قندیل بلوچ معاشرے کاآئینہ تھی
اگران کے پاس زیورتعلیم نہ ہوتوان کی بدقسمتی میں لاکھوں گنااضافہ ہوجاتا ہے
ATTOCK:
منافقت اورہزارچہروں والے معاشرے میں ایک یادونہیں،ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں قندیل بلوچ اپنے اپنے جہنم میں سانس لینے پرمجبورہیں۔ہرایک کااپناانجام ہے۔کوئی غیرت کے نام پرقتل ہوتی ہے اورکوئی بیماری کے ہاتھوں ماری جاتی ہے۔کسی کواسکاجاننے والاقتل کردیتاہے اورکوئی زندگی سے تنگ آکررسی گلے میں ڈال کرخودکشی کر لیتی ہے۔ہماراسماج ایک ایساجنگل ہے جس میں طاقتور اژد ہے کمزورفریق کوزندہ نگل جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سب سے کمزورفریق خواتین ہیں اوران میں سے نحیف ترین طبقہ غریب عورتوں کاہے۔
اگران کے پاس زیورتعلیم نہ ہوتوان کی بدقسمتی میں لاکھوں گنااضافہ ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی کوئی تاویل،وعظ ونصیحت کے متعدد دور اورکسی بھی وقت کے حکومتی اعلانات ان کی غربت ختم نہیں کرسکتے۔جب گھرکے اندر بھوک وافلاس اورفاقہ کشی ڈیرے ڈال لے تو آپ گھر کے مردکو جرم کرنے سے نہیں روک سکتے۔جب ننھے منے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں توآپکے بلندخیال دعوے بچوں کا بھوکا پیٹ نہیں بھر سکتے۔یہیں سے وہ پیشہ شروع ہوتا ہے جودنیاکاسب سے قدیم پیشہ ہے۔ جسے نہ کوئی فوج روک سکی ہے نہ سلطنت،نہ کوئی مذہب اس کے سامنے آسکاہے اور نہ کوئی سزا۔اسی مجبوری سے وہ سچائی جنم لیتی ہے جسکا ذکر کرنا ہمارے جیسی سوسائٹی میں باعث ہتک سمجھا جاتا ہے۔
کل بی بی سی،باربارقندیل بلوچ کے والداوروالدہ کا انٹرویونشرکررہی تھی۔قتل کے اسباب اورعوامل پررپورٹ دکھا رہی تھی۔جہالت اورتعلیم کی کمیابی گھرانے کے بال بال سے جھلک رہی تھی۔کسمپرسی اوربدحالی، گھر کی زبوں حالی سے برہنہ ہوکرسامنے آرہی تھی۔مجموعی طورپر ایک انتہائی مفلس گھرانہ کی تصویرتھی۔اس صورتحال میں فوزیہ عرف قندیل کاامارت اورشہرت کے خواب دیکھنابالکل فطری بات تھی۔ہرلڑکااورلڑکی اپنے ماحول سے آگے نکل کر دنیا میں اپنانام پیداکرناچاہتاہے۔ہمارے جیسے ملکوں میں اب جائز اورناجائزکی عملی تفریق مکمل طورپرختم ہوچکی ہے۔ ہاں، باتیں کرنے کے لیے اوراچھائی کادرس دینے والے بہت ہیں مگرصرف درس دینے والے۔اکثراوقات یہ وعظ اس وقت یادآتے ہیں جب پیٹ بھرے ہوتے ہیں اور اولاد کے لیے کثیردولت کے انبار اکٹھے کرلیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص ان سے ایک لمحہ کے لیے متاثرنہیں ہوتا۔ ہر دھندااورکاروبارجوں کاتوں چلتا رہتا ہے۔استعمال شدہ سرنجوں کی پلاسٹک سے برتن بنانے والے کاروبارسے لے کر شام کے اندھیرے میں پلنے والا ہرکام!
ایک اَمرمیرے لیے بہت توجہ طلب ہے۔ نوجوان لڑکی نے معاشرے کواسکامکروہ چہرہ مکمل طورپردکھادیا۔ پارسائی کے پہاڑوں کوننگا کرکے ریزہ ریزہ کردیا۔مشکل پسندلڑکی نے مذہبی رہنماؤں کوبھی ان کی اصلیت دکھا دی۔ وہ اصلیت جوانھوں نے رعب والے جبہ ودستارمیں چھپا رکھی تھی۔میں کسی کانام نہیں لیناچاہتامگرحقیقت کیا تھی، سب کے علم میں ہے۔یہی اس لڑکی کااصل گناہ تھا۔ناقابل معافی اورقابل گردن زنی۔قندیل اس معاشرے کواس کی جڑوں تک سمجھ چکی تھی۔معلوم تھاکہ یہاں کیابکتا ہے اور کیوں بکتا ہے۔چنانچہ اس نے ایک ماہرنفسیات کی طرح اپنے آپ کو سوشل میڈیاپرعیاں کردیا۔سوشل میڈیاپراس کی تصاویر اور ویڈیوزکروڑوں لوگوں نے دیکھی۔وہ پبلیسٹی کے میدان میں تمام ماڈلزسے آگے نکل گئی۔ قندیل کی عجیب وغریب حرکتوں سے بہت لوگ ہنستے تھے۔ٹھٹھہ لگاتے تھے مگروہ لڑکی ہمیں ہمارااصل چہرہ دکھارہی تھی کہ یہ ہوتم لوگ!
قندیل کوغیرت کے نام پرقتل کردیاگیا۔غالباًاس کے سگے بھائی نے گلادباکرمارڈالا۔مگرمیرا سوال یہ ہے کہ بھائی کی غیرت اس وقت کیوں نہیں جاگی جب وہ لڑکی بغیرکسی کاروبارکے ہرمہینہ گھرکاخرچہ کراچی سے باقاعدگی سے بھیج رہی تھی۔اس وقت"حمیت"کیوں سوتی رہی جب بہن نے موبائل فون کے کاروبارکرنے کے لیے ایک مناسب رقم فراہم کی۔غیرت اس مذہبی رہنماکے خلاف کیوں نہ جاگ پائی جوتمام وقت میڈیاپرغیرسنجیدہ باتیں کرتارہااورجسکی سوشل میڈیاپرتصاویرثبوت کے طور پر موجود ہیں۔میرااس سے بھی مشکل اورتکلیف دہ سوال ایک اوربھی ہے۔
کیا گناہگارصرف یہی لڑکی تھی۔کیاوہ تمام مردجوکسی نہ کسی طور پر اس سے منسلک رہے تھے،کیا تمام پارسائی کے دیوتا ہیں۔ کیاوہ کسی بھی اخلاقی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں اخلاقیات کی بات کرنا انتہائی نامناسب ساہے کیونکہ یہ پوری سلطنت توکھڑی ہی منظم جرائم کی بنیاد پر ہے۔ کیا کہنا اور کس سے بات کرنا۔اور یہاں اپناجرم کون قبول کرتا ہے۔ یہاں تو ہر طرف خود ساختہ پارسائی کے فرشتے ہی فرشتے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی چھوٹے سے چھوٹاگناہ بھی نہیں کیا۔نیکی کے ان دیوتاؤں کا بھلاگناہ سے کیاتعلق!
غیرت کے نام پرقتل وغارت اس نیم قبائلی معاشرہ میں جاری ہے اورجاری رہے گی۔کیونکہ یہاں غیرت صرف اورصرف عورتوں کے تناظرمیں دیکھی جاتی ہے۔ جب ہمارے حکومتی عمال قرضے کاکشکول اُٹھاکردنیاکے ہر امیرادارے کی چوکھٹ پر سجدہ کرتے ہیں تواس وقت یہ غیرت کہاں چھپ جاتی ہے۔جب دنیاکے ائیرپورٹس پر ہماری جامہ تلاشی ہوتی ہے۔ہمارے کپڑے اتار کر ہر طریقے سے معائنہ کیاجاتاہے توہم غیرت سے معمور ہوکر اس گورے سپاہی کوانکارکیوں نہیں کرتے۔جب ہمارے تعلیمی اداروں کی چھتوں پرچڑھ کرہزاروں لوگ کمرہ امتحان میں نقل کروارہے ہوتے ہیں تواس وقت ہماری عزت کا جنازہ کیوں نہیں نکلتا۔جب ہمیں گدھے کاگوشت مسلسل کھلایاجاتاہے تومردانگی زورکیوں نہیں پکڑتی۔جب ہرکام کے لیے رشوت دررشوت کے ہتھیار کو استعمال کیاجاتاہے تو اس وقت ہماراضمیرکیوں سویا رہتا تھا۔ جب شرفاء کی ہر بڑی ضیافت میںشراب پانی کی طرح استعمال کی جاتی ہے، اس وقت ہم سارے خاموش کیوں ہوجاتے ہیں۔
لیکن مہذب دنیامیں اس طرح کے قتل عام کی کوئی اجازت نہیں ہے۔برطانوی وزیراعظم کی سطح کے عالمی سیاست دانوں نے داشگاف الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک اس قتل کی آوازگونجی ہے۔ اس بات کی خوشی ہے کہ محترمہ مریم نوازنے اپنی قوت غریب اوربے سہاراعورتوں کے پلڑے میں ڈال دی ہے۔امیدکی یہ کرن ایک نئے قانون کی شکل میں شائدکسی مظلوم کومرنے سے بچالے۔لیکن یہ تمام معاملات ہرصوبہ میں کسی نہ کسی طریقے سے موجودہیں۔ لورالائی میں میری سرکاری تعیناتی تقریباًدوبرس رہی ہے۔
وہاں بطور پولیٹیکل ایجنٹ کام کرتا رہاہوں۔ایک دن ڈاک میں خط ملا۔ٹوٹے پھوٹے حروف میں درج شدہ خط دراصل ظلم کی ایک داستان تھی۔ایک نوجوان لڑکی کی جانب سے تھا۔ درج تھاکہ میٹرک کی ایک طالبہ ہوں۔عمرپندرہ برس ہے۔ والد ایک مستری ہے۔ہم لوگ سیالکوٹ سے آکر لورالائی چالیس برس پہلے آباد ہوگئے۔ والدنے ایک موٹر سائیکل خریدی۔اس کی قیمت تیس ہزارتھی۔اس وقت ان کے پاس صرف دس ہزارروپے تھے۔ دکاندارنے سواری فروخت کرتے ہوئے بیس ہزارکاقرض کھاتے میں لکھ لیا۔طے پایاکہ ٹھیک ایک ماہ بعد، میرا والد اس تاجرکوبیس ہزارروپے واپس کردیگا۔اگرمقررہ وقت پر پیسے واپس نہ ہوئے تو پھردوگنے پیسے اداکرنے ہونگے۔ خیریہی ہوا۔ وقت مقررہ پروالدپیسے واپس نہ کرسکا۔
اس کے بعدیہ رقم چالیس ہزار ہوگئی۔پھرہرمہینہ کے بعدیہ دوگنی ہوتی رہی۔ ایک سال کے بعدیہ دو لاکھ ہوچکی ہے۔اب تاجر ہمارے گھرآیا ہے۔اس نے ایک نیامعائدہ ترتیب دیا ہے۔ اس کے بقول، اگر والدمجھے اس کے حوالے کردیتاہے تو قرض کی ساری رقم معاف ہوجائے گی۔سودبھی اوراصل زر بھی۔ اس خط کے بعدایک لمحہ کے لیے بالکل سُن ہوگیا۔ پتہ کیا تو معلوم ہواکہ اس گھناؤنے کاروبارکانام"پے منٹ" ہے اورقبائلی نظام میں یہ کافی عرصے سے بلاخوف وخطرچل رہا ہے۔ خیرپولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر اختیار استعمال کرکے اس بچی کوبازیاب کروایااورتاجرکے خلاف قانونی کاروائی کی۔
بالکل اسی طرح،پاکستان کے کئی علاقوں میں عورت کو"مارنا"اوراس پرتشددکرنابالکل عام سا معمول ہے۔ستم یہ ہے کہ عورت کومارکھانے کے بعد شکایت کاحق بھی حاصل نہیں ہے۔ہاں،روائتی طور پر خاونداپنی بیوی کو مار توسکتاہے مگراس کے بدن کی کوئی ہڈی نہیں توڑسکتا۔اگراس سے بیوی کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے تو پھربیوی کوشکایت کا حق حاصل ہے۔ایک اور واقعہ ذہن کودکھ پہنچارہا ہے۔
بلوچستان کے ایک علاقے میں عورتوں کواپنی مرضی سے شادی کرنے کے جرم میں زمین میں زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔مقامی وزیر نے مونچھوں پر تاؤدیتے ہوئے کہاکہ یہ توہماری صدیوں پرانی روایت ہے۔پسندکی شادی پرزندہ جلانے کے واقعات ہرایک کے ذہن میں نقش ہیں۔ عورتوں پرتشددبڑھ رہاہے اور اس کی شدت بھی آہستہ آہستہ بھیانک سے بھیانک ہوتی جارہی ہے۔ختم کرنا تو شائد ناممکن ہومگرکم کرنے کے متعددطریقے ہیں۔ہنگامی بنیادپر انھیںایسے ہنر سے آراستہ کرنا چاہیے جسکی بدولت عزت کی روزی کما سکیں۔ اپنے گھرمیں ایک مثبت رول ادا کر سکیں۔ جائز حدود میں خواتین کامردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے میں نہ کوئی بے حیائی ہے نہ ہی کوئی قابل اعتراض بات۔
میرے چنددوسرے سوالات بھی ہیں۔قندیل بلوچ اوراس طرح کی لاکھوںعورتوں کوجوگھن زدہ معاشرہ، گھر میںعزت کی روٹی نہیں دے سکتا،کیااسے واقعی سوال کرنے کاکوئی حق ہے۔کیاجس معاشرے میں دن اور رات کے مخمور شخصی رویوں میں زمین آسمان کا فرق ہو،وہاں اخلاقی درس دیناکس حدتک جائز ہے۔ جہاں چندفیصدلوگ امیرہوں اورباقیوں کو معزز یا غیر معزز بھکاری بنادیا گیاہو۔ وہاں بدن اورروح کاتسلسل قائم رکھنامقدم ٹھہرے گا،یاوعظ اورنصیحتوں کے بلند خیالات آپکوروٹی فراہم کرینگے۔ دراصل اس منافق اور دوعمل معاشرے میں سچ بولنامکمل طورپرگناہ کبیرہ ہے۔ قندیل بلوچ کی طرح جوبھی اس سماج کو آئینہ میں اصل چہرہ دکھائیگا،اس کی گردن زنی کردی جائے گی۔گلاگھونٹ کر قتل کردیاجائیگا۔جعلی پارسائی کے اس جنگل میں سچ کے آئینہ کا کیا کام۔ اسے کرچی کرچی ہوہی جاناچاہیے!
منافقت اورہزارچہروں والے معاشرے میں ایک یادونہیں،ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں قندیل بلوچ اپنے اپنے جہنم میں سانس لینے پرمجبورہیں۔ہرایک کااپناانجام ہے۔کوئی غیرت کے نام پرقتل ہوتی ہے اورکوئی بیماری کے ہاتھوں ماری جاتی ہے۔کسی کواسکاجاننے والاقتل کردیتاہے اورکوئی زندگی سے تنگ آکررسی گلے میں ڈال کرخودکشی کر لیتی ہے۔ہماراسماج ایک ایساجنگل ہے جس میں طاقتور اژد ہے کمزورفریق کوزندہ نگل جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سب سے کمزورفریق خواتین ہیں اوران میں سے نحیف ترین طبقہ غریب عورتوں کاہے۔
اگران کے پاس زیورتعلیم نہ ہوتوان کی بدقسمتی میں لاکھوں گنااضافہ ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی کوئی تاویل،وعظ ونصیحت کے متعدد دور اورکسی بھی وقت کے حکومتی اعلانات ان کی غربت ختم نہیں کرسکتے۔جب گھرکے اندر بھوک وافلاس اورفاقہ کشی ڈیرے ڈال لے تو آپ گھر کے مردکو جرم کرنے سے نہیں روک سکتے۔جب ننھے منے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں توآپکے بلندخیال دعوے بچوں کا بھوکا پیٹ نہیں بھر سکتے۔یہیں سے وہ پیشہ شروع ہوتا ہے جودنیاکاسب سے قدیم پیشہ ہے۔ جسے نہ کوئی فوج روک سکی ہے نہ سلطنت،نہ کوئی مذہب اس کے سامنے آسکاہے اور نہ کوئی سزا۔اسی مجبوری سے وہ سچائی جنم لیتی ہے جسکا ذکر کرنا ہمارے جیسی سوسائٹی میں باعث ہتک سمجھا جاتا ہے۔
کل بی بی سی،باربارقندیل بلوچ کے والداوروالدہ کا انٹرویونشرکررہی تھی۔قتل کے اسباب اورعوامل پررپورٹ دکھا رہی تھی۔جہالت اورتعلیم کی کمیابی گھرانے کے بال بال سے جھلک رہی تھی۔کسمپرسی اوربدحالی، گھر کی زبوں حالی سے برہنہ ہوکرسامنے آرہی تھی۔مجموعی طورپر ایک انتہائی مفلس گھرانہ کی تصویرتھی۔اس صورتحال میں فوزیہ عرف قندیل کاامارت اورشہرت کے خواب دیکھنابالکل فطری بات تھی۔ہرلڑکااورلڑکی اپنے ماحول سے آگے نکل کر دنیا میں اپنانام پیداکرناچاہتاہے۔ہمارے جیسے ملکوں میں اب جائز اورناجائزکی عملی تفریق مکمل طورپرختم ہوچکی ہے۔ ہاں، باتیں کرنے کے لیے اوراچھائی کادرس دینے والے بہت ہیں مگرصرف درس دینے والے۔اکثراوقات یہ وعظ اس وقت یادآتے ہیں جب پیٹ بھرے ہوتے ہیں اور اولاد کے لیے کثیردولت کے انبار اکٹھے کرلیے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی شخص ان سے ایک لمحہ کے لیے متاثرنہیں ہوتا۔ ہر دھندااورکاروبارجوں کاتوں چلتا رہتا ہے۔استعمال شدہ سرنجوں کی پلاسٹک سے برتن بنانے والے کاروبارسے لے کر شام کے اندھیرے میں پلنے والا ہرکام!
ایک اَمرمیرے لیے بہت توجہ طلب ہے۔ نوجوان لڑکی نے معاشرے کواسکامکروہ چہرہ مکمل طورپردکھادیا۔ پارسائی کے پہاڑوں کوننگا کرکے ریزہ ریزہ کردیا۔مشکل پسندلڑکی نے مذہبی رہنماؤں کوبھی ان کی اصلیت دکھا دی۔ وہ اصلیت جوانھوں نے رعب والے جبہ ودستارمیں چھپا رکھی تھی۔میں کسی کانام نہیں لیناچاہتامگرحقیقت کیا تھی، سب کے علم میں ہے۔یہی اس لڑکی کااصل گناہ تھا۔ناقابل معافی اورقابل گردن زنی۔قندیل اس معاشرے کواس کی جڑوں تک سمجھ چکی تھی۔معلوم تھاکہ یہاں کیابکتا ہے اور کیوں بکتا ہے۔چنانچہ اس نے ایک ماہرنفسیات کی طرح اپنے آپ کو سوشل میڈیاپرعیاں کردیا۔سوشل میڈیاپراس کی تصاویر اور ویڈیوزکروڑوں لوگوں نے دیکھی۔وہ پبلیسٹی کے میدان میں تمام ماڈلزسے آگے نکل گئی۔ قندیل کی عجیب وغریب حرکتوں سے بہت لوگ ہنستے تھے۔ٹھٹھہ لگاتے تھے مگروہ لڑکی ہمیں ہمارااصل چہرہ دکھارہی تھی کہ یہ ہوتم لوگ!
قندیل کوغیرت کے نام پرقتل کردیاگیا۔غالباًاس کے سگے بھائی نے گلادباکرمارڈالا۔مگرمیرا سوال یہ ہے کہ بھائی کی غیرت اس وقت کیوں نہیں جاگی جب وہ لڑکی بغیرکسی کاروبارکے ہرمہینہ گھرکاخرچہ کراچی سے باقاعدگی سے بھیج رہی تھی۔اس وقت"حمیت"کیوں سوتی رہی جب بہن نے موبائل فون کے کاروبارکرنے کے لیے ایک مناسب رقم فراہم کی۔غیرت اس مذہبی رہنماکے خلاف کیوں نہ جاگ پائی جوتمام وقت میڈیاپرغیرسنجیدہ باتیں کرتارہااورجسکی سوشل میڈیاپرتصاویرثبوت کے طور پر موجود ہیں۔میرااس سے بھی مشکل اورتکلیف دہ سوال ایک اوربھی ہے۔
کیا گناہگارصرف یہی لڑکی تھی۔کیاوہ تمام مردجوکسی نہ کسی طور پر اس سے منسلک رہے تھے،کیا تمام پارسائی کے دیوتا ہیں۔ کیاوہ کسی بھی اخلاقی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں یا نہیں۔ مگر ہمارے جیسے ملک میں اخلاقیات کی بات کرنا انتہائی نامناسب ساہے کیونکہ یہ پوری سلطنت توکھڑی ہی منظم جرائم کی بنیاد پر ہے۔ کیا کہنا اور کس سے بات کرنا۔اور یہاں اپناجرم کون قبول کرتا ہے۔ یہاں تو ہر طرف خود ساختہ پارسائی کے فرشتے ہی فرشتے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی چھوٹے سے چھوٹاگناہ بھی نہیں کیا۔نیکی کے ان دیوتاؤں کا بھلاگناہ سے کیاتعلق!
غیرت کے نام پرقتل وغارت اس نیم قبائلی معاشرہ میں جاری ہے اورجاری رہے گی۔کیونکہ یہاں غیرت صرف اورصرف عورتوں کے تناظرمیں دیکھی جاتی ہے۔ جب ہمارے حکومتی عمال قرضے کاکشکول اُٹھاکردنیاکے ہر امیرادارے کی چوکھٹ پر سجدہ کرتے ہیں تواس وقت یہ غیرت کہاں چھپ جاتی ہے۔جب دنیاکے ائیرپورٹس پر ہماری جامہ تلاشی ہوتی ہے۔ہمارے کپڑے اتار کر ہر طریقے سے معائنہ کیاجاتاہے توہم غیرت سے معمور ہوکر اس گورے سپاہی کوانکارکیوں نہیں کرتے۔جب ہمارے تعلیمی اداروں کی چھتوں پرچڑھ کرہزاروں لوگ کمرہ امتحان میں نقل کروارہے ہوتے ہیں تواس وقت ہماری عزت کا جنازہ کیوں نہیں نکلتا۔جب ہمیں گدھے کاگوشت مسلسل کھلایاجاتاہے تومردانگی زورکیوں نہیں پکڑتی۔جب ہرکام کے لیے رشوت دررشوت کے ہتھیار کو استعمال کیاجاتاہے تو اس وقت ہماراضمیرکیوں سویا رہتا تھا۔ جب شرفاء کی ہر بڑی ضیافت میںشراب پانی کی طرح استعمال کی جاتی ہے، اس وقت ہم سارے خاموش کیوں ہوجاتے ہیں۔
لیکن مہذب دنیامیں اس طرح کے قتل عام کی کوئی اجازت نہیں ہے۔برطانوی وزیراعظم کی سطح کے عالمی سیاست دانوں نے داشگاف الفاظ میں اس کی مذمت کی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ تک اس قتل کی آوازگونجی ہے۔ اس بات کی خوشی ہے کہ محترمہ مریم نوازنے اپنی قوت غریب اوربے سہاراعورتوں کے پلڑے میں ڈال دی ہے۔امیدکی یہ کرن ایک نئے قانون کی شکل میں شائدکسی مظلوم کومرنے سے بچالے۔لیکن یہ تمام معاملات ہرصوبہ میں کسی نہ کسی طریقے سے موجودہیں۔ لورالائی میں میری سرکاری تعیناتی تقریباًدوبرس رہی ہے۔
وہاں بطور پولیٹیکل ایجنٹ کام کرتا رہاہوں۔ایک دن ڈاک میں خط ملا۔ٹوٹے پھوٹے حروف میں درج شدہ خط دراصل ظلم کی ایک داستان تھی۔ایک نوجوان لڑکی کی جانب سے تھا۔ درج تھاکہ میٹرک کی ایک طالبہ ہوں۔عمرپندرہ برس ہے۔ والد ایک مستری ہے۔ہم لوگ سیالکوٹ سے آکر لورالائی چالیس برس پہلے آباد ہوگئے۔ والدنے ایک موٹر سائیکل خریدی۔اس کی قیمت تیس ہزارتھی۔اس وقت ان کے پاس صرف دس ہزارروپے تھے۔ دکاندارنے سواری فروخت کرتے ہوئے بیس ہزارکاقرض کھاتے میں لکھ لیا۔طے پایاکہ ٹھیک ایک ماہ بعد، میرا والد اس تاجرکوبیس ہزارروپے واپس کردیگا۔اگرمقررہ وقت پر پیسے واپس نہ ہوئے تو پھردوگنے پیسے اداکرنے ہونگے۔ خیریہی ہوا۔ وقت مقررہ پروالدپیسے واپس نہ کرسکا۔
اس کے بعدیہ رقم چالیس ہزار ہوگئی۔پھرہرمہینہ کے بعدیہ دوگنی ہوتی رہی۔ ایک سال کے بعدیہ دو لاکھ ہوچکی ہے۔اب تاجر ہمارے گھرآیا ہے۔اس نے ایک نیامعائدہ ترتیب دیا ہے۔ اس کے بقول، اگر والدمجھے اس کے حوالے کردیتاہے تو قرض کی ساری رقم معاف ہوجائے گی۔سودبھی اوراصل زر بھی۔ اس خط کے بعدایک لمحہ کے لیے بالکل سُن ہوگیا۔ پتہ کیا تو معلوم ہواکہ اس گھناؤنے کاروبارکانام"پے منٹ" ہے اورقبائلی نظام میں یہ کافی عرصے سے بلاخوف وخطرچل رہا ہے۔ خیرپولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر اختیار استعمال کرکے اس بچی کوبازیاب کروایااورتاجرکے خلاف قانونی کاروائی کی۔
بالکل اسی طرح،پاکستان کے کئی علاقوں میں عورت کو"مارنا"اوراس پرتشددکرنابالکل عام سا معمول ہے۔ستم یہ ہے کہ عورت کومارکھانے کے بعد شکایت کاحق بھی حاصل نہیں ہے۔ہاں،روائتی طور پر خاونداپنی بیوی کو مار توسکتاہے مگراس کے بدن کی کوئی ہڈی نہیں توڑسکتا۔اگراس سے بیوی کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے تو پھربیوی کوشکایت کا حق حاصل ہے۔ایک اور واقعہ ذہن کودکھ پہنچارہا ہے۔
بلوچستان کے ایک علاقے میں عورتوں کواپنی مرضی سے شادی کرنے کے جرم میں زمین میں زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔مقامی وزیر نے مونچھوں پر تاؤدیتے ہوئے کہاکہ یہ توہماری صدیوں پرانی روایت ہے۔پسندکی شادی پرزندہ جلانے کے واقعات ہرایک کے ذہن میں نقش ہیں۔ عورتوں پرتشددبڑھ رہاہے اور اس کی شدت بھی آہستہ آہستہ بھیانک سے بھیانک ہوتی جارہی ہے۔ختم کرنا تو شائد ناممکن ہومگرکم کرنے کے متعددطریقے ہیں۔ہنگامی بنیادپر انھیںایسے ہنر سے آراستہ کرنا چاہیے جسکی بدولت عزت کی روزی کما سکیں۔ اپنے گھرمیں ایک مثبت رول ادا کر سکیں۔ جائز حدود میں خواتین کامردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے میں نہ کوئی بے حیائی ہے نہ ہی کوئی قابل اعتراض بات۔
میرے چنددوسرے سوالات بھی ہیں۔قندیل بلوچ اوراس طرح کی لاکھوںعورتوں کوجوگھن زدہ معاشرہ، گھر میںعزت کی روٹی نہیں دے سکتا،کیااسے واقعی سوال کرنے کاکوئی حق ہے۔کیاجس معاشرے میں دن اور رات کے مخمور شخصی رویوں میں زمین آسمان کا فرق ہو،وہاں اخلاقی درس دیناکس حدتک جائز ہے۔ جہاں چندفیصدلوگ امیرہوں اورباقیوں کو معزز یا غیر معزز بھکاری بنادیا گیاہو۔ وہاں بدن اورروح کاتسلسل قائم رکھنامقدم ٹھہرے گا،یاوعظ اورنصیحتوں کے بلند خیالات آپکوروٹی فراہم کرینگے۔ دراصل اس منافق اور دوعمل معاشرے میں سچ بولنامکمل طورپرگناہ کبیرہ ہے۔ قندیل بلوچ کی طرح جوبھی اس سماج کو آئینہ میں اصل چہرہ دکھائیگا،اس کی گردن زنی کردی جائے گی۔گلاگھونٹ کر قتل کردیاجائیگا۔جعلی پارسائی کے اس جنگل میں سچ کے آئینہ کا کیا کام۔ اسے کرچی کرچی ہوہی جاناچاہیے!