ابھی دعا ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ
بچوں کے مقبول ادیب اشتیاق احمد اپنی یادوں کے صفحات پلٹتے ہیں.
اشتیاق احمد پچاس برس سے بچوں کا ادب تخلیق کررہے ہیں۔
اس عرصے میں ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں ناول انہوں نے لکھے۔ بچوں کے مقبول ترین ادیبوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بچوں سے متعلق رسالوں کے مدیر بھی رہے۔ ان کی تحریرکردہ انسپکٹر جمشید سیریز نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ محمود، فاروق، فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے کردار پڑھنے والوں کے ذہن میں ہمیشہ جاگزیں رہے۔ انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی سیریز کو بھی خاصی پذیرائی ملی۔ اشتیاق احمد ان دنوں جھنگ میں مقیم ہیں، اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایکسپریس کے سلسلے''بھلانہ سکے'' کے لیے جو کچھ انھوں نے ہمارے ساتھ شیئر کیا۔ وہ قارئین کی نذر ہے۔ اشتیاق احمد کے بقول: زندگی میں مجھے حیرت کا قدم قدم پر سامنا ہوا ہے۔ پہلی کہانی لکھی اور چَھپ گئی۔ دوسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ تیسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ اب میں حیران نہ ہوتا تو کیا کرتا۔ اس طرح میرا اور حیرت کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا اور یہ ساتھ روز بروز پختہ ہوتا گیا۔ انہی دنوں میونسپل کارپوریشن میں ملازمت مل گئی، لیکن تن خواہ صرف 100 روپے تھی۔
اوپر تلے پندرہ بیس کہانیاں شایع ہوگئیں تو جی میں آئی کہ بچوں کے لیے بہت کہانیاں لکھ لیں، اب بڑوں کے لیے لکھنا چاہیے حالاںکہ خود ابھی سولہ سال کا تھا، لیکن سوچنے سمجھنے کی عمر کہاں تھی۔ رومانی کہانی لکھ ماری۔ اب فکر ہوئی، اسے شایع کیسے کرائوں۔ ان دنوں کراچی سے ایک رسالہ نکلتا تھا۔ شمع کراچی۔ اس میں رومانی افسانے شایع ہوتے تھے۔ انہیں افسانہ بھیج دیا۔ انہوں نے وہ شایع کردیا۔ اوپر تلے چھے سات افسانے انہیں لکھ کر ارسال کردیے، انہوں نے سب کے سب شایع کردیے۔ ایسے میں سیارہ ڈائجسٹ شروع ہوا۔ انہوں نے کہانیوں کا معاوضہ دینے کے اشتہارات شایع کیے تو سوچا چلو ان سے کچھ پیسے ہی مل جائیں گے۔ انہیں ایک افسانہ بھیج دیا۔ افسانہ شایع ہوگیا اور ساتھ ہی مدیر معاون اظہر جاوید صاحب کا خط بھی آگیا کہ اور لکھ کر ارسال کریں۔
سیارہ ڈائجسٹ میں تین چار کہانیاں شایع ہوگئیں تو اردو ڈائجسٹ بھیجنے لگا۔ اردو ڈائجسٹ نے بھی کہانیاں شایع کردیں۔ سیارہ ڈائجسٹ سے پیسے بھی ملنے لگے۔ ایسے میں سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر مقبول جہانگیر کو خط لکھ مارا کہ میری فلاں فلاں رسالے میں اتنی کہانیاں شایع ہوچکی ہیں، اپنے رسالے میں مجھے کوئی کام دیں۔ انہوں نے بلالیا اور سو روپے ماہوار پر پروف ریڈنگ کا کام دے دیا۔ وہاں شام کو جانے لگا۔
یہی وہ دن تھے (1971ء کے آس پاس) جب دماغ میں سمائی، اب مجھے کوئی ناول لکھنا چاہیے۔ ایک رومانی ناول لکھ مارا۔ نام رکھا ''منزل انہیں ملی'' فکر سوار ہوئی کہ اب اس کا کیا کروں، کیسے چھپوائوں۔ سیارہ ڈائجسٹ کے نائب مدیر ابو ضیاء اقبال تھے۔ پروف ریڈنگ کا کام مجھے وہی دیتے تھے۔ میں نے اپنی کہانیاں بھی انہیں لکھ کر دی تھیں اور انہوں نے وہ سیارہ میں لگائی تھیں۔ سوچا ان سے ذکر کرتا ہوں۔ سو ناول کا مسودہ ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا
''یہ میں نے ایک رومانی ناول لکھا ہے۔ آپ کے کوئی پبلشر واقف ہوں تو میری مدد کریں۔''
انہوں نے ناول کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور مجھے رقعہ دے کر مکتبہ ٔعالیہ کے پاس بھیج دیا۔ ایبک روڈ پر واقع مکتبہ عالیہ گیا تو انہوں نے رومانی ناول پڑھ کر دیکھا، پر جب میں ملاقات کے لیے گیا تو کہنے لگے:
''یہ ناول ہم بعد میں شایع کریں گے۔ پہلے آپ بچوں کے لیے ایک ناول لکھ کر لائیں۔ ناول جاسوسی ہو اور سو صفحات سے زیادہ کا نہ ہو۔''
بہت حیران ہوا۔ جاسوسی ادب کا مطالعہ تو بہت کیا تھا، لیکن کبھی جاسوسی ناول لکھنے کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ میں اپنی زندگی میں سیکڑوں جاسوسی ناول لکھوں گا۔
خیر! گھر آیا اور جاسوسی ناول لکھنے لگا۔ ناول صرف تین دن میں تیار ہوگیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس ناول کے کردار محمود، فاروق، فرزانہ اور انسپکٹر جمشید تھے جو آج تک چلے آرہے ہیں۔ ناول کا نام ''پیکٹ کا راز'' رکھا۔ مکتبۂ عالیہ نے اس کے 50 روپے دیے۔ یہ ناول 1972ء میں شایع ہوا۔ وہ ناول لے کر فیروز سنز چلا گیا۔ ہاتھ میں ایک اور ناول ''آستین کا سانپ'' کا مسودہ تھا۔ انہوں نے پیکٹ کا راز دیکھا، آستین کا سانپ پڑھ کر اسے شایع کرنا منظور کرلیا اور اس کے 300 روپے دیے۔ پھر حیران ہونا پڑا۔
تیسرا ناول شیشے کا بکس لکھا، شیخ غلام علی اینڈ سنز کے پاس لے گیا۔ انہوں نے پڑھا اور شایع کرنا منظور کرلیا۔ اس کے 300 روپے دیے ساتھ ہی کہا:
''اور ناول لکھ لائیں''
اب آپ ہی بتائیں، حیران نہ ہوتا تو کیا کرتا۔ انہوں نے اوپر تلے بارہ ناول لکھوائے۔ اور فیروز سنز نے بھی دو تین اور ناول خرید لیے۔ لیکن ایک اور بڑی حیرت میری منتظر تھی۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز کے منیجر نے پیغام بھیج کر بلوایا اور کہنے لگے:
''ہم آپ کو اپنے رسالے ماہ نامہ ''جگنو'' کا مدیر رکھنا چاہتے ہیں۔''
مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ میں نے جواب دیا۔
'مجھے یہ کام نہیں آتا، میں کیا جانوں مدیر کا کیا کام ہوتا ہے۔''
وہ نہ مانے، کہنے لگے۔ ہم آپ کو بتاتے رہیں گے، بس آپ منظور کرلیں، میں نے کہا، اچھی بات ہے۔ تن خواہ کیا ہوگی؟ میں نے پوچھا تو کہنے لگے۔
''دو سو روپے ماہ وار۔ آپ شام کو آجایا کریں۔ دن میں تو آپ کارپوریشن میں بھی ہوتے ہیں نا۔ تن خواہ اگرچہ بہت کم تھی، لیکن کوئی اعتراض نہ کیا، پھر انہوں نے مدیر کے طور پر مجھ سے کام لیا۔ اس دوران کہانیوں کی دو سو کے قریب کتابیں بھی لکھوائیں۔ یہ چھوٹے سائز کی تھیں۔ ایک روز نہ جانے کیا ہوا۔ ملک رب نواز صاحب نے بلوایا اور کہنے لگے۔
''آپ جگنو کا کام ٹھیک سے نہیں چلا رہے، اپنا حساب لے لیں، آپ آج سے فارغ۔۔''
بہت حیرت ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بات یہ نہیں تھی، بلکہ انہیں ایک بہت پڑھا لکھا مدیر مل گیا تھا، سو انہوں نے مجھے فارغ کردیا۔ میں ان دنوں میونسپل کارپوریشن کی ملازمت بھی چھوڑ چکا تھا۔ وہاں رشوت کا دور دورہ تھا اور میں نے متنفر ہوکر ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ ادھر ملازمت چھوڑی، ادھر شیخ غلام علی اینڈ سنز سے جواب مل گیا۔ میں گھبرا گیا کہ یہ اچانک کیا ہوا۔ پریشانی کے عالم میں فیروز سنز کے دفتر گیا۔ سعید لخت صاحب سے کہا:
''میں ان دنوں بے کار ہوں۔ کوئی ناول لکھوالیں''
کہنے لگے :
''ٹھیک ہے، چار ناولوں کی ایک سیریز لکھ لائیں''
کچھ تسلی ہوئی۔ ایک ماہ لگا کر چار ناولوں کی سیریز لکھ دی۔ نام تھا ''بشوما اور سرخ تیر'' وہ لے کر گیا تو انہوں نے نئی سنائی۔ کہنے لگے۔
''ڈائریکٹر صاحب ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا''
بہت پریشان ہوا۔ پریشانی کا یہ دور تقریباً ایک سال تک جاری رہا۔ ایک دن بہت گھبرایا۔ تمام دن کام تلاش کرکے گھر آیا تو تھکن سے چور تھا اور دل گویا رو رہا تھا۔ بس جی میں نہ جانے کیا آئی۔ وضو کیا، دو رکعت ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔ یوں گویا ہوا۔
''میرے مالک: آپ کا تو وعدہ ہے، جو شخص حرام روزی چھوڑتا ہے، آپ اسے حلال راستے سے اس سے زیادہ عطا کرتے ہیں، جب کہ میرا حال یہ ہے کہ ملازمت چھوڑی تو ساتھ ہی شیخ غلام علی اینڈ سنز نے فارغ کردیا۔ آپ اپنا وعدہ پورا کریں نا۔''
یہ الفاظ میں نے بالکل ایسے انداز میں کہے جیسے سامنے بیٹھے کسی شخص سے کہے ہوں۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور ابھی دعا ختم نہیں کی تھی کہ میری نظر کمرے کے فرش پر پڑے ایک تہہ کیے ہوئے کاغذ پر پڑی۔ وہ کمرہ میں نے کرائے پر لے رکھا تھا اور جب کہیں جاتا تھا تو تالا لگا کر جاتا تھا۔ پہلے تو میں نے اس کاغذ پر توجہ نہ دی۔ پھر سوچا۔ دیکھوں تو سہی، یہ ہے کیا۔ اٹھا کر اس کی تہہ کھولی تو شیخ غلام علی اینڈ سنز کے منیجر ملک رب نواز کا رقعہ تھا۔ انہوں نے لکھا تھا۔
''آپ سے ضروری کام ہے، فوراً ملیں''
میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔ دوسرے دن صبح ان سے ملا تو کہنے لگے۔
''آپ ہمیں انسپکٹر جمشید سیریز کے بارہ ناول لکھ کر دے دیں اور جگنو کی ادارت پھر سے سنبھال لیں۔''
میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور اللہ تعالیٰ سے کہا:
''باری تعالیٰ آپ کا وعدہ سچا ہے۔''
اور یہیں سے میرے ناولوں کے دور کا آغاز ہوا۔ یہاں تک کہ اپنا پبلشنگ کا ادارہ قائم کرنے کے قابل ہوا۔
زندگی میں مجھے حیرت کا قدم قدم پر سامنا ہوا ہے۔ پہلی کہانی لکھی اور چَھپ گئی۔ دوسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ تیسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ اب میں حیران نہ ہوتا تو کیا کرتا۔ اس طرح میرا اور حیرت کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا اور یہ ساتھ روز بروز پختہ ہوتا گیا۔ انہی دنوں میونسپل کارپوریشن میں ملازمت مل گئی، لیکن تن خواہ صرف 100 روپے تھی۔
اس عرصے میں ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں ناول انہوں نے لکھے۔ بچوں کے مقبول ترین ادیبوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ بچوں سے متعلق رسالوں کے مدیر بھی رہے۔ ان کی تحریرکردہ انسپکٹر جمشید سیریز نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ محمود، فاروق، فرزانہ اور انسپکٹر جمشید کے کردار پڑھنے والوں کے ذہن میں ہمیشہ جاگزیں رہے۔ انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی سیریز کو بھی خاصی پذیرائی ملی۔ اشتیاق احمد ان دنوں جھنگ میں مقیم ہیں، اور لکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایکسپریس کے سلسلے''بھلانہ سکے'' کے لیے جو کچھ انھوں نے ہمارے ساتھ شیئر کیا۔ وہ قارئین کی نذر ہے۔ اشتیاق احمد کے بقول: زندگی میں مجھے حیرت کا قدم قدم پر سامنا ہوا ہے۔ پہلی کہانی لکھی اور چَھپ گئی۔ دوسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ تیسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ اب میں حیران نہ ہوتا تو کیا کرتا۔ اس طرح میرا اور حیرت کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا اور یہ ساتھ روز بروز پختہ ہوتا گیا۔ انہی دنوں میونسپل کارپوریشن میں ملازمت مل گئی، لیکن تن خواہ صرف 100 روپے تھی۔
اوپر تلے پندرہ بیس کہانیاں شایع ہوگئیں تو جی میں آئی کہ بچوں کے لیے بہت کہانیاں لکھ لیں، اب بڑوں کے لیے لکھنا چاہیے حالاںکہ خود ابھی سولہ سال کا تھا، لیکن سوچنے سمجھنے کی عمر کہاں تھی۔ رومانی کہانی لکھ ماری۔ اب فکر ہوئی، اسے شایع کیسے کرائوں۔ ان دنوں کراچی سے ایک رسالہ نکلتا تھا۔ شمع کراچی۔ اس میں رومانی افسانے شایع ہوتے تھے۔ انہیں افسانہ بھیج دیا۔ انہوں نے وہ شایع کردیا۔ اوپر تلے چھے سات افسانے انہیں لکھ کر ارسال کردیے، انہوں نے سب کے سب شایع کردیے۔ ایسے میں سیارہ ڈائجسٹ شروع ہوا۔ انہوں نے کہانیوں کا معاوضہ دینے کے اشتہارات شایع کیے تو سوچا چلو ان سے کچھ پیسے ہی مل جائیں گے۔ انہیں ایک افسانہ بھیج دیا۔ افسانہ شایع ہوگیا اور ساتھ ہی مدیر معاون اظہر جاوید صاحب کا خط بھی آگیا کہ اور لکھ کر ارسال کریں۔
سیارہ ڈائجسٹ میں تین چار کہانیاں شایع ہوگئیں تو اردو ڈائجسٹ بھیجنے لگا۔ اردو ڈائجسٹ نے بھی کہانیاں شایع کردیں۔ سیارہ ڈائجسٹ سے پیسے بھی ملنے لگے۔ ایسے میں سیارہ ڈائجسٹ کے مدیر مقبول جہانگیر کو خط لکھ مارا کہ میری فلاں فلاں رسالے میں اتنی کہانیاں شایع ہوچکی ہیں، اپنے رسالے میں مجھے کوئی کام دیں۔ انہوں نے بلالیا اور سو روپے ماہوار پر پروف ریڈنگ کا کام دے دیا۔ وہاں شام کو جانے لگا۔
یہی وہ دن تھے (1971ء کے آس پاس) جب دماغ میں سمائی، اب مجھے کوئی ناول لکھنا چاہیے۔ ایک رومانی ناول لکھ مارا۔ نام رکھا ''منزل انہیں ملی'' فکر سوار ہوئی کہ اب اس کا کیا کروں، کیسے چھپوائوں۔ سیارہ ڈائجسٹ کے نائب مدیر ابو ضیاء اقبال تھے۔ پروف ریڈنگ کا کام مجھے وہی دیتے تھے۔ میں نے اپنی کہانیاں بھی انہیں لکھ کر دی تھیں اور انہوں نے وہ سیارہ میں لگائی تھیں۔ سوچا ان سے ذکر کرتا ہوں۔ سو ناول کا مسودہ ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا
''یہ میں نے ایک رومانی ناول لکھا ہے۔ آپ کے کوئی پبلشر واقف ہوں تو میری مدد کریں۔''
انہوں نے ناول کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور مجھے رقعہ دے کر مکتبہ ٔعالیہ کے پاس بھیج دیا۔ ایبک روڈ پر واقع مکتبہ عالیہ گیا تو انہوں نے رومانی ناول پڑھ کر دیکھا، پر جب میں ملاقات کے لیے گیا تو کہنے لگے:
''یہ ناول ہم بعد میں شایع کریں گے۔ پہلے آپ بچوں کے لیے ایک ناول لکھ کر لائیں۔ ناول جاسوسی ہو اور سو صفحات سے زیادہ کا نہ ہو۔''
بہت حیران ہوا۔ جاسوسی ادب کا مطالعہ تو بہت کیا تھا، لیکن کبھی جاسوسی ناول لکھنے کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ میں اپنی زندگی میں سیکڑوں جاسوسی ناول لکھوں گا۔
خیر! گھر آیا اور جاسوسی ناول لکھنے لگا۔ ناول صرف تین دن میں تیار ہوگیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس ناول کے کردار محمود، فاروق، فرزانہ اور انسپکٹر جمشید تھے جو آج تک چلے آرہے ہیں۔ ناول کا نام ''پیکٹ کا راز'' رکھا۔ مکتبۂ عالیہ نے اس کے 50 روپے دیے۔ یہ ناول 1972ء میں شایع ہوا۔ وہ ناول لے کر فیروز سنز چلا گیا۔ ہاتھ میں ایک اور ناول ''آستین کا سانپ'' کا مسودہ تھا۔ انہوں نے پیکٹ کا راز دیکھا، آستین کا سانپ پڑھ کر اسے شایع کرنا منظور کرلیا اور اس کے 300 روپے دیے۔ پھر حیران ہونا پڑا۔
تیسرا ناول شیشے کا بکس لکھا، شیخ غلام علی اینڈ سنز کے پاس لے گیا۔ انہوں نے پڑھا اور شایع کرنا منظور کرلیا۔ اس کے 300 روپے دیے ساتھ ہی کہا:
''اور ناول لکھ لائیں''
اب آپ ہی بتائیں، حیران نہ ہوتا تو کیا کرتا۔ انہوں نے اوپر تلے بارہ ناول لکھوائے۔ اور فیروز سنز نے بھی دو تین اور ناول خرید لیے۔ لیکن ایک اور بڑی حیرت میری منتظر تھی۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز کے منیجر نے پیغام بھیج کر بلوایا اور کہنے لگے:
''ہم آپ کو اپنے رسالے ماہ نامہ ''جگنو'' کا مدیر رکھنا چاہتے ہیں۔''
مجھ پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ میں نے جواب دیا۔
'مجھے یہ کام نہیں آتا، میں کیا جانوں مدیر کا کیا کام ہوتا ہے۔''
وہ نہ مانے، کہنے لگے۔ ہم آپ کو بتاتے رہیں گے، بس آپ منظور کرلیں، میں نے کہا، اچھی بات ہے۔ تن خواہ کیا ہوگی؟ میں نے پوچھا تو کہنے لگے۔
''دو سو روپے ماہ وار۔ آپ شام کو آجایا کریں۔ دن میں تو آپ کارپوریشن میں بھی ہوتے ہیں نا۔ تن خواہ اگرچہ بہت کم تھی، لیکن کوئی اعتراض نہ کیا، پھر انہوں نے مدیر کے طور پر مجھ سے کام لیا۔ اس دوران کہانیوں کی دو سو کے قریب کتابیں بھی لکھوائیں۔ یہ چھوٹے سائز کی تھیں۔ ایک روز نہ جانے کیا ہوا۔ ملک رب نواز صاحب نے بلوایا اور کہنے لگے۔
''آپ جگنو کا کام ٹھیک سے نہیں چلا رہے، اپنا حساب لے لیں، آپ آج سے فارغ۔۔''
بہت حیرت ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بات یہ نہیں تھی، بلکہ انہیں ایک بہت پڑھا لکھا مدیر مل گیا تھا، سو انہوں نے مجھے فارغ کردیا۔ میں ان دنوں میونسپل کارپوریشن کی ملازمت بھی چھوڑ چکا تھا۔ وہاں رشوت کا دور دورہ تھا اور میں نے متنفر ہوکر ملازمت سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ ادھر ملازمت چھوڑی، ادھر شیخ غلام علی اینڈ سنز سے جواب مل گیا۔ میں گھبرا گیا کہ یہ اچانک کیا ہوا۔ پریشانی کے عالم میں فیروز سنز کے دفتر گیا۔ سعید لخت صاحب سے کہا:
''میں ان دنوں بے کار ہوں۔ کوئی ناول لکھوالیں''
کہنے لگے :
''ٹھیک ہے، چار ناولوں کی ایک سیریز لکھ لائیں''
کچھ تسلی ہوئی۔ ایک ماہ لگا کر چار ناولوں کی سیریز لکھ دی۔ نام تھا ''بشوما اور سرخ تیر'' وہ لے کر گیا تو انہوں نے نئی سنائی۔ کہنے لگے۔
''ڈائریکٹر صاحب ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا''
بہت پریشان ہوا۔ پریشانی کا یہ دور تقریباً ایک سال تک جاری رہا۔ ایک دن بہت گھبرایا۔ تمام دن کام تلاش کرکے گھر آیا تو تھکن سے چور تھا اور دل گویا رو رہا تھا۔ بس جی میں نہ جانے کیا آئی۔ وضو کیا، دو رکعت ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔ یوں گویا ہوا۔
''میرے مالک: آپ کا تو وعدہ ہے، جو شخص حرام روزی چھوڑتا ہے، آپ اسے حلال راستے سے اس سے زیادہ عطا کرتے ہیں، جب کہ میرا حال یہ ہے کہ ملازمت چھوڑی تو ساتھ ہی شیخ غلام علی اینڈ سنز نے فارغ کردیا۔ آپ اپنا وعدہ پورا کریں نا۔''
یہ الفاظ میں نے بالکل ایسے انداز میں کہے جیسے سامنے بیٹھے کسی شخص سے کہے ہوں۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور ابھی دعا ختم نہیں کی تھی کہ میری نظر کمرے کے فرش پر پڑے ایک تہہ کیے ہوئے کاغذ پر پڑی۔ وہ کمرہ میں نے کرائے پر لے رکھا تھا اور جب کہیں جاتا تھا تو تالا لگا کر جاتا تھا۔ پہلے تو میں نے اس کاغذ پر توجہ نہ دی۔ پھر سوچا۔ دیکھوں تو سہی، یہ ہے کیا۔ اٹھا کر اس کی تہہ کھولی تو شیخ غلام علی اینڈ سنز کے منیجر ملک رب نواز کا رقعہ تھا۔ انہوں نے لکھا تھا۔
''آپ سے ضروری کام ہے، فوراً ملیں''
میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا۔ دوسرے دن صبح ان سے ملا تو کہنے لگے۔
''آپ ہمیں انسپکٹر جمشید سیریز کے بارہ ناول لکھ کر دے دیں اور جگنو کی ادارت پھر سے سنبھال لیں۔''
میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا اور اللہ تعالیٰ سے کہا:
''باری تعالیٰ آپ کا وعدہ سچا ہے۔''
اور یہیں سے میرے ناولوں کے دور کا آغاز ہوا۔ یہاں تک کہ اپنا پبلشنگ کا ادارہ قائم کرنے کے قابل ہوا۔
زندگی میں مجھے حیرت کا قدم قدم پر سامنا ہوا ہے۔ پہلی کہانی لکھی اور چَھپ گئی۔ دوسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ تیسری کہانی لکھی، وہ بھی چھپ گئی۔ اب میں حیران نہ ہوتا تو کیا کرتا۔ اس طرح میرا اور حیرت کا چولی دامن کا ساتھ ہوگیا اور یہ ساتھ روز بروز پختہ ہوتا گیا۔ انہی دنوں میونسپل کارپوریشن میں ملازمت مل گئی، لیکن تن خواہ صرف 100 روپے تھی۔