میں سلطان سلیمان نے ایک دن اپنے وزیراعظم سے پوچھا کہ ہمارے بعد کیا باقی رہ جائے گا۔ وزیراعظم پیری پاشا نے عرض کیا، یہ بات سلطان ہی جانتا ہے پھر اس عظیم المرتبت بادشاہ نے جواب دیا ''پیری پاشا، ہمارے بعد انگورہ کی بکریاں اور مولانا روم کے درویش باقی رہ جائیں گے''