منشیات کیس بھارت کو ریل سے سیمنٹ کی برآمد معطل
ناکافی سیکیورٹی انتظامات کے باعث مینوفیکچررز کا ٹرکوں پر انحصار، برآمد کم ہوگئی
منشیات کی اسمگلنگ روکنے کیلیے سیکیورٹی کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے سیمنٹ مینوفیکچررز نے ریلوے ویگنوں کے ذریعے بھارت کو سیمنٹ کی برآمدات مکمل طور پرروک دی ہیں۔
ذرائع کے مطابق سیمنٹ مینوفیکچررز نے صرف ٹرکوں کے ذریعے برآمدات جاری رکھنے کو ترجیح دے رکھی ہے جو سرحد پار کرنے تک ان کے قابو میں ہوتے ہیںلیکن بھارت کی طرف سے کم تعداد میں ٹرک وصول کرنے کے باعث سیمنٹ برآمدات بہت کم ہو گئی ہیں، اکتوبر 2012 میں پاکستان کی سیمنٹ برآمدات میں 5.87 فیصد کم آئی تھی جس کی بڑی وجہ بھارت کو سیمنٹ کی برآمدات میں 37.5 فیصد کمی تھی، اس صورتحال میں سیمنٹ مینوفیکچررز کا ریلوے کو سیمنٹ کی ترسیلات کے لیے استعمال نہ کرنا برآمدات کو مزید دھچکا پہنچائے گا۔
ذرائع نے کہا کہ سڑک اور ریل کے ذریعے ترسیلات کھلنے سے یہ توقع تھی کہ سیمنٹ انڈسٹری 5 ملین ٹن سیمنٹ بھارت کو برآمد کر سکے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا، منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات اور مزید نان ٹیرف بندشوں کے باعث پاکستانی سیمنٹ انڈسٹری کیلیے بھارت کو سیمنٹ برآمد کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے، گزشتہ 4 ماہ کے دوران واہگہ سے بھارت پاکستانی برآمدات لے جانے والی ریل گاڑیوں میں سے بعض مرتبہ منشیات برآمد کی گئیں جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت متاثر ہوئی، یہ عمل دونوں ممالک کے دوران تجارتی آزادی کے عمل کو پٹری سے اتار سکتا ہے۔
بھارتی کسٹمز نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں امرتسر ریلوے اسٹیشن پر پاکستانی مال گاڑی کی ویگن نمبر 66938 سے سیمنٹ اتارنے کے دوران 105 کلو گرام ہیروئن پکڑی تھی، اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی سرحد کے اندر اٹاری پہنچنے پر ویگن کی سیل اچھی طرح لگی ہوئی تھی تاہم یہ سیل امرتسر پہنچنے کے بعد توڑی گئی، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیل بھارتی علاقے میں توڑی گئی، بھارتی افسران اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔سیمنٹ مینوفیکچررز نے اس برائی کے خاتمے کیلیے کسٹمز اور ریلوے حکام سے سخت اقدامات کرنے کیلیے رابطہ کیا تھا۔
ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز لاہور ریجن نے مینوفیکچررز کو یقینی دہانی کرائی تھی کہ کسٹمز، منشیات کے سیمنٹ کے کنسائنمنٹس میں شامل ہونے کے امکانات ختم کرنے کیلیے اقدامات کرے گا تاہم انہوں نے کہا تھا کہ امرتسر میں پکڑی جانے والی 105 کلو گرام ہیروئن کی ذمے داری پاکستان اہل کاروں پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ جس ویگن سے یہ منشیات برآمد ہوئیں اسے سرحد پار کرنے کے بعد سیل کیا گیا تھا، یہ سیل بھارتی سرحد کے اندر توڑی گئی جہاں اس کی ذمے داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔
سیمنٹ مینوفیکچررز کی تنظیم اے پی سی ایم اے کے ترجمان نے کہا ہے کہ چونکہ ان واقعات نے پاکستان کی سیمنٹ برآمدات کو شدید متاثر کیا ہے لہٰذا پاکستان کسٹمز اور پاکستان ریلوے حکام نے واہگہ کے ذریعے ممکنہ طور بھارت جانے والی منشیات کے خاتمے کیلیے نگرانی میں اضافے کرنے اور مزید سخت اقدامات کرنے پر اتفاق کیا تھا تاہم سیمنٹ مینوفیکچررز کو معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں کسٹمز اور ریلوے مناسب حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں، جب کبھی سیمنٹ کی کھیپ میں منشیات پائی گئی تو بھارتی حکام نے درآمدکنندگان سے پوچھ گچھ کی جس کی وجہ سے مینوفیکچررز کو بھارتی درآمدکنندگان سے کافی عرصے تک سیمنٹ کے آرڈر نہیں دیے گئے۔
ایک برآمد کنندہ نے اپنی شناخت نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ پاکستانی حکام نے اجلاس کے فوری بعد کچھ اقدامات کیے تھے لیکن شاید عملے کی کمی کی وجہ سے کچھ عرصے بعد یہ انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری سیمنٹ برآمدات کو معطلی کے خطرے سے دوچارکرنے کے بجائے سیمنٹ برآمدکنندگان نے صرف ٹرکوں کے ذریعے برآمدات کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق سیمنٹ مینوفیکچررز نے صرف ٹرکوں کے ذریعے برآمدات جاری رکھنے کو ترجیح دے رکھی ہے جو سرحد پار کرنے تک ان کے قابو میں ہوتے ہیںلیکن بھارت کی طرف سے کم تعداد میں ٹرک وصول کرنے کے باعث سیمنٹ برآمدات بہت کم ہو گئی ہیں، اکتوبر 2012 میں پاکستان کی سیمنٹ برآمدات میں 5.87 فیصد کم آئی تھی جس کی بڑی وجہ بھارت کو سیمنٹ کی برآمدات میں 37.5 فیصد کمی تھی، اس صورتحال میں سیمنٹ مینوفیکچررز کا ریلوے کو سیمنٹ کی ترسیلات کے لیے استعمال نہ کرنا برآمدات کو مزید دھچکا پہنچائے گا۔
ذرائع نے کہا کہ سڑک اور ریل کے ذریعے ترسیلات کھلنے سے یہ توقع تھی کہ سیمنٹ انڈسٹری 5 ملین ٹن سیمنٹ بھارت کو برآمد کر سکے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا، منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات اور مزید نان ٹیرف بندشوں کے باعث پاکستانی سیمنٹ انڈسٹری کیلیے بھارت کو سیمنٹ برآمد کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے، گزشتہ 4 ماہ کے دوران واہگہ سے بھارت پاکستانی برآمدات لے جانے والی ریل گاڑیوں میں سے بعض مرتبہ منشیات برآمد کی گئیں جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت متاثر ہوئی، یہ عمل دونوں ممالک کے دوران تجارتی آزادی کے عمل کو پٹری سے اتار سکتا ہے۔
بھارتی کسٹمز نے اکتوبر کے پہلے ہفتے میں امرتسر ریلوے اسٹیشن پر پاکستانی مال گاڑی کی ویگن نمبر 66938 سے سیمنٹ اتارنے کے دوران 105 کلو گرام ہیروئن پکڑی تھی، اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی سرحد کے اندر اٹاری پہنچنے پر ویگن کی سیل اچھی طرح لگی ہوئی تھی تاہم یہ سیل امرتسر پہنچنے کے بعد توڑی گئی، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیل بھارتی علاقے میں توڑی گئی، بھارتی افسران اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔سیمنٹ مینوفیکچررز نے اس برائی کے خاتمے کیلیے کسٹمز اور ریلوے حکام سے سخت اقدامات کرنے کیلیے رابطہ کیا تھا۔
ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز لاہور ریجن نے مینوفیکچررز کو یقینی دہانی کرائی تھی کہ کسٹمز، منشیات کے سیمنٹ کے کنسائنمنٹس میں شامل ہونے کے امکانات ختم کرنے کیلیے اقدامات کرے گا تاہم انہوں نے کہا تھا کہ امرتسر میں پکڑی جانے والی 105 کلو گرام ہیروئن کی ذمے داری پاکستان اہل کاروں پر نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ جس ویگن سے یہ منشیات برآمد ہوئیں اسے سرحد پار کرنے کے بعد سیل کیا گیا تھا، یہ سیل بھارتی سرحد کے اندر توڑی گئی جہاں اس کی ذمے داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔
سیمنٹ مینوفیکچررز کی تنظیم اے پی سی ایم اے کے ترجمان نے کہا ہے کہ چونکہ ان واقعات نے پاکستان کی سیمنٹ برآمدات کو شدید متاثر کیا ہے لہٰذا پاکستان کسٹمز اور پاکستان ریلوے حکام نے واہگہ کے ذریعے ممکنہ طور بھارت جانے والی منشیات کے خاتمے کیلیے نگرانی میں اضافے کرنے اور مزید سخت اقدامات کرنے پر اتفاق کیا تھا تاہم سیمنٹ مینوفیکچررز کو معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں کسٹمز اور ریلوے مناسب حفاظتی اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں، جب کبھی سیمنٹ کی کھیپ میں منشیات پائی گئی تو بھارتی حکام نے درآمدکنندگان سے پوچھ گچھ کی جس کی وجہ سے مینوفیکچررز کو بھارتی درآمدکنندگان سے کافی عرصے تک سیمنٹ کے آرڈر نہیں دیے گئے۔
ایک برآمد کنندہ نے اپنی شناخت نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ پاکستانی حکام نے اجلاس کے فوری بعد کچھ اقدامات کیے تھے لیکن شاید عملے کی کمی کی وجہ سے کچھ عرصے بعد یہ انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری سیمنٹ برآمدات کو معطلی کے خطرے سے دوچارکرنے کے بجائے سیمنٹ برآمدکنندگان نے صرف ٹرکوں کے ذریعے برآمدات کا فیصلہ کیا ہے۔