قائد اعظم دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان
آج قائد اعظم کے مزار پر بھی ٹکٹ ہے! قائد اعظم! دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان؟
برداشت اور غصہ آنے کی کیفیت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے، تاہم کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کم غصہ کرنے والے اور برداشت کی قوت رکھنے والے بھی کسی چھوٹے سے مسئلے پر برہم ہونے لگتے ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی گزشتہ ہفتے ایسا ہی ہوا اور یہ عین مزارِ قائد اعظم کے سامنے ہوا۔ گوکہ ہم گئے تھے بچوں کو قائد اعظم کا مزار دکھانے اور قیام پاکستان سے متعلق معلومات فراہم کرنے کہ کس طرح ہمارے بزرگوں نے یہ وطن حاصل کیا، نیز بچوں کو خوشگوار ماحول فراہم کرنے، لیکن مزارِ قائد کے گیٹ پر پہنچتے ہی طبیعت اس وقت ناخوشگوار ہوگئی کہ جب گیٹ پر کھڑے ملازم نے کھڑکی کی طرف اشارہ کرکے کہا: ''جناب! پہلے ٹکٹ لے لیجیے۔''
غصہ ہمیں اس بات پر نہیں آرہا تھا کہ اس نے ٹکٹ لینے کا کیوں کہا یا یہ کہ محض 10 روپے کا ٹکٹ ہمیں مالی لحاظ سے بھاری لگا بلکہ غصہ اس بات پر آرہا تھا کہ اس ملک کے بانی کی زیارت کے لیے بھی ٹکٹ۔۔۔۔۔؟
بہرحال ہم اپنا غصہ پیتے ہوئے ٹکٹ لے کر مزارِ قائد کے احاطے میں پہنچ گئے، بچوں کو مزارِ قائد دکھاتے ہوئے جب ہم مزار کے نیچے گئے اور بچوں کو کہا کہ آؤ بچو! اب آپ کو قائد اعظم کے استعمال میں رہنے والی اشیاء دکھائیں، تو چند لمحوں بعد پھر دل و دماغ پر مایوسی اور برہمی کے بادل چھانے لگے کہ یہاں بھی ٹکٹ کے لیے کھڑکی موجود تھی۔ ایک بچے نے ہم سے سوال کر ہی دیا کہ قائد اعظم کی چیزیں دیکھنے کے لیے ٹکٹ کیوں لینا پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب تو نہایت آسان تھا مگر یہ تھا کہ بچے کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹا! یہ سب ''پاکستان کو کھانے'' کے طریقے ہیں۔
قائد اعظم کی شخصیت پر تنقید کی جاسکتی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے کردار کے تمام پہلوؤں پر عموماً سو فیصد کامل نظر نہیں آتا، اختلاف رائے کی گنجائش نکل ہی آتی ہے، تاہم کسی قوم کے ہیروز کو پورے احترام کے ساتھ ہیرو جیسا ہی درجہ دینا چاہیے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اپنے عظیم قائد کے مزار پر ٹکٹ لگاکر آنے والوں سے رقم وصول کر رہے ہیں۔ کیا ایک غریب پاکستانی اب اپنے بچوں کے ہمراہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم کا مزار دیکھنے کے لیے آنے سے قبل ٹکٹ کی رقم کا بندوبست کرے گا؟ کیا پاکستانیوں کو اب اپنے قائد کے نوادرات دیکھنے کے لیے بھی رقم ادا کرنے کی ضرورت پڑے گی؟
درحقیقت ہم نے اپنے ملک میں ہر چیز کو کمرشل یا کمانے کے نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی اور نجی سطح پر بھی ہماری سوچ محض پیسہ کمانے پر لگی ہوئی ہے اور اب ہم نے اپنے بانی پاکستان قائد اعظم کو بھی نہیں بخشا۔پورے معاشرے میں خرید وفروخت میں بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ ہمارا عمومی رجحان بن چکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب نہ صرف کراچی شہر کے بڑے تفریحی پارکوں میں جانے کے لیے کسی ٹکٹ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ عام رہائشی علاقوں میں موجود پارکس میں بھی بے تحاشا جھولے لگے ہوتے تھے اور بچے مفت میں تفریح کرتے تھے، مگر اب کمرشل ازم اس ملک پر اس طرح غالب آگیا ہے کہ ہمارے بچے اپنے گھر کے سامنے واقع پارک میں بھی جائیں تو انھیں جھولے یا تو نظر نہیں آتے اور اگر ہیں تو وہ ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں لہٰذا اب بچے اپنے محلّے کے پارک میں بھی بلا قیمت جھولا جھولنے سے محروم ہیں۔
مہنگائی کے اس دور میں غور کیجیے کہ جب کسی شخص کے 5 بچے ہوں اور وہ کسی محلّے ہی کے پارک میں تفریح کے لیے جائے تو اُسے سو دو سو روپے تو بچوں کے صرف جھولوں کے لیے خرچ کرنا پڑیں گے کیونکہ 10 روپے سے کم کسی جھولے کا ٹکٹ نہیں ہے اور وہ بھی چند منٹ کا۔ لہٰذا بچے جب دو چار بار جھولنا چاہیں تو ایک بچے کے ٹکٹ ہی 50 یا 60 روپے کے بن جاتے ہیں، اب ذرا اس رقم کو 5 بچوں پر ضرب دیں تو ڈھائی تین سو روپے بن جاتے ہیں۔ مجھ جیسا شخص تو ایسے اخراجات برداشت کرلیتا ہے، لیکن کیا ایک مزدور اپنے بچوں کے لیے یہ مالی بوجھ برداشت کرے گا؟
ہمارے ہاں بے شمار این جی اوز بچوں کے لیے کام کر رہی ہیں اور سرکاری ادارے، عوام کو سانس لینے کے لیے تفریح پارکس ہی رہ گئے تھے، اب ان کو بھی کمرشل بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قائد اعظم کے اس ملک میں، قائد اعظم کے مزار کے اس شہر میں اب غریب پاکستانی عوام تفریح کے لیے نہ تو مزار قائد میں بغیر ٹکٹ کے داخل ہوسکتے ہیں، نہ ہی اپنے محلّے کے پارک میں بچوں کو بلا ٹکٹ جھولے اور تفریح فراہم کرسکتے ہیں۔
راقم کی نظر میں کراچی شہر میں ایسے بے شمار پارک ہیں جو کل تک عوامی تفریح کے لیے صبح و شام کھلے رہتے تھے مگر نئی سٹی گورنمنٹ کے تعاون سے سرسبز و شاداب پارک میں تبدیل تو ضرور ہوئے اور ان کی چار دیواریاں بھی قائم ہوئی ہیں، مگر اب یہاں غریب عوام اپنے بچوں کو تفریح کے لیے نہیں لے جاسکتے کیونکہ محلے کے یہ پارک ہوں یا قائد اعظم کا مزار ، ایک خاندان کا بچوں سمیت اس طرف رخ کرنے کا مطلب صرف ٹکٹ کی مد میں ہی دو تین سو روپے خرچ کرنا ہے، باقی کار پارکنگ یا دیگر اشیاء کی خریداری کے اخراجات الگ ہیں۔
آج قائد اعظم کے مزار پر بھی ٹکٹ ہے! قائد اعظم! دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان؟
غصہ ہمیں اس بات پر نہیں آرہا تھا کہ اس نے ٹکٹ لینے کا کیوں کہا یا یہ کہ محض 10 روپے کا ٹکٹ ہمیں مالی لحاظ سے بھاری لگا بلکہ غصہ اس بات پر آرہا تھا کہ اس ملک کے بانی کی زیارت کے لیے بھی ٹکٹ۔۔۔۔۔؟
بہرحال ہم اپنا غصہ پیتے ہوئے ٹکٹ لے کر مزارِ قائد کے احاطے میں پہنچ گئے، بچوں کو مزارِ قائد دکھاتے ہوئے جب ہم مزار کے نیچے گئے اور بچوں کو کہا کہ آؤ بچو! اب آپ کو قائد اعظم کے استعمال میں رہنے والی اشیاء دکھائیں، تو چند لمحوں بعد پھر دل و دماغ پر مایوسی اور برہمی کے بادل چھانے لگے کہ یہاں بھی ٹکٹ کے لیے کھڑکی موجود تھی۔ ایک بچے نے ہم سے سوال کر ہی دیا کہ قائد اعظم کی چیزیں دیکھنے کے لیے ٹکٹ کیوں لینا پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب تو نہایت آسان تھا مگر یہ تھا کہ بچے کو یہ کیسے سمجھایا جائے کہ بیٹا! یہ سب ''پاکستان کو کھانے'' کے طریقے ہیں۔
قائد اعظم کی شخصیت پر تنقید کی جاسکتی ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے کردار کے تمام پہلوؤں پر عموماً سو فیصد کامل نظر نہیں آتا، اختلاف رائے کی گنجائش نکل ہی آتی ہے، تاہم کسی قوم کے ہیروز کو پورے احترام کے ساتھ ہیرو جیسا ہی درجہ دینا چاہیے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اپنے عظیم قائد کے مزار پر ٹکٹ لگاکر آنے والوں سے رقم وصول کر رہے ہیں۔ کیا ایک غریب پاکستانی اب اپنے بچوں کے ہمراہ بانیٔ پاکستان قائد اعظم کا مزار دیکھنے کے لیے آنے سے قبل ٹکٹ کی رقم کا بندوبست کرے گا؟ کیا پاکستانیوں کو اب اپنے قائد کے نوادرات دیکھنے کے لیے بھی رقم ادا کرنے کی ضرورت پڑے گی؟
درحقیقت ہم نے اپنے ملک میں ہر چیز کو کمرشل یا کمانے کے نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی اور نجی سطح پر بھی ہماری سوچ محض پیسہ کمانے پر لگی ہوئی ہے اور اب ہم نے اپنے بانی پاکستان قائد اعظم کو بھی نہیں بخشا۔پورے معاشرے میں خرید وفروخت میں بددیانتی اور لوٹ کھسوٹ ہمارا عمومی رجحان بن چکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب نہ صرف کراچی شہر کے بڑے تفریحی پارکوں میں جانے کے لیے کسی ٹکٹ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ عام رہائشی علاقوں میں موجود پارکس میں بھی بے تحاشا جھولے لگے ہوتے تھے اور بچے مفت میں تفریح کرتے تھے، مگر اب کمرشل ازم اس ملک پر اس طرح غالب آگیا ہے کہ ہمارے بچے اپنے گھر کے سامنے واقع پارک میں بھی جائیں تو انھیں جھولے یا تو نظر نہیں آتے اور اگر ہیں تو وہ ٹھیکے پر دے دیے گئے ہیں لہٰذا اب بچے اپنے محلّے کے پارک میں بھی بلا قیمت جھولا جھولنے سے محروم ہیں۔
مہنگائی کے اس دور میں غور کیجیے کہ جب کسی شخص کے 5 بچے ہوں اور وہ کسی محلّے ہی کے پارک میں تفریح کے لیے جائے تو اُسے سو دو سو روپے تو بچوں کے صرف جھولوں کے لیے خرچ کرنا پڑیں گے کیونکہ 10 روپے سے کم کسی جھولے کا ٹکٹ نہیں ہے اور وہ بھی چند منٹ کا۔ لہٰذا بچے جب دو چار بار جھولنا چاہیں تو ایک بچے کے ٹکٹ ہی 50 یا 60 روپے کے بن جاتے ہیں، اب ذرا اس رقم کو 5 بچوں پر ضرب دیں تو ڈھائی تین سو روپے بن جاتے ہیں۔ مجھ جیسا شخص تو ایسے اخراجات برداشت کرلیتا ہے، لیکن کیا ایک مزدور اپنے بچوں کے لیے یہ مالی بوجھ برداشت کرے گا؟
ہمارے ہاں بے شمار این جی اوز بچوں کے لیے کام کر رہی ہیں اور سرکاری ادارے، عوام کو سانس لینے کے لیے تفریح پارکس ہی رہ گئے تھے، اب ان کو بھی کمرشل بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قائد اعظم کے اس ملک میں، قائد اعظم کے مزار کے اس شہر میں اب غریب پاکستانی عوام تفریح کے لیے نہ تو مزار قائد میں بغیر ٹکٹ کے داخل ہوسکتے ہیں، نہ ہی اپنے محلّے کے پارک میں بچوں کو بلا ٹکٹ جھولے اور تفریح فراہم کرسکتے ہیں۔
راقم کی نظر میں کراچی شہر میں ایسے بے شمار پارک ہیں جو کل تک عوامی تفریح کے لیے صبح و شام کھلے رہتے تھے مگر نئی سٹی گورنمنٹ کے تعاون سے سرسبز و شاداب پارک میں تبدیل تو ضرور ہوئے اور ان کی چار دیواریاں بھی قائم ہوئی ہیں، مگر اب یہاں غریب عوام اپنے بچوں کو تفریح کے لیے نہیں لے جاسکتے کیونکہ محلے کے یہ پارک ہوں یا قائد اعظم کا مزار ، ایک خاندان کا بچوں سمیت اس طرف رخ کرنے کا مطلب صرف ٹکٹ کی مد میں ہی دو تین سو روپے خرچ کرنا ہے، باقی کار پارکنگ یا دیگر اشیاء کی خریداری کے اخراجات الگ ہیں۔
آج قائد اعظم کے مزار پر بھی ٹکٹ ہے! قائد اعظم! دیکھ رہے ہو اپنا پاکستان؟