کیوں اور کیسے بغاوت نہیں کرنی چاہیے

بعض ایئرپورٹس‘ ٹی وی اسٹیشنوں، آرمی ہیڈ کوارٹر اور پارلیمنٹ بلڈنگ وغیرہ پر باغیوں کا قبضہ ہو چکا تھا

ترکی میں ممکنہ فوجی بغاوت کی خبریں کچھ عرصہ سے چل رہی تھیں لیکن حیرت 15/16 جولائی کی درمیانی شب کو ہوئی جب یہ بغاوت وقوع پذیر ہو گئی حالانکہ چند اہم بین الاقوامی تنظیموں نے استنبول میں مئی اور جون میں ہونے والے اپنے اجلاس منسوخ کر دیے تھے۔ ترکی کی انٹیلی جنس سروسز کو تب ہی ''ہائی الرٹ'' ہو جانا چاہیے تھا۔ ایئرفورس کے ایف سولہ طیارے انقرہ اور استنبول پر نیچی پروازیں کر رہے تھے۔

بعض ایئرپورٹس' ٹی وی اسٹیشنوں، آرمی ہیڈ کوارٹر اور پارلیمنٹ بلڈنگ وغیرہ پر باغیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ آرمی چیف لاپتہ ہو گئے تھے جنھیں بعدازاں ایئرفورس کے مستقر پر چھپے پایا گیا۔ آپ خواہ کتنی بڑی تعداد میں طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کو لے آئیں مگر بغاوت کی کامیابی کے لیے زمین پر فوجی بوٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایئر فورس جس بغاوت کی قیادت کرتی ہے اس کو مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت کی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور نہ ہی مسلح افواج کی بڑی تعداد ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ لگتا ہے کہ اس بغاوت کا منصوبہ تیار کرنے والوں نے علل و عواقب پر محض سرسری توجہ دی ہے۔ انھوں نے ''ایڈورڈ بُٹ وک'' کی فوجی بغاوت کا ہدایت نامہ نامی کتاب کا مفصل مطالعہ ہی کر لیا ہوتا، یہ ایک عملی ہینڈ بُک ہے۔

اردگان مار ماریس کے تفریحی جزیرے پر چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے جو اطلاع ملتے ہی بڑی بہادری سے واپس پلٹے تا کہ بغاوت کا مقابلہ کر سکیں اور ابھی اتاترک ایئرپورٹ پوری طرح محفوظ نہیں بنایا گیا تھا کہ اردگان کا طیارہ وہاں اتر آیا۔ اردگان کے وفادار ایف 16 طیاروں کے دو پائلٹ صدارتی طیارے کو اسکارٹ کر رہے تھے جب کہ باغیوں کے دو ایف 16 جو میزائلوں سے لیس تھے وہ صدر کے طیارے کے ساتھ پرواز کر رہے تھے۔ لیکن انھوں نے اس طیارے کو نشانہ بنا کر گرانے کی کوشش نہیں کی۔

ہو سکتا ہے انھوں نے صدر کے طیارے کو ترکش ایئر لائن کی کوئی باقاعدہ پرواز تصور کر لیا ہو۔ اردگان کی کال پر عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت بچانے کے لیے فوج کے ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے حالانکہ ان میں سے کچھ لوگ صدر کی مخالفت بھی کرتے رہے تھے۔ اردگان کو اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انھوں نے سیکولر ازم اور قدامت پرستوں کی گہری تقسیم کو اپنے فوری سیاسی اقدام سے پاٹ دیا۔ باغیوں کے لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ سے صدر کے وفادار تقریباً 260 سویلین اور پولیس افسر جان کی بازی ہار گئے۔ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ بغاوت کے پیچھے گولن کی تحریک کا ہاتھ تھا جس میں فتح اللہ گولن پر جو امریکا میں جلا وطن ہیں' اس بغاوت کی پشت پناہی کا الزام ہے۔

ترکی نے مطالبہ کیا ہے کہ گولن کو ترکی کے حوالے کر دیا جائے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے برعکس جو پوری کی پوری پیشہ ور سپاہیوں پر مشتمل ہیں، ترک مسلح افواج کے 4,50,000 فوجیوں میں مسلح افواج کے 75000 کل وقتی رضا کار ہیں جب کہ 3,30,000 کم مدت کے لیے متعین کیے جانے والے فوجی ہیں جن میں زیادہ تر دیہی علاقوں کے نوجوان لیے گئے ہیں جن کا رجحان اسلام کی طرف ہے۔

گولن ترک فوج میں اپنی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے البتہ ایئرفورس میں اس کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اگر ترکی میں سول وار شروع ہو گئی تو اس سے نہ صرف ملک کی معیشت تباہ ہو جائے گی بلکہ اس کی فوجی طاقت کا بھی وہی حشر ہو گا جو لیبیا' شام اور عراق میں ہوا۔ مقام شکر ہے کہ ترکی کی مسلح افواج میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔ اب چونکہ فوجی بغاوت ناکام ہو چکی ہے لہٰذا اس سے اردگان کے ہاتھ مزید مضبوط ہونگے اور وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو زیادہ تقویت کے ساتھ نافذ کر سکیں گے۔


یہ بغاوت رات کے دن میں بدلنے تک انجام کو پہنچ چکی تھی۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے جب کہ باغی فوجی اپنے ہتھیار ڈال رہے تھے جو مناظر ٹی وی کی اسکرینوں پر براہ راست دکھائے گئے۔ جن ہزاروں لوگوں کو بعدازاں حراست میں لیا گیا ان میں اعلیٰ سطح کے فوجی افسروں کے علاوہ عدلیہ' پولیس اور سول سرونٹس کی بھی بھاری تعداد شامل ہے۔ اردگان نے ملک میں3 ماہ کے لیے ایمرجنسی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے باغیوں کو سخت سزا دینے کا وعدہ کیا تاہم بغاوت کی منصوبہ بندی کرنیوالے برسرعام اسقدر بے عزتی برداشت کرنے پر جوابی قدم بھی اٹھا سکتے ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ترک فوج 1960ء سے 1980ء کے دوران تین کامیاب بغاوتیں کر چکی ہے جس میں وزیراعظم اربکان جو اردگان کے سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے ان کو ترکی کی سیکولر اسٹیبلشمنٹ نے 1997ء میں اقتدار سے برطرف کر دیا۔ پاکستان میں 1958ء' 1977ء اور 1999ء میں فوج کی ہائی کمان کی طرف سے کی جانیوالی بغاوتیں کامیاب ہوئیں لیکن اگر چھوٹے درجے کے افسران بغاوت کی کوشش کریں تو وہ بالعموم ناکام ہوتی ہے۔ جب پاکستان میں 1993ء میں فوج نے بغاوت کی کوشش کی تو فوجی دستے نہ سڑکوں پر نکلے اور نہ انھوں نے سرکاری دفاتر پر قبضے کی کوشش کی۔

اسے کاکڑ ماڈل فوجی بغاوت کا نام دیا گیا۔ یہ واحد ایسی بغاوت تھی جس نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کرنے کا دعویٰ کیا جب کہ دیگر بغاوتیں ذاتی اغراض و مقاصد اور لالچ کے گھاٹ اتر گئیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل وحید کاکڑ نے نہ آئین منسوخ کیا اور نہ اسے معطل کیا بلکہ مقررہ وقت کے اندر عام انتخابات کروا کر اقتدار واپس سیاستدانوں کے حوالے بلاتاخیر کر دیا اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ حالات اتنے خراب نہیں تھے جیسے کہ آج نظر آتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف' مریم نواز' پرویز رشید وغیرہ نے ٹیلی ویژن پر آ کر ان عناصر کے خلاف سخت زبان استعمال کی ہے جو فوج کو مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں اور کہا ہے کہ انھیں ترکی کی مثال سے سبق سیکھ لینا چاہیے۔ وزیراعظم نواز شریف نے فوجی بغاوت کو ناکام بنانے پر ترک عوام کو مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے جمہوریت کی حفاظت کے لیے تاریکی کی قوتوں کو نیچا دکھا دیا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی میں جمہوریت اس سے یکسر مختلف ہے جس پر پاکستان میں عمل درآمد ہو رہا ہے۔ وہاں پر لوگ اس لیے سڑکوں پر نکلے کیونکہ اردگان نے قوم سے جو وعدے کیے تھے انھیں پورا کیا ہے جب کہ ہمارے حکمران صرف اپنے مفادات کی نگہداشت کرتے رہے ہیں اور لندن اور دبئی میں بیٹھ کر ریموٹ کنٹرول کے ذریعے حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ ہمارے حکمران سوائے آرٹیکل 6 کے اپنی آئینی ذمے داریوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے جب کہ یو این ڈی پی نے اچھی حکمرانی کے لیے آٹھ بنیادی عناصر کا ذکر کیا ہے جن میں ملک میں قانون کی حکومت' تمام سٹیک ہولڈرز کی شرکت' شفافیت' احساس ذمے داری' افہام و تفہیم' عدل و انصاف' موثر کارکردگی' قابلیت و احتساب شامل ہیں۔

ملک میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی جب کہ یکے بعد دیگرے آنیوالی حکومتوں نے اس حوالے سے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی۔ کیونکہ اس طرح انھیں اپنے اختیارات میں کمی واقع ہونے کا خطرہ تھا۔ ایک طرف آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف وسائل کی قلت ہے اور ملک کو سیکیورٹی کے مسائل بھی درپیش ہیں۔ تاہم جنرل راحیل شریف کو عوام کے جذبات کا مکمل احساس ہے اور ہمارے سیاستدانوں کے برعکس وہ ایسے شخص ہیں جن کو اپنے الفاظ کا بہت پاس ہے۔ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے پاک فوج نے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جب کہ ہمارے سیاسی لیڈر عوام کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے۔ وہ نعرے زیادہ بلند کرتے ہیں لیکن اب محض نعرہ بازی کام نہیں دے گی۔

ہمارے سیاستدانوں کو بھی اپنی عیش و آرام کی زندگی سے باہر نکل کر طیب اردگان کی طرح قوم کی خدمت کرنی چاہیے۔ ایک نازک ترین موقع پر اردگان کا عوام میں پہنچ جانے سے عوام کو ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو جانے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ بعد میں فوج کی جوابی بغاوت نے اردگان کی حکومت بحال کرا دی۔ مسلم لیگ ن کے لیڈر اگر اس غلط فہمی میں ہیں کہ ان کے خلاف بغاوت کی صورت میں بھی لوگ باہر نکل آئیں گے تو ایسا ہر گز نہیں ہو گا کیونکہ اردگان میں اور ہمارے لیڈروں میں بہت فرق ہے۔
Load Next Story