ڈی ایٹ اور پاکستان
جمہوریت کے دور کا ترکی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کا متحمل نہ ہوسکا۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں6مسلم ممالک کے سربراہان کا ایک اجلاس ہوا جس میں فقط وعدے اور امیدوں کے ساتھ ساتھ مفاہمتوں کی یاد داشت کے سوا کوئی خاص مسودہ نہ تھا جس میں محض مستقبل کے صیغے استعمال کیے گئے، فوری اقدامات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ مسلم حکمرانوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر مسلم ممالک خود مختار ریاستیں نہیں بلکہ یہ تو غیر ملکی ڈکٹیشن پر اپنی خارجہ حکمت عملی تیار کر رہی ہیں، ان کو اپنے ملک کے عوام کا معیارِ زندگی، جذبات اور معاشی اہداف کے حصول سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی مسلم فلسفہ اقدار اور معیشت کی ترقی کے لیے کوئی وقت اور اہداف کا تعین ہے، اس اجلاس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں جمہوریت کو تمام سماجی اور معاشی ترقی کی کنجی قرار دیا گیا، یعنی اگر آپ کی ایکسپورٹ اگر کم ہورہی ہے.
آپ کا ملک اگر گولہ بارود کا ڈھیر بن رہا ہے، گیس، تیل اور بجلی کا بحران ہے تو یہ مسئلہ آپ بہ آسانی مغربی جمہوریت کے ذریعے حل کرسکتے ہیں، اگر آپ کے ملک میں زیر زمین گیس ختم ہورہی ہے تو جمہوریت، جمہوریت 4 مرتبہ پڑھ کر قومی اسمبلی میں پھونک ماریں تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ایسی بے معنی اور مضحکہ خیز گفتگو سے خصوصیت کے ساتھ پاکستانیوں کو با آسانی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے پر حزب مخالف اور صاحبانِ اقتدار کا ایک ہی مؤقف ہے کیونکہ انتخابی میدان میں اُترنے والے ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ اقتدار، اقتدار اور بھرپور اقتدار۔ ان حکمرانوں کو غالباً یہ بھی خبر نہیں کہ ملک میں گیس کے کیا ذخائر ہیں اور اگر معلوم ہے کہ سوئی کی گیس کا خاتمہ 4 برسوں میں یقینی ہے اور گیس کی کمپنی (ENI) اپنا بوریا بستر لپیٹنے کو ہے۔ خدارا! غور کیجیے، ہم کس قدر گیس ضایع کر رہے ہیں.
ایک گھر جس میں 7/6 افراد قیام پذیر ہیں اور گیزر استعمال نہیں کرتے تو اس کا بل چند سو روپے ماہوار ہوتا ہے، یہ گیس گھریلو صارفین یا انڈسٹری کے لیے مخصوص ہوتی تھی، مگر طالع آزماؤں نے سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود کہ ہمارے ملک میں گیس کے ذخائر اتنے نہیں کہ ان کو بسوں اور گاڑیوں میں لگایا جائے، خصوصاً پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے جو کئی ہزار کی گیس روزانہ پھونک دیتے ہیں، ریل گاڑی جو پوری دنیا میں سستی اور آرام دہ، محفوظ سواری سمجھی جاتی ہے اس کو عضوِ معطل بنادیا گیا ہے اور کراچی تا لاہور پشاور بسیں چل رہی ہیں، پہلے سی این جی کٹ اورپھر سی این جی اسٹیشن کھولے گئے۔ اربوں کھربوں روپے کے نئے دہانے کھولے گئے، پھر اب ان پر بندش کیونکہ صاحبان ثروت کا اصل ایجنڈا مکمل ہوگیا اور ملک خدانخواستہ جائے بھاڑ میں جس کے نتیجے میں گیس کا بحران جو پچاس برس بعد آنے کو تھا اب وہ پانچ برس میں گھر گھر پہنچ جائے گا، یعنی چولہوں کی لوڈ شیڈنگ جلد متوقع ہے، بسوں کی لوڈ شیڈنگ نے کراچی کی انڈسٹری کو اپاہج کردیا ہے کیونکہ سی این جی کی بندش نے مزدوروں کو بسوں کی سہولت سے محروم کردیا ہے.
ملوں میں چھانٹی ہورہی ہے، بے روزگاری کا عفریت شعلے اُگل رہا ہے، جس سے سماجی پریشانیوں، نفسیاتی مسائل اور چوری ڈکیتی میں اضافہ متوقع ہے۔ ایک طرف لوڈ شیڈنگ، دوسری جانب بھتہ خوری، تیسری جانب نسلی اور مذہبی تصادم۔ آخر ڈی ایٹ کا کون سا ملک یہاں سرمایہ کاری کرے گا؟ کیونکہ نہ سرمایہ کار محفوظ ہے اور نہ سرمایہ، اُس پر لطف یہ کہ توانائی سے محروم ملک ۔ آخر ہمارے رہنما جو ہماری کشتی کے ناخدا ہیں جن کے بادبان پھٹ چکے ہیں، کھلے سمندر میں ہمیں کہاں لے جارہے ہیں، ڈی ایٹ کے سربراہی اجلاس سے کچھ امیدیں نظر آرہی تھیں کہ گیس یا تیل کی دولت سے یہ ملک اس سربراہی اجلاس سے خالی ہاتھ نہیں اٹھے گا اور سیاسی معاشی اہداف کو بروئے کار لانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا، ایران اور پاکستان کی گیس لائن کا کوئی حتمی مسودہ یا ڈیڈ لائن طے نہ ہوسکی، اگر ذرا بھی دھیان دیا جاتا تو اس مسئلے کو کلیدی مسئلہ سمجھ کر پوری توانائی صرف کرنی تھی۔ اس سربراہی اجلاس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں سارک ممالک سے بھی مزید قربت کا تذکرہ ہے.
مگر اب تک بھارت سے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجودکوئی واضح پیش رفت نہ ہوسکی بلکہ جس روز اس میٹنگ کا اعلامیہ جاری ہوا اسی روز بھارت نے بمبئی حملہ کے ایک ملزم کو پھانسی کی سزا سنادی جس کی وجہ سے اجمل قصاب کی خبر کو عالمی میڈیا پر زیادہ اہمیت حاصل ہوئی، غرض بھارت سے دوریاں جوں کی توں برقرار ہیں۔اب ذرا اس سربراہی اجلاس میں ایران کے علاوہ دو اہم برادر ملک ترکی اور مصر کی سیاست کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ترکی گوکہ نیٹو کا ایک اہم رکن آج سے نہیں آمریت کے دور سے چلا آرہا ہے اور اب وہاں جو جمہوریت قائم ہے اس میں بھی اس کا کردار وہی ہے جو نیٹو ممالک کے سربراہ چاہتے ہیں، جمہوریت کے دور کا ترکی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کا متحمل نہ ہوسکا، بجلی پیدا کرنے والے ترکی کے جہاز نہ پاکستان کو بجلی دے سکے بلکہ خطیر رقم لے کر ترکی چلے گئے۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ ادائیگی کیے بغیر کمپنی کو نہ چھوڑا جائے۔
لہٰذا پاکستان سے ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ مسلسل التواء کا شکار رہے گا کیونکہ امریکا کی جانب سے ہم نیٹو کے قریب ترین حلیف ہیں، جہاں تک مصر کا تعلق ہے وہ ابھی حسنی مبارک کی فوجی حکومت کی چھاپ والی حکومت سے ایک جمہوری دور میں داخل ہوئے ہیں اور مصر کو حسنی مبارک نے امریکا پر انحصار کی اس زنجیر میں جکڑ رکھا ہے کہ وہ اس کو توڑنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں اور حالیہ حماس اسرائیل جنگ بندی میں انھوں نے جہاں حماس کے رہنما خالد مشعل کو قاہرہ بلایا اور امن مذاکرات میں حصہ لیا وہاں اسرائیل وفد نے بھی یہ مانا کہ اسرائیل کی موجودگی اور جنگ بندی ان کا ایک قابل تعریف قدم ہے، مگر حقیقتاً انھوں نے ہلیری کلنٹن کی مشرق وسطیٰ آنے سے قبل ایک سازگار ماحول پیدا کیا تاکہ ہلیری کلنٹن جنگ بندی کے سنہرے الفاظ اپنی زبان سے ادا کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرتبہ امریکا کا کردار واقعی کسی حد تک کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کے حق میں نہ تھا بلکہ یہ لفظ ادا کیا کہ ہم اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں مگر خالد مشعل سے انھوں نے بات کرنا گوارا نہیں کی کیونکہ وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس لیے مرسی مصر کی سیاسی قوت کو کہیں بھی استعمال نہیں کرسکتے، خصوصاً ایسے وقت جب کہ قاہرہ میں مصر کے صدر محمد مرسی کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں اور ملک کی کشتی ڈانواں ڈول ہے جب کہ مصر کے صدر انتخاب جیتنے کے بعد اقتدار پر اپنی گرفت غیر جمہوری قوت کے حصول کے مرتکب ہوئے ہیں اور خود کو احتساب سے بالا تر بنا دیا ہے، اور ان پر یہ بھی الزام لگایا جارہا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اب صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ وہاں ایک خلفشار کا سماں ہے، لہٰذا وہ بین الاقوامی کردار ادا کرنے کی فی الحال پوزیشن میں نہیں ہے۔
بقیہ ممالک میں بنگلہ دیش، نائیجیریا، ملائیشیا ہیں جن کے سرحدی اور ثقافتی فاصلوں کے علاوہ نہ بنگلہ دیش اور نہ نائیجیریا کوئی اقتصادی ترقی میں ہماری مدد نہیں کرسکتے کیونکہ بنگلہ دیش کاٹن کی ویلیو ایڈیڈ پروڈکٹس (Value Added Products) میں امریکا اور یورپی ممالک میں ہمارا مقابل ہے اور وہاں سماجی خلفشار اور انرجی کا وہ بحران نہیں جو ہمارے یہاں ہے اس لیے اس کی مصنوعات سستی اور اچھی ہیں گوکہ پاکستان کاٹن پیدا کرنے والی ایک ایسی ریاست ہے جس کا کاٹن دھاگا نہایت جاذب اور عمدہ ہے مگر افسوس ہمارا ملک خلفشار کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے اور ہمارے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا البتہ ملائیشیا ایک غیر جانبدار اور ترقی یافتہ ملک ہے جو پاکستان کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے اور مغربی ممالک کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوگا، لہٰذا بحران سے نکلنے کے لیے ایران کی گیس پائپ لائن پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، مگر یہ خواب حقیقت بنتا ہے یا خیال بن کر دماغ سے نکل سکتا ہے، غالب سے معذرت کے ساتھ:
بسکہ دشوار ہے اس کام کا آساں ہونا
بس اختتامی جملوں پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی سسٹم کی کامیابی کے لیے دانشمند پڑھی لکھی، محب وطن، اور دیانت دار قیادت کی ضرورت ہے ورنہ چین میں مغربی جمہوریت نہ ہونے کے باوجود ترقی کی شرح 9 فیصد سالانہ نہ ہوتی۔
آپ کا ملک اگر گولہ بارود کا ڈھیر بن رہا ہے، گیس، تیل اور بجلی کا بحران ہے تو یہ مسئلہ آپ بہ آسانی مغربی جمہوریت کے ذریعے حل کرسکتے ہیں، اگر آپ کے ملک میں زیر زمین گیس ختم ہورہی ہے تو جمہوریت، جمہوریت 4 مرتبہ پڑھ کر قومی اسمبلی میں پھونک ماریں تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ایسی بے معنی اور مضحکہ خیز گفتگو سے خصوصیت کے ساتھ پاکستانیوں کو با آسانی بے وقوف بنایا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے پر حزب مخالف اور صاحبانِ اقتدار کا ایک ہی مؤقف ہے کیونکہ انتخابی میدان میں اُترنے والے ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ اقتدار، اقتدار اور بھرپور اقتدار۔ ان حکمرانوں کو غالباً یہ بھی خبر نہیں کہ ملک میں گیس کے کیا ذخائر ہیں اور اگر معلوم ہے کہ سوئی کی گیس کا خاتمہ 4 برسوں میں یقینی ہے اور گیس کی کمپنی (ENI) اپنا بوریا بستر لپیٹنے کو ہے۔ خدارا! غور کیجیے، ہم کس قدر گیس ضایع کر رہے ہیں.
ایک گھر جس میں 7/6 افراد قیام پذیر ہیں اور گیزر استعمال نہیں کرتے تو اس کا بل چند سو روپے ماہوار ہوتا ہے، یہ گیس گھریلو صارفین یا انڈسٹری کے لیے مخصوص ہوتی تھی، مگر طالع آزماؤں نے سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود کہ ہمارے ملک میں گیس کے ذخائر اتنے نہیں کہ ان کو بسوں اور گاڑیوں میں لگایا جائے، خصوصاً پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے جو کئی ہزار کی گیس روزانہ پھونک دیتے ہیں، ریل گاڑی جو پوری دنیا میں سستی اور آرام دہ، محفوظ سواری سمجھی جاتی ہے اس کو عضوِ معطل بنادیا گیا ہے اور کراچی تا لاہور پشاور بسیں چل رہی ہیں، پہلے سی این جی کٹ اورپھر سی این جی اسٹیشن کھولے گئے۔ اربوں کھربوں روپے کے نئے دہانے کھولے گئے، پھر اب ان پر بندش کیونکہ صاحبان ثروت کا اصل ایجنڈا مکمل ہوگیا اور ملک خدانخواستہ جائے بھاڑ میں جس کے نتیجے میں گیس کا بحران جو پچاس برس بعد آنے کو تھا اب وہ پانچ برس میں گھر گھر پہنچ جائے گا، یعنی چولہوں کی لوڈ شیڈنگ جلد متوقع ہے، بسوں کی لوڈ شیڈنگ نے کراچی کی انڈسٹری کو اپاہج کردیا ہے کیونکہ سی این جی کی بندش نے مزدوروں کو بسوں کی سہولت سے محروم کردیا ہے.
ملوں میں چھانٹی ہورہی ہے، بے روزگاری کا عفریت شعلے اُگل رہا ہے، جس سے سماجی پریشانیوں، نفسیاتی مسائل اور چوری ڈکیتی میں اضافہ متوقع ہے۔ ایک طرف لوڈ شیڈنگ، دوسری جانب بھتہ خوری، تیسری جانب نسلی اور مذہبی تصادم۔ آخر ڈی ایٹ کا کون سا ملک یہاں سرمایہ کاری کرے گا؟ کیونکہ نہ سرمایہ کار محفوظ ہے اور نہ سرمایہ، اُس پر لطف یہ کہ توانائی سے محروم ملک ۔ آخر ہمارے رہنما جو ہماری کشتی کے ناخدا ہیں جن کے بادبان پھٹ چکے ہیں، کھلے سمندر میں ہمیں کہاں لے جارہے ہیں، ڈی ایٹ کے سربراہی اجلاس سے کچھ امیدیں نظر آرہی تھیں کہ گیس یا تیل کی دولت سے یہ ملک اس سربراہی اجلاس سے خالی ہاتھ نہیں اٹھے گا اور سیاسی معاشی اہداف کو بروئے کار لانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا، ایران اور پاکستان کی گیس لائن کا کوئی حتمی مسودہ یا ڈیڈ لائن طے نہ ہوسکی، اگر ذرا بھی دھیان دیا جاتا تو اس مسئلے کو کلیدی مسئلہ سمجھ کر پوری توانائی صرف کرنی تھی۔ اس سربراہی اجلاس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں سارک ممالک سے بھی مزید قربت کا تذکرہ ہے.
مگر اب تک بھارت سے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجودکوئی واضح پیش رفت نہ ہوسکی بلکہ جس روز اس میٹنگ کا اعلامیہ جاری ہوا اسی روز بھارت نے بمبئی حملہ کے ایک ملزم کو پھانسی کی سزا سنادی جس کی وجہ سے اجمل قصاب کی خبر کو عالمی میڈیا پر زیادہ اہمیت حاصل ہوئی، غرض بھارت سے دوریاں جوں کی توں برقرار ہیں۔اب ذرا اس سربراہی اجلاس میں ایران کے علاوہ دو اہم برادر ملک ترکی اور مصر کی سیاست کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ترکی گوکہ نیٹو کا ایک اہم رکن آج سے نہیں آمریت کے دور سے چلا آرہا ہے اور اب وہاں جو جمہوریت قائم ہے اس میں بھی اس کا کردار وہی ہے جو نیٹو ممالک کے سربراہ چاہتے ہیں، جمہوریت کے دور کا ترکی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی کا متحمل نہ ہوسکا، بجلی پیدا کرنے والے ترکی کے جہاز نہ پاکستان کو بجلی دے سکے بلکہ خطیر رقم لے کر ترکی چلے گئے۔ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ ادائیگی کیے بغیر کمپنی کو نہ چھوڑا جائے۔
لہٰذا پاکستان سے ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ مسلسل التواء کا شکار رہے گا کیونکہ امریکا کی جانب سے ہم نیٹو کے قریب ترین حلیف ہیں، جہاں تک مصر کا تعلق ہے وہ ابھی حسنی مبارک کی فوجی حکومت کی چھاپ والی حکومت سے ایک جمہوری دور میں داخل ہوئے ہیں اور مصر کو حسنی مبارک نے امریکا پر انحصار کی اس زنجیر میں جکڑ رکھا ہے کہ وہ اس کو توڑنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں اور حالیہ حماس اسرائیل جنگ بندی میں انھوں نے جہاں حماس کے رہنما خالد مشعل کو قاہرہ بلایا اور امن مذاکرات میں حصہ لیا وہاں اسرائیل وفد نے بھی یہ مانا کہ اسرائیل کی موجودگی اور جنگ بندی ان کا ایک قابل تعریف قدم ہے، مگر حقیقتاً انھوں نے ہلیری کلنٹن کی مشرق وسطیٰ آنے سے قبل ایک سازگار ماحول پیدا کیا تاکہ ہلیری کلنٹن جنگ بندی کے سنہرے الفاظ اپنی زبان سے ادا کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مرتبہ امریکا کا کردار واقعی کسی حد تک کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کے حق میں نہ تھا بلکہ یہ لفظ ادا کیا کہ ہم اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں مگر خالد مشعل سے انھوں نے بات کرنا گوارا نہیں کی کیونکہ وہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس لیے مرسی مصر کی سیاسی قوت کو کہیں بھی استعمال نہیں کرسکتے، خصوصاً ایسے وقت جب کہ قاہرہ میں مصر کے صدر محمد مرسی کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں اور ملک کی کشتی ڈانواں ڈول ہے جب کہ مصر کے صدر انتخاب جیتنے کے بعد اقتدار پر اپنی گرفت غیر جمہوری قوت کے حصول کے مرتکب ہوئے ہیں اور خود کو احتساب سے بالا تر بنا دیا ہے، اور ان پر یہ بھی الزام لگایا جارہا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اب صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ وہاں ایک خلفشار کا سماں ہے، لہٰذا وہ بین الاقوامی کردار ادا کرنے کی فی الحال پوزیشن میں نہیں ہے۔
بقیہ ممالک میں بنگلہ دیش، نائیجیریا، ملائیشیا ہیں جن کے سرحدی اور ثقافتی فاصلوں کے علاوہ نہ بنگلہ دیش اور نہ نائیجیریا کوئی اقتصادی ترقی میں ہماری مدد نہیں کرسکتے کیونکہ بنگلہ دیش کاٹن کی ویلیو ایڈیڈ پروڈکٹس (Value Added Products) میں امریکا اور یورپی ممالک میں ہمارا مقابل ہے اور وہاں سماجی خلفشار اور انرجی کا وہ بحران نہیں جو ہمارے یہاں ہے اس لیے اس کی مصنوعات سستی اور اچھی ہیں گوکہ پاکستان کاٹن پیدا کرنے والی ایک ایسی ریاست ہے جس کا کاٹن دھاگا نہایت جاذب اور عمدہ ہے مگر افسوس ہمارا ملک خلفشار کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے اور ہمارے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا البتہ ملائیشیا ایک غیر جانبدار اور ترقی یافتہ ملک ہے جو پاکستان کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے اور مغربی ممالک کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوگا، لہٰذا بحران سے نکلنے کے لیے ایران کی گیس پائپ لائن پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے، مگر یہ خواب حقیقت بنتا ہے یا خیال بن کر دماغ سے نکل سکتا ہے، غالب سے معذرت کے ساتھ:
بسکہ دشوار ہے اس کام کا آساں ہونا
بس اختتامی جملوں پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی سسٹم کی کامیابی کے لیے دانشمند پڑھی لکھی، محب وطن، اور دیانت دار قیادت کی ضرورت ہے ورنہ چین میں مغربی جمہوریت نہ ہونے کے باوجود ترقی کی شرح 9 فیصد سالانہ نہ ہوتی۔