چین کی آبادی میں صنفی عدم توازنایک کی بجائے دو بچے پیدا کرنے کی پالیسی اپنانے پرغور

چند برسوں میں عالمی ورک فورس کا ہر چوتھا رکن چینی ہوگا؟

فوٹو: فائل

چین میں آج بھی ایک خاندان کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت ہے اگر کسی خاندان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو جائے تو اُس خاندان کو نہ صرف سرکاری سطح پر متعدد سہولتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے بل کہ والدین کو بچوں کی پرورش کا بوجھ بھی خود اٹھانا پڑتا ہے، اس کے علاوہ خاندان کو سرکار کے بھاری جرمانوں کا بھگتان بھی بھگتنا پڑتا ہے۔

گزشتہ بتیس سال سے چینی عوام اِس پالیسی کے تحت سخت ذہنی خلفشار اور دبائو کا شکار نظر آ رہی تھی لیکن چینی عوام نے اِس سخت پالیسی پر جس حوصلے کے ساتھ عمل درآمد کیا اور آبادی میں اضافے کی شرح کو جس احسن طریقے اور مقررہ اہداف کے مطابق کنٹرول کیا اس کی تعریف نہ کرنا بھی بخل ہوگا۔ چینی عوام کی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پر پھیلی اِس ''تپسیا'' کے بعد اب چین کے پالیسی سازوں نے انہیں تھوڑی سی کشادگی دینے کی پالیسی اپنانے کا ارادہ کیا ہے۔ وہ یہ فیصلہ کرنے جا رہے ہیں کہ اِس کڑی شرط کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور سال 2015 تک ایک کے بجائے دو بچوں کی پالیسی کو فروغ دیا جائے۔

یہ فیصلہ خبر بن کر جب چینی میڈیا کی زینت بنا تو چینی عوام نے اِس کو ایک خوش گوار تبدیلی کے طور پر لیا۔ اطلاعات کے مطابق چینی پالیسی سازوں نے اپنے رہ نمائوں کو اپنی سفارشات کے ذریعے یہ باور کرانا شروع کردیا ہے کہ ایک بچہ پیدا کرنے کی سرکاری پالیسی عوامی سطح پر خاصی غیر مقبول ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود یہ پالیسی مسلسل جاری ہے جس کی وجہ سے عوامی سطح پر خاصی گھٹن اور دبائو محسوس کیا جا رہا ہے اگر اس کی جگہ ''ایک خاندان اور دو بچوں'' کی نئی پالیسی کو بہ تدریج نافذ کر دیا جائے تو عوامی سطح پر اس کو بڑے پیمانے پر سراہا جائے گا۔

اِس ضمن میں چین کے بعض ماہرین آبادی (ڈیموگرافرز) نے تجویز دی ہے کہ اِس پالیسی کو فوری طور پر نافذ کرنے کے بجائے اِس کو پہلے ''چائنا ڈویلپمنٹ ریسرچ فائونڈیشن'' کو بھجوایا جائے تاکہ وہ اس کے اندر پائے جانے والے سُقم کی نشان دہی کر سکے، بعد ازاں اس پالیسی کو قومی رہ نمائوں کے پاس منظوری کے لیے بھجوایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ ماہرین نے اس امر سے بھی خبردار کیا ہے کہ دو بچوں پر مشتمل خاندان کے تصور کو بہ تدریج شروع کیا جانا چاہیے، ورنہ دو بچوں کی تازہ پالیسی بھی ناکام ہو جائے گی اور آبادی کے مسائل جوں کے توں رہیں گے جو پہلے ہی ایک بچے کی پیدائش پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے باوجود قائم ہیں۔

چائنا ڈیویلپمنٹ ریسرچ فائونڈیشن کے میڈیا آفیسر مسٹر ژئی مِنگ نے اِس ضمن میں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس پالیسی کا حتمی مسودہ 7 سے 15 نومبر تک جاری کر دیا جائے گا مگر چین کے سرکاری خبر رساں ادارے ''Xinhua'' نے اِس مسودے کی جو ایڈوانس کاپی حاصل کر رکھی تھی اس کے مطابق فائونڈیشن نے ایک کے بجائے دو بچوں کی پیدائش کے لیے صرف چند صوبوں کو ہی اجازت دینے کی سفارش کی ہے۔ عین ممکن ہے رواں سال ہی اس کی مکمل اجازت مل جائے اور 2015 تک پورے ملک میں ایک خاندان کو دو بچوں تک اولاد بڑھانے کی قانونی سطح پر اجازت بھی دے دی جائے۔

مسودے کے مطابق سال 2020 تک یہ بھی ممکن ہے کہ بچوںکی پیدائش سے متعلق تمام پابندیوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔ فائونڈیشن کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مسودے سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک بچے کی پیدائش کی پالیسی سے چین کو ماضی میں سیاسی اور سماجی سطح پر بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔ اِس پالیسی کے باعث سماجی تفاوت کے علاوہ بہت بڑے پیمانے پر خاندانی سطح پر انتظامی بدنظمی اور بالواسطہ طویل المعیاد صنفی عدم توازن بھی نمایاں ہو کر سامنے آ چکا ہے۔

چین کے پالیسی سازوں نے نئی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے اِس بات کا اقرار نہیں کیا کہ انہوں نے قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کی ہے بل کہ انہوں نے دوسرا موقف اختیار کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہماری پہلی پالیسی میں کچھ خرابیاں تھیں جس کی وجہ سے چین کی آبادی میں صنفی عدم توازن اُبھر آیا ہے۔ یہ موقف چینی پالیسی سازوں کا ہے لیکن دنیا کے بہت سے دیگر ماہرین آبادی اِس سے متفق نظر نہیں آتے، اُن کے مطابق دُنیا کی جس قوم نے بھی آبادی کو غیر فطری طریقوں سے کنٹرول کرنے کا سلسلہ شروع کیا وہاں صنفی عدم توازن کا پہلو ہمیشہ ابھر کر سامنے آیا، وہ اِس ضمن میں یورپ کے کئی ممالک سمیت جاپان کی بھی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

چین کے پالیسی سازوں کی تیار کردہ رپورٹ میں یہ بات ہرگز ظاہر نہیں کی گئی کہ پیش کی جانے والی سفارشات پر چین کے رہ نمائوں نے کیا ردعمل ظاہر کیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اِن سفارشات کو منظور کرنے کے حق میں ہیں یا اس کے خلاف ہیں۔ اِس رپورٹ پر ''چائنا نیشنل پاپولیشن اینڈ فیملی پلاننگ کمیشن'' نے بھی فوری طور پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا لیکن دوسری جانب پورے چین میں عوامی سطح پر اور ذرائع ابلاغ کے اندر جس جوش و خروش کے ساتھ نئی پالیسی کے نفاذ سے متعلق بحث مباحثہ شروع ہو چکا ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی عوام یہ چاہتے ہیں کہ چین کے خاندانوں کو اب ایک کے بجائے دو بچے پیدا کرنے اور پالنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

یاد رہے کہ چین کی ''ون چائلڈ'' پالیسی کے قواعد و ضوابط میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ حکومت صرف شہروں میں آباد شادی شدہ جوڑوں کو ہی زیادہ تر قانونی دائرہ کار میں لاتی ہے جب کہ دیہی علاقوں میں مقیم خاندانوں کو دوسرے بچے کی اجازت دے دیتی یا پھر اُن کے اِس کام سے صرفِ نظر کر جاتی ہے، خاص طور پرجن کا پہلا بچہ ''لڑکی'' ہوتا تھا۔

اِس پالیسی کے تحت بہت سے والدین اِس لیے بھی دبائو محسوس کرتے تھے کہ وہ خود بھی اپنے والدین کی واحد اولاد تھے۔ بہن بھائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو جس احساس محرومی سے گزرنا پڑا وہ ان کے مطابق ناقابل بیان ہے اس لیے وہ بچپن سے لے کر جوانی تک سہمے سہمے رہتے تھے اب وہ والدین بن کر مزید خوف زدہ ہو چکے تھے کہ اُن کا اکلوتا بچہ بھی اسی اذیت ناک احساسِ تنہائی کے دشت سے گزرے گا۔

نفسیات کے ماہرین بھی اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جن خاندانوں میں اکلوتی اولاد ہوتی ہے وہاں پر پرورش پانے والا بچہ، اُن بچوں سے جو دو یادو سے زیادہ ہوتے ہیں، زیادہ حساس، شرمیلا اور ڈرپوک ہوتا ہے۔ ایسے بچوں میں اکثر و بیش تر تخلیقی صلاحیت کی بھی کمی ہوتی ہے اور وہ بڑے ہو کر زندگی کے اہم فیصلوں میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔


اس رپورٹ کے بارے میں یونی ورسٹی آف نارتھ کیرولینا، چیپل ہل کے اسسٹنٹ پروفسر کائی یانگ نے کہا ہے کہ یہ بہت ہی قابل ذکر مسودہ ہے کیوں کہ اِس میں جو مواد شامل کیا گیا ہے وہ ایک طے شدہ وقت کی تفصیلات کا احاطہ کرتا ہے، جس سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ ''ون چائلڈ'' پالیسی کو بدلنے کی اشد ضرورت کیوں ہے۔ میں اس مسودہ کی تیاری میںخود شریک نہیں ہوا مگر اِس کو تیار کرنے والے متعدد ماہرین کو میں اچھی طرح سے جانتا ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک بچے کی پیدائش کے حوالے سے جو بے چینی اور عوامی تحفظات موجودہ چینی رہ نمائوں کو ورثے میں ملے ہیں، ان کو حل کرنے کا وقت آ گیا ہے، عین ممکن ہے کہ ورثے میں ملنے والی مسائل کی یہ گٹھری موجودہ چینی صدر ہائوجن تائو اور وزیراعظم وین جیا بائو کی ساکھ کو مزید بہتر بنانے کی ایک وجہ بن پائے، اگر چینی رہ نما اِس نئی پالیسی کی منظوری دے دیتے ہیں تو یقیناً یہ ایک مثبت اور اہم فیصلہ ہو گا کیوں کہ چینی عوام کی ایک بڑی اکثریت بالواسطہ یا بلاواسطہ اِس بات کی خواہش مند ہے کہ ایک کے بجائے دو بچے پیدا کرنے اور سرکاری سطح پر سہولتیں ملنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

دوسری جانب چینی ذرائع ابلاغ میں یہ توقعات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں کہ ایک بچے کی پیدائش سے متعلق پالیسی بہت جلد ختم ہونے والی ہے۔ اِن توقعات میں چینی عوام اور آبادی کے ماہرین بھی شامل ہو چکے ہیں۔ انٹرنیٹ پر چین کے اندر نئی پالیسی سے متعلق زور و شور کے ساتھ بحث ہو رہی ہے اور چینی شہری اِس پالیسی کے ہر پہلو پر بڑی باریک بینی سے اپنی آراء سامنے لا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چین میں ایک بچے سے متعلق پالیسی سال 1980 میں متعارف کرائی گئی تھی۔

عارضی بنیادوں پر شروع کی جانے والی اس پالیسی کو بعد ازاں مسلسل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ ملک کی تیزی سے بڑھی ہوتی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کو قابو میں رکھا جا سکے۔ اِس پالیسی کو جاری رکھنے کے حوالے سے ماضی کی حکومتوں کا یہ موقف خاصا جان دار نظر آتا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں لاکھوں خاندانوں کو جہاں غربت کی لکیر سے نیچے جانے سے بچایا گیا وہاں ملک کے کروڑوں بچوں کو بے گھر ہونے سے بھی محفوظ کر لیا گیا۔

گو اس پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کی وجہ سے چین میں جبری اسقاط حمل اور بھاری جرمانے کی سزائوں کا ذکر بھی سامنے آتا رہا ہے کہ کس طرح لوگوں نے جرمانوں سے بچنے کے لیے اور سہولتوں کو برقرار رکھنے کے لیے متعدد بار اپنی خواتین کو غیر قانونی طور پر اسقاط حمل کے مرحلے سے گزرنے دیا کیوں کہ ان کو یہ خوف لاحق ہوتا تھا کہ دوسرا بچہ ان سے نہ صرف ان کی ملازمت چھین لے گا بل کہ وہ غربت کے شکنجے میں بھی آ جائیں گے۔

اِس حوالے سے چین کے بہت سے ماہرین آبادی نے پرانی پالیسی کو بوسیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک بچے کی پیدائش کے قانون نے ملک کے شہریوں کو عمروں کے فرق کے بحران سے دوچار کردیا ہے، آج ملک میں کام کرنے والا نوجوان طبقہ مجموعی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہو چکا ہے۔ اِس کا فوری حل یہی ہے کہ جلد از جلد اتنے نومولود پیدا کیے جائیں جو آئندہ 15 سے 20 سال میں بوڑھے ہونے والے ورکروں کی جگہ لے سکیں۔

اِن ورکروں میں اعلی عہدوں پر کام کرنے والوں سے لے کر معمولی کام کرنے والے ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ بہ قول اُن کے ملکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ صنفی عدم توازن سے بھی دوچار ہو چکا ہے کیوں کہ ماضی میںکروڑوں خاندانوں نے اُس وقت اسقاط حمل کرایا جب ان کو معلوم ہوا کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکی ہے۔ اِس عمل کے باعث آج ملک میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد بہت حد تک کم ہو چکی ہے، یہ خاندان ایک بچے اور واحد اولاد نرینہ کے لیے متعدد بار اسقاط حمل کے عمل سے گزر چکے ہیں۔

چین کے ماہرین آبادی نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ موجودہ دور میں پیدائش کے عمل پر اب پابندیاں قابل عمل نہیں رہیں گو دنیا میں بہت سے ممالک نے اپنے ہی شہریوںکو چھت، نوکری اور خوراک فراہم کرنے کے جھنجھٹ سے آزادی حاصل کر لی ہے۔ فلاحی ریاستوں کا تصور ختم ہوتا جا رہاہے اور عا لمی سطح پر خود کمائو، خود کھائو اور اپنی زندگی خود بنائو کا فلسفہ پذیرائی حاصل کر رہا ہے لیکن دوسری جانب اب چین کی 30 سالہ پرانی معاشی منصوبہ بندی بھی اپنے کئی ایک اہم اہداف حاصل کرنے کے بعد اس نہج پر پہنچ گئی ہے جہاں اب ایک چھوٹا چینی دکان دار بھی آن لائن ٹیکسٹائل بزنس میں مصروف نظر آ رہا ہے اور اب اس کی درجنوں دکانیں کام یابی سے چل رہی ہیں۔ یہ اس بات کی نشان دہی ہے کہ ہمارے شہری معاشی خود کفالت کی منزل حاصل کر رہے ہیں۔

چینی پروفیسر وانگ بائی کے مطابق اب ہمیںآنے والے دور کی پلاننگ کرنا ہو گی تاکہ ملکی آبادی کو مستقبل کے ثمرات سے مستفید کیا جا سکے اسی لیے آج اس موضوع پر نہ صرف سرکاری میڈیا پر بحث ہو رہی ہے بل کہ انٹرنیٹ کے ذریعے عام شہری سے لے کر پالیسی ساز بھی اپنی اپنی آراء سے ایک دوسرے کو نواز رہے ہیں اور یوں اس پالیسی سے متعلق ہر پہلو پر بھرپور روشنی پڑ رہی ہے۔

نئی پالیسی کے حوالے سے آئندہ چند دن میں (7 سے 15 نومبر تک) اہم پیش رفت متوقع ہے۔ اگر چین کے اعلیٰ سطح کے رہ نمائوں نے اِس پالیسی کو منظور کر لیا تو یہ اِس بات کی بھی نشان دہی ہو گی کہ چینی معیشت اب اِس قابل ہو گئی ہے کہ وہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خود کفالت کی سہولت فراہم کر سکے گی، اگر ایسا ہوتا ہے تو دنیا کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کہ جس طرح چین کی مصنوعات آج پوری دنیا پر راج کر رہی ہیں، آنے والے دنوں میں عالمی سطح پر کام کرنے والی فورس کے اندر ہر چوتھا شخص چینی ہو گا۔

چین کی طرف سے اِس پالیسی کے اجراء کی خبروں کے بعد یورپی ماہرین آبادی نے فوری طور پر کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی اُن کی طرف سے کوئی تجزیہ یا رپورٹ سامنے آئی ہے، ہو سکتا ہے کہ منظوری ملنے کے بعد یہ ماہرین اپنی آراء کو سامنے لائیں۔ البتہ امریکن اور یورپی ذرائع ابلاغ نے چین کی ون چائلڈ پالیسی کے خاتمے کی خبروں کو اپنی اشاعت میں نمایاں جگہ دی ہے۔
Load Next Story