ایک ہزار کا نوٹ

کسی میدان میں لگے بازار میں وہ خاتون اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ شاپنگ میں مصروف تھیں

shehla_ajaz@yahoo.com

JUBAIL, SAUDI ARABIA:
کسی میدان میں لگے بازار میں وہ خاتون اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ شاپنگ میں مصروف تھیں، کسی اسٹال پر انھیں بچوں کے لیے کلپس پسند آ گئے، انھوں نے کچھ چیزیں خریدیں اور ہزار کا نوٹ دکاندار کو پکڑایا، اتنے میں ان کی ایک بچی کو کلپ کی ایک جوڑی پسند آ گئی، اس نے وہ اٹھالی، دکاندار نے کہا اور کیا چاہیے۔ خاتون نے ادھر ادھر پھر کچھ چیزیں کھنگالیں، کچھ پسند نہ آیا تو کہنے لگیں بس مجھے اب پیسے واپس کر دو۔

پیسے... کیسے پیسے بی بی! آپ نے مجھے پیسے دیے ہی کب ہیں؟ یہ جواب سن کر خاتون ہکا بکا رہ گئیں۔ ارے میں نے تمہیں ابھی ہزار کا نوٹ پکڑایا ہے، دیکھو تم نے اپنے غلک میں ڈالا ہو گا۔ یہ دیکھیے غلک۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی لکڑی کی چھوٹی سی صندوقچی کا ڈھکنا کھولا جو خالی خاتون کا منہ چڑا رہی تھی۔ خاتون کچھ پریشان ہوئیں لیکن انھیں علم تھا کہ پیسے انھوں نے اسے ہی دیے ہیں، کیونکہ اس ہزار کے نوٹ کے سوا ان کے پاس چھوٹے نوٹ تھے۔ بی بی! آپ خود چیک کریں، آپ نے مجھے پیسے دیے ہی نہیں۔ دکاندار بڑے اطمینان سے بولا۔ تم اپنے پرس میں دیکھو۔ میں نے خود تمہیں دیے ہیں۔ میرے پاس صرف ایک ہی ہزار کا نوٹ تھا اور دیکھو یہ دس بیس کے نوٹ ہیں۔

خاتون نے اس کے سامنے اپنا پرس کھنگالا۔ او بی بی! میرے پرس میں تو بہت سے ہزار کے نوٹ ہیں۔ وہ اپنی تلاشی سے صاف عہدہ برآ ہو گیا۔ خاتون کا ماتھا ٹھنکا کہ بات ایسے نہیں بنے گی۔ انھوں نے ذرا تیز آواز میں کہا۔ دیتے ہو میرے پیسے واپس یا ابھی یہ تمہاری ساری چیزیں اٹھا کر لے جاؤں گی۔ یہ کہہ کر انھوں نے تیز تیز بولنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر برابر والے اسٹال سے آدمی اٹھ کر آیا اور بولا۔ ابے یار! دے بھی دے، کیوں خوامخوا شور کر رہا ہے۔ دیکھو بی بی! یہ زیادتی ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے۔ بات بگڑ تی دیکھ کر وہ دکاندار معصوم بن گیا۔ ہاں ہاں مجھے بھی پتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے سیدھی طرح سے میرے پیسے نکالو۔ خاتون کی دھمکی اثر کر گئی اور دکاندار نے ان کے پیسے واپس کر دیے۔

یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات ان دنوں مختلف بازاروں اور شاپنگ مالز میں ہو رہے ہیں، دکاندار خواتین کی مصروفیات، گھبراہٹ اور شرمیلے پن کا فائدہ اٹھا کر ہزار کے نوٹ کو پانچ سو یا پانچ ہزار کے نوٹ کو بیس کا نوٹ ثابت کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ اس طرح کے واقعات آج کل ہی کیوں ہو رہے ہیں اور یہ ہمارے معمول میں کیسے شامل ہو رہے ہیں۔


ایک خاتون جو اس طرح دکانداروں کی چالاکیوں کو اچھی طرح سمجھ چکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ دکاندار جان بوجھ کر پوچھتے ہیں کہ آپ نے کتنے کا نوٹ دیا تھا، پہلے میں بھی کنفیوز ہو جاتی تھی پھر میں نے تجرباتی طور پر پانچ سو کا نوٹ دیا اور دکاندار کے پوچھنے پر اسے ہزار کا بتایا، جس پر دکاندار نہایت اچھی اداکاری کرتے ہوئے سوچنے کے سے انداز میں بولا کہ آپ نے ہزار نہیں بلکہ شاید پانچ سو کا نوٹ دیا تھا، مجھے یاد آ رہا ہے۔ جب آپ کو یاد ہے تو آپ مجھے گڑبڑانے کے لیے کیوں پوچھ رہے ہیں، جواب میں دکاندار کھسیانا ہو کر کان کھجاتا چلاگیا۔

یہ واقعات آج کل بہت ہو رہے ہیں۔ میں خود بڑے بڑے شاپنگ مالز میں اس طرح لٹ چکی ہوں لیکن سمجھدار ہو گئی ہوں، شاید آج کل مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ انسانوں کے دلوں سے بچا کچھا ایمان بھی ان ہزار پانچ سو کے چکر میں رخصت ہو گیا ہے۔ یہ تو ایک گھریلو خاتون کا کہنا تھا، آپ آج کل اور اس سے پہلے کے اخبارات نکال کر دیکھیے۔ آپ کو اپنے سیاستدانوں سے لے کر عام لوگوں تک کی گفتگو اور خبروں میں کچھ اسی قسم کی سرخیاں نظر آئیں گی مثلاً فلاں فلاں... عوام کو حساب دو... وفاق ہماری بجلی چوری کر رہا ہے، جب سے پیدا ہوئے ہیں انھوں نے حلال کا ایک لقمہ بھی نہیں کھایا... فلاں فلاں آپ اپنے اثاثے عوام کے سامنے لائیں... یہاں تک کہ مرحوم عبدالستار ایدھی کو بھی نہیں چھوڑا گیا تھا، ان تک سے ان کے اثاثوں کی بابت اتنے سوال جواب ہوئے تھے کہ انھوں نے بھی فوراً سب کچھ عوام کے سامنے عیاں کر دیا تھا۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ جب عوام جس بخار میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس کا اثر کہیں اور سے نہیں عوام کے اوپر کی سطح کے لوگوں سے اتر کر عوام میں سرائیت کرتا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ جیسے عوام ہوتے ہیں اس کے لیے ویسا ہی نسخہ اوپر والے کی جانب سے لکھ دیا جاتا ہے۔ یقیناً ہم پیدائشی طور پر پاک ہی پیدا ہوتے ہیں لیکن پھر مہنگائی، غربت، کرپشن کا رونا دھونا کر کے خود آہستہ آہستہ میٹھے پانی کے دریا سے باطل کی دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ یہ میٹھا پانی میرے اور آپ کے گھر کے اندر اس کے اردگرد جہاں تک آپ چاہیں پھیل سکتا ہے، بس اس کی مٹھاس کو محسوس کرنے کی دیر ہے۔ بے ایمانی اور بے انصافی میں بے چینی، اضطراب اور خوف ہے جب کہ ایمان اور انصاف میں سکون، چین اور بے خوفی ہے یہ کام بہت آسان ہے لیکن اس کے لیے پہل اپنے آپ سے ہی کرنا پڑتی ہے۔

آپ نے اخبارات میں اکثر خودکشی کی خبروں کے ساتھ پڑھا ہو گا کہ گھریلو ناچاقی، محبت میں ناکامی، ناانصافی اور بے عزتی کے ٹکڑے جڑے ہوتے ہیں، ایک بڑے عالم دین کے مطابق ''لوگ اسلامی تعلیمات سے دور ہو کر مایوسی میں مبتلا ہو جاتے ہیں، تقویٰ کو خیرباد کہہ دیتے ہیں، یہ ہمارے کمزور ایمان کی نشانی ہے جب تک ہم اسلام کی اس کو مضبوطی سے نہیں تھامیں گے ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے رہیں گے۔''

اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ دراصل یہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا متوازن فارمولا ہے جس پر عمل کر کے نہ ہم اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی سکون اور چین فراہم کر سکتے ہیں لیکن نجانے کیوں اسے قدامت پرستی اور شدت پسندی کے غلاف میں ملفوف کر کے ایسے پیش کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کے فارمولے کو ملا کی دوڑ مسجد تک ہی محدود رکھتے ہیں۔
Load Next Story