شاید ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے
کسی کی آنکھ میں تیرتے آنسو تھے تو کوئی اس بے حس معاشرے کے ظلم پر سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا
SHABQADAR:
میڈیا کسی کی زندگی اس قدر مشکل اور خوفزدہ بھی بنا سکتا ہے، اس کا اندازہ دنیا میں بسنے والے شاید ہر سمجھ دار انسان کو ہو لیکن اس میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو کر مقبول ہونے والی قندیل بلوچ کو شاید نہیں تھا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کا یہ منہ زور گھوڑا پہلے تو اسے اپنے اوپر بٹھا کر سرپٹ دوڑتا رہا اور جہاں اس پر سوار قندیل بلوچ کو دن دوگنی رات چوگنی شہرت ملی' وہیں گھوڑے کو بھی اس کی تیز رفتاری کی داد ''ریٹنگ'' کی صورت میں مسلسل ملتی رہی۔ لیکن سوار کو اس کا اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ منہ زور گھوڑا ایک ایسی چال چلتا ہے کہ اس پر بیٹھی قندیل توازن کھو بیٹھی، گھوڑے نے نہ چال ہلکی کی اور نہ ہی اسے سنبھلنے کا موقع دیا۔
زمین پر پٹخا، اسے سموں تلے روندا، طاقت کے نشے میں ہنہنایا، ریٹنگ کی صورت داد وصول کی اور پھر کسی اور سوار کو اٹھائے ویسے ہی سرپٹ بھاگنے لگا۔ زخمی قندیل کو ابھی بھی امید تھی کہ میڈیا اسے دوبارہ سہارا دے کر بٹھا لے گا۔ لیکن میڈیا کو تو اس کی موت کا انتظار تھا۔ اس لیے کہ زندہ قندیل اب ایک چلا ہوا کارتوس تھی، اس سے جتنی ریٹنگ کمائی جا سکتی تھی وہ کما لی گئی۔
اب اس کے مزید سیکنڈلز میں جان ڈالنا آسان نہ تھا۔ لوگ ایسے سیکنڈلز میں پہلے سے بڑھ کر کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں اور جس حد تک میڈیا اسے لے جا چکا تھا اب اس سے زیادہ بڑھنا اس کے بس میں نہ تھا۔ کسی کو یقین تک نہ تھا کہ انھیں اچانک اتنی بڑی خبر مل جائے گی، ''واؤ''، قندیل کی موت۔ تیز رفتار ڈی ایس این جیز، برق رفتار کیمرہ مین اور عالی دماغ رپورٹر جمع تھے۔ دن بھر تماشا لگا رہا۔ رات کو میک اپ روم سے چہروں پر غمازہ تھوپے، آرائش گیسو اور لباس کی بانکپن سے آراستہ مرد اور خواتین اینکر پرسن اپنے اپنے مخصوص انداز اداکاری میں جلوہ گر ہوئے۔
کسی کی آنکھ میں تیرتے آنسو تھے تو کوئی اس بے حس معاشرے کے ظلم پر سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ کوئی اس کے بھائی کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا تو کسی کو حکومت پر غصہ آ رہا تھا۔ ریٹنگ، ریٹنگ، ریٹنگ۔۔۔۔ ہر کوئی ریس کورس کے گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔ میڈیا کے اس سرپٹ بھاگتے گھوڑے کو اپنی توانائی کے لیے ایک پارٹنر ہمیشہ مل جاتا ہے۔ یہ ہوتی ہیں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار این جی اوز۔ انھیں بھی کسی بڑی خبر کا انتظار ہوتا ہے۔ اس دفعہ تو کمال ہی ہو گیا۔ قندیل کی موت پر جب میڈیا کا بازار سجا تو جس کسی نے اس کے قتل پر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی تو یہ ایک دم بیک آواز ہو کر کود پڑیں۔ ان کے فقرے کمال کے تھے۔ آپ میڈیا پر الزام لگا کر معاملے کی سنگینی کو کم کر رہے ہیں۔ آپ اصل ایشو سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سفاک قتل کے بارے میں بات کرنا چاہیے۔
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار ان این جی اوز کی نمایندہ مرد و خواتین اس سارے عرصہ میں چپ رہیں جب میڈیا کے شوز میں اس خاتون کو سستی شہرت دلانے کے لیے گھٹیا قسم کی فقرے بازی کی جاتی رہی۔ اس کے مخصوص انداز کو کیمروں کے ذریعے جاذب نظر بنایا جاتا رہا۔ تحقیق و تفتیش کے عالمی ریکارڈ اس وقت ٹوٹے جب سوشل میڈیا پر کروڑوں لوگوں تک پہلے سے پہنچی ہوئی مفتی قوی کے ساتھ اس کی ویڈیو ان کے ہاتھ لگی۔ اسے ایک اہم ترین بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ پھر رات کو ایک اور تماشہ لگا، اینکر پرسنز اسے انتہائی نامناسب لباس میں اپنے پروگرام میں لائے، جسے وہ مسلسل اپنے ہاتھ سے مزید نامناسب کرتی چلی جا رہی تھی۔ مفتی قوی کو ساتھ بلایا گیا اور پھر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ کا تماشہ لگا۔ اینکرزحضرات استہزائی ہنسی ہنستے رہے۔ جملے پھینکتے اور جملوں پر مضحکہ خیز تبصرے کرتے رہے۔
اس کی موت کے بعد اسے قوم کی بیٹی یا بہن کہنے والے یہ لوگ کیا بہن یا بیٹی کو اس طرح ''ایکسپوز'' کرنے اور اسے خاصے کی چیز بنا کر پیش کرنے کا جواز دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہانی مرنجا مرنج اور خوش کن چل رہی تھی۔ قندیل کو سستی شہرت چاہیے تھی اور میڈیا کو ریٹنگ لیکن شاید این جی اوز کو کسی بڑے سانحے کا انتظار تھا۔ ڈرامے میں ٹریجڈی بھی تو ڈالنا تھی۔ صحافیانہ تفتیش و تحقیق شروع ہوئی۔ وہ بیچاری اپنے اس لائف اسٹائل میں گزشتہ کئی سالوں سے زندگی گزار رہی تھی۔ اپنی کمائی سے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کا خرچہ بھی اٹھاتی رہی۔ اس مکروہ اور کریہہ معاشرے سے بچنے کے لیے اس نے اپنا نام فوزیہ سے بدل کر قندیل بلوچ رکھ لیا تھا۔ رپورٹر پہنچے، اس کے گھر کا کھوج لگایا، شناختی کارڈ ھونڈ نکالا۔ اس کی دو ناکام شادیوں کی داستانیں پتہ چلیں، ایک بچہ بھی آ گیا۔ اب کہانی اپنے دردناک انجام کی جانب بڑھنے لگی۔
یہ میڈیا کے لوگ پیرس یا لندن میں نہیں رہتے کہ انھیں علم نہ ہو کہ بات چھپی رہے تو لوگوں کی زندگیاں پرسکون رہتی ہیں۔ اکا دکا لوگ طعنے دیتے ہیں لیکن جب میڈیا اور وہ بھی الیکٹرونک میڈیا پر تماشہ لگتا ہے تو پھر لوگ اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتے ہیں۔ زندگی اجیران کر دیتے ہیں۔ میں وہ الفاظ درج نہیں کر سکتا جو لوگ طعنوں کے طور پر منہ سے نکالتے ہیں۔ قتل کی نفسیاتی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اس کی اکثر وجوہات ایک ہیجانی کیفیت سے جنم لیتی ہے جو لوگوں کے طعنے، معاشرے میں عدم قبولیت، کسی سانحے کی ڈپریشن یا کسی رویے سے جنم لینے والے غصہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی شخص کو اندھا کر دیتی ہے اور میڈیا کی روشنیاں یہ اندھا پن بہترین طریقے سے پیدا کرتی ہیں۔ کس قدر مزے کی بات ہے، زندہ قندیل بلوچ بھی ایک خبر ہے بیچنے کے لیے اور مردہ تو بہت ہی اہم ہے۔ بیچو بھی اور اپنا اخلاقی قد اور حقوق نسواں کے علمبردار ہونے، حساس اینکر پرسن ہونے کا پرچم بھی بلند کرو۔ اس ساری دھماچوکڑی میں سب سے مظلوم پاکستانی معاشرہ اور اس کے اٹھارہ کروڑ عوام ہیں۔
ہر کوئی اس معاشرے کو گالی دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ منہ چڑانے کے لیے مغرب کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ جن دنوں ہم اپنے معاشرے کو قندیل بلوچ کے قتل کا ذمے دار ٹھہرا رہے تھے انھی دنوں کینیڈا کی سینٹ میری Saint Mary یونیورسٹی کی پروفیسر جوڈتھ ہیون (Judith Havien) جو عرف عام میں جوڈی ہیون کے طور پر مشہور ہے اس نے نیویارک کے مہذب ترین شہر میں عورت کے تنہا سڑکوں پر چلنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لگائی اور اس کا عنوان رکھا Video Proof that Some Men are Pigs (اس بات کا ویڈیو ثبوت کہ کچھ مرد سور ہوتے ہیں) ویڈیو کا نام ہے۔
''10 Hours of Walking in NY as Woman'' (ایک عورت کی حیثیت سے نیویارک شہر میں دس گھنٹے کی چہل قدمی)۔ ویڈیو اس شہر نیویارک کا اصل چہرہ ہے۔ کوئی اس عورت کو گندے القاب سے پکار رہا ہے تو کوئی اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے جسمانی خطوط کی تعریف کر رہا ہے، تو کوئی اسے اپنا فون نمبر دکھا رہا ہے۔ کوئی رات کی دعوت دیتا ہے تو کوئی دوستی کی۔ یہ دعوت خاموشی سے سنی جاتی ہے۔ یہ مغرب کے میڈیا کے لیے خبر نہیں۔ عورت کی یہ تذلیل، ذلت و رسوائی حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لیے المیہ نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لائف اسٹائل ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ یہ تو نارمل ہے، اسے کیا بیان کرنا، لیکن جوڈی ہیون کے نزدیک امریکا اور مغرب میں اگر کوئی عورت غیرت کے نام پر قتل بھی کر دی جائے تو اب یہ میڈیا کے لیے ایک خبر نہیں بنتی۔ البتہ پاکستان میں کوئی عورت ایسے قتل ہو تو ایک دم ہیڈلائن ہے۔
اکتوبر 2014ء کو جوڈی ہیون کا لکھا ہوا خط جو اس نے اس اخبار کو لکھا تھا جس نے ہیڈلائن لگائی تھی کہ پاکستان میں عدالت کے باہر عورت کو گھر والوں نے پتھر مار کر مار دیا۔ بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنا۔ کینیڈا کی دوسری قدیم اور بڑی یونیورسٹی کی اس پروفیسر نے خط میں تحریر کیا کہ مغرب کا یہ میڈیا پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ایک لڑکی کی خبر تو لگاتا ہے اور لکھتا ہے کہ 2013ء سے لے کر اکتوبر 2014ء تک وہاں 869 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ لیکن صرف امریکا میں اسی عرصے میں 1095 عورتوں کو ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز نے قتل کر دیا۔ ہر روز امریکا میں تین عورتیں اپنے عاشقوں یا شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرہ بھی انھیں جذباتی جرم Crime of Passion کہہ کر چپ ہے اور میڈیا تو اسے امریکی لائف اسٹائل کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک بھائی قتل کرے تو حیرت کی بات ہے، شوہر یا بوائے فرینڈ قتل کر دے تو یہ معمول۔ نہ کوئی ہیڈلائن لگتی ہے، نہ مضمون لکھے جاتے ہیں، نہ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ خس کم جہاں پاک۔ کس قدر بدقسمت ہیں وہ عورتیں جن کی موت نہ انھیں شہرت دے سکی اور نہ ہی میڈیا کو ریٹنگ۔ شاید ایک دن ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے۔
میڈیا کسی کی زندگی اس قدر مشکل اور خوفزدہ بھی بنا سکتا ہے، اس کا اندازہ دنیا میں بسنے والے شاید ہر سمجھ دار انسان کو ہو لیکن اس میڈیا کے گھوڑے پر سوار ہو کر مقبول ہونے والی قندیل بلوچ کو شاید نہیں تھا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ میڈیا کا یہ منہ زور گھوڑا پہلے تو اسے اپنے اوپر بٹھا کر سرپٹ دوڑتا رہا اور جہاں اس پر سوار قندیل بلوچ کو دن دوگنی رات چوگنی شہرت ملی' وہیں گھوڑے کو بھی اس کی تیز رفتاری کی داد ''ریٹنگ'' کی صورت میں مسلسل ملتی رہی۔ لیکن سوار کو اس کا اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ منہ زور گھوڑا ایک ایسی چال چلتا ہے کہ اس پر بیٹھی قندیل توازن کھو بیٹھی، گھوڑے نے نہ چال ہلکی کی اور نہ ہی اسے سنبھلنے کا موقع دیا۔
زمین پر پٹخا، اسے سموں تلے روندا، طاقت کے نشے میں ہنہنایا، ریٹنگ کی صورت داد وصول کی اور پھر کسی اور سوار کو اٹھائے ویسے ہی سرپٹ بھاگنے لگا۔ زخمی قندیل کو ابھی بھی امید تھی کہ میڈیا اسے دوبارہ سہارا دے کر بٹھا لے گا۔ لیکن میڈیا کو تو اس کی موت کا انتظار تھا۔ اس لیے کہ زندہ قندیل اب ایک چلا ہوا کارتوس تھی، اس سے جتنی ریٹنگ کمائی جا سکتی تھی وہ کما لی گئی۔
اب اس کے مزید سیکنڈلز میں جان ڈالنا آسان نہ تھا۔ لوگ ایسے سیکنڈلز میں پہلے سے بڑھ کر کچھ اور دیکھنا چاہتے ہیں اور جس حد تک میڈیا اسے لے جا چکا تھا اب اس سے زیادہ بڑھنا اس کے بس میں نہ تھا۔ کسی کو یقین تک نہ تھا کہ انھیں اچانک اتنی بڑی خبر مل جائے گی، ''واؤ''، قندیل کی موت۔ تیز رفتار ڈی ایس این جیز، برق رفتار کیمرہ مین اور عالی دماغ رپورٹر جمع تھے۔ دن بھر تماشا لگا رہا۔ رات کو میک اپ روم سے چہروں پر غمازہ تھوپے، آرائش گیسو اور لباس کی بانکپن سے آراستہ مرد اور خواتین اینکر پرسن اپنے اپنے مخصوص انداز اداکاری میں جلوہ گر ہوئے۔
کسی کی آنکھ میں تیرتے آنسو تھے تو کوئی اس بے حس معاشرے کے ظلم پر سر پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ کوئی اس کے بھائی کو مورد الزام ٹھہرا رہا تھا تو کسی کو حکومت پر غصہ آ رہا تھا۔ ریٹنگ، ریٹنگ، ریٹنگ۔۔۔۔ ہر کوئی ریس کورس کے گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگے جا رہا تھا۔ میڈیا کے اس سرپٹ بھاگتے گھوڑے کو اپنی توانائی کے لیے ایک پارٹنر ہمیشہ مل جاتا ہے۔ یہ ہوتی ہیں انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار این جی اوز۔ انھیں بھی کسی بڑی خبر کا انتظار ہوتا ہے۔ اس دفعہ تو کمال ہی ہو گیا۔ قندیل کی موت پر جب میڈیا کا بازار سجا تو جس کسی نے اس کے قتل پر میڈیا کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی تو یہ ایک دم بیک آواز ہو کر کود پڑیں۔ ان کے فقرے کمال کے تھے۔ آپ میڈیا پر الزام لگا کر معاملے کی سنگینی کو کم کر رہے ہیں۔ آپ اصل ایشو سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سفاک قتل کے بارے میں بات کرنا چاہیے۔
انسانی حقوق اور حقوق نسواں کی علمبردار ان این جی اوز کی نمایندہ مرد و خواتین اس سارے عرصہ میں چپ رہیں جب میڈیا کے شوز میں اس خاتون کو سستی شہرت دلانے کے لیے گھٹیا قسم کی فقرے بازی کی جاتی رہی۔ اس کے مخصوص انداز کو کیمروں کے ذریعے جاذب نظر بنایا جاتا رہا۔ تحقیق و تفتیش کے عالمی ریکارڈ اس وقت ٹوٹے جب سوشل میڈیا پر کروڑوں لوگوں تک پہلے سے پہنچی ہوئی مفتی قوی کے ساتھ اس کی ویڈیو ان کے ہاتھ لگی۔ اسے ایک اہم ترین بریکنگ نیوز کے طور پر چلایا گیا۔ پھر رات کو ایک اور تماشہ لگا، اینکر پرسنز اسے انتہائی نامناسب لباس میں اپنے پروگرام میں لائے، جسے وہ مسلسل اپنے ہاتھ سے مزید نامناسب کرتی چلی جا رہی تھی۔ مفتی قوی کو ساتھ بلایا گیا اور پھر ایک گھنٹے سے بھی زیادہ کا تماشہ لگا۔ اینکرزحضرات استہزائی ہنسی ہنستے رہے۔ جملے پھینکتے اور جملوں پر مضحکہ خیز تبصرے کرتے رہے۔
اس کی موت کے بعد اسے قوم کی بیٹی یا بہن کہنے والے یہ لوگ کیا بہن یا بیٹی کو اس طرح ''ایکسپوز'' کرنے اور اسے خاصے کی چیز بنا کر پیش کرنے کا جواز دے سکتے ہیں۔ یہاں تک کہانی مرنجا مرنج اور خوش کن چل رہی تھی۔ قندیل کو سستی شہرت چاہیے تھی اور میڈیا کو ریٹنگ لیکن شاید این جی اوز کو کسی بڑے سانحے کا انتظار تھا۔ ڈرامے میں ٹریجڈی بھی تو ڈالنا تھی۔ صحافیانہ تفتیش و تحقیق شروع ہوئی۔ وہ بیچاری اپنے اس لائف اسٹائل میں گزشتہ کئی سالوں سے زندگی گزار رہی تھی۔ اپنی کمائی سے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کا خرچہ بھی اٹھاتی رہی۔ اس مکروہ اور کریہہ معاشرے سے بچنے کے لیے اس نے اپنا نام فوزیہ سے بدل کر قندیل بلوچ رکھ لیا تھا۔ رپورٹر پہنچے، اس کے گھر کا کھوج لگایا، شناختی کارڈ ھونڈ نکالا۔ اس کی دو ناکام شادیوں کی داستانیں پتہ چلیں، ایک بچہ بھی آ گیا۔ اب کہانی اپنے دردناک انجام کی جانب بڑھنے لگی۔
یہ میڈیا کے لوگ پیرس یا لندن میں نہیں رہتے کہ انھیں علم نہ ہو کہ بات چھپی رہے تو لوگوں کی زندگیاں پرسکون رہتی ہیں۔ اکا دکا لوگ طعنے دیتے ہیں لیکن جب میڈیا اور وہ بھی الیکٹرونک میڈیا پر تماشہ لگتا ہے تو پھر لوگ اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتے ہیں۔ زندگی اجیران کر دیتے ہیں۔ میں وہ الفاظ درج نہیں کر سکتا جو لوگ طعنوں کے طور پر منہ سے نکالتے ہیں۔ قتل کی نفسیاتی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اس کی اکثر وجوہات ایک ہیجانی کیفیت سے جنم لیتی ہے جو لوگوں کے طعنے، معاشرے میں عدم قبولیت، کسی سانحے کی ڈپریشن یا کسی رویے سے جنم لینے والے غصہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی شخص کو اندھا کر دیتی ہے اور میڈیا کی روشنیاں یہ اندھا پن بہترین طریقے سے پیدا کرتی ہیں۔ کس قدر مزے کی بات ہے، زندہ قندیل بلوچ بھی ایک خبر ہے بیچنے کے لیے اور مردہ تو بہت ہی اہم ہے۔ بیچو بھی اور اپنا اخلاقی قد اور حقوق نسواں کے علمبردار ہونے، حساس اینکر پرسن ہونے کا پرچم بھی بلند کرو۔ اس ساری دھماچوکڑی میں سب سے مظلوم پاکستانی معاشرہ اور اس کے اٹھارہ کروڑ عوام ہیں۔
ہر کوئی اس معاشرے کو گالی دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ منہ چڑانے کے لیے مغرب کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ جن دنوں ہم اپنے معاشرے کو قندیل بلوچ کے قتل کا ذمے دار ٹھہرا رہے تھے انھی دنوں کینیڈا کی سینٹ میری Saint Mary یونیورسٹی کی پروفیسر جوڈتھ ہیون (Judith Havien) جو عرف عام میں جوڈی ہیون کے طور پر مشہور ہے اس نے نیویارک کے مہذب ترین شہر میں عورت کے تنہا سڑکوں پر چلنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر لگائی اور اس کا عنوان رکھا Video Proof that Some Men are Pigs (اس بات کا ویڈیو ثبوت کہ کچھ مرد سور ہوتے ہیں) ویڈیو کا نام ہے۔
''10 Hours of Walking in NY as Woman'' (ایک عورت کی حیثیت سے نیویارک شہر میں دس گھنٹے کی چہل قدمی)۔ ویڈیو اس شہر نیویارک کا اصل چہرہ ہے۔ کوئی اس عورت کو گندے القاب سے پکار رہا ہے تو کوئی اس کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے جسمانی خطوط کی تعریف کر رہا ہے، تو کوئی اسے اپنا فون نمبر دکھا رہا ہے۔ کوئی رات کی دعوت دیتا ہے تو کوئی دوستی کی۔ یہ دعوت خاموشی سے سنی جاتی ہے۔ یہ مغرب کے میڈیا کے لیے خبر نہیں۔ عورت کی یہ تذلیل، ذلت و رسوائی حقوق نسواں کے علمبرداروں کے لیے المیہ نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ لائف اسٹائل ہے۔ ایسا تو ہوتا ہے۔ یہ تو نارمل ہے، اسے کیا بیان کرنا، لیکن جوڈی ہیون کے نزدیک امریکا اور مغرب میں اگر کوئی عورت غیرت کے نام پر قتل بھی کر دی جائے تو اب یہ میڈیا کے لیے ایک خبر نہیں بنتی۔ البتہ پاکستان میں کوئی عورت ایسے قتل ہو تو ایک دم ہیڈلائن ہے۔
اکتوبر 2014ء کو جوڈی ہیون کا لکھا ہوا خط جو اس نے اس اخبار کو لکھا تھا جس نے ہیڈلائن لگائی تھی کہ پاکستان میں عدالت کے باہر عورت کو گھر والوں نے پتھر مار کر مار دیا۔ بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنا۔ کینیڈا کی دوسری قدیم اور بڑی یونیورسٹی کی اس پروفیسر نے خط میں تحریر کیا کہ مغرب کا یہ میڈیا پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ایک لڑکی کی خبر تو لگاتا ہے اور لکھتا ہے کہ 2013ء سے لے کر اکتوبر 2014ء تک وہاں 869 عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔ لیکن صرف امریکا میں اسی عرصے میں 1095 عورتوں کو ان کے شوہروں اور بوائے فرینڈز نے قتل کر دیا۔ ہر روز امریکا میں تین عورتیں اپنے عاشقوں یا شوہروں کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ لیکن معاشرہ بھی انھیں جذباتی جرم Crime of Passion کہہ کر چپ ہے اور میڈیا تو اسے امریکی لائف اسٹائل کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اس کے نزدیک بھائی قتل کرے تو حیرت کی بات ہے، شوہر یا بوائے فرینڈ قتل کر دے تو یہ معمول۔ نہ کوئی ہیڈلائن لگتی ہے، نہ مضمون لکھے جاتے ہیں، نہ موم بتیاں جلائی جاتی ہیں۔ خس کم جہاں پاک۔ کس قدر بدقسمت ہیں وہ عورتیں جن کی موت نہ انھیں شہرت دے سکی اور نہ ہی میڈیا کو ریٹنگ۔ شاید ایک دن ہم بھی ایسے ہی ہو جائیں گے۔