خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان
عام طور پر انسان کو سب سے زیادہ عزیز اپنی جان ہوتی ہے۔
عام طور پر انسان کو سب سے زیادہ عزیز اپنی جان ہوتی ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے پیارے۔ لیکن اگرگردشِ حالات کی وجہ سے کسی کی زندگی اجیرن ہوجائے اور وبال جان بن جائے توپھر وہ بھلا اس کے سوائے اورکیا کہہ سکتا ہے کہ:
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
جب سرنگ کے آخری سرے پر امید کی کوئی روشن کرن دکھائی نہ دے اور نامساعد حالات کا گھیرا تیزی کے ساتھ تنگ ہونا شروع ہوجائے تو ایک عام آدمی کی قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے اور اسے زندگی سے راہ فراراختیار کرنے کے علاوہ اورکوئی آپشن نظر نہیں آتا۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشیکرتے ہیں۔ خودکشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے۔ اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔ دنیا کی کل اموات میں خودکشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک اعشاریہ آٹھ فی صد ہے۔ ایک سروے کے اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ صرف بھارت اور چین میں پوری دنیا کی خودکشیوں کی 30 فی صد اموات واقع ہورہی ہیں جوکہ بڑی ہولناک شرح ہے۔
انسانی دماغ ہی وہ کارخانہ ہے جہاں سوچ جنم لیتی ہے اور پھر یہی سوچ آگے چل کر خودکشی کا محرک بنتی ہے ایک امید پرست شخص کو آدھا کلاس بھرا ہوا نظر آتا ہے جب کہ ایک مایوس شخص کو یہی آدھا گلاس خالی دکھائی دیتا ہے۔ پس اصل معاملہ مثبت اور منفی سوچ کا ہے۔
دنیا بھر میں خودکشیوں کے اس سیلابی ریلے پر انتہائی تشویش پائی جاتی ہے اوراس خوفناک شرح کو پبلک ہیلتھ ایشو قرار دیا جارہاہے۔ اس موضوع پر باقاعدہ ریسرچ کی جارہی ہے اوراس میں فوری کمی لانے کے اپائے تلاش کیے جارہے ہیں۔ یہ ایک فطری امر بھی ہے کہ کیونکہ انسانی ہمدردی کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن بد قسمتی سے وطن عزیز میں اس معاشرتی ایشو پر پردہ ڈالا جارہاہے، حالانکہ گزشتہ دہائیوں میں ہمارے یہاں خودکشی کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہواہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا بوسیدہ اور فرسودہ سماجی نظام ہے جو رفتہ رفتہ دم توڑ رہا ہے۔
خودکشی ایک غیر اسلامی اور غیر اخلاقی فعل ہے اس لیے وطن عزیز میں معاشرتی اور سرکاری طور پر اس کے اعدادوشمارپرکوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔ بدنامی اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کی وجہ سے بھی خودکشی کے زیادہ تر واقعات کو رپورٹ کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اس بارے میں نہ تو کوئی حکومتی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور نہ ہی خودکشی کے واقعات سے متعلق اعداد وشمار اکٹھے کرنے کا کوئی مربوط نظام وضع کیا گیا ہے اس لیے عالمی ادارہ صحت بھی پاکستان کے بارے میں خودکشی کے واقعات سے متعلق کوئی ڈیٹا فراہم کرنے سے قاصر ہے حالانکہ اس کی اہمیت اورافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں صرف میڈیا کی خبروں اور این جی اوز کی جمع اور مرتب کی ہوئی معلومات پر ہی انحصار یا اکتفا کرنا پڑے گا۔تاہم پاکستان کے چھ مختلف شہروں سے اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق لاڑکانہ میں فی ایک لاکھ افراد میں خودکشی کی شرح 7.6 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ راولپنڈی میں یہ شرح 2.8 فی صد ہے۔ ایک اور مطالعے کے مطابق باڑہ تحصیل میں خودکشی کی کوشش کرنے والوں کی شرح بڑی بلند رہی جن میں خواتین کی شرح 39 فی صد اور مرد حضرات کی شرح 21 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011 میں خودکشی کی کوششوں کی تعداد 1,153 اور خودکشی کی وارداتوں اور خودکشی کی وارداتوں کی تعداد 2,131 ریکارڈ کی گئی۔
ہندوستان میں خودکشی کے واقعات کے اعداد وشمار زیادہ بہتر طور پر مرتب کیے گئے ہیں اور ان کے تجزیے بھی بہتر ہیں۔ 2007 کے ایک مطالعے کے مطابق ان کی سالانہ شرح ایک لاکھ تھی، شمالی ریاستوں کے مقابلے میں جنوبی ریاستوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ رہا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں خودکشی پر تحقیق کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور اس کے رجحانات پر بحث و مباحثہ بھی ہورہاہے۔
عام مطالعے کے مطابق خودکشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ نمایاں ہے لیکن خودکشی کی کوشش کی شرح خواتین میں مردوں سے زیادہ بلند دیکھی گئی ہے۔ خودکشی کے بنیادی اسباب دو ہیں۔ مالی مسائل اور خاندانی مسائل، برصغیر پاک وہند میں یہی دو سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ یونان میں مالیاتی مسائل خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہیں جب کہ سائپرس میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ بھارت میں فصلوں کے تباہ ہوجانے کے نتیجے میں کسان بڑی بھاری تعداد میں خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔میڈیا کی خبروں پر مبنی ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں لوگ زیادہ تر پھندے سے اپنا گلا گھونٹ کر، خودسوزی کرکے یا زیادہ تعداد میں نشہ آور دوائیں کھاکرخودکشی کرتے ہیں۔ جاپان میں خودکشی کو معاشرتی اعتبار سے ایک اچھا فعل تصورکیا جاتا ہے اور اسے شرم و حیا کی پاسداری کی علامت سمجھاجاتا ہے۔
صحت کا عالمی ادارہ (WHO) خودکشی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے اور اس کی زیادہ تر توجہ ترقی پذیر ممالک پر مرکوز ہے ۔تاہم پاکستان میں سماجی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر اس طرح کے کسی بھی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل ہوگا، سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ اس کام کے لیے تمام متعلقہ فریقوں اور اداروں کا بھرپورتعاون پیشگی شرط ہے۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
جب سرنگ کے آخری سرے پر امید کی کوئی روشن کرن دکھائی نہ دے اور نامساعد حالات کا گھیرا تیزی کے ساتھ تنگ ہونا شروع ہوجائے تو ایک عام آدمی کی قوتِ برداشت جواب دینے لگتی ہے اور اسے زندگی سے راہ فراراختیار کرنے کے علاوہ اورکوئی آپشن نظر نہیں آتا۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں ہر سال دس لاکھ انسان خودکشیکرتے ہیں۔ خودکشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے۔ اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔ دنیا کی کل اموات میں خودکشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک اعشاریہ آٹھ فی صد ہے۔ ایک سروے کے اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ صرف بھارت اور چین میں پوری دنیا کی خودکشیوں کی 30 فی صد اموات واقع ہورہی ہیں جوکہ بڑی ہولناک شرح ہے۔
انسانی دماغ ہی وہ کارخانہ ہے جہاں سوچ جنم لیتی ہے اور پھر یہی سوچ آگے چل کر خودکشی کا محرک بنتی ہے ایک امید پرست شخص کو آدھا کلاس بھرا ہوا نظر آتا ہے جب کہ ایک مایوس شخص کو یہی آدھا گلاس خالی دکھائی دیتا ہے۔ پس اصل معاملہ مثبت اور منفی سوچ کا ہے۔
دنیا بھر میں خودکشیوں کے اس سیلابی ریلے پر انتہائی تشویش پائی جاتی ہے اوراس خوفناک شرح کو پبلک ہیلتھ ایشو قرار دیا جارہاہے۔ اس موضوع پر باقاعدہ ریسرچ کی جارہی ہے اوراس میں فوری کمی لانے کے اپائے تلاش کیے جارہے ہیں۔ یہ ایک فطری امر بھی ہے کہ کیونکہ انسانی ہمدردی کا تقاضا بھی یہی ہے لیکن بد قسمتی سے وطن عزیز میں اس معاشرتی ایشو پر پردہ ڈالا جارہاہے، حالانکہ گزشتہ دہائیوں میں ہمارے یہاں خودکشی کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہواہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارا بوسیدہ اور فرسودہ سماجی نظام ہے جو رفتہ رفتہ دم توڑ رہا ہے۔
خودکشی ایک غیر اسلامی اور غیر اخلاقی فعل ہے اس لیے وطن عزیز میں معاشرتی اور سرکاری طور پر اس کے اعدادوشمارپرکوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔ بدنامی اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کی وجہ سے بھی خودکشی کے زیادہ تر واقعات کو رپورٹ کرنے سے گریز کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ اس بارے میں نہ تو کوئی حکومتی پالیسی اختیار کی گئی ہے اور نہ ہی خودکشی کے واقعات سے متعلق اعداد وشمار اکٹھے کرنے کا کوئی مربوط نظام وضع کیا گیا ہے اس لیے عالمی ادارہ صحت بھی پاکستان کے بارے میں خودکشی کے واقعات سے متعلق کوئی ڈیٹا فراہم کرنے سے قاصر ہے حالانکہ اس کی اہمیت اورافادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
ان حالات میں صرف میڈیا کی خبروں اور این جی اوز کی جمع اور مرتب کی ہوئی معلومات پر ہی انحصار یا اکتفا کرنا پڑے گا۔تاہم پاکستان کے چھ مختلف شہروں سے اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق لاڑکانہ میں فی ایک لاکھ افراد میں خودکشی کی شرح 7.6 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ راولپنڈی میں یہ شرح 2.8 فی صد ہے۔ ایک اور مطالعے کے مطابق باڑہ تحصیل میں خودکشی کی کوشش کرنے والوں کی شرح بڑی بلند رہی جن میں خواتین کی شرح 39 فی صد اور مرد حضرات کی شرح 21 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2011 میں خودکشی کی کوششوں کی تعداد 1,153 اور خودکشی کی وارداتوں اور خودکشی کی وارداتوں کی تعداد 2,131 ریکارڈ کی گئی۔
ہندوستان میں خودکشی کے واقعات کے اعداد وشمار زیادہ بہتر طور پر مرتب کیے گئے ہیں اور ان کے تجزیے بھی بہتر ہیں۔ 2007 کے ایک مطالعے کے مطابق ان کی سالانہ شرح ایک لاکھ تھی، شمالی ریاستوں کے مقابلے میں جنوبی ریاستوں میں خودکشی کا رجحان زیادہ رہا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں خودکشی پر تحقیق کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور اس کے رجحانات پر بحث و مباحثہ بھی ہورہاہے۔
عام مطالعے کے مطابق خودکشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ نمایاں ہے لیکن خودکشی کی کوشش کی شرح خواتین میں مردوں سے زیادہ بلند دیکھی گئی ہے۔ خودکشی کے بنیادی اسباب دو ہیں۔ مالی مسائل اور خاندانی مسائل، برصغیر پاک وہند میں یہی دو سب سے بڑی وجوہات ہیں۔ یونان میں مالیاتی مسائل خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہیں جب کہ سائپرس میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ بھارت میں فصلوں کے تباہ ہوجانے کے نتیجے میں کسان بڑی بھاری تعداد میں خودکشی کر بیٹھتے ہیں۔میڈیا کی خبروں پر مبنی ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں لوگ زیادہ تر پھندے سے اپنا گلا گھونٹ کر، خودسوزی کرکے یا زیادہ تعداد میں نشہ آور دوائیں کھاکرخودکشی کرتے ہیں۔ جاپان میں خودکشی کو معاشرتی اعتبار سے ایک اچھا فعل تصورکیا جاتا ہے اور اسے شرم و حیا کی پاسداری کی علامت سمجھاجاتا ہے۔
صحت کا عالمی ادارہ (WHO) خودکشی کے رجحان پر قابو پانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے اور اس کی زیادہ تر توجہ ترقی پذیر ممالک پر مرکوز ہے ۔تاہم پاکستان میں سماجی اور مذہبی وجوہات کی بنا پر اس طرح کے کسی بھی منصوبے کو عملی جامہ پہنانا بہت مشکل ہوگا، سچی اور کھری بات تو یہ ہے کہ اس کام کے لیے تمام متعلقہ فریقوں اور اداروں کا بھرپورتعاون پیشگی شرط ہے۔