ایک پیسے کا کمال
گزشتہ ہفتے اﷲ جانے ہمارا کالم برقی ترسیل کی بھول بھلیوں میں جانے کہاں گم ہوگیا
KARACHI:
گزشتہ ہفتے اﷲ جانے ہمارا کالم برقی ترسیل کی بھول بھلیوں میں جانے کہاں گم ہوگیا۔ یوں تو ایدھی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ابھی رہے گا۔
ہر کالم نگار، ہر ادارے نے، شاعروں، سیاسی، سماجی، فلاحی اور مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے انداز فکر اور زاویہ نظر سے ایدھی صاحب کی معتبر اور منفرد شخصیت کو سلام پیش کیا اور کیوں نہ کرتے کہ ایدھی صاحب کسی فرد واحد کا نہیں پوری قوم بلکہ انسانیت کا قابل فخر اثاثہ تھے۔ جو کام ان کی تنہا ذات نے سر انجام دیے ان کی تفصیل جان کر (ان تفصیلات میں ہر روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے) بے اختیار خیال آتا ہے کہ ایدھی صاحب انسان کے روپ میں فرشتہ تھے۔ مگر انسان کا مرتبہ تو فرشتے سے افضل ہے لہٰذا یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایدھی انسانی عظمت و صلاحیت سے مکمل طور پر واقف ''عظیم انسان'' تھے۔
بہرحال یہ تو ایک اندوہناک حقیقت ہے کہ انسان کا سچا قدرداں، دکھی افراد کا حقیقی ہمدرد اب ہمارے درمیان نہیں۔ موت کوئی انہونی نہیں بلکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے مگر ہم پھر بھی اس کو فراموش کیے رہتے ہیں، اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں اور دنیا سے یوں چمٹ جاتے ہیں جیسے ہمیں موت کی جانب سے خصوصی رعایت دی گئی ہے مگر کچھ لوگ موت کو حیات جاویداں میں ڈھالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں ۔
ہم نے اوپر لکھا ہے کہ ایدھی دراصل ''انسان'' تھے تو کیا وہ جو اس دنیا کو صرف اور صرف اپنے مفاد، خود غرضی کے لیے لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف رہتے ہیں وہ انسان نہیں؟ ظاہر تو وہ ہیں مگر ان کے سرپرست شیاطین ہیں۔ جن کا سرپرست اﷲ رب العزت ہے وہ اپنے بندوں کو اندھیرے (کفر) سے نکال کر روشنی (ایمان) میں لے آتا ہے (پھر وہ ہر کام بندوں کی نہیں رب کی رضا کی خاطر انجام دیتے ہیں) اور جن کے سرپرست شیاطین ہیں وہ انھیں روشنی سے اندھیرے کی طرف دھکیل دیتے ہیں (سورۃ البقرۃ)، گویا وہ بظاہر انسان مگر اندر سے شیطان۔
ایدھی کے حالات زندگی اور ان پر مختلف الخیال افراد کے لکھے ہوئے کالم پڑھ کر تقریباً سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ درسگاہ کے فارغ التحصیل نہ تھے، مگر کیا علم محض درس گاہوں سے ہی حاصل ہوتا ہے؟حصول علم کے لیے بصارت سے زیادہ بصیرت، روشن خیالی، وسیع القلبی اور انسان کی قدر و منزلت کا احساس ہونا ضروری ہے۔ اگر صرف درس گاہیں علم کی ترسیل کا ذریعہ ہوتیں تو آج ہم اتنے متعصب، اتنے سنگدل، اتنے ظالم اور خودغرض نہ ہوتے۔ آج کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے بلکہ بیرونی یونیورسٹی کے پڑھے لکھے مقامی اداروں اور درسگاہوں سے پڑھنے والوں کو یوں حقارت کی نظر سے نہ دیکھتے۔ ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وہی پڑھ سکتے ہیں ۔
جن کے والدین ان کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، مگر دولت کے تکبر میں مبتلا افراد دوسروں کو انسان سمجھنا تو کجا اپنے قریب بٹھانا تک گوارا نہیں کرتے۔ جب کہ ایدھی نے بھری دنیا کی درس گاہ سے درس انسانیت کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہوئی تھی، تب ہی تو وہ امیر غریب، کالے گورے، مسلک اور قومیت سے بالاتر ہوکر انسان کی خدمت کرتے، وہ نہ سڑی لاشوں سے کراہت محسوس کرتے نہ کچرے پر پھینکے ہوئے معصوم بچوں سے، نہ پھٹے لباس، ننگے پاؤں میلے کچیلے بھوکے بے آسرا افراد سے دور بھاگتے، بلکہ انھیں گلے لگاتے، نہلاتے، ان کے کپڑے بدلواتے۔ ان کی یہی انسان دوستی انھیں اس اعلیٰ مقام پر فائز کرتی ہے، جو ہم سب نے ان کی موت پر اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ وہ ملک کے ہر بڑے آدمی سے ہی نہیں بلکہ حکمرانوں سے بھی بڑی شخصیت تھے۔
لکھنے والوں نے ایدھی صاحب کے مشن کو بخوبی جاری رکھنے کے لیے کئی بہترین تجاویز بھی پیش کی ہیں جن میں سے بیشتر قابل عمل ہیں۔ اس کارخیر کو جاری رکھنے کے لیے اب کوئی ایدھی جیسا معتبر و معزز شخص نہیں کہ وہ اپنا دامن پھیلائے تو لوگ کچھ کہے بغیر اس کو بھردیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرت صدیوں میں کسی ایک فرد کو ایسی صلاحیت سے نوازتی ہے یعنی صدیوں میں کوئی ایدھی پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور عطا فرماتے ہیں۔ ایدھی تو سرتاپا ہمدرد انسانیت تھے۔
اس پرآشوب اور قحط الرجال کے دور میں، رنگ و نسل ، ذات پات، قومیت و علاقائیت سے ماورا ہوکر صرف اور صرف انسان کے لیے جینے اور مرنے والے اسی لیے وہ تنہا ایسے کام باآسانی کرسکے کہ انھوں نے اپنے لیے جینا سیکھا ہی نہ تھا۔ مگر یہ تو ممکن ہے کہ ہم 20 کروڑ میں سے چند سو یا چند ہزار افراد تعلیمی اصلاح میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہوں بلکہ اس کی صلاحیت بھی ان میں ہو۔ تو ایک تنہا شخص نہ سہی دس بیس کا ایک گروہ بنا کر تعلیمی میدان میں قدم بڑھائیں تو کیا ہم اپنے نظام تعلیم کو درست خطوط پر استوار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے؟
یوں ہی شعبہ صحت کی اصلاح کے لیے کچھ باصلاحیت افراد آگے بڑھ کر اسپتالوں کی ضروریات پوری کرنے اور ان کی حالت زار کو بہتر بنانے کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر لے کر بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے محلے کے فارغ (ریٹائرڈ) اور معزز افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں جو اپنے اپنے علاقے (محلے) میں مسلسل قیمتوں پر نظر رکھیں۔ بیروزگاری میں کمی کے لیے چھوٹے چھوٹے وسائل مہیا کرنے کے لیے بھی کاروباری ماہرین پر مشتمل ایک گروپ اپنی کوشش سے نوجوانوں کی صلاحیت کے مطابق ان کو روزگار فراہم کرنے یا انھیں چھوٹے چھوٹے قرض آسان شرائط پر مہیا کرے۔ یہ فہرست خاصی طویل ہوسکتی ہے۔ مگر جب قوم میں بدعنوانی اس قدر بڑھ چکی ہو تو کسی کو تو آگے آکر اس کو لگام دینی ہوگی۔
ایدھی کی شب و روز کی انتھک کوششوں سے جہاں بے شمار لاوارث، دکھی انسانوں، بیماروں ، لاچاروں، بے سہارا خواتین و حضرات اور ٹھکرائی ہوئی لڑکیوں کو رہائش، لباس، کھانا اور سائبان میسر ہوا، اس کے باوجود کیا پاکستان میں ہر بھوکے کو پیٹ بھر کر روٹی، تن ڈھانپنے کو لباس، رہنے کے لیے گھر مل سکا؟ نہیں، کیونکہ بنیادی طور پر یہ سب کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں جو اپنی بہترین منصوبہ بندی سے تمام مسائل حل کرنے کے نہ صرف وسائل بلکہ اختیار بھی رکھتی ہے، مگر کوئی صاحب اقتدار کچھ کرنا ہی نہ چاہے تو۔ البتہ کچھ افراد مل کر پوری قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
ایدھی کی مثال سامنے ہے کہ تنہا اپنی ذات میں ایک نہیں کئی انجمنیں تھے سوچنا چاہیے کہ تنہا انسان اتنا کچھ کرسکتا ہے تو کئی افراد پر مشتمل ایک گروہ کچھ نہ کچھ تو کرسکتا ہے۔ مگر اس خودغرض معاشرے میں جہاں ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی حق تلفی پر تلا ہوا ہے وہاں ایسے افراد کو کون جمع کرے؟ ہم جانتے ہیں کہ بدعنوانی معاشرے کی رگ و پے میں مکمل طور پر سرائیت کرچکی ہے، پھر بھی ہم میں سے کتنے ہیں جو ایسے افراد سے واقف ہیں کہ آج بھی ناانصافی، خودغرضی اور اہلیت کا خون ہونے پر کڑھتے رہتے ہیں، ان ہی میں سے ایسے افراد تلاش کیجیے، ان کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیجیے۔ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیجیے۔ بقول فراز
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
سب سے بڑھ کر ایسی مائیں تلاش کیجیے جیسی ایدھی کی ماں تھیں، جو دو پیسوں میں سے ایک کسی ضرورت مند پر خرچ کرنے کا جذبہ اپنے بچوں کے دل میں پیدا کریں۔ وہ ایک پیسہ جو کسی ضرورت مند پر خرچ ہوا اس کی حد کمال کا نام ایدھی، جن کا کام الفاظ میں بیان ہو ہی نہیں سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اﷲ جانے ہمارا کالم برقی ترسیل کی بھول بھلیوں میں جانے کہاں گم ہوگیا۔ یوں تو ایدھی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ابھی رہے گا۔
ہر کالم نگار، ہر ادارے نے، شاعروں، سیاسی، سماجی، فلاحی اور مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے انداز فکر اور زاویہ نظر سے ایدھی صاحب کی معتبر اور منفرد شخصیت کو سلام پیش کیا اور کیوں نہ کرتے کہ ایدھی صاحب کسی فرد واحد کا نہیں پوری قوم بلکہ انسانیت کا قابل فخر اثاثہ تھے۔ جو کام ان کی تنہا ذات نے سر انجام دیے ان کی تفصیل جان کر (ان تفصیلات میں ہر روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے) بے اختیار خیال آتا ہے کہ ایدھی صاحب انسان کے روپ میں فرشتہ تھے۔ مگر انسان کا مرتبہ تو فرشتے سے افضل ہے لہٰذا یہی کہا جاسکتا ہے کہ ایدھی انسانی عظمت و صلاحیت سے مکمل طور پر واقف ''عظیم انسان'' تھے۔
بہرحال یہ تو ایک اندوہناک حقیقت ہے کہ انسان کا سچا قدرداں، دکھی افراد کا حقیقی ہمدرد اب ہمارے درمیان نہیں۔ موت کوئی انہونی نہیں بلکہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے مگر ہم پھر بھی اس کو فراموش کیے رہتے ہیں، اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں اور دنیا سے یوں چمٹ جاتے ہیں جیسے ہمیں موت کی جانب سے خصوصی رعایت دی گئی ہے مگر کچھ لوگ موت کو حیات جاویداں میں ڈھالنے کا ہنر خوب جانتے ہیں ۔
ہم نے اوپر لکھا ہے کہ ایدھی دراصل ''انسان'' تھے تو کیا وہ جو اس دنیا کو صرف اور صرف اپنے مفاد، خود غرضی کے لیے لوٹنے کھسوٹنے میں مصروف رہتے ہیں وہ انسان نہیں؟ ظاہر تو وہ ہیں مگر ان کے سرپرست شیاطین ہیں۔ جن کا سرپرست اﷲ رب العزت ہے وہ اپنے بندوں کو اندھیرے (کفر) سے نکال کر روشنی (ایمان) میں لے آتا ہے (پھر وہ ہر کام بندوں کی نہیں رب کی رضا کی خاطر انجام دیتے ہیں) اور جن کے سرپرست شیاطین ہیں وہ انھیں روشنی سے اندھیرے کی طرف دھکیل دیتے ہیں (سورۃ البقرۃ)، گویا وہ بظاہر انسان مگر اندر سے شیطان۔
ایدھی کے حالات زندگی اور ان پر مختلف الخیال افراد کے لکھے ہوئے کالم پڑھ کر تقریباً سب کو معلوم ہوچکا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ درسگاہ کے فارغ التحصیل نہ تھے، مگر کیا علم محض درس گاہوں سے ہی حاصل ہوتا ہے؟حصول علم کے لیے بصارت سے زیادہ بصیرت، روشن خیالی، وسیع القلبی اور انسان کی قدر و منزلت کا احساس ہونا ضروری ہے۔ اگر صرف درس گاہیں علم کی ترسیل کا ذریعہ ہوتیں تو آج ہم اتنے متعصب، اتنے سنگدل، اتنے ظالم اور خودغرض نہ ہوتے۔ آج کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے بلکہ بیرونی یونیورسٹی کے پڑھے لکھے مقامی اداروں اور درسگاہوں سے پڑھنے والوں کو یوں حقارت کی نظر سے نہ دیکھتے۔ ان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وہی پڑھ سکتے ہیں ۔
جن کے والدین ان کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں، مگر دولت کے تکبر میں مبتلا افراد دوسروں کو انسان سمجھنا تو کجا اپنے قریب بٹھانا تک گوارا نہیں کرتے۔ جب کہ ایدھی نے بھری دنیا کی درس گاہ سے درس انسانیت کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہوئی تھی، تب ہی تو وہ امیر غریب، کالے گورے، مسلک اور قومیت سے بالاتر ہوکر انسان کی خدمت کرتے، وہ نہ سڑی لاشوں سے کراہت محسوس کرتے نہ کچرے پر پھینکے ہوئے معصوم بچوں سے، نہ پھٹے لباس، ننگے پاؤں میلے کچیلے بھوکے بے آسرا افراد سے دور بھاگتے، بلکہ انھیں گلے لگاتے، نہلاتے، ان کے کپڑے بدلواتے۔ ان کی یہی انسان دوستی انھیں اس اعلیٰ مقام پر فائز کرتی ہے، جو ہم سب نے ان کی موت پر اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ وہ ملک کے ہر بڑے آدمی سے ہی نہیں بلکہ حکمرانوں سے بھی بڑی شخصیت تھے۔
لکھنے والوں نے ایدھی صاحب کے مشن کو بخوبی جاری رکھنے کے لیے کئی بہترین تجاویز بھی پیش کی ہیں جن میں سے بیشتر قابل عمل ہیں۔ اس کارخیر کو جاری رکھنے کے لیے اب کوئی ایدھی جیسا معتبر و معزز شخص نہیں کہ وہ اپنا دامن پھیلائے تو لوگ کچھ کہے بغیر اس کو بھردیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قدرت صدیوں میں کسی ایک فرد کو ایسی صلاحیت سے نوازتی ہے یعنی صدیوں میں کوئی ایدھی پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور عطا فرماتے ہیں۔ ایدھی تو سرتاپا ہمدرد انسانیت تھے۔
اس پرآشوب اور قحط الرجال کے دور میں، رنگ و نسل ، ذات پات، قومیت و علاقائیت سے ماورا ہوکر صرف اور صرف انسان کے لیے جینے اور مرنے والے اسی لیے وہ تنہا ایسے کام باآسانی کرسکے کہ انھوں نے اپنے لیے جینا سیکھا ہی نہ تھا۔ مگر یہ تو ممکن ہے کہ ہم 20 کروڑ میں سے چند سو یا چند ہزار افراد تعلیمی اصلاح میں نہ صرف دلچسپی رکھتے ہوں بلکہ اس کی صلاحیت بھی ان میں ہو۔ تو ایک تنہا شخص نہ سہی دس بیس کا ایک گروہ بنا کر تعلیمی میدان میں قدم بڑھائیں تو کیا ہم اپنے نظام تعلیم کو درست خطوط پر استوار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے؟
یوں ہی شعبہ صحت کی اصلاح کے لیے کچھ باصلاحیت افراد آگے بڑھ کر اسپتالوں کی ضروریات پوری کرنے اور ان کی حالت زار کو بہتر بنانے کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر لے کر بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے محلے کے فارغ (ریٹائرڈ) اور معزز افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائی جاسکتی ہیں جو اپنے اپنے علاقے (محلے) میں مسلسل قیمتوں پر نظر رکھیں۔ بیروزگاری میں کمی کے لیے چھوٹے چھوٹے وسائل مہیا کرنے کے لیے بھی کاروباری ماہرین پر مشتمل ایک گروپ اپنی کوشش سے نوجوانوں کی صلاحیت کے مطابق ان کو روزگار فراہم کرنے یا انھیں چھوٹے چھوٹے قرض آسان شرائط پر مہیا کرے۔ یہ فہرست خاصی طویل ہوسکتی ہے۔ مگر جب قوم میں بدعنوانی اس قدر بڑھ چکی ہو تو کسی کو تو آگے آکر اس کو لگام دینی ہوگی۔
ایدھی کی شب و روز کی انتھک کوششوں سے جہاں بے شمار لاوارث، دکھی انسانوں، بیماروں ، لاچاروں، بے سہارا خواتین و حضرات اور ٹھکرائی ہوئی لڑکیوں کو رہائش، لباس، کھانا اور سائبان میسر ہوا، اس کے باوجود کیا پاکستان میں ہر بھوکے کو پیٹ بھر کر روٹی، تن ڈھانپنے کو لباس، رہنے کے لیے گھر مل سکا؟ نہیں، کیونکہ بنیادی طور پر یہ سب کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں جو اپنی بہترین منصوبہ بندی سے تمام مسائل حل کرنے کے نہ صرف وسائل بلکہ اختیار بھی رکھتی ہے، مگر کوئی صاحب اقتدار کچھ کرنا ہی نہ چاہے تو۔ البتہ کچھ افراد مل کر پوری قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔
ایدھی کی مثال سامنے ہے کہ تنہا اپنی ذات میں ایک نہیں کئی انجمنیں تھے سوچنا چاہیے کہ تنہا انسان اتنا کچھ کرسکتا ہے تو کئی افراد پر مشتمل ایک گروہ کچھ نہ کچھ تو کرسکتا ہے۔ مگر اس خودغرض معاشرے میں جہاں ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی حق تلفی پر تلا ہوا ہے وہاں ایسے افراد کو کون جمع کرے؟ ہم جانتے ہیں کہ بدعنوانی معاشرے کی رگ و پے میں مکمل طور پر سرائیت کرچکی ہے، پھر بھی ہم میں سے کتنے ہیں جو ایسے افراد سے واقف ہیں کہ آج بھی ناانصافی، خودغرضی اور اہلیت کا خون ہونے پر کڑھتے رہتے ہیں، ان ہی میں سے ایسے افراد تلاش کیجیے، ان کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیجیے۔ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیجیے۔ بقول فراز
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
سب سے بڑھ کر ایسی مائیں تلاش کیجیے جیسی ایدھی کی ماں تھیں، جو دو پیسوں میں سے ایک کسی ضرورت مند پر خرچ کرنے کا جذبہ اپنے بچوں کے دل میں پیدا کریں۔ وہ ایک پیسہ جو کسی ضرورت مند پر خرچ ہوا اس کی حد کمال کا نام ایدھی، جن کا کام الفاظ میں بیان ہو ہی نہیں سکتا ہے۔