قصہ باغیوں سے بغاوت کا۔۔۔
تُرک عوام نے جمہوری تاریخ کا نیا باب رقم کردیا
PESHAWAR:
مطلق العنان طریقہ حکم رانی تو منسلک ہی طاقت سے ہے، دنیا کے بہت سے جمہوری ممالک میں بھی طاقت وَر ادارے، شخصیات اور تنظیمیں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتی رہتی ہیں، جب کہ جمہوری طرز حکومت میں یہ طاقت لوگوں کی رائے کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔
نہتے لوگوں کی رائے کی طاقت کا بھلا کسی مسلح طاقت وَر جتھے سے کیا تقابل۔۔۔ پھر ایسی بغاوت کے موقع پر کچھ مخالف رائے بھی ساتھ ہو تو عام اکثریت کی رائے کو بے دردی سے کچل دیا جاتا ہے۔ ایسے مناظر عام ہیں جب سادہ اکثریت کی حامل حکومتیں قوت کے بل پر برخاست کردی گئیں، یا جن کی کارکردگی کی بنا پر عوامی حمایت برائے نام رہ گئی تھی، غیر جمہوری طریقے سے برطرف کردی گئیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ریاستوں میں جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین اور پھر انہیں توڑنے پر سزائیں مقرر کی جاتی ہیں، مگر طاقت وَر حلقوں کی مداخلت ذرا کم ہی متاثر ہو پاتی ہے، مگر کبھی تاریخ بدل بھی جاتی ہے۔۔۔ اور ایسا ہی کچھ ہوا 15 جولائی 2016ء کی رات کو ترکی میں۔۔۔ طاقت کے زعم میں کچھ بندوق برداروں نے اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہونے کی کوشش کی۔ شاید انہیں لگا کہ 1960ء سے اب تک چار بار قابض ہونے کی کوشش پانچویں بار بھی پہلے جیسے ہی نتائج دے گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بار ان کی بغاوت اپنے چیف جنرل ہلوسی آکار کے خلاف بھی تھی اور یرغمال بنائے جانے والوں میں جنرل ہلوسی بھی شامل تھے۔
باغی فوجی کمک نے تمام حکومتی ایوانوں کے گھیراؤ کی تیاری مکمل کرلی۔ انقرہ کی شاہ راہوں پر فوجی ٹینک دکھائی دینے لگے۔ سرکاری ٹی وی پر قبضہ کر کے حکومت کی برخاستگی کا اعلان کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا ہے اور باگ ڈور اب ایک امن کونسل چلائے گی۔ اس صورت حال کے نتیجے میں ملک کے طول وارض میں افراتفری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ کرفیو کی افواہیں گردش کرتی ہیں۔ لوگ بے یقینی کے عالم میں اشیائے خوردونوش ذخیرہ کرنے لگتے ہیں۔
اسی اثنا میں صدر طیب اردگان سماجی ذرایع اِبلاغ کے ذریعے قوم کو بغاوت کے خلاف مزاحمت کا پیغام دیتے ہیں۔۔۔ کہ جمہوریت بچانے کے لیے سڑکوں پر نکل آؤ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نہتے عوام اپنی حکومت بچانے کے لیے مسلح تُرک افواج کے مقابل آجاتے ہیں۔ فضا میں باغی فوج کے ہیلی کاپٹر گشت کر رہے ہیں اور زمین قوی ہیکل ٹینکوں کی گھن گرج تلے ہے۔۔۔ عوام کے گھروں سے نکلتے ہی باغیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پیش قدمی رکنے لگتی ہے۔ خوف زدہ فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجتی ہے، بارود کی مہک میں انسانی لہو کی بو شامل ہونے لگتی ہے۔
ایک طرف جدید اسلحے سے لیس باوردی فوجی اہلکار ہیں، تو دوسری طرف تہی دست مرد وخواتین اور نوجوان۔۔۔ جو سرِعام بغاوت سے انکار کے نعرے بلند کرتے ہیں۔۔۔ باغیوں کو للکارتے ہیں، انہیں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اس کے جواب میں اپنی ہی ملک کے فوجیوں کی بندوقیں ان پر بارود اگلنے لگتی ہیں۔ درجنوں لوگ گھائل ہوتے ہیں، بہت سے جان سے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے حوصلے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں کا گھیرا تنگ کرنے والے فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتے ہیں۔
محاذ جنگ پر دشمن فوج کے ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹنے کی باتیں اس سے پہلے سنی اور پڑھی تو بہت تھیں، لیکن اپنی ہی فوج کے سامنے ایسی مزاحمت کا شاید یہ نادر مظاہرہ تھا، جو دنیا بھر میں دیکھا گیا۔۔۔ اور مورخ جمہوریت کے تحفظ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس مظاہرے کو فراموش نہ کر سکے گا۔ آزادی فقط دشمنوں اور اغیار کے جبر سے تو نہیں ہوتی، خیالات اور افکار کی آزادی اور مرضی سے جینے اور من چاہے حکم راں چننے کی آزادی بھی بے حد اہم ہوتی ہے اور ان سب چیزوں کا شعور اس سے بھی زیادہ اہم۔
ترکی کی گلیوں میں ظالم اور مظلوموں کا انوکھا مقابلہ ہوتا ہے۔ خالی ہاتھوں والی جنتا کی بندوق بردار جتھے سے لڑائی کا بھلا کیا جوڑ۔۔۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں پرجوش اور پرعزم عوام نے ان قابض طاقت وَروں کو پس پا ہونے پر مجبور کر دیا۔ آگے بڑھتے ہوئے ٹینک واپس ہونے لگے، بہت سے ٹینکوں کو تو واپس جانے کی مہلت بھی نہ مل سکی اور عوام نے ان ٹینکوں پر قبضہ کر لیا اور ان پر چڑھ کر دیوانہ وار نعرے لگانے لگے۔ فاتحانہ انداز میں ان کی تصاویر بنانے لگے۔ ساری رات انقرہ کی سڑکیں لوگوں سے آباد رہیں۔
باغی اہلکاروں نے فرار کی راہ اختیار کی یا ہتھیار ڈال دیے۔۔۔ بہت سے اہلکار شدید عوامی ردعمل کا شکار ہوئے۔ عوام نے اپنا اقتدار چھیننے والے فوجی اہل کاروں کی بندوقیں چھین کر انہیں قیدیوں کی صورت سڑک پر اکڑوں بٹھا دیا۔ کئی تصاویر ایسی بھی ہیں جس میں طیش کے عالم میں لوگ انہیں ایک جگہ جمع کر کے بری طرح زدوکوب کر رہے ہیں۔ جدید تاریخ میں اس سے پہلے ایسے مناظر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئے ہوں۔ باغیوں کے خلاف پولیس اہل کاروں نے بھی عوام کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور عوام کی مدد سے ان باغی فوجیوں کو گرفتار کیا۔
پورے واقعے میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ صدر طیب اردوان کی سخت مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی اس موقع پر تُرک حکومت کا بھر پور ساتھ دیا، ورنہ اس امر کا اندیشہ موجود تھا کہ صدر اردوان کے سیاسی مخالفین اگر باغیوں کے ہم رکاب ہو گئے، تو ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے، مگر تمام جماعتوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا اور جمہوری نظام کے خلاف کی جانے والی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ تُرک وزیراعظم بن علی یلدرم نے حزب اختلاف کی جماعتوں کا اس ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
اس دوران چھٹیوں پر بیرون ملک گئے ہوئے صدر رجب طیب اردوان کی وطن واپسی ہوتی ہے۔ حکومتی عمل داری بحال ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں انہوں نے قوم کو اس فتح پر مبارک باد دی اور کہا کہ قوم نے اپنی رائے کی حفاظت کی، اب ہماری یک سوئی اور اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتار باغی اعتراف کر رہے ہیں کہ فتح اللہ گلن اس کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں بیٹھے ہوئے اس شخص کو اب تُرک قوم کو حساب دینا ہوگا۔
بغاوت کے الزام میں صرف فوجی اہلکار نہیں، بلکہ ججوں اور پولیس اہلکاروں کو بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیا رجا ہا ہے اور یہ سلسلہ نہایت شدومد سے جاری ہے۔ گرفتار افراد کی تعداد چھے ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
تُرک وزیراعظم رجب طیب اردوان شروع سے ہی باغیوں کو سخت انجام سے دوچار کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں، تاکہ آیندہ کسی کو ایسے غیر جمہوری قدم کی جرأت نہ ہو اور اب اس مقصد کے لیے انہوں نے ملک میں سزائے موت بحال کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ قبل ازیں یورپی یونین میں شمولیت کے لیے تُرک حکومت نے سزائے موت ختم کی تھی اور ان دنوں ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات جاری تھے۔ صدر طیب اردوان کے اس ارادے پر یورپی برادری نے شدید تشویش ظاہر کی ہے اور اسے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے رکاوٹ قرار دیا ہے، جب کہ صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ امریکا سے روس اور چین تک دنیا بھر میں مجرموں کے لیے سزائے موت کا قانون موجود ہے، صرف یورپ میں اس سزا کو کیوں ختم کیا جا رہا ہے؟
صدر طیب اردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترک قوم کی رائے سے بڑی اس وقت کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔ قوم کے پیسوں سے خریدے گئے ہتھیاروں کو اپن ہی قوم پر استعمال کیا گیا۔ جو طیارے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، انہیں اپنی قوم کے خلاف استعمال کیا۔ جنہوں نے بغاوت کی، انہیں اس خیانت پر جواب دینا پڑے گا۔ ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والی داعش اور ان باغیوں میں کوئی فرق نہیں۔ میں ترک قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ سڑکوں اور چوکوں میں آ کر باہمی اتحاد اور یک جہتی کا اظہار کریں، انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ایک طرف جلاوطن تُرک راہ نما فتح اللہ گولن نے بغاوت پر اکسانے یا اس میں معاونت کا الزام سختی سے مسترد کر کے تُرک حکومت سے الزام کے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف تُرک حکومت نے فتح اللہ گولن کی شہ پر تُرک فضائیہ کے سابق سربراہ جنرل اوزترک کو اس بغاوت کا سرغنہ قرار دیا ہے، تاہم جنرل اوزترک نے عدالت میں اس الزام کو رد کیا ہے۔ ترُک حکام اس سے پہلے ان کے بغاوت کی قیادت کے اعتراف کا دعویٰ کر رہے تھے۔
جلاوطن تُرک راہ نما فتح اللہ گولن نے اگرچہ تمام کارروائی کی مذمت کی، تاہم انہوں نے کہا کہ ترکی اب جمہوری ملک نہیں رہا۔ تُرک حکومت کے لیے عوام کی اس مزاحمت کو خطے کی صورت حال کے تناظر میں نہایت اہمیت دی جا رہی ہے، کیوں کہ عرب ممالک میں جاری شورش اور مختلف قوتوں کی باہمی چپقلش میں ترکی کا کردار نہایت اہم ہے۔ حال ہی میں ترکی نے روس اور اسرائیل سے باہمی سمجھوتوں کے ذریعے کشیدگی کم کی اور اسے سفارتی محاذ پر اپنی بڑی کام یابی قرار دیا۔ اب داخلی طور پر بھی اس بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ خود کو سُرخرو قرار دے رہے ہیں اور ملک میں موجود باغی عناصر کو سختی سے کچلنے پر کاربند ہیں۔ اسی بنا پر اب طیب اردوان کے ناقدین انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے شدید خدشات کا شکار ہیں، یہاں تک کہ بہت سے حلقے اب اس بغاوت کو صدر طیب اردوان کا ہی تیار کردہ کھیل قرار دے رہے ہیں،کہ انہوں نے یہ ڈراما رچایا، تاکہ اس کا سہارا لے کر وہ فوج اور پولیس سے لے کر عدلیہ تک، ناپسندیدہ عناصر کا خاتمہ کرسکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی میں پیدا ہونے والی اس شورش کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور تُرکی اور خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
مطلق العنان طریقہ حکم رانی تو منسلک ہی طاقت سے ہے، دنیا کے بہت سے جمہوری ممالک میں بھی طاقت وَر ادارے، شخصیات اور تنظیمیں اپنا اثر رسوخ استعمال کرتی رہتی ہیں، جب کہ جمہوری طرز حکومت میں یہ طاقت لوگوں کی رائے کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔
نہتے لوگوں کی رائے کی طاقت کا بھلا کسی مسلح طاقت وَر جتھے سے کیا تقابل۔۔۔ پھر ایسی بغاوت کے موقع پر کچھ مخالف رائے بھی ساتھ ہو تو عام اکثریت کی رائے کو بے دردی سے کچل دیا جاتا ہے۔ ایسے مناظر عام ہیں جب سادہ اکثریت کی حامل حکومتیں قوت کے بل پر برخاست کردی گئیں، یا جن کی کارکردگی کی بنا پر عوامی حمایت برائے نام رہ گئی تھی، غیر جمہوری طریقے سے برطرف کردی گئیں۔ ان سب باتوں کے باوجود ریاستوں میں جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے بہت سے قوانین اور پھر انہیں توڑنے پر سزائیں مقرر کی جاتی ہیں، مگر طاقت وَر حلقوں کی مداخلت ذرا کم ہی متاثر ہو پاتی ہے، مگر کبھی تاریخ بدل بھی جاتی ہے۔۔۔ اور ایسا ہی کچھ ہوا 15 جولائی 2016ء کی رات کو ترکی میں۔۔۔ طاقت کے زعم میں کچھ بندوق برداروں نے اقتدار کے ایوانوں پر قابض ہونے کی کوشش کی۔ شاید انہیں لگا کہ 1960ء سے اب تک چار بار قابض ہونے کی کوشش پانچویں بار بھی پہلے جیسے ہی نتائج دے گی، مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بار ان کی بغاوت اپنے چیف جنرل ہلوسی آکار کے خلاف بھی تھی اور یرغمال بنائے جانے والوں میں جنرل ہلوسی بھی شامل تھے۔
باغی فوجی کمک نے تمام حکومتی ایوانوں کے گھیراؤ کی تیاری مکمل کرلی۔ انقرہ کی شاہ راہوں پر فوجی ٹینک دکھائی دینے لگے۔ سرکاری ٹی وی پر قبضہ کر کے حکومت کی برخاستگی کا اعلان کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا ہے اور باگ ڈور اب ایک امن کونسل چلائے گی۔ اس صورت حال کے نتیجے میں ملک کے طول وارض میں افراتفری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ کرفیو کی افواہیں گردش کرتی ہیں۔ لوگ بے یقینی کے عالم میں اشیائے خوردونوش ذخیرہ کرنے لگتے ہیں۔
اسی اثنا میں صدر طیب اردگان سماجی ذرایع اِبلاغ کے ذریعے قوم کو بغاوت کے خلاف مزاحمت کا پیغام دیتے ہیں۔۔۔ کہ جمہوریت بچانے کے لیے سڑکوں پر نکل آؤ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے نہتے عوام اپنی حکومت بچانے کے لیے مسلح تُرک افواج کے مقابل آجاتے ہیں۔ فضا میں باغی فوج کے ہیلی کاپٹر گشت کر رہے ہیں اور زمین قوی ہیکل ٹینکوں کی گھن گرج تلے ہے۔۔۔ عوام کے گھروں سے نکلتے ہی باغیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی پیش قدمی رکنے لگتی ہے۔ خوف زدہ فضا میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجتی ہے، بارود کی مہک میں انسانی لہو کی بو شامل ہونے لگتی ہے۔
ایک طرف جدید اسلحے سے لیس باوردی فوجی اہلکار ہیں، تو دوسری طرف تہی دست مرد وخواتین اور نوجوان۔۔۔ جو سرِعام بغاوت سے انکار کے نعرے بلند کرتے ہیں۔۔۔ باغیوں کو للکارتے ہیں، انہیں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ اس کے جواب میں اپنی ہی ملک کے فوجیوں کی بندوقیں ان پر بارود اگلنے لگتی ہیں۔ درجنوں لوگ گھائل ہوتے ہیں، بہت سے جان سے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے حوصلے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں کا گھیرا تنگ کرنے والے فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتے ہیں۔
محاذ جنگ پر دشمن فوج کے ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹنے کی باتیں اس سے پہلے سنی اور پڑھی تو بہت تھیں، لیکن اپنی ہی فوج کے سامنے ایسی مزاحمت کا شاید یہ نادر مظاہرہ تھا، جو دنیا بھر میں دیکھا گیا۔۔۔ اور مورخ جمہوریت کے تحفظ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس مظاہرے کو فراموش نہ کر سکے گا۔ آزادی فقط دشمنوں اور اغیار کے جبر سے تو نہیں ہوتی، خیالات اور افکار کی آزادی اور مرضی سے جینے اور من چاہے حکم راں چننے کی آزادی بھی بے حد اہم ہوتی ہے اور ان سب چیزوں کا شعور اس سے بھی زیادہ اہم۔
ترکی کی گلیوں میں ظالم اور مظلوموں کا انوکھا مقابلہ ہوتا ہے۔ خالی ہاتھوں والی جنتا کی بندوق بردار جتھے سے لڑائی کا بھلا کیا جوڑ۔۔۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ کچھ ہی دیر میں پرجوش اور پرعزم عوام نے ان قابض طاقت وَروں کو پس پا ہونے پر مجبور کر دیا۔ آگے بڑھتے ہوئے ٹینک واپس ہونے لگے، بہت سے ٹینکوں کو تو واپس جانے کی مہلت بھی نہ مل سکی اور عوام نے ان ٹینکوں پر قبضہ کر لیا اور ان پر چڑھ کر دیوانہ وار نعرے لگانے لگے۔ فاتحانہ انداز میں ان کی تصاویر بنانے لگے۔ ساری رات انقرہ کی سڑکیں لوگوں سے آباد رہیں۔
باغی اہلکاروں نے فرار کی راہ اختیار کی یا ہتھیار ڈال دیے۔۔۔ بہت سے اہلکار شدید عوامی ردعمل کا شکار ہوئے۔ عوام نے اپنا اقتدار چھیننے والے فوجی اہل کاروں کی بندوقیں چھین کر انہیں قیدیوں کی صورت سڑک پر اکڑوں بٹھا دیا۔ کئی تصاویر ایسی بھی ہیں جس میں طیش کے عالم میں لوگ انہیں ایک جگہ جمع کر کے بری طرح زدوکوب کر رہے ہیں۔ جدید تاریخ میں اس سے پہلے ایسے مناظر شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئے ہوں۔ باغیوں کے خلاف پولیس اہل کاروں نے بھی عوام کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور عوام کی مدد سے ان باغی فوجیوں کو گرفتار کیا۔
پورے واقعے میں سب سے اہم امر یہ ہے کہ صدر طیب اردوان کی سخت مخالف سیاسی جماعتوں نے بھی اس موقع پر تُرک حکومت کا بھر پور ساتھ دیا، ورنہ اس امر کا اندیشہ موجود تھا کہ صدر اردوان کے سیاسی مخالفین اگر باغیوں کے ہم رکاب ہو گئے، تو ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے، مگر تمام جماعتوں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا اور جمہوری نظام کے خلاف کی جانے والی کسی بھی کوشش کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ تُرک وزیراعظم بن علی یلدرم نے حزب اختلاف کی جماعتوں کا اس ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر شکریہ ادا کیا۔
اس دوران چھٹیوں پر بیرون ملک گئے ہوئے صدر رجب طیب اردوان کی وطن واپسی ہوتی ہے۔ حکومتی عمل داری بحال ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں انہوں نے قوم کو اس فتح پر مبارک باد دی اور کہا کہ قوم نے اپنی رائے کی حفاظت کی، اب ہماری یک سوئی اور اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گرفتار باغی اعتراف کر رہے ہیں کہ فتح اللہ گلن اس کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں بیٹھے ہوئے اس شخص کو اب تُرک قوم کو حساب دینا ہوگا۔
بغاوت کے الزام میں صرف فوجی اہلکار نہیں، بلکہ ججوں اور پولیس اہلکاروں کو بھی بڑی تعداد میں گرفتار کیا رجا ہا ہے اور یہ سلسلہ نہایت شدومد سے جاری ہے۔ گرفتار افراد کی تعداد چھے ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
تُرک وزیراعظم رجب طیب اردوان شروع سے ہی باغیوں کو سخت انجام سے دوچار کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں، تاکہ آیندہ کسی کو ایسے غیر جمہوری قدم کی جرأت نہ ہو اور اب اس مقصد کے لیے انہوں نے ملک میں سزائے موت بحال کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ قبل ازیں یورپی یونین میں شمولیت کے لیے تُرک حکومت نے سزائے موت ختم کی تھی اور ان دنوں ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات جاری تھے۔ صدر طیب اردوان کے اس ارادے پر یورپی برادری نے شدید تشویش ظاہر کی ہے اور اسے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے رکاوٹ قرار دیا ہے، جب کہ صدر طیب اردوان کا کہنا ہے کہ امریکا سے روس اور چین تک دنیا بھر میں مجرموں کے لیے سزائے موت کا قانون موجود ہے، صرف یورپ میں اس سزا کو کیوں ختم کیا جا رہا ہے؟
صدر طیب اردوان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترک قوم کی رائے سے بڑی اس وقت کوئی طاقت موجود نہیں ہے۔ قوم کے پیسوں سے خریدے گئے ہتھیاروں کو اپن ہی قوم پر استعمال کیا گیا۔ جو طیارے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، انہیں اپنی قوم کے خلاف استعمال کیا۔ جنہوں نے بغاوت کی، انہیں اس خیانت پر جواب دینا پڑے گا۔ ایئرپورٹ پر حملہ کرنے والی داعش اور ان باغیوں میں کوئی فرق نہیں۔ میں ترک قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ سڑکوں اور چوکوں میں آ کر باہمی اتحاد اور یک جہتی کا اظہار کریں، انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ایک طرف جلاوطن تُرک راہ نما فتح اللہ گولن نے بغاوت پر اکسانے یا اس میں معاونت کا الزام سختی سے مسترد کر کے تُرک حکومت سے الزام کے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف تُرک حکومت نے فتح اللہ گولن کی شہ پر تُرک فضائیہ کے سابق سربراہ جنرل اوزترک کو اس بغاوت کا سرغنہ قرار دیا ہے، تاہم جنرل اوزترک نے عدالت میں اس الزام کو رد کیا ہے۔ ترُک حکام اس سے پہلے ان کے بغاوت کی قیادت کے اعتراف کا دعویٰ کر رہے تھے۔
جلاوطن تُرک راہ نما فتح اللہ گولن نے اگرچہ تمام کارروائی کی مذمت کی، تاہم انہوں نے کہا کہ ترکی اب جمہوری ملک نہیں رہا۔ تُرک حکومت کے لیے عوام کی اس مزاحمت کو خطے کی صورت حال کے تناظر میں نہایت اہمیت دی جا رہی ہے، کیوں کہ عرب ممالک میں جاری شورش اور مختلف قوتوں کی باہمی چپقلش میں ترکی کا کردار نہایت اہم ہے۔ حال ہی میں ترکی نے روس اور اسرائیل سے باہمی سمجھوتوں کے ذریعے کشیدگی کم کی اور اسے سفارتی محاذ پر اپنی بڑی کام یابی قرار دیا۔ اب داخلی طور پر بھی اس بغاوت کی ناکامی کے بعد وہ خود کو سُرخرو قرار دے رہے ہیں اور ملک میں موجود باغی عناصر کو سختی سے کچلنے پر کاربند ہیں۔ اسی بنا پر اب طیب اردوان کے ناقدین انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے شدید خدشات کا شکار ہیں، یہاں تک کہ بہت سے حلقے اب اس بغاوت کو صدر طیب اردوان کا ہی تیار کردہ کھیل قرار دے رہے ہیں،کہ انہوں نے یہ ڈراما رچایا، تاکہ اس کا سہارا لے کر وہ فوج اور پولیس سے لے کر عدلیہ تک، ناپسندیدہ عناصر کا خاتمہ کرسکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ترکی میں پیدا ہونے والی اس شورش کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور تُرکی اور خطے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔