اسٹیبلشمنٹ ملکی بہتری کیلئے کام کرے تو اُس کے ساتھ بھی چلیں گے جہانگیرترین
دھاندلی اب ہنر بن چکا ہے، شفاف الیکشن کیلئے حکمران کی نیت صاف ہونا ضروری ہے
زمانہ موجود کے کامیاب بزنس مین اور نامور سیاست دان جہانگیر خان ترین 4 جولائی 1953ء میں مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلہ دیش) کے شہر کومیلا میں پیدا ہوئے۔ صادق پبلک سکول بہاولپور سے ابتدائی تعلیم اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور سے گریجوایشن کے بعد 1974ء میں وہ ایم بی اے کے لئے امریکہ چلے گئے۔ جہانگیر ترین ایک کامیاب بزنس مین ہیں، جن کی ملکیت میں کئی شوگرملز ہیں۔
جہانگیر ترین کو پاکستان میں جدید ترقی یافتہ زراعت کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔گنے کی کاشت میں نئی تحقیق اور کاشتکاروں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی سے روشناس کروانے والے جہانگیر ترین نے چھوٹے کاشتکاروں کیلئے ایک ایسا نظام بھی بنا رکھا ہے جہاں انہیں بلا سود قرضہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 2010ء میں ''ترین ایجوکیشن فاونڈیشن'' قائم کی جس نے 85 ایسے سرکاری سکولوں کو اپنی ذمہ داری میں لیا جن کی حالت زار خراب تھی مگر آج یہ سکول مثال بن چکے ہیں۔
1997ء میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو شہباز شریف کے دور میں چیئرمین پنجاب ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے پر فائز ہوئے، اس دوران اپنی انتظامی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے نہ صرف اس شعبہ میں نئی پالیسیاں بنائیں بلکہ اصلاحات بھی متعارف کروائیں۔ پارلیمانی سیاست کا آغاز انہوں نے 2002ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی سیٹ جیت کر کیا۔ 2004ء میں انہیں وفاقی وزیر برائے انڈسٹریز کا قلمدان سونپا گیا، اس دوران جہانگیر ترین نے دیہی، طبی اور تعلیمی ترقی کیلئے مختلف پروگرامز بھی شروع کروائے، جو آج تک چل رہے ہیں۔
عوامی خدمت کے بل بوتے پر انہوں نے 2008ء کے الیکشن میں (لودھراں سے) ایک بار پھر بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ فنگشنل کے پارلیمانی لیڈر بن گئے، جس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے فاروڈ بلاک بنا لیا، جو زیادہ دیر نہ چلا کیوں کہ 19دسمبر 2011ء میں جہانگیر ترین نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، جہاں انہیں آج تک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں انہیں اپنے آبائی حلقہ لودھراں سے شکست ہوئی، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ان کے مدمقابل کامیاب امیدوار صدیق بلوچ کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل کر دیا گیا، جس کے بعد 23 دسمبر 2015ء کو ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ عمران خان کے سب سے زیادہ بااعتماد اور قریبی ساتھی کا تاثر رکھنے والے جہانگیر ترین کے مخالفین نہ صرف سیاست بلکہ بزنس میں بھی ان کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں،ایکسپریس نے اُن کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس:آپ ایک کامیاب بزنس مین ہیں تو اس تجربے کی روشنی میں، میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود وطن عزیز کی معاشی بدحالی کی وجوہات کیا ہیں اور ہمیں وہ کونسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، جن سے ہم معاشی طاقت بن سکیں؟
جہانگیر ترین: پاکستان کے ہر بجٹ میں کوئی نہ کوئی ترکیب لگائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں یا اس دفعہ معیشت چل پڑے گی یا اگلے دوسال میں چل پڑے گی، لیکن یہ باتیں صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہتی ہیں، ان پر عملدرآمد کبھی نہیں ہوا، جس کے باعث ملک بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کو مورود الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتی ہے اور یوں یہ سسٹم اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ دیکھیں! ترقی و خوشحالی کے لئے چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جن میں دو چار میں آپ کو یہاں بتا دیتا ہوں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ ضروری اداروں کی مضبوطی ہے اور ادارے مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے۔ حکمرانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تمام ادارے ان کی مٹھی میں رہیں اور ان کے تابع ہو کر چلیں۔ اور جب ہم یہ سوچیں گے کہ اقتدار میں آ کر ہم نے اپنی پارٹی نہیں بلکہ ملک کے لئے کام کرنا ہے، تب ملک میں تبدیلی کی شروعات ہو جائے گی۔ یہ چھوٹی بات نہیں ہے، اداروں میں سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ہماری بنیادی ضرورت ہے، اگر ہم ترقی یافتہ ملک اور مہذب قوم بننا چاہتے ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام patronage (سرپرستی) پر چلتا ہے یعنی میں کچھ بن گیا تو میں نے نوازا اپنے سپورٹرز کو، انہوں نے آگے اپنے حمایتوں کو، تو یوں اس چکر میں پارٹی کا تو فائدہ ہو جاتا ہے، لیکن ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
جب تک ادارے تگڑے نہیں ہوں گے ملک ترقی نہیں کرے گا اور پاکستان تحریک انصاف اس پر یقین رکھتی ہے، اور ہم نے خیبرپختونخوا میں یہ کام شروع کر دیا ہے، وہاں پولیس کو مکمل طور پر سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا گیا ہے، اسی طرح وہاں کے ہسپتالوں کو درست کیا جا رہا ہے اور پھر ہم ان اداروں کی ذمہ داریاں اچھے لوگوں کو دیں گے، جو ڈلیور کریں گے، ہمارا کام صرف انہیں مانیٹر کرنا ہے۔
اب آ جائیں معشیت کی طرف، جس میں سب سے پہلی چیز ٹیکس کا نظام ہے، جو ایسا ہونا چاہیے کہ جو ٹیکس دینے کے قابل ہے صرف وہ ٹیکس دے اور جو قابل نہیں، اس سے کم سے کم ٹیکس لیا جائے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بالکل الٹ ہو رہا ہے، ہمارے حکمران ٹیکس نہیں دیتے، جس وجہ سے غریب پر زیادہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے، وہ چائے کا ڈبہ خریدے یا موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلوائے، ٹیکس صرف اسی کو دینا ہے، تو غریب پر ٹیکس کا بوجھ اسی وقت کم ہو سکتا ہے، جب امیر ٹیکس دے۔
ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں، جو بہت امیر ہیں، گاڑیوں اور بنگلوں والے ہیں، لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے، ان کا کہیں نام ہی نہیں ہے۔ پھر اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے ایف بھی آر کو ٹھیک کرنا ہو گا، لیکن اس پر تو ہمیشہ حکمرانوں کا کنٹرول رہتا ہے۔ کرنا یہ چاہیے کہ ہم ٹیکس پالیسی بنائیں، اسے پارلیمنٹ میں لے جائیں اور قانون منظور کروائیں، پھر ایف بی آر کو خودمختار ادارہ بنا کر اسے یہ قانون دیں کہ وہ اس پر مکمل عملدرآمد کروائے۔ دیکھیں! پاکستان ہیومن ریسورس سے مالا مال ہے، آپ قابل اور دیانت دار لوگوں کو لیں، ان کی سپورٹ کریں تاکہ وہ ڈلیور کریں۔ یہ طے ہے کہ جب تک ٹیکس کوالیکشن ایجنسی پاک صاف نہیں ہو گی تب تک لوگ ٹیکس نہیں دیں گے۔
ایکسپریس:اہمارے انتخابی نظام پر عوام کو وہ اعتماد نہیں جو ہونا چاہیے، دھندلی کا ہنر یہاں بام عروج پر ہے تو اس صورت حال میں بہتری کے لئے آپ کیا تجاویز دیں گے؟
جہانگیر ترین: آپ یاد کریں 1970ء کے الیکشن کو، جس کے بارے میں آج تک کسی نے نہیں کہا کہ اس میں دھاندلی ہوئی تھی، حالاں کہ اس وقت موبائل فون کی بھرمار تھی نہ میڈیا اتنا متحرک تھا، لیکن اس وقت کے جو حکمران تھے، ان کا فیصلہ تھا کہ یہ الیکشن مکمل شفاف ہو گا اور پھر ایسا ہو گیا، تو اس سے ثابت ہوا کہ جب حکمران اور ایلیٹ کلاس کی نیت صاف ہو کہ الیکشن ٹھیک کروانے ہیں تو وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب یہ بیماری (دھاندلی) اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ دھاندلی کے سپیشلسٹ بن گئے ہیں، میں خود اس بیماری کا شکار ہوا، پھر مجھے یہ سیکھنا پڑا کہ اس کا سامنا کیسے کرنا ہے؟ پہلے کوئی دھاندلی کا سوچتا تک نہیں تھا، لیکن آج یہ ایک ہنر بن چکا ہے، ہم اس جمہوریت کو کیا جمہوریت کہیں، جس میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دو ماہ ایک طرف اور آخری دن کی مہم ایک طرف ہے، یعنی آپ الیکشن آخری دن جیتتے یا ہارتے ہیں۔ لہٰذا میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شفاف الیکشن کروانے کے لئے صرف حکمرانوں کی نیت ٹھیک ہونی چاہیے، سیاسی پارٹیوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے شفاف الیکشن کروانا ہے۔
ایکسپریس:ا آپ کے بارے میں تاثر ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں تو دوسری طرف 97ء میں وزیر اعلی شہباز شریف کے مشیر اور زرعی ٹاسک فورس کے چیئرمین بننے کی حیثیت سے آپ کا میاں برادران سے بھی تعلق رہا تو ان تعلقات کی بنیاد پر بتائیں کہ میاں نواز شریف جب بھی حکومت میں آتے ہیں تو ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کیوں نہیں بنتی؟
جہانگیر ترین: میاں نواز شریف کے بارے میں، میںکیا کہوں ان کی اپنی طبیعت ہے۔ میں تو صرف اپنے بارے میں جواب دوں گا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میرے بارے میں ایسا تاثر کیوں ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہوں؟دیکھیں! میں نے اپنے کیریئر کا آغاز شہباز شریف کے ساتھ کیا اور اس کے بعد میری جتنی بھی سیاست ہے، وہ منتخب سیاست ہے۔ میں 2002ء، 2008ء اور اب ایک بار پھر الیکشن جیت کر اسمبلی میں آیا ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے ملک کے لئے کام کرتا ہوں، وہ اگر اسٹیبلشمنٹ کرے ، ملک کی خاطر کرے، تو ہم اس کے ساتھ چلنے کو بھی تیار ہیں، اسی لئے میں نے سب کچھ چھوڑ کر عمران خان کا ساتھ دیا۔ دیکھیں! اب ہم مزید اس ملک کا نقصان کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اب مزید گنجائش نہیں ہے، ہم نے اس ملک کو بچانا ہے، جس کے لئے ہمیں نکلنا پڑے گا۔
ایکسپریس:ا کیا اس وقت مملکت پاکستان Soft Coup کے زیر اثر چل رہی ہے؟
جہانگیر ترین: میرے خیال میں ایسا تو نہیں ہے، لیکن یہ تو ایک یقینی بات ہے کہ نواز شریف کی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے انہوں نے بہت زیادہ (سپیس دی) جگہ خالی کر دی ہے، ایک خلا پیدا کر دیا، جس کو پُر کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو آنا پڑا۔ مثلاً خارجہ پالیسی کو ہی دیکھ لیں کہ یہ لوگ کچھ کرتے ہی نہیں، انڈیا نیوکلیئرسپلائر گروپ میں آنے جا رہا تھا تو یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے، اور پھر جب اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بلا کر کہا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ تو پھر یہ متحرک ہوئے۔ تو اگر آپ خود جگہ خالی کر دیں گے تو کوئی نہ کوئی تو اسے پُر کرے گا۔
ایکسپریس:ا ایک وقت وہ بھی آیا جب آپ نے اپنے کچھ ہم خیال لوگوں کو ملا کر اپنی پارٹی بنانے کا ارادہ کیا، کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے کہا، لیکن پھر بات نہ بن سکی، کیا کہیں گے؟
جہانگیر ترین: میں آپ کو سیدھی بات بتاؤں گا، ہمارا بہت مضبوط ایک گروپ بن گیا تھا، ہم نے بہت سارا کام بھی مکمل کر لیا تھا، لیکن 30 اکتوبر 2011ء کو خان صاحب کا جو لاہور میں تاریخی جلسہ ہوا، اس کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ قوم نے عمران خان کو تبدیلی کے لئے اپنا لیڈر چن لیا ہے، تو اس لئے ہم نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے بجائے پورے کا پورا گروپ عمران خان کے ساتھ جا کر مل گیا، ہم نے سوچا تبدیلی بانٹ کر نہیں آ سکتی، ہمیں متحد ہونا ہو گا۔
ایکسپریس:ا تحریک انصاف کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں، پارٹی کو ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے، جس سے وہ ملک کی سب سے بڑی عوامی طاقت بن جائے؟
جہانگیر ترین: عمران خان کی 20 سالہ جدوجہد سٹیٹس کو کے خلاف ہے، جتنے بھی پاکستان کے مسائل ہیں، جن میں سے کچھ کا، میں نے اوپر ذکر کیا، وہ سب سٹیٹس کو کی وجہ سے ہیں، اس لئے تحریک انصاف ہی قوم کے لئے وہ واحد امید ہے، جو سٹیٹس کو کے خلاف ہے۔ عوام کے لئے کسی نے کچھ نہیں کیا، لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہو چکی ہے، ان کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں، بڑے بڑے پراجیکٹ صرف کمیشن کے لئے بنائے جا رہے ہیں۔ دیکھیں! ملک میں کاشتکار 70 فیصد ہیں اور ان کا آپ نے بیڑہ غرق کر دیا ہے، جب تک آپ کسان کو خوشحال نہیں بنائیں گے، ملکی معیشت نہیں چل سکتی۔ کسان کا منافع کمانا اشد ضروری ہے۔
ایکسپریس:ا کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کیا عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے؟ حالاں کہ وہاں تو آئے روز وزراء کے جھگڑوں اور نئے گروپ بننے کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں تو ایسے میں عوامی خدمت کیسے ممکن ہو گی؟
جہانگیر ترین: دیکھیں! عوام کی خدمت کرنے کے لئے کچھ بنیادی چیزیں کرنا پڑتی ہیں، جن کا ہم نے آغاز کر دیا ہے، وہ عمل جاری ہے۔ جیسے میں نے آپ کو پہلے پولیس کے حوالے سے ذکر کیا کہ وہ سیاسی مداخلت سے پاک ہو کر کام کر رہی ہے اور اسے ملک بھر میں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ دوسرا پاکستان میں تبدیلی لانے کے لئے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہے، اور ہم نے بلدیاتی نظام کے ذریعے یہ کام شروع کر دیا ہے، ہم صرف یونین کونسل تک نہیں رہے بلکہ گاؤں تک گئے ہیں، ویلیج سنٹرز بنا کر انہیں براہ راست فنڈز دیئے جا رہے ہیں۔ ہم نے 30 فیصد ترقیاتی بجٹ لولکل اداروں کو دیا ہے۔
ایکسپریس:گزشتہ دور حکومت میں جب صرف پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی تو یہاں ہونے والے اعلی سطحی اجلاسوں میں شہبازشریف کے ساتھ نواز شریف بیٹھتے تو تحریک انصاف انہیں بھرپور تنقید کا نشانہ بناتی رہی لیکن آج کے پی کے میں تحریک انصاف وہی کچھ کر رہی ہے جو ن لیگ پنجاب میں کر رہی تھی حتی کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کے پی کے کی حکومت تو چلا ہی آپ رہے ہیں، کیا کہیں گے؟
جہانگیر ترین: (ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے) اس طرح کی باتیں صرف ہمارے سیاسی مخالفین کرتے ہیں، جیسے کے پی کے میں اے این پی اور یہاں ن لیگ ہے۔ ہم میں سے کوئی خیبرپختونخوا کے سرکاری اجلاسوں میں نہیں بیٹھتا۔ عمران خان صاحب رولنگ پارٹی کے چیئرمین ہیں، میں پالیسی پلاننگ کا سربراہ تھا، ہم صرف اپنے پارٹی منشور کے عملدرآمد کی حد تک خیبرپختونخوا کی حکومت سے رابطے میں رہتے ہیں، لیکن ایگزیگٹو فنگشن اور حکومت چلانے کا جو عمل ہے، وہ خٹک صاحب اپنی کابینہ کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
ایکسپریس: پانامہ ایشو پر اپنی پارٹی اور اس کے سربراہ عمران خان کے موقف سے انحراف کرتے ہوئے گزشتہ ماہ آپ نے کہاکہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں اور آپ کے بچوں کے نام پر بھی آف شور کمپنی ہیں تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ کے بچوں کی کمپنیاں درست جبکہ نواز شریف کے بچوں کی غیرقانونی ہیں؟
جہانگیر ترین: دیکھیں! قانون کے مطابق اگر آپ آف شور کمپنی بناتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ آیا آف شور کمپنی بناتے ہوئے قانون کو فالو کیا گیا؟ میں نے تو خود ڈکلیئر کیا کہ میرے پاس وہاں پراپرٹی ہے، جو ایک کمپنی کے نام ہے، میرے بارے میں کسی نے تو کوئی انکشاف نہیں کیا، میں نے خود بتایا کہ میں نے اپنا جائز پیسا، جس میں سے ٹیکس دیا جاتا ہے اور وہ بنک کے ذریعے قانونی طور پر وہاں بھیجا، میرے پاس پورا ریکارڈ موجود ہے۔ 2011ء میں جب میں نے یہ پراپرٹی خریدی تھی، اس وقت سے میں اور میرے بچے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں۔ یہ تو ہے میرا معاملہ، اچھا دوسری طرف نواز شریف صاحب کی اس لئے غلط ہے کہ انہوں نے پیسا چھپایا، ان کی منی ٹریل نہیں ہے، وہ ہمیں بتا دیں کہ انہوں نے یہ پیسا کہاں سے کمایا اور یہاں لگایا، جیسے میں نے بتایا، پھر ہم کہیں گے کہ اوکے یہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن ان کی منی ٹریل نہیں، ہمارے پاس ثبوت ہیں، انہوں نے بظاہر اتنا پیسا کمایا ہی نہیں جتنا وہاں لگا چکے ہیں۔ تو وہ بتائیں کہ اتنا پیسا کہاں سے آیا اور بیرون ملک کس چینل کے ذریعے گیا؟
ایکسپریس:ا مخالفین کو چھوڑیں آپ کی اپنی پارٹی کے اہم رہنما جسٹس وجیہ الدین نے بھی آپ کو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین قرار دے دیا ہے، کیا کہیں گے؟
جہانگیر ترین: اس طرح کی باتیں تو مخالفین کرتے رہتے ہیں، لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوںکہ اللہ تعالی نے میرے کاروبار میں برکت ڈالی، میرے پاس وسائل ہیں اور میں انہیں اپنی خوشی سے خرچ کرتا ہوں تو اس میں کسی کو کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ یا تو یہ ہو ناں کہ میں نے کبھی کوئی کام نہ کیا ہو، میرا کیرئر نہ ہو، تو اس کو میں اپنی پارٹی کے لئے استعمال کرتا ہوں تو کسی کو کیا اعتراض ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہم تو سب کے سامنے ہیں، اصل مسئلہ ان پارٹیوں کا ہے، جو چھپ کر پیسے لیتی ہیں اور پھر وہ ان لوگوں کے مفاد کے لئے کام کرتی ہیں۔
ایکسپریس: اس وقت تحریک انصاف کی رکنیت سازی ایک بار پھر پارٹی کیلئے بڑا ایشو بن چکی ہے، آپ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں تو رکنیت سازی کے لئے آپ کے ذہن میں کیا حکمت عملی ہے؟ اور دوسرا کیا آپ اپنے صاحبزادے کو بھی سیاسی میدان میں اتارنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جہانگیر ترین: جماعتی الیکشن کی وجہ سے ہم گروپوں میں بٹ گئے تھے، کیوں کہ جب بھی الیکشن ہوتا ہے تو ایسا ہو جاتا ہے، لیکن اب چوں کہ ابھی تک جماعتی انتخابات نہیں ہوئے تو ہم کوشش کر رہے ہیں کہ نیچے تک یہ پیغام جائے کہ اب کوئی گروپنگ نہیں ہے، سب نے متحد ہو کر چلنا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اوپر سے ایک ہوں، یہ عمل اب شروع ہو چکا ہے۔ مجھے خوشی ہے اس بات پر کہ بحیثیت سیکرٹری جنرل میں جب بھی اجلاس بلاتا ہوں تو سب اس میں شریک ہوتے ہیں، جو واضح پیغام ہے کہ ہم سب نے اب اکٹھے رہنا ہے، ہمارا اصل مقابلہ ن لیگ اور پی پی کے ساتھ ہے۔
پارٹی کو یکجا کر کے میرٹ پر فیصلے کرنا ہی اس وقت میری سب سے پہلی ترجیح ہے اور عہدے ان لوگوں کو ملیں گے، جو کچھ ڈلیور کر سکتے ہیں۔ دوسرا جو آپ نے میرے بیٹے کی بات کی تو علی خان ترین نے این اے 154 کے ضمنی الیکشن میں میری انتخابی مہم میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا بالخصوص پولنگ ڈے کے انتظامات کو اس نے نہایت ہی دانشمندی کے ساتھ مکمل کیا مگر اس نے مستقبل میں عملی طور پر سیاست میں آنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔
''تم وزیر اعلیٰ کے مشیر ہوتمہاری نہر کبھی بند نہیں ہو گی''
جس زمانے میں، میں پہلی بار وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا مشیر برائے زراعت بنا تو اس وقت آسٹریلیا سے میں ایک گورے کو لے کر آیا، جسے میں نے اپنا منیجر بنایا، وہ گرمیوں کے تین ماہ کے لئے پاکستان آتا تھا، تو اس دوران ایک بار میں جب اپنے فارم ہائوس پر گیا تو میں نے معلوم کیا کہ نہر کیسی چل رہی ہے؟ کیوں کہ عام طور پر گرمیوں میں پانی کی کمی کے باعث نہر کبھی چلتی اور کبھی بند ہو جاتی ہے، لیکن مجھے بتایا گیا کہ ایک بھی دن کے لئے نہر بند نہیں ہوئی۔
میں نے اپنے گورے منیجر کو کہا کہ دیکھو! ہم نے کتنا اچھا نظام کر دیا ہے، تو اس نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ''اب یہ نہر کبھی بند نہیں ہو گی''، میں نے کہا کیوں؟ تو وہ بولا ''تمہیں نہیں معلوم، تم اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر بن گئے ہو تو تمہاری نہر اب کبھی بند نہیں ہو گی بلکہ کسی اور کی بند ہو گی'' دیکھیں! پاکستان میں معاملہ یہ ہے کہ جب آپ کسی عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو بیوروکریسی اور کچھ دیگر لوگ آپ کے اردگرد ایک ایسا خول بنا دیتے ہیں کہ آپ اس کے پار دیکھ ہی نہیں پاتے، آپ کو لوگوں کے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں ہوتا اور جب ادراک ہی نہیں ہو گا تو مسائل حل کیسے ہوں گے؟
آئیڈیل شخصیت نبی کریمﷺپسندیدہ کھیل سکوائش، کھلاڑی باکسر محمد علی
آئیڈیل شخصیت کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں۔ ہمارے آقا نبی کریمﷺ میری آئیڈیل شخصیت ہیں، جن کی تعلیمات سے ہم سیکھ رہے ہیں اور سیکھتے رہیں گے۔میں جوانی کے زمانہ میں سکوائش کھیلتا تھا، کیوں کہ مجھے یہ بہت پسند تھی، لیکن پسندیدہ کھلاڑی کوئی سکوائش کا پلیئر نہیں بلکہ باکسر محمد علی کلے مرحوم ہے، جس نے پوری دنیا میں نام کمایا۔
جب وہ کھیلتے تھے، اس زمانے میں ہم ان کا کوئی میچ مس نہیں کرتے تھے، میں نے ان کا ہر میچ دیکھا ہے، اس زمانے میں گوکہ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتے تھے، لیکن ملک بھر میں بڑے انہماک سے محمد علی کلے کا میچ دیکھا جاتا تھا۔ کتابیں میں پڑھتا رہتا ہوں، لیکن بڑے لوگوں کی سوانح حیات کا شوقین ہوں۔ نپولین بونا پارٹ کی سوانح حیات میری پسندیدہ کتاب ہے، اس آدمی نے بہت کم عرصہ میں پوری دنیا بھی تبدیلی پیدا کر دی، اس کے ملٹری آپریشنز بہت منفرد تھے، اس کا دیا ہوا نپولین پینل کورٹ آج بھی چل رہا ہے، دیکھیں! یہ وہ عظیم لوگ تھے، جن کا نام سینکڑوں، ہزاروں سال زندہ رہتا ہے۔ عمر کے مختلف حصوں میں مختلف موسیقی پسند رہی، تاہم قوالیاں مجھے بہت پسند ہیں، صوفیانہ کلام سے خاص انسیت رکھتا ہوں۔ کوئی بھی اداکار کچھ خاص پسند نہیں۔n
''گھر پہنچا تو بجلی بند تھی، نوکر ٹارچ کے ذریعے خان صاحب کے کمرے میں لایا''
عمران خان ایک قومی لیڈر اور سب سے مقبول ہیں، لاکھوں لوگ ان کو فالو کرتے ہیں، مگر وہ آدمی بہت سیدھا اور سادہ ہے، مادہ پرست نہیں، اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس حوالے سے میں آپ کے ساتھ ایک واقعہ یہاں شیئر کروں گا۔ میں عمران خان کو جانتا تو بہت پہلے سے تھا، لیکن جب میں نے تحریک انصاف کو جوائن کیا تو ایک روز رات کو ان کے گھر گیا، انہوں نے مجھے کھانے پر بلایا تھا اور میں بالکل اکیلا تھا۔ اس وقت بجلی بند تھی، میں نے گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک نوکر باہر آیا، جس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی اور وہ اسی ٹارچ کے ذریعے مجھے خان صاحب کے کمرے میں لے گیا۔
جہاں صرف ایک کمرے میں یو پی ایس کے ذریعے لائٹ جل رہی تھی، باقی سارے گھر میں اندھیرا تھا، گھر میں بجلی کی کوئی ڈبل لائن تھی نہ جنریٹر اور اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ خان صاحب کو اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ آپ دیکھیں پاکستان میں جو لیڈر بن جاتا ہے وہ خود کو کوئی الگ مخلوق ہی تصور کر لیتا ہے، لیکن عمران خان آج بھی بہت سادہ انسان ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہے، جو پاکستان میں تبدیلی لا سکتا ہے۔
جہانگیر ترین کو پاکستان میں جدید ترقی یافتہ زراعت کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔گنے کی کاشت میں نئی تحقیق اور کاشتکاروں کو جدید زرعی ٹیکنالوجی سے روشناس کروانے والے جہانگیر ترین نے چھوٹے کاشتکاروں کیلئے ایک ایسا نظام بھی بنا رکھا ہے جہاں انہیں بلا سود قرضہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے 2010ء میں ''ترین ایجوکیشن فاونڈیشن'' قائم کی جس نے 85 ایسے سرکاری سکولوں کو اپنی ذمہ داری میں لیا جن کی حالت زار خراب تھی مگر آج یہ سکول مثال بن چکے ہیں۔
1997ء میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو شہباز شریف کے دور میں چیئرمین پنجاب ٹاسک فورس برائے زراعت کے عہدے پر فائز ہوئے، اس دوران اپنی انتظامی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے نہ صرف اس شعبہ میں نئی پالیسیاں بنائیں بلکہ اصلاحات بھی متعارف کروائیں۔ پارلیمانی سیاست کا آغاز انہوں نے 2002ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی سیٹ جیت کر کیا۔ 2004ء میں انہیں وفاقی وزیر برائے انڈسٹریز کا قلمدان سونپا گیا، اس دوران جہانگیر ترین نے دیہی، طبی اور تعلیمی ترقی کیلئے مختلف پروگرامز بھی شروع کروائے، جو آج تک چل رہے ہیں۔
عوامی خدمت کے بل بوتے پر انہوں نے 2008ء کے الیکشن میں (لودھراں سے) ایک بار پھر بڑے مارجن سے کامیابی حاصل کی اور قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ فنگشنل کے پارلیمانی لیڈر بن گئے، جس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے فاروڈ بلاک بنا لیا، جو زیادہ دیر نہ چلا کیوں کہ 19دسمبر 2011ء میں جہانگیر ترین نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، جہاں انہیں آج تک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں انہیں اپنے آبائی حلقہ لودھراں سے شکست ہوئی، لیکن کچھ عرصہ بعد ہی ان کے مدمقابل کامیاب امیدوار صدیق بلوچ کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل کر دیا گیا، جس کے بعد 23 دسمبر 2015ء کو ضمنی انتخابات میں جہانگیر ترین کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ عمران خان کے سب سے زیادہ بااعتماد اور قریبی ساتھی کا تاثر رکھنے والے جہانگیر ترین کے مخالفین نہ صرف سیاست بلکہ بزنس میں بھی ان کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں،ایکسپریس نے اُن کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس:آپ ایک کامیاب بزنس مین ہیں تو اس تجربے کی روشنی میں، میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود وطن عزیز کی معاشی بدحالی کی وجوہات کیا ہیں اور ہمیں وہ کونسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، جن سے ہم معاشی طاقت بن سکیں؟
جہانگیر ترین: پاکستان کے ہر بجٹ میں کوئی نہ کوئی ترکیب لگائی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں یا اس دفعہ معیشت چل پڑے گی یا اگلے دوسال میں چل پڑے گی، لیکن یہ باتیں صرف کاغذوں کی حد تک محدود رہتی ہیں، ان پر عملدرآمد کبھی نہیں ہوا، جس کے باعث ملک بتدریج تنزلی کا شکار ہے۔ ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کو مورود الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو جاتی ہے اور یوں یہ سسٹم اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ دیکھیں! ترقی و خوشحالی کے لئے چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، جن میں دو چار میں آپ کو یہاں بتا دیتا ہوں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ ضروری اداروں کی مضبوطی ہے اور ادارے مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں سیاسی مداخلت ختم کی جائے۔ حکمرانوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تمام ادارے ان کی مٹھی میں رہیں اور ان کے تابع ہو کر چلیں۔ اور جب ہم یہ سوچیں گے کہ اقتدار میں آ کر ہم نے اپنی پارٹی نہیں بلکہ ملک کے لئے کام کرنا ہے، تب ملک میں تبدیلی کی شروعات ہو جائے گی۔ یہ چھوٹی بات نہیں ہے، اداروں میں سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ہماری بنیادی ضرورت ہے، اگر ہم ترقی یافتہ ملک اور مہذب قوم بننا چاہتے ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام patronage (سرپرستی) پر چلتا ہے یعنی میں کچھ بن گیا تو میں نے نوازا اپنے سپورٹرز کو، انہوں نے آگے اپنے حمایتوں کو، تو یوں اس چکر میں پارٹی کا تو فائدہ ہو جاتا ہے، لیکن ملک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
جب تک ادارے تگڑے نہیں ہوں گے ملک ترقی نہیں کرے گا اور پاکستان تحریک انصاف اس پر یقین رکھتی ہے، اور ہم نے خیبرپختونخوا میں یہ کام شروع کر دیا ہے، وہاں پولیس کو مکمل طور پر سیاسی مداخلت سے پاک کر دیا گیا ہے، اسی طرح وہاں کے ہسپتالوں کو درست کیا جا رہا ہے اور پھر ہم ان اداروں کی ذمہ داریاں اچھے لوگوں کو دیں گے، جو ڈلیور کریں گے، ہمارا کام صرف انہیں مانیٹر کرنا ہے۔
اب آ جائیں معشیت کی طرف، جس میں سب سے پہلی چیز ٹیکس کا نظام ہے، جو ایسا ہونا چاہیے کہ جو ٹیکس دینے کے قابل ہے صرف وہ ٹیکس دے اور جو قابل نہیں، اس سے کم سے کم ٹیکس لیا جائے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بالکل الٹ ہو رہا ہے، ہمارے حکمران ٹیکس نہیں دیتے، جس وجہ سے غریب پر زیادہ بوجھ لاد دیا جاتا ہے، وہ چائے کا ڈبہ خریدے یا موٹرسائیکل میں پٹرول ڈلوائے، ٹیکس صرف اسی کو دینا ہے، تو غریب پر ٹیکس کا بوجھ اسی وقت کم ہو سکتا ہے، جب امیر ٹیکس دے۔
ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں، جو بہت امیر ہیں، گاڑیوں اور بنگلوں والے ہیں، لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے، ان کا کہیں نام ہی نہیں ہے۔ پھر اس نظام کو ٹھیک کرنے کے لئے ایف بھی آر کو ٹھیک کرنا ہو گا، لیکن اس پر تو ہمیشہ حکمرانوں کا کنٹرول رہتا ہے۔ کرنا یہ چاہیے کہ ہم ٹیکس پالیسی بنائیں، اسے پارلیمنٹ میں لے جائیں اور قانون منظور کروائیں، پھر ایف بی آر کو خودمختار ادارہ بنا کر اسے یہ قانون دیں کہ وہ اس پر مکمل عملدرآمد کروائے۔ دیکھیں! پاکستان ہیومن ریسورس سے مالا مال ہے، آپ قابل اور دیانت دار لوگوں کو لیں، ان کی سپورٹ کریں تاکہ وہ ڈلیور کریں۔ یہ طے ہے کہ جب تک ٹیکس کوالیکشن ایجنسی پاک صاف نہیں ہو گی تب تک لوگ ٹیکس نہیں دیں گے۔
ایکسپریس:اہمارے انتخابی نظام پر عوام کو وہ اعتماد نہیں جو ہونا چاہیے، دھندلی کا ہنر یہاں بام عروج پر ہے تو اس صورت حال میں بہتری کے لئے آپ کیا تجاویز دیں گے؟
جہانگیر ترین: آپ یاد کریں 1970ء کے الیکشن کو، جس کے بارے میں آج تک کسی نے نہیں کہا کہ اس میں دھاندلی ہوئی تھی، حالاں کہ اس وقت موبائل فون کی بھرمار تھی نہ میڈیا اتنا متحرک تھا، لیکن اس وقت کے جو حکمران تھے، ان کا فیصلہ تھا کہ یہ الیکشن مکمل شفاف ہو گا اور پھر ایسا ہو گیا، تو اس سے ثابت ہوا کہ جب حکمران اور ایلیٹ کلاس کی نیت صاف ہو کہ الیکشن ٹھیک کروانے ہیں تو وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن اب یہ بیماری (دھاندلی) اتنی بڑھ گئی ہے کہ لوگ دھاندلی کے سپیشلسٹ بن گئے ہیں، میں خود اس بیماری کا شکار ہوا، پھر مجھے یہ سیکھنا پڑا کہ اس کا سامنا کیسے کرنا ہے؟ پہلے کوئی دھاندلی کا سوچتا تک نہیں تھا، لیکن آج یہ ایک ہنر بن چکا ہے، ہم اس جمہوریت کو کیا جمہوریت کہیں، جس میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ انتخابی مہم کے دو ماہ ایک طرف اور آخری دن کی مہم ایک طرف ہے، یعنی آپ الیکشن آخری دن جیتتے یا ہارتے ہیں۔ لہٰذا میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ شفاف الیکشن کروانے کے لئے صرف حکمرانوں کی نیت ٹھیک ہونی چاہیے، سیاسی پارٹیوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے شفاف الیکشن کروانا ہے۔
ایکسپریس:ا آپ کے بارے میں تاثر ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہیں تو دوسری طرف 97ء میں وزیر اعلی شہباز شریف کے مشیر اور زرعی ٹاسک فورس کے چیئرمین بننے کی حیثیت سے آپ کا میاں برادران سے بھی تعلق رہا تو ان تعلقات کی بنیاد پر بتائیں کہ میاں نواز شریف جب بھی حکومت میں آتے ہیں تو ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کیوں نہیں بنتی؟
جہانگیر ترین: میاں نواز شریف کے بارے میں، میںکیا کہوں ان کی اپنی طبیعت ہے۔ میں تو صرف اپنے بارے میں جواب دوں گا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میرے بارے میں ایسا تاثر کیوں ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہوں؟دیکھیں! میں نے اپنے کیریئر کا آغاز شہباز شریف کے ساتھ کیا اور اس کے بعد میری جتنی بھی سیاست ہے، وہ منتخب سیاست ہے۔ میں 2002ء، 2008ء اور اب ایک بار پھر الیکشن جیت کر اسمبلی میں آیا ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے ملک کے لئے کام کرتا ہوں، وہ اگر اسٹیبلشمنٹ کرے ، ملک کی خاطر کرے، تو ہم اس کے ساتھ چلنے کو بھی تیار ہیں، اسی لئے میں نے سب کچھ چھوڑ کر عمران خان کا ساتھ دیا۔ دیکھیں! اب ہم مزید اس ملک کا نقصان کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، اب مزید گنجائش نہیں ہے، ہم نے اس ملک کو بچانا ہے، جس کے لئے ہمیں نکلنا پڑے گا۔
ایکسپریس:ا کیا اس وقت مملکت پاکستان Soft Coup کے زیر اثر چل رہی ہے؟
جہانگیر ترین: میرے خیال میں ایسا تو نہیں ہے، لیکن یہ تو ایک یقینی بات ہے کہ نواز شریف کی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے انہوں نے بہت زیادہ (سپیس دی) جگہ خالی کر دی ہے، ایک خلا پیدا کر دیا، جس کو پُر کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو آنا پڑا۔ مثلاً خارجہ پالیسی کو ہی دیکھ لیں کہ یہ لوگ کچھ کرتے ہی نہیں، انڈیا نیوکلیئرسپلائر گروپ میں آنے جا رہا تھا تو یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے، اور پھر جب اسٹیبلشمنٹ نے انہیں بلا کر کہا کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ تو پھر یہ متحرک ہوئے۔ تو اگر آپ خود جگہ خالی کر دیں گے تو کوئی نہ کوئی تو اسے پُر کرے گا۔
ایکسپریس:ا ایک وقت وہ بھی آیا جب آپ نے اپنے کچھ ہم خیال لوگوں کو ملا کر اپنی پارٹی بنانے کا ارادہ کیا، کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے کے لئے آپ کو اسٹیبلشمنٹ نے کہا، لیکن پھر بات نہ بن سکی، کیا کہیں گے؟
جہانگیر ترین: میں آپ کو سیدھی بات بتاؤں گا، ہمارا بہت مضبوط ایک گروپ بن گیا تھا، ہم نے بہت سارا کام بھی مکمل کر لیا تھا، لیکن 30 اکتوبر 2011ء کو خان صاحب کا جو لاہور میں تاریخی جلسہ ہوا، اس کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ قوم نے عمران خان کو تبدیلی کے لئے اپنا لیڈر چن لیا ہے، تو اس لئے ہم نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے بجائے پورے کا پورا گروپ عمران خان کے ساتھ جا کر مل گیا، ہم نے سوچا تبدیلی بانٹ کر نہیں آ سکتی، ہمیں متحد ہونا ہو گا۔
ایکسپریس:ا تحریک انصاف کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں، پارٹی کو ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے، جس سے وہ ملک کی سب سے بڑی عوامی طاقت بن جائے؟
جہانگیر ترین: عمران خان کی 20 سالہ جدوجہد سٹیٹس کو کے خلاف ہے، جتنے بھی پاکستان کے مسائل ہیں، جن میں سے کچھ کا، میں نے اوپر ذکر کیا، وہ سب سٹیٹس کو کی وجہ سے ہیں، اس لئے تحریک انصاف ہی قوم کے لئے وہ واحد امید ہے، جو سٹیٹس کو کے خلاف ہے۔ عوام کے لئے کسی نے کچھ نہیں کیا، لوگوں کی حالت بد سے بدتر ہو چکی ہے، ان کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں، بڑے بڑے پراجیکٹ صرف کمیشن کے لئے بنائے جا رہے ہیں۔ دیکھیں! ملک میں کاشتکار 70 فیصد ہیں اور ان کا آپ نے بیڑہ غرق کر دیا ہے، جب تک آپ کسان کو خوشحال نہیں بنائیں گے، ملکی معیشت نہیں چل سکتی۔ کسان کا منافع کمانا اشد ضروری ہے۔
ایکسپریس:ا کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت کیا عوامی توقعات پر پورا اتر رہی ہے؟ حالاں کہ وہاں تو آئے روز وزراء کے جھگڑوں اور نئے گروپ بننے کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں تو ایسے میں عوامی خدمت کیسے ممکن ہو گی؟
جہانگیر ترین: دیکھیں! عوام کی خدمت کرنے کے لئے کچھ بنیادی چیزیں کرنا پڑتی ہیں، جن کا ہم نے آغاز کر دیا ہے، وہ عمل جاری ہے۔ جیسے میں نے آپ کو پہلے پولیس کے حوالے سے ذکر کیا کہ وہ سیاسی مداخلت سے پاک ہو کر کام کر رہی ہے اور اسے ملک بھر میں کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ دوسرا پاکستان میں تبدیلی لانے کے لئے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہے، اور ہم نے بلدیاتی نظام کے ذریعے یہ کام شروع کر دیا ہے، ہم صرف یونین کونسل تک نہیں رہے بلکہ گاؤں تک گئے ہیں، ویلیج سنٹرز بنا کر انہیں براہ راست فنڈز دیئے جا رہے ہیں۔ ہم نے 30 فیصد ترقیاتی بجٹ لولکل اداروں کو دیا ہے۔
ایکسپریس:گزشتہ دور حکومت میں جب صرف پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی تو یہاں ہونے والے اعلی سطحی اجلاسوں میں شہبازشریف کے ساتھ نواز شریف بیٹھتے تو تحریک انصاف انہیں بھرپور تنقید کا نشانہ بناتی رہی لیکن آج کے پی کے میں تحریک انصاف وہی کچھ کر رہی ہے جو ن لیگ پنجاب میں کر رہی تھی حتی کہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کے پی کے کی حکومت تو چلا ہی آپ رہے ہیں، کیا کہیں گے؟
جہانگیر ترین: (ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے) اس طرح کی باتیں صرف ہمارے سیاسی مخالفین کرتے ہیں، جیسے کے پی کے میں اے این پی اور یہاں ن لیگ ہے۔ ہم میں سے کوئی خیبرپختونخوا کے سرکاری اجلاسوں میں نہیں بیٹھتا۔ عمران خان صاحب رولنگ پارٹی کے چیئرمین ہیں، میں پالیسی پلاننگ کا سربراہ تھا، ہم صرف اپنے پارٹی منشور کے عملدرآمد کی حد تک خیبرپختونخوا کی حکومت سے رابطے میں رہتے ہیں، لیکن ایگزیگٹو فنگشن اور حکومت چلانے کا جو عمل ہے، وہ خٹک صاحب اپنی کابینہ کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
ایکسپریس: پانامہ ایشو پر اپنی پارٹی اور اس کے سربراہ عمران خان کے موقف سے انحراف کرتے ہوئے گزشتہ ماہ آپ نے کہاکہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں اور آپ کے بچوں کے نام پر بھی آف شور کمپنی ہیں تو کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ کے بچوں کی کمپنیاں درست جبکہ نواز شریف کے بچوں کی غیرقانونی ہیں؟
جہانگیر ترین: دیکھیں! قانون کے مطابق اگر آپ آف شور کمپنی بناتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن سوال یہاں یہ ہے کہ آیا آف شور کمپنی بناتے ہوئے قانون کو فالو کیا گیا؟ میں نے تو خود ڈکلیئر کیا کہ میرے پاس وہاں پراپرٹی ہے، جو ایک کمپنی کے نام ہے، میرے بارے میں کسی نے تو کوئی انکشاف نہیں کیا، میں نے خود بتایا کہ میں نے اپنا جائز پیسا، جس میں سے ٹیکس دیا جاتا ہے اور وہ بنک کے ذریعے قانونی طور پر وہاں بھیجا، میرے پاس پورا ریکارڈ موجود ہے۔ 2011ء میں جب میں نے یہ پراپرٹی خریدی تھی، اس وقت سے میں اور میرے بچے ٹیکس جمع کروا رہے ہیں۔ یہ تو ہے میرا معاملہ، اچھا دوسری طرف نواز شریف صاحب کی اس لئے غلط ہے کہ انہوں نے پیسا چھپایا، ان کی منی ٹریل نہیں ہے، وہ ہمیں بتا دیں کہ انہوں نے یہ پیسا کہاں سے کمایا اور یہاں لگایا، جیسے میں نے بتایا، پھر ہم کہیں گے کہ اوکے یہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن ان کی منی ٹریل نہیں، ہمارے پاس ثبوت ہیں، انہوں نے بظاہر اتنا پیسا کمایا ہی نہیں جتنا وہاں لگا چکے ہیں۔ تو وہ بتائیں کہ اتنا پیسا کہاں سے آیا اور بیرون ملک کس چینل کے ذریعے گیا؟
ایکسپریس:ا مخالفین کو چھوڑیں آپ کی اپنی پارٹی کے اہم رہنما جسٹس وجیہ الدین نے بھی آپ کو عمران خان کی اے ٹی ایم مشین قرار دے دیا ہے، کیا کہیں گے؟
جہانگیر ترین: اس طرح کی باتیں تو مخالفین کرتے رہتے ہیں، لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوںکہ اللہ تعالی نے میرے کاروبار میں برکت ڈالی، میرے پاس وسائل ہیں اور میں انہیں اپنی خوشی سے خرچ کرتا ہوں تو اس میں کسی کو کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ یا تو یہ ہو ناں کہ میں نے کبھی کوئی کام نہ کیا ہو، میرا کیرئر نہ ہو، تو اس کو میں اپنی پارٹی کے لئے استعمال کرتا ہوں تو کسی کو کیا اعتراض ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہم تو سب کے سامنے ہیں، اصل مسئلہ ان پارٹیوں کا ہے، جو چھپ کر پیسے لیتی ہیں اور پھر وہ ان لوگوں کے مفاد کے لئے کام کرتی ہیں۔
ایکسپریس: اس وقت تحریک انصاف کی رکنیت سازی ایک بار پھر پارٹی کیلئے بڑا ایشو بن چکی ہے، آپ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں تو رکنیت سازی کے لئے آپ کے ذہن میں کیا حکمت عملی ہے؟ اور دوسرا کیا آپ اپنے صاحبزادے کو بھی سیاسی میدان میں اتارنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جہانگیر ترین: جماعتی الیکشن کی وجہ سے ہم گروپوں میں بٹ گئے تھے، کیوں کہ جب بھی الیکشن ہوتا ہے تو ایسا ہو جاتا ہے، لیکن اب چوں کہ ابھی تک جماعتی انتخابات نہیں ہوئے تو ہم کوشش کر رہے ہیں کہ نیچے تک یہ پیغام جائے کہ اب کوئی گروپنگ نہیں ہے، سب نے متحد ہو کر چلنا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اوپر سے ایک ہوں، یہ عمل اب شروع ہو چکا ہے۔ مجھے خوشی ہے اس بات پر کہ بحیثیت سیکرٹری جنرل میں جب بھی اجلاس بلاتا ہوں تو سب اس میں شریک ہوتے ہیں، جو واضح پیغام ہے کہ ہم سب نے اب اکٹھے رہنا ہے، ہمارا اصل مقابلہ ن لیگ اور پی پی کے ساتھ ہے۔
پارٹی کو یکجا کر کے میرٹ پر فیصلے کرنا ہی اس وقت میری سب سے پہلی ترجیح ہے اور عہدے ان لوگوں کو ملیں گے، جو کچھ ڈلیور کر سکتے ہیں۔ دوسرا جو آپ نے میرے بیٹے کی بات کی تو علی خان ترین نے این اے 154 کے ضمنی الیکشن میں میری انتخابی مہم میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا بالخصوص پولنگ ڈے کے انتظامات کو اس نے نہایت ہی دانشمندی کے ساتھ مکمل کیا مگر اس نے مستقبل میں عملی طور پر سیاست میں آنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ وہ خود کرے گا۔
''تم وزیر اعلیٰ کے مشیر ہوتمہاری نہر کبھی بند نہیں ہو گی''
جس زمانے میں، میں پہلی بار وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا مشیر برائے زراعت بنا تو اس وقت آسٹریلیا سے میں ایک گورے کو لے کر آیا، جسے میں نے اپنا منیجر بنایا، وہ گرمیوں کے تین ماہ کے لئے پاکستان آتا تھا، تو اس دوران ایک بار میں جب اپنے فارم ہائوس پر گیا تو میں نے معلوم کیا کہ نہر کیسی چل رہی ہے؟ کیوں کہ عام طور پر گرمیوں میں پانی کی کمی کے باعث نہر کبھی چلتی اور کبھی بند ہو جاتی ہے، لیکن مجھے بتایا گیا کہ ایک بھی دن کے لئے نہر بند نہیں ہوئی۔
میں نے اپنے گورے منیجر کو کہا کہ دیکھو! ہم نے کتنا اچھا نظام کر دیا ہے، تو اس نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ''اب یہ نہر کبھی بند نہیں ہو گی''، میں نے کہا کیوں؟ تو وہ بولا ''تمہیں نہیں معلوم، تم اب وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر بن گئے ہو تو تمہاری نہر اب کبھی بند نہیں ہو گی بلکہ کسی اور کی بند ہو گی'' دیکھیں! پاکستان میں معاملہ یہ ہے کہ جب آپ کسی عہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو بیوروکریسی اور کچھ دیگر لوگ آپ کے اردگرد ایک ایسا خول بنا دیتے ہیں کہ آپ اس کے پار دیکھ ہی نہیں پاتے، آپ کو لوگوں کے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں ہوتا اور جب ادراک ہی نہیں ہو گا تو مسائل حل کیسے ہوں گے؟
آئیڈیل شخصیت نبی کریمﷺپسندیدہ کھیل سکوائش، کھلاڑی باکسر محمد علی
آئیڈیل شخصیت کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں۔ ہمارے آقا نبی کریمﷺ میری آئیڈیل شخصیت ہیں، جن کی تعلیمات سے ہم سیکھ رہے ہیں اور سیکھتے رہیں گے۔میں جوانی کے زمانہ میں سکوائش کھیلتا تھا، کیوں کہ مجھے یہ بہت پسند تھی، لیکن پسندیدہ کھلاڑی کوئی سکوائش کا پلیئر نہیں بلکہ باکسر محمد علی کلے مرحوم ہے، جس نے پوری دنیا میں نام کمایا۔
جب وہ کھیلتے تھے، اس زمانے میں ہم ان کا کوئی میچ مس نہیں کرتے تھے، میں نے ان کا ہر میچ دیکھا ہے، اس زمانے میں گوکہ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتے تھے، لیکن ملک بھر میں بڑے انہماک سے محمد علی کلے کا میچ دیکھا جاتا تھا۔ کتابیں میں پڑھتا رہتا ہوں، لیکن بڑے لوگوں کی سوانح حیات کا شوقین ہوں۔ نپولین بونا پارٹ کی سوانح حیات میری پسندیدہ کتاب ہے، اس آدمی نے بہت کم عرصہ میں پوری دنیا بھی تبدیلی پیدا کر دی، اس کے ملٹری آپریشنز بہت منفرد تھے، اس کا دیا ہوا نپولین پینل کورٹ آج بھی چل رہا ہے، دیکھیں! یہ وہ عظیم لوگ تھے، جن کا نام سینکڑوں، ہزاروں سال زندہ رہتا ہے۔ عمر کے مختلف حصوں میں مختلف موسیقی پسند رہی، تاہم قوالیاں مجھے بہت پسند ہیں، صوفیانہ کلام سے خاص انسیت رکھتا ہوں۔ کوئی بھی اداکار کچھ خاص پسند نہیں۔n
''گھر پہنچا تو بجلی بند تھی، نوکر ٹارچ کے ذریعے خان صاحب کے کمرے میں لایا''
عمران خان ایک قومی لیڈر اور سب سے مقبول ہیں، لاکھوں لوگ ان کو فالو کرتے ہیں، مگر وہ آدمی بہت سیدھا اور سادہ ہے، مادہ پرست نہیں، اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس حوالے سے میں آپ کے ساتھ ایک واقعہ یہاں شیئر کروں گا۔ میں عمران خان کو جانتا تو بہت پہلے سے تھا، لیکن جب میں نے تحریک انصاف کو جوائن کیا تو ایک روز رات کو ان کے گھر گیا، انہوں نے مجھے کھانے پر بلایا تھا اور میں بالکل اکیلا تھا۔ اس وقت بجلی بند تھی، میں نے گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک نوکر باہر آیا، جس کے ہاتھ میں ٹارچ تھی اور وہ اسی ٹارچ کے ذریعے مجھے خان صاحب کے کمرے میں لے گیا۔
جہاں صرف ایک کمرے میں یو پی ایس کے ذریعے لائٹ جل رہی تھی، باقی سارے گھر میں اندھیرا تھا، گھر میں بجلی کی کوئی ڈبل لائن تھی نہ جنریٹر اور اس سے بھی بڑھ کر بات یہ ہے کہ خان صاحب کو اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ آپ دیکھیں پاکستان میں جو لیڈر بن جاتا ہے وہ خود کو کوئی الگ مخلوق ہی تصور کر لیتا ہے، لیکن عمران خان آج بھی بہت سادہ انسان ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے، جس کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان ہی وہ واحد لیڈر ہے، جو پاکستان میں تبدیلی لا سکتا ہے۔