ایدھی کے عقائد اور نظریات
آج سے 90 یا 100 سال قبل برصغیر میں کشت و خون کا بالکل معاشرہ متحمل نہ تھا
آج سے 90 یا 100 سال قبل برصغیر میں کشت و خون کا بالکل معاشرہ متحمل نہ تھا بلکہ ہندو اکثریتی علاقے میں اگر یہ نعرہ لگتا تھا کہ بٹ کے رہے گا ہندوستان لے کے رہیں گے پاکستان تو کوئی مذہبی فساد نہ ہوتا تھا اور جلسے ہوتے رہتے تھے کیونکہ ہندو برادری پر مہاتما گاندھی کا بہت اثر تھا اور پنڈت جواہر لعل نہرو بھی کٹر پنتھی ہندو نہ تھے اور معمولات زندگی خوش اسلوبی سے چلتے رہتے تھے، کیونکہ رواداری کی سیاست تھی خواہ وہ گجرات ہی کیوں نہ ہو، وہاں نریندر مودی جیسے حکمران آر ایس ایس کے حامی نہ تھے بلکہ گاندھی جی گجرات کے فرزند تھے اور پورا بھارت ان کے تابع تھا۔
جب عبدالستار ایدھی جوان تھے تو ان دنوں پاکستان کی تحریک چل رہی تھی، ان کے کانوں نے 1940ء کی دہائی کی آوازیں سنی تھیں، ابوالکلام آزاد، محمد علی جناح، پنڈت جی، شعرا میں سروجنی نائیڈو، ٹیگور جیسے بلند پایہ اوصاف کے فلک نشین لوگ ان کے اردگرد تھے، ان کا ماحول، تو پھر کیوں نہ ان کی ذات میں ٹھہراؤ پیدا ہو اور پھر عالمی افق پر بھی بلند پایہ لوگ، جو تعلیم ان دنوں تھی وہ تو ایدھی صاحب نے حاصل کی۔ تاریخ عالم پر ان کی گہری نگاہ تھی، جس کا تذکرہ عام طور پر انھوں نے لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے نہ کیا، کیونکہ وہ درویش ان کے مزاج کا اہم عنصر تھا، وہ گھر کے ماحول سے نہیں بلکہ لوگوں کے میل ملاپ سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے گئے۔
سب سے بڑی جو چیز انھوں نے اپنی شخصیت میں پیدا کی وہ منافقت سے دور رہے، کبھی بھی انھوں نے اس بات کا پرچار نہ کیا جس چیز پر وہ خود عمل نہ کرتے ہوں، مثلاً کتنے لوگ ٹی وی پر آتے ہیں جو مخلوط تعلیم اور مخلوط مباحثوں کے خلاف گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ خود وہ خواتین کے جھرمٹ میں محو گفتگو ہوتے ہیں یا خود ان کی بیٹیاں امریکا انگلینڈ میں کو ایجوکیشن میں زیر تعلیم ہیں، جب کہ ایدھی صاحب کھلے عام عورتوں کی تعریف کرتے نظر آتے تھے کہ مجموعی طور پر عورت اپنے کام میں زیادہ مخلص ہوتی ہے۔
جب انھوں نے اپنے کام کی ابتدا خصوصاً چندہ لینے کا آغاز کیا تو دو لڑکیاں ان کے ساتھ تھیں، وہ بھی پشاور گئیں، جب وہاں پر لوگوں نے دیکھا تو ان کو باچا خان سے ملایا، یعنی خان عبدالغفار خان کی سادگی سے ملایا۔ مانا کہ انھوں نے اپنے ابتدائی دور میں جب ایوب خان نے بی ڈی سسٹم (BD) رائج کیا تھا تو ایدھی صاحب نے بی ڈی کا الیکشن لڑا تھا مگر کامیاب نہ ہوئے۔ ان کا مقصد ملک کو بدلنا تھا، سو یہ اچھا ہوا نہ خود ایدھی صاحب کے لیے، کیونکہ اگر وہ اس راستے میں کامیاب ہوتے جیساکہ سماجی راہ پر چل کے آگے بڑھے تو ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا، مگر اس محدود راستے پر ان کا کوئی مدمقابل نہ تھا اور یہ آگے بڑھتے چلے گئے۔
ایدھی صاحب خواہ خود کو فقیر ہی کیوں نہ کہیں وہ عملی عالم تو نہ تھے مگر اسلامی تاریخ کا انھوں نے بغور مطالعہ کیا اور بعض واقعات نے ان کے دل اور دماغ پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ درویشی ان کے مزاج میں حضرت ابوذر غفاری ایک بلند پایہ صحابی رسولؐ سے آئی تھی، ان کو انھوں نے خوب پڑھا، جو سونا چاندی جمع کرنے والوں کے لیے مسلسل تبلیغ کرتے رہے، حضرت ابوذر غفاری کی درویشی اور انداز فقیرانہ ان کے مزاج میں رچ بس گیا، یہی وہ انداز تھا جس کو ایدھی صاحب نے ایک نئے انداز میں پیش کیا۔ایدھی نے حضرت ابوذرغفاری کے نظریات کو جس طور سے اپنایا انھوں نے لوگوں کو یہی راستہ دکھایا زکوٰۃ دینا، دکھی انسانیت کے کام آنا، پیسے کو راہ خدا میں خرچ کرنا، ٹیکس کی ادائیگی کرنا اور حکومت کو عوام کا خیال رکھنے کا درس اور ٹیکس کی رقم کو ترقیاتی کام اور مساکین کی راہ میں خرچ کرنا۔
آپ نے اکثر دیکھا یا سنا ہو گا کہ گولیاں چل رہی تھیں، لاشیں گر رہی تھیں، پھر بھی ایدھی صاحب اس مقام پر پہنچ جاتے تھے، لاشوں کو اٹھانا اور خوف نہ کھانا، کٹی ہوئی، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی لاشیں۔ یہ درس انھیں نواسہ رسولؐ خدا سے ملا۔ عام لوگوں کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ ایدھی صاحب تاریخ اسلام کا کافی علم رکھتے تھے اور وہ اسلام کے بلند کرداروں کو اپنی زندگی کا شعار بنانا چاہتے تھے، اسی لیے وہ ایسی شخصیات کو پسند کرتے تھے۔
ایدھی مسلمان تو بے شک تھے، انھوں نے اپنے آخری انٹرویو میں جو ایک چینل سے نشر ہوا انسانیت کا درس دیا ہے، ایدھی صاحب نے شخصیات کے عملی درس کو سمجھ لیا اور انھوں نے رنگ و نسل اور مذہب کی کوئی تفریق نہیں کی۔ یہ تحریر جو میں لکھ رہا ہوں شاید اس زاویے سے آپ کو پڑھنے کا موقع نہ ملے۔ مجھے اپنی اس زندگی میں چند بار ملا مگر ان کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ لوگوں کو کس طرح اپناتے ہیں اور سادہ اور سیدھے عقائد اور نظریات کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ بعض حضرات ایدھی صاحب کی زندگی کو سمجھ نہ سکے، ان پر مختلف الزامات لگاتے رہے کہ وہ لامذہب ہیں۔ ایدھی صاحب تو مذہب کے اصل پرستار تھے، ان کو کسی سے فتویٰ لینے کی ضرورت نہ تھی۔ آج ہر طرف ہر چینل پر ایدھی کی شخصیت کا شور مچا ہے اور بے شعوری میں ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو ایدھی صاحب کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔
بعض چینل یہ شور مچا رہے ہیں کہ ان کی طبیعت اس وقت سے خراب ہوئی جب ان کے یہاں چوری ہوئی۔ میں کسی کو جواب نہیں دے رہا مگر لوگوں کو عقل و خرد کے لیے ضرور کہوں گا کہ تم ایک درویش پر الزام لگا رہے ہو کہ وہ روپیہ کی چوری سے مرض الموت میں گرفتار ہو گئے، بھلا ایدھی جنھوں نے گزشتہ 60 برس سے عید پر نئے کپڑے اور جوتے نہ خریدے، وہ درویش جو خود کو فقیر کہتا تھا اس پر یہ الزام لگانا کہ وہ روپوں کی کمی پر بیمار ہو گئے، جس کو روپیہ اپنی ذات پر استعمال ہی نہ کرنا ہو وہ رقم کے لیے اداس کیوں ہوگا۔ اگر ان کی بیگم کو دکھ ہو تو ہو، ایدھی سب کا دل رکھنے کے لیے بھی باتیں کرتے تھے، وہ محترمہ بلقیس کا دل رکھنے کے لیے بھی باتیں کرتے تھے، کبھی کبھی ایدھی صاحب سماجی اور گھریلو مصلحتوں اور دکھی دلوں کی تسکین کے لیے بھی باتیں کرتے تھے۔
ورنہ درویشی اور روپوں کا دکھ بھلا ایدھی کو کیوں ہونے لگا، جس نے روپوں سے اپنا گھر، بنگلہ اور ذاتی گاڑی نہ لی، جس کی ایمبولینس سروس دنیا میں اول نمبر پر ہے اور کسی کو دیکھ کر ایمبولینس سروس نہ شروع کی بلکہ جب مریضوں کو اسپتالوں سے ایمبولینس گھر آنے کو مریض کے لیے ایک معجزہ ہی سمجھا جاتا تھا تب ایدھی نے یہ محسوس کر لیا اور فون کرنے کے چند منٹ کے وقفے سے ایمبولینس مریض کے گھر پہنچ جاتی ہے اور ان کے ڈرائیوروں میں وہی خلوص جو ایدھی صاحب نے ان تک پہنچایا ہے، وہ روحانی قوت انھوں نے اپنے کارکنوں کو دی، کیونکہ ان کی زندگی خود کارکنوں جیسی تھی جب کہ دوسری ایمبولینس سروس کے لوگوں کو وہ خلوص میسر نہیں۔ ایدھی کو بچپن میں ان کی ماں نے درس اور عمل دیا مگر بلوغت پر ایدھی صاحب نے خود عصر حاضر کی بلند شخصیات کا مطالعہ کیا۔
تعجب کی بات ہے ایک مذہبی آدمی نے کمیونسٹ لیڈروں، مارکس، لینن اور اسٹالن کی زندگی کو خاصا پڑھا، جو انھوں نے اپنے آخری انٹرویو میں کہا اور ان کا عمل وہ ہے جو قیام پاکستان کے موقع پر قائداعظم کی تقریر تھی۔ بقول قائد کے آج آپ سب پاکستانی ہیں، سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں، آپ مساجد میں جائیں یا اپنے مندروں میں جائیں یا گرجا گھروں میں جائیں، آپ پاکستان کے شہری ہیں۔ اسی لیے ایدھی صاحب بلاتفریق مذہب سب کی خدمت کرتے تھے۔ یہ جذبہ پیدا کرنا آسان نہیں، اس کے لیے دنیا کی بڑی شخصیات پر گہری نظر ضروری ہے۔ ایک دکھ مجھے ہمیشہ رہے گا کہ آج فلک بوس مقام دینے والوں کو ان کی زندگی میں ان کی عظمت کا خیال کیوں نہ آیا؟
جب عبدالستار ایدھی جوان تھے تو ان دنوں پاکستان کی تحریک چل رہی تھی، ان کے کانوں نے 1940ء کی دہائی کی آوازیں سنی تھیں، ابوالکلام آزاد، محمد علی جناح، پنڈت جی، شعرا میں سروجنی نائیڈو، ٹیگور جیسے بلند پایہ اوصاف کے فلک نشین لوگ ان کے اردگرد تھے، ان کا ماحول، تو پھر کیوں نہ ان کی ذات میں ٹھہراؤ پیدا ہو اور پھر عالمی افق پر بھی بلند پایہ لوگ، جو تعلیم ان دنوں تھی وہ تو ایدھی صاحب نے حاصل کی۔ تاریخ عالم پر ان کی گہری نگاہ تھی، جس کا تذکرہ عام طور پر انھوں نے لوگوں کو مرعوب کرنے کے لیے نہ کیا، کیونکہ وہ درویش ان کے مزاج کا اہم عنصر تھا، وہ گھر کے ماحول سے نہیں بلکہ لوگوں کے میل ملاپ سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارتے گئے۔
سب سے بڑی جو چیز انھوں نے اپنی شخصیت میں پیدا کی وہ منافقت سے دور رہے، کبھی بھی انھوں نے اس بات کا پرچار نہ کیا جس چیز پر وہ خود عمل نہ کرتے ہوں، مثلاً کتنے لوگ ٹی وی پر آتے ہیں جو مخلوط تعلیم اور مخلوط مباحثوں کے خلاف گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ خود وہ خواتین کے جھرمٹ میں محو گفتگو ہوتے ہیں یا خود ان کی بیٹیاں امریکا انگلینڈ میں کو ایجوکیشن میں زیر تعلیم ہیں، جب کہ ایدھی صاحب کھلے عام عورتوں کی تعریف کرتے نظر آتے تھے کہ مجموعی طور پر عورت اپنے کام میں زیادہ مخلص ہوتی ہے۔
جب انھوں نے اپنے کام کی ابتدا خصوصاً چندہ لینے کا آغاز کیا تو دو لڑکیاں ان کے ساتھ تھیں، وہ بھی پشاور گئیں، جب وہاں پر لوگوں نے دیکھا تو ان کو باچا خان سے ملایا، یعنی خان عبدالغفار خان کی سادگی سے ملایا۔ مانا کہ انھوں نے اپنے ابتدائی دور میں جب ایوب خان نے بی ڈی سسٹم (BD) رائج کیا تھا تو ایدھی صاحب نے بی ڈی کا الیکشن لڑا تھا مگر کامیاب نہ ہوئے۔ ان کا مقصد ملک کو بدلنا تھا، سو یہ اچھا ہوا نہ خود ایدھی صاحب کے لیے، کیونکہ اگر وہ اس راستے میں کامیاب ہوتے جیساکہ سماجی راہ پر چل کے آگے بڑھے تو ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا، مگر اس محدود راستے پر ان کا کوئی مدمقابل نہ تھا اور یہ آگے بڑھتے چلے گئے۔
ایدھی صاحب خواہ خود کو فقیر ہی کیوں نہ کہیں وہ عملی عالم تو نہ تھے مگر اسلامی تاریخ کا انھوں نے بغور مطالعہ کیا اور بعض واقعات نے ان کے دل اور دماغ پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ درویشی ان کے مزاج میں حضرت ابوذر غفاری ایک بلند پایہ صحابی رسولؐ سے آئی تھی، ان کو انھوں نے خوب پڑھا، جو سونا چاندی جمع کرنے والوں کے لیے مسلسل تبلیغ کرتے رہے، حضرت ابوذر غفاری کی درویشی اور انداز فقیرانہ ان کے مزاج میں رچ بس گیا، یہی وہ انداز تھا جس کو ایدھی صاحب نے ایک نئے انداز میں پیش کیا۔ایدھی نے حضرت ابوذرغفاری کے نظریات کو جس طور سے اپنایا انھوں نے لوگوں کو یہی راستہ دکھایا زکوٰۃ دینا، دکھی انسانیت کے کام آنا، پیسے کو راہ خدا میں خرچ کرنا، ٹیکس کی ادائیگی کرنا اور حکومت کو عوام کا خیال رکھنے کا درس اور ٹیکس کی رقم کو ترقیاتی کام اور مساکین کی راہ میں خرچ کرنا۔
آپ نے اکثر دیکھا یا سنا ہو گا کہ گولیاں چل رہی تھیں، لاشیں گر رہی تھیں، پھر بھی ایدھی صاحب اس مقام پر پہنچ جاتے تھے، لاشوں کو اٹھانا اور خوف نہ کھانا، کٹی ہوئی، ٹکڑوں میں بٹی ہوئی لاشیں۔ یہ درس انھیں نواسہ رسولؐ خدا سے ملا۔ عام لوگوں کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ ایدھی صاحب تاریخ اسلام کا کافی علم رکھتے تھے اور وہ اسلام کے بلند کرداروں کو اپنی زندگی کا شعار بنانا چاہتے تھے، اسی لیے وہ ایسی شخصیات کو پسند کرتے تھے۔
ایدھی مسلمان تو بے شک تھے، انھوں نے اپنے آخری انٹرویو میں جو ایک چینل سے نشر ہوا انسانیت کا درس دیا ہے، ایدھی صاحب نے شخصیات کے عملی درس کو سمجھ لیا اور انھوں نے رنگ و نسل اور مذہب کی کوئی تفریق نہیں کی۔ یہ تحریر جو میں لکھ رہا ہوں شاید اس زاویے سے آپ کو پڑھنے کا موقع نہ ملے۔ مجھے اپنی اس زندگی میں چند بار ملا مگر ان کی روح کو سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ لوگوں کو کس طرح اپناتے ہیں اور سادہ اور سیدھے عقائد اور نظریات کو کس طرح سمجھتے ہیں۔ بعض حضرات ایدھی صاحب کی زندگی کو سمجھ نہ سکے، ان پر مختلف الزامات لگاتے رہے کہ وہ لامذہب ہیں۔ ایدھی صاحب تو مذہب کے اصل پرستار تھے، ان کو کسی سے فتویٰ لینے کی ضرورت نہ تھی۔ آج ہر طرف ہر چینل پر ایدھی کی شخصیت کا شور مچا ہے اور بے شعوری میں ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو ایدھی صاحب کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔
بعض چینل یہ شور مچا رہے ہیں کہ ان کی طبیعت اس وقت سے خراب ہوئی جب ان کے یہاں چوری ہوئی۔ میں کسی کو جواب نہیں دے رہا مگر لوگوں کو عقل و خرد کے لیے ضرور کہوں گا کہ تم ایک درویش پر الزام لگا رہے ہو کہ وہ روپیہ کی چوری سے مرض الموت میں گرفتار ہو گئے، بھلا ایدھی جنھوں نے گزشتہ 60 برس سے عید پر نئے کپڑے اور جوتے نہ خریدے، وہ درویش جو خود کو فقیر کہتا تھا اس پر یہ الزام لگانا کہ وہ روپوں کی کمی پر بیمار ہو گئے، جس کو روپیہ اپنی ذات پر استعمال ہی نہ کرنا ہو وہ رقم کے لیے اداس کیوں ہوگا۔ اگر ان کی بیگم کو دکھ ہو تو ہو، ایدھی سب کا دل رکھنے کے لیے بھی باتیں کرتے تھے، وہ محترمہ بلقیس کا دل رکھنے کے لیے بھی باتیں کرتے تھے، کبھی کبھی ایدھی صاحب سماجی اور گھریلو مصلحتوں اور دکھی دلوں کی تسکین کے لیے بھی باتیں کرتے تھے۔
ورنہ درویشی اور روپوں کا دکھ بھلا ایدھی کو کیوں ہونے لگا، جس نے روپوں سے اپنا گھر، بنگلہ اور ذاتی گاڑی نہ لی، جس کی ایمبولینس سروس دنیا میں اول نمبر پر ہے اور کسی کو دیکھ کر ایمبولینس سروس نہ شروع کی بلکہ جب مریضوں کو اسپتالوں سے ایمبولینس گھر آنے کو مریض کے لیے ایک معجزہ ہی سمجھا جاتا تھا تب ایدھی نے یہ محسوس کر لیا اور فون کرنے کے چند منٹ کے وقفے سے ایمبولینس مریض کے گھر پہنچ جاتی ہے اور ان کے ڈرائیوروں میں وہی خلوص جو ایدھی صاحب نے ان تک پہنچایا ہے، وہ روحانی قوت انھوں نے اپنے کارکنوں کو دی، کیونکہ ان کی زندگی خود کارکنوں جیسی تھی جب کہ دوسری ایمبولینس سروس کے لوگوں کو وہ خلوص میسر نہیں۔ ایدھی کو بچپن میں ان کی ماں نے درس اور عمل دیا مگر بلوغت پر ایدھی صاحب نے خود عصر حاضر کی بلند شخصیات کا مطالعہ کیا۔
تعجب کی بات ہے ایک مذہبی آدمی نے کمیونسٹ لیڈروں، مارکس، لینن اور اسٹالن کی زندگی کو خاصا پڑھا، جو انھوں نے اپنے آخری انٹرویو میں کہا اور ان کا عمل وہ ہے جو قیام پاکستان کے موقع پر قائداعظم کی تقریر تھی۔ بقول قائد کے آج آپ سب پاکستانی ہیں، سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں، آپ مساجد میں جائیں یا اپنے مندروں میں جائیں یا گرجا گھروں میں جائیں، آپ پاکستان کے شہری ہیں۔ اسی لیے ایدھی صاحب بلاتفریق مذہب سب کی خدمت کرتے تھے۔ یہ جذبہ پیدا کرنا آسان نہیں، اس کے لیے دنیا کی بڑی شخصیات پر گہری نظر ضروری ہے۔ ایک دکھ مجھے ہمیشہ رہے گا کہ آج فلک بوس مقام دینے والوں کو ان کی زندگی میں ان کی عظمت کا خیال کیوں نہ آیا؟