دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں۔۔۔
خلق خدا سے بے لوث محبت کریں پھر ہم دیکھیں گے کہ رحمت خداوندی ہمارے چہار جانب آموجود ہوگی۔
آقائے نام دار حضور سید المرسلین ﷺ کا یہ فرمان ذی شان کہ '' دعا عبادت کا مغز ہے'' ایک ایسی حکمت سے پُر اور آفتاب سے بھی روشن تر حقیقت ہے جو تخلیقِ آدم کے وقت سے اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔
اگرچہ تمام کی تمام کی عبادات بالخصوص نماز کی ادائی مکمل طور پر دعا کے زمرے میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ رکوع و سجود اور اقامت وغیرہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ لیکن اگر حقائق کا بہ نظر عمیق جائزہ لیا جائے تو اس وقت تک ایک عبادت گزار کے ضمیر کو واضح تسکین حاصل نہیں ہوتی جب تک وہ نماز ادا کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر خالق کائنات اور مالک کُل کے حضور اپنے دل کی بے قرار آرزوؤں کا خلاصہ پیش نہ کر دے۔ اگر دل سوز یقین سے لبریز ہو، آنکھوں میں صدق و صفا کی نمی ہو تو اپنے آقا کے حضور انسان کے اٹھے ہوئے ہاتھ ایک ناقابل بیان لذت محسوس کرتے ہیں۔
اگر حسن اتفاق سے سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کی دولت سے آشنائی ہوجائے اور ساتھ میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز کوئی ایسا گوشہ میسر آجائے جہاں تماشا گاہ زیست کے جھمیلوں کا گزر تک بھی نہ ہو تو یہ ماحول ایسی وجد آفریں لطافت محسوس کرتا ہے کہ یاد خدا سے سرشار ہاتھ اٹھے رہنے میں ہی زندگی محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر یہ وہ وقت ہوتا ہے جب موج نسیم بہار کی طرح رحمت پروردگار کے جاں بخش جھونکے قبولیت کی نوید جاں فزا لیے آموجود ہوتے ہیں۔ دعا مانگنے والا سائل روح میں ایک پاکیزہ بالیدگی محسوس کرنے لگتا ہے۔ قبولیت کا غیرمرئی سا احساس رگ و پے میں سرایت کرتا محسوس ہوتا ہے اور اگر دعا مانگتے وقت خوف خدا سے گوشہ ہائے چشم سے آنسو بھی ساتھ ڈھلک پڑیں تو یہ جاں فزا کیفیت سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے۔ بحر قبولیت کی طلاطم خیز موجیں خود بہ خود ایک دعاگو کو گرداب مشکلات سے نکال کر ساحل مراد سے ہم کنار کر دیتی ہیں اور بندہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔
اپنے خدا سے مانگے تھے رحمت کے چند پھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت دعاؤں کی عدم قبولیت کا رونا کیوں روتی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری بے قرار تمنائیں بارگاہ اﷲ رب العزت میں قبولیت کا شرف نہیں پا رہیں۔ اور پھر بالآخر ہم یاس و قنوطیت اور پژمردگی کے عالم میں اﷲ کی بے پایاں رحمت پر (معاذاﷲ) طعنہ زنی تک پہنچ جاتے ہیں۔ ذرا جگر کو تھام کر اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا ہوگا اور پھر اپنا محاسبہ بھی کرنا ہوگا۔
یہ حقیقت کسی بھی شک و شبہے سے مکمل طور پر بالاتر ہے کہ ایک مسلمان کو کسی بھی شکل اور کسی بھی عالم میں اﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس ارشاد باری تعالیٰ سے انکار حدود کفر میں دھکیل دیتا ہے لیکن ہم نے کبھی سوچا کہ اس شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا آسان کام نہیں۔
کیا ہم نے کبھی ان حقائق کا صدق دل سے جائزہ لینے کی کوشش کی کہ اقرار توحید و رسالت ﷺ کے بعد ہم پر جن قوانین و ضوابط کا اطلاق ہوجاتا ہے ان سے ہم کس حد تک کماحقہ عہدہ برا ہوئے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی دل کی گہرائیوں سے اس تلخ حقیقت پر غور کیا کہ ہم محض وحی حق (قرآن) کی قرات و تلاوت کو ہی منزل مقصود سمجھ رہے ہیں (اگرچہ یہ بھی بہت بڑے ثواب کا کام ہے ) مگر اس کی روح کو عملاً سمجھنے سے گریز پا ہیں اس لیے کہ اگر ہم اس کا مقصد نزول جان لیں تو یہ ہمارے ان خود ساختہ تصورات کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے جن پر ہم نے اپنا قصر آرزو تعمیر کر رکھا ہے۔
ہم نے فقط ثناء خوانی مصطفی ﷺ کو ہی عبادت و سعادت سمجھ لیا ( جو یقینا ہے اور کوئی مسلمان اس سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا ) مگر سیرت و کردارِ مصطفی ﷺ پر عمل پیرا ہونے سے صریحاً روگردانی کے مرتکب ہوئے۔ ہم روزانہ اپنے دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانوں سے حظ اٹھاتے ہیں مگر ہمسائے کی اشتہا کو کبھی محسوس نہیں کرتے۔ ہم روزانہ فٹ پاتھوں پر بلکتی سسکتی زندگیوں کے قریب سے بے نیاز گذر جاتے ہیں لیکن ان کے برہنہ اجسام کو ڈھانپنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ ہم ذرا غور تو کریں جب رگ و پے سے بے حیائیاں بول رہی ہوں، غیرتیں دم توڑ رہی ہوں۔
ہمارا آبگینہ خودی اغیار کی شقاوت آمیز ٹھوکروں سے چکنا چور ہو رہا ہو اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہو جب واضح طور پر زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آتے جا رہے ہوں اور ہمیں اپنی دولت ایمان کے تحفظ کی فکر تک نہ ہو، شعائر اسلام کی سرعام اور بہ بانگ دہل تضحیک ہوتی ہو اور ہماری حمیت کو جنبش تک نہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا قبلہ اول متواتر یہود کی رعد و برق کے شعلوں کی لپیٹ میں ہو اور ہم فلسطینیوں کے سربریدہ اجسام پر اظہار افسوس تک نہ کر سکیں اور اب تو ہماری بے حسی کا جنازہ نکل چکا ہے کہ معاندین اسلام کی برق تپاں کی چنگاریاں وجۂ تخلیق و تسکین کائنات حضور سرور کائنات ﷺ کے مرقد پُر انوار ( جہاں صبح و شام لاتعداد ملائکہ عقیدتاً حاضری دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں) کے قریب گرنا شروع ہوگئی ہیں اور عالم اسلام خاموشی سے اغیار کی یہ جگر فگار اور سوقیانہ حرکت برداشت کر گیا۔
کیا خبر تھی کہ یہ ذلت کا دن بھی آنے والا ہے
خدا کا نام لے لے کر بتوں کی بندگی ہوگی
ہماری ان تمام تر مجرمانہ غفلتوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کے باوجود بھی گلہ اس بات کا ہو کہ ہماری دعائیں اﷲ کی بارگاہ میں شرف باریابی کیوں حاصل نہیں کرتیں ؟ یہ کہاں کی راست بازی ہے ؟ اگر ہم اپنی دعاؤں کی قبولیت کے خواہش مند ہیں اگر ہم تقرب الٰہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم تمازت آفتاب محشر میں حضور ﷺ کی زلف عنبریں کا سایہ چاہتے ہیں، اگر ہم دنیوی فلاح اور نجات اخروی کا سامان چاہتے ہیں تو یہ خالق کونین کے حضور دست دعا بلند کرنے سے ہی حاصل ہوگا اور دعا کی قبولیت کا واحد ذریعہ رزق حلال کے ساتھ ساتھ خوف خدا، خلق خدا سے بے لوث محبت، اسلام کی معاشرتی و اخلاقی اقدار کی سر بلندی کے لیے جاں فشانی سے محنت کرنا ہوگی۔
پھر ہم دیکھیں گے کہ رحمت خداوندی قوس قزح کے رنگوں کی طرح جھلملاتی ہوئی ہمارے چہار جانب آموجود ہوگی۔ گردش لیل و نہار رک رک کر ہمارے نغمۂ گداز کو سنا کرے گی۔ شبِ تار الست ہماری آہ سحر گاہی سے خوف کھانے لگے گی۔ ہماری جبین عقیدت کی ساری لکیروں سے قرب الٰہی کا تاثر ابھرے گا۔ اﷲ کی چشم عنایت بادلوں کی اوٹ سے جھانک جھانک کر مسکرایا کرے گی۔ اگر ہم اپنی دعاؤں اور سجدوں سے تزئین بام و در کرتے رہے تو نصرت الٰہی ہمارے دل کی دھڑکنوں میں شامل ہوجائے گی۔ وحشت و ہوس کے بگولے دعاؤں کے انوار سے لرز لرز جایا کریں گے مگر شرط یہ ہے کہ خشیت الٰہی ہماری فطرت اولین بن جائے۔ دست دعا اٹھے تو اس پر بے قرار آنسوؤں کا تسلسل بارش کی طرح گرتا نظر آئے
عطا پاشی خطا پوشی تیرا دستور ہے مولا
تجھے انسان کی توہین کب منظور ہے مولا
اگرچہ تمام کی تمام کی عبادات بالخصوص نماز کی ادائی مکمل طور پر دعا کے زمرے میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ رکوع و سجود اور اقامت وغیرہ پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ لیکن اگر حقائق کا بہ نظر عمیق جائزہ لیا جائے تو اس وقت تک ایک عبادت گزار کے ضمیر کو واضح تسکین حاصل نہیں ہوتی جب تک وہ نماز ادا کرنے کے بعد دونوں ہاتھ اٹھا کر خالق کائنات اور مالک کُل کے حضور اپنے دل کی بے قرار آرزوؤں کا خلاصہ پیش نہ کر دے۔ اگر دل سوز یقین سے لبریز ہو، آنکھوں میں صدق و صفا کی نمی ہو تو اپنے آقا کے حضور انسان کے اٹھے ہوئے ہاتھ ایک ناقابل بیان لذت محسوس کرتے ہیں۔
اگر حسن اتفاق سے سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کی دولت سے آشنائی ہوجائے اور ساتھ میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز کوئی ایسا گوشہ میسر آجائے جہاں تماشا گاہ زیست کے جھمیلوں کا گزر تک بھی نہ ہو تو یہ ماحول ایسی وجد آفریں لطافت محسوس کرتا ہے کہ یاد خدا سے سرشار ہاتھ اٹھے رہنے میں ہی زندگی محسوس کرتے ہیں۔ اور پھر یہ وہ وقت ہوتا ہے جب موج نسیم بہار کی طرح رحمت پروردگار کے جاں بخش جھونکے قبولیت کی نوید جاں فزا لیے آموجود ہوتے ہیں۔ دعا مانگنے والا سائل روح میں ایک پاکیزہ بالیدگی محسوس کرنے لگتا ہے۔ قبولیت کا غیرمرئی سا احساس رگ و پے میں سرایت کرتا محسوس ہوتا ہے اور اگر دعا مانگتے وقت خوف خدا سے گوشہ ہائے چشم سے آنسو بھی ساتھ ڈھلک پڑیں تو یہ جاں فزا کیفیت سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے۔ بحر قبولیت کی طلاطم خیز موجیں خود بہ خود ایک دعاگو کو گرداب مشکلات سے نکال کر ساحل مراد سے ہم کنار کر دیتی ہیں اور بندہ بے اختیار پکار اٹھتا ہے۔
اپنے خدا سے مانگے تھے رحمت کے چند پھول
سارا چمن دعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دیا
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت دعاؤں کی عدم قبولیت کا رونا کیوں روتی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری بے قرار تمنائیں بارگاہ اﷲ رب العزت میں قبولیت کا شرف نہیں پا رہیں۔ اور پھر بالآخر ہم یاس و قنوطیت اور پژمردگی کے عالم میں اﷲ کی بے پایاں رحمت پر (معاذاﷲ) طعنہ زنی تک پہنچ جاتے ہیں۔ ذرا جگر کو تھام کر اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا ہوگا اور پھر اپنا محاسبہ بھی کرنا ہوگا۔
یہ حقیقت کسی بھی شک و شبہے سے مکمل طور پر بالاتر ہے کہ ایک مسلمان کو کسی بھی شکل اور کسی بھی عالم میں اﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ اس ارشاد باری تعالیٰ سے انکار حدود کفر میں دھکیل دیتا ہے لیکن ہم نے کبھی سوچا کہ اس شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا آسان کام نہیں۔
کیا ہم نے کبھی ان حقائق کا صدق دل سے جائزہ لینے کی کوشش کی کہ اقرار توحید و رسالت ﷺ کے بعد ہم پر جن قوانین و ضوابط کا اطلاق ہوجاتا ہے ان سے ہم کس حد تک کماحقہ عہدہ برا ہوئے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی دل کی گہرائیوں سے اس تلخ حقیقت پر غور کیا کہ ہم محض وحی حق (قرآن) کی قرات و تلاوت کو ہی منزل مقصود سمجھ رہے ہیں (اگرچہ یہ بھی بہت بڑے ثواب کا کام ہے ) مگر اس کی روح کو عملاً سمجھنے سے گریز پا ہیں اس لیے کہ اگر ہم اس کا مقصد نزول جان لیں تو یہ ہمارے ان خود ساختہ تصورات کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے جن پر ہم نے اپنا قصر آرزو تعمیر کر رکھا ہے۔
ہم نے فقط ثناء خوانی مصطفی ﷺ کو ہی عبادت و سعادت سمجھ لیا ( جو یقینا ہے اور کوئی مسلمان اس سے انکار کی جرات نہیں کرسکتا ) مگر سیرت و کردارِ مصطفی ﷺ پر عمل پیرا ہونے سے صریحاً روگردانی کے مرتکب ہوئے۔ ہم روزانہ اپنے دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانوں سے حظ اٹھاتے ہیں مگر ہمسائے کی اشتہا کو کبھی محسوس نہیں کرتے۔ ہم روزانہ فٹ پاتھوں پر بلکتی سسکتی زندگیوں کے قریب سے بے نیاز گذر جاتے ہیں لیکن ان کے برہنہ اجسام کو ڈھانپنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ ہم ذرا غور تو کریں جب رگ و پے سے بے حیائیاں بول رہی ہوں، غیرتیں دم توڑ رہی ہوں۔
ہمارا آبگینہ خودی اغیار کی شقاوت آمیز ٹھوکروں سے چکنا چور ہو رہا ہو اور ہمیں اس کا احساس تک نہ ہو جب واضح طور پر زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن آتے جا رہے ہوں اور ہمیں اپنی دولت ایمان کے تحفظ کی فکر تک نہ ہو، شعائر اسلام کی سرعام اور بہ بانگ دہل تضحیک ہوتی ہو اور ہماری حمیت کو جنبش تک نہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارا قبلہ اول متواتر یہود کی رعد و برق کے شعلوں کی لپیٹ میں ہو اور ہم فلسطینیوں کے سربریدہ اجسام پر اظہار افسوس تک نہ کر سکیں اور اب تو ہماری بے حسی کا جنازہ نکل چکا ہے کہ معاندین اسلام کی برق تپاں کی چنگاریاں وجۂ تخلیق و تسکین کائنات حضور سرور کائنات ﷺ کے مرقد پُر انوار ( جہاں صبح و شام لاتعداد ملائکہ عقیدتاً حاضری دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں) کے قریب گرنا شروع ہوگئی ہیں اور عالم اسلام خاموشی سے اغیار کی یہ جگر فگار اور سوقیانہ حرکت برداشت کر گیا۔
کیا خبر تھی کہ یہ ذلت کا دن بھی آنے والا ہے
خدا کا نام لے لے کر بتوں کی بندگی ہوگی
ہماری ان تمام تر مجرمانہ غفلتوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کے باوجود بھی گلہ اس بات کا ہو کہ ہماری دعائیں اﷲ کی بارگاہ میں شرف باریابی کیوں حاصل نہیں کرتیں ؟ یہ کہاں کی راست بازی ہے ؟ اگر ہم اپنی دعاؤں کی قبولیت کے خواہش مند ہیں اگر ہم تقرب الٰہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم تمازت آفتاب محشر میں حضور ﷺ کی زلف عنبریں کا سایہ چاہتے ہیں، اگر ہم دنیوی فلاح اور نجات اخروی کا سامان چاہتے ہیں تو یہ خالق کونین کے حضور دست دعا بلند کرنے سے ہی حاصل ہوگا اور دعا کی قبولیت کا واحد ذریعہ رزق حلال کے ساتھ ساتھ خوف خدا، خلق خدا سے بے لوث محبت، اسلام کی معاشرتی و اخلاقی اقدار کی سر بلندی کے لیے جاں فشانی سے محنت کرنا ہوگی۔
پھر ہم دیکھیں گے کہ رحمت خداوندی قوس قزح کے رنگوں کی طرح جھلملاتی ہوئی ہمارے چہار جانب آموجود ہوگی۔ گردش لیل و نہار رک رک کر ہمارے نغمۂ گداز کو سنا کرے گی۔ شبِ تار الست ہماری آہ سحر گاہی سے خوف کھانے لگے گی۔ ہماری جبین عقیدت کی ساری لکیروں سے قرب الٰہی کا تاثر ابھرے گا۔ اﷲ کی چشم عنایت بادلوں کی اوٹ سے جھانک جھانک کر مسکرایا کرے گی۔ اگر ہم اپنی دعاؤں اور سجدوں سے تزئین بام و در کرتے رہے تو نصرت الٰہی ہمارے دل کی دھڑکنوں میں شامل ہوجائے گی۔ وحشت و ہوس کے بگولے دعاؤں کے انوار سے لرز لرز جایا کریں گے مگر شرط یہ ہے کہ خشیت الٰہی ہماری فطرت اولین بن جائے۔ دست دعا اٹھے تو اس پر بے قرار آنسوؤں کا تسلسل بارش کی طرح گرتا نظر آئے
عطا پاشی خطا پوشی تیرا دستور ہے مولا
تجھے انسان کی توہین کب منظور ہے مولا