ناران کے شب و روز
مقامی دوستوں نے بتایا کہ عید کے اس غیر معمولی رش نے صورت حال زیادہ خراب کر دی ہے
LONDON:
پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن المعروف پی ٹی ڈی سی نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو اپنے ریسٹ ہاؤسز کے لیے لوکیشنز بہت اچھی منتخب کی ہیں۔ چند برس قبل کالام (سوات) میں بھی قیام کا موقع ملا جس کی خوشگوار یادیں ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں لیکن ناران کا یہ Resort اس سے کہیں بڑا ہے یہ اور بات ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے پورے شہر کے اندر سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک تکلیف دہ تجربہ ہے کہ چاروں طرف گندگی، بے ترتیب عمارتیں اور کھڑی اور چلتی ہوئی گاڑیوں نے ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے کہ طبیعت بشاش ہونے کے بجائے گھبرانے لگتی ہے۔
مقامی دوستوں نے بتایا کہ عید کے اس غیر معمولی رش نے صورت حال زیادہ خراب کر دی ہے لیکن اب کچھ برسوں سے سارا سیزن اسی طرح سے گزرتا ہے کہ بعض اوقات گاڑیوں کو ڈیڑھ دو میل کا یہ رستہ کراس کرنے میں دو دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ علی اصغر نے بتایا کہ کل ملا کر ان کے زیر انتظام ساٹھ کے قریب ہٹس (HUTS) ہیں جن میں زیادہ تر ایک بیڈ روم اور باتھ پر مشتمل ہیں۔
یہ ہٹس دریا کے ساتھ ساتھ ایک کھلی جگہ پر اس طرح سے تعمیر کیے گئے ہیں کہ مکینوں کی گاڑیاں بھی ساتھ ہی پارک کی جا سکیں یہ اور بات ہے کہ رستے کی تنگی اور پتھریلی چڑھائی کی وجہ سے ہمیں اپنا کوسٹر (اس کے بڑے سائز کے باعث) استقبالیہ کے سامنے واقع پارکنگ ہی میںکھڑا کرنا پڑا۔ ہمارے پاس 16 سے 19 نمبر تک کے ہٹس تھے جو ایک ہی لائن میں واقع تھے۔
سو ایک طرح سے گھر کا سا ماحول بن گیا۔ پہلے دن کا ناشتہ ریستوران میں کیا گیا جو خاصا معقول تھا لیکن اس کے بعد یہ ذمے داری ہمارے منع کرنے کے باوجود خواتین نے اپنے ذمے لے لی اور نہ صرف اس کو اچھی طرح سے نبھایا بلکہ حسب فرمائش چائے کی تیاری کے ساتھ ساتھ دو بار چائنیز سوپ کا بھی اہتمام کیا۔ یعنی ہوم سک نس Home Sickness کا موقع ہی پیدا نہیں ہونے دیا۔
اس ہوم سک نس پر ایک بہت دلچسپ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی ہوٹل میں ایک گاہک نے بیرے کو ناشتے کا آرڈر کچھ اس طرح سے دیا کہ وہ انڈوں کا آملیٹ لاؤ جو نمک سے بھرا ہوا ہو۔ دو ٹوسٹ لاؤ جو انتہائی ٹھنڈے اور کناروں سے جلے ہوئے ہوں۔ ایک کپ چائے لاؤ جو انتہائی بدمزہ ہو اور پھر میرے سامنے بیٹھ کر مجھے برا بھلا کہو۔ بیرے نے حیرت اور پریشانی سے پوچھا اس عجیب و غریب آرڈر کی وجہ؟ جواب ملا، وہ اس لیے کہ میں ہوم سک فِیل کر رہا ہوں۔
ہمارے ہٹس سے تقریباً پچاس گز کے فاصلے پر دریائے کنہار شور مچاتا ہوا گزر رہا تھا۔ پانی کی رفتار خاصی تیز اور دریا کے کنارے پتھریلے اور غیر محفوظ تھے حالانکہ معمولی سے خرچ کے ساتھ یہاں دوچار سیڑھیاں بنا کر ایسی ریلنگ لگائی جا سکتی تھی کہ بچے اور بڑے دونوں آسانی اور سہولت سے دریا کی روانی اور بہتے پانی کی تیزی اور ٹھنڈک سے محظوظ ہو سکتے۔ اسی طرح ہٹس کے اردگرد بہت سی بکریاں سارا دن پھرتی اور چیزوں میں منہ مارتی رہتی تھیں جن کی وجہ سے بہت چھوٹے بچے اور کھانے پینے کی چیزیں غیر محفوظ ہو جاتی تھیں۔
معلوم ہوا کہ یہ بکریاں مقامی لوگوں کی ہیں اور اگر انھیں روکنے یا باندھنے کی کوشش کی جائے تو وہ لوگ دنگے فساد پر اتر آتے ہیں جب کہ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ یہ بکریاں اصل میں لوکل اسٹاف اور ملازمین ہی کی تھیں جنھیں وہ مفت چرنے کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔تین بڑے جوڑوں یعنی شاہد اور ناظمہ، مجاہد اور شاہین اور میرے اور فردوس کے ساتھ ساتھ دو نوجوان جوڑے یعنی عثمان اور ثناء عثمان اور علی اور رابعہ علی تھے جب کہ مجاہد کے تینوں غیر شادی شدہ بچے طیب، خدیجہ اور زینب اور شاہد نسیم کا بیٹا فیضان شاہد ان کے علاوہ تھے۔
بچہ پارٹی عثمان کے بچوں احمد، صدف، ماہ رخ اور فاطمہ اور علی ذی شان کے بچوں یعنی میرے پوتوں ابراہیم اور موسیٰ پر مشتمل تھی۔ سینئرز اور جونیئرز کی اپنی اپنی ترجیحات تھیں لیکن متفقہ فیصلے سے یہ طے پایا کہ ایک دن بابوسر ٹاپ کے لیے اور دوسرا جھیل سیف الملوک اور کشتی رانی کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ علی کو پہاڑی سفر صرف اس صورت میں راس آتا ہے جب وہ خود ڈرائیو کر رہا ہو ورنہ اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے سو اس کی فرمائش پر بابوسر ٹاپ کے سفر سے اس کو استثنا دے دیا گیا اور وہ دن اس نے اور موسیٰ نے ایک طرح سے گھر پر گزارا۔ یہ اور بات ہے کہ اس دوران میں اس نے Bon fire کا انتظام کرا لیا اور اس رات ہم نے دیر تک شعلوں کے رقص کے دوران باتوں کے دیپ جلائے۔
بابوسر پاس یا ٹاپ 13690 فٹ کی بلندی پر واقع ایک ایسا پوائنٹ ہے جہاں ناران آنے والے بیشتر سیاح ضرور جاتے ہیں کہ اس کے رستے میں لولوسر جھیل بھی واقع ہے جو اپنی جگہ پر ایک قابل دید مقام ہے یہ سارا راستہ اس قدر رنگارنگ اور دلکش قدرتی مناظر سے بھرا پڑا ہے کہ ذرا سی توجہ اور مناسب سہولیات کی فراہمی ہو تو یہ کسی طرح سے سوئٹزرلینڈ سے کم نہ ٹھہرے۔ یہاں کی خوبصورت وادیاں اور دلکش پہاڑی سلسلے ایسے ہیں کہ انسان بس دیکھتا اور جھومتا ہی رہ جائے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ سیاحوں کی اس قدر آمدورفت کے باوجود یہاں مناسب باتھ روم اور بیٹھنے یا کھانے پینے کی بنیادی سہولتیں تک نہ ہونے کے برابر کیوں ہیں! میرے خیال میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، گورنر خیبرپختون خواہ ظفر اقبال جھگڑا اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک سمیت صوبے کی تمام انتظامیہ کو اس علاقے کی ترقی اور یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے خصوصی اور فوری انتظامات کرنے چاہئیں کہ اس سے نہ صرف پورے صوبے کی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ دنیا بھر سے سیاح یہاں آنا پسند کریں گے اور یوں پاکستان کے اس Soft Image کو بے انتہا تشہیر اور تقویت ملے گی جو فی الوقت صرف ایسے سرکاری بیانات تک محدود ہے جن کا شیرازہ کسی معمولی دھماکے یا دہشت گردی کی ایک عام سی واردات سے بکھر جاتا ہے۔
پہاڑی سفر کی مخصوص تھکن کی وجہ سے میرا دل چند لمحوں کے لیے کہیں آرام سے بیٹھنے اور سانس ٹھیک کرنے کوچاہ رہا تھا مگر صورتحال کچھ ایسی تھی کہ مجھے فوراً اس کے لیے اپنے کوسٹر کا رخ کرنا پڑا اور یوں میں اس منظر کی خوب صورتی کو اس طرح سے کشید نہ کر سکا جو اس کا حق بنتا تھا۔
کم و بیش ایسا ہی معاملہ اس علاقے کی مشہور ترین سوغات ٹراؤٹ مچھلی کا ہے۔ احباب نے بتایا کہ چند برس قبل تک یہاں نہ صرف یہ مچھلی افراط کے ساتھ موجود تھی بلکہ فشنگ کے شوقین خود اس کا شکار کیا کرتے تھے۔ ان کی سہولت کے لیے دریا میں زیادہ مچھلی فراہم کرنے کی خاطر اطلاعات کے مطابق محکمہ ماہی پروری نے خاص طور پر ایک ہیچری قائم کی تا کہ نسل پروری کے بعد زیادہ سے زیادہ دریا میں مچھلی چھوڑی جا سکے مگر عملی طور پر یہ نہ ہوا کہ خود اسی محکمے نے نہ صرف اسے کاروبار بنا لیا بلکہ اس پر ایک طرح کی اجارہ داری بھی قائم کر لی جس کی وجہ سے نہ صرف مچھلی کے شوقین شکاری لذت شکار س محروم ہو گئے بلکہ بازار میں بھی اس کا ریٹ دو تین سو روپے فی کلو سے چار ہزار روپے فی کلو تک پہنچ گیا۔
ہماری فرمائش پر علی اصغر نے ریستوران میں فرائیڈ ٹراؤٹ کا انتظام تو کروا دیا مگر تین کلو مچھلی آٹھ ہزار میں پڑی جو یقینا سیاحوں کے لیے کوئی حوصلہ افزا صورت حال نہیں ہے کہ جب کوئی لطف بوجھ بن جائے تو وہ اپنی کشش کھو دیتا ہے۔ اگر ذرا سی سنجیدہ کوشش کی جائے تو اب بھی اس لطف کو اس کی اصل اور سابقہ شکل میں واپس لایا جا سکتا ہے۔ باقی کی روداد انشا اللہ اس سلسلے کے اگلے اور آخری کالم میں۔
پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن المعروف پی ٹی ڈی سی نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو اپنے ریسٹ ہاؤسز کے لیے لوکیشنز بہت اچھی منتخب کی ہیں۔ چند برس قبل کالام (سوات) میں بھی قیام کا موقع ملا جس کی خوشگوار یادیں ابھی تک ذہن میں تازہ ہیں لیکن ناران کا یہ Resort اس سے کہیں بڑا ہے یہ اور بات ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے پورے شہر کے اندر سے گزرنا پڑتا ہے جو ایک تکلیف دہ تجربہ ہے کہ چاروں طرف گندگی، بے ترتیب عمارتیں اور کھڑی اور چلتی ہوئی گاڑیوں نے ایک ایسا طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے کہ طبیعت بشاش ہونے کے بجائے گھبرانے لگتی ہے۔
مقامی دوستوں نے بتایا کہ عید کے اس غیر معمولی رش نے صورت حال زیادہ خراب کر دی ہے لیکن اب کچھ برسوں سے سارا سیزن اسی طرح سے گزرتا ہے کہ بعض اوقات گاڑیوں کو ڈیڑھ دو میل کا یہ رستہ کراس کرنے میں دو دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ علی اصغر نے بتایا کہ کل ملا کر ان کے زیر انتظام ساٹھ کے قریب ہٹس (HUTS) ہیں جن میں زیادہ تر ایک بیڈ روم اور باتھ پر مشتمل ہیں۔
یہ ہٹس دریا کے ساتھ ساتھ ایک کھلی جگہ پر اس طرح سے تعمیر کیے گئے ہیں کہ مکینوں کی گاڑیاں بھی ساتھ ہی پارک کی جا سکیں یہ اور بات ہے کہ رستے کی تنگی اور پتھریلی چڑھائی کی وجہ سے ہمیں اپنا کوسٹر (اس کے بڑے سائز کے باعث) استقبالیہ کے سامنے واقع پارکنگ ہی میںکھڑا کرنا پڑا۔ ہمارے پاس 16 سے 19 نمبر تک کے ہٹس تھے جو ایک ہی لائن میں واقع تھے۔
سو ایک طرح سے گھر کا سا ماحول بن گیا۔ پہلے دن کا ناشتہ ریستوران میں کیا گیا جو خاصا معقول تھا لیکن اس کے بعد یہ ذمے داری ہمارے منع کرنے کے باوجود خواتین نے اپنے ذمے لے لی اور نہ صرف اس کو اچھی طرح سے نبھایا بلکہ حسب فرمائش چائے کی تیاری کے ساتھ ساتھ دو بار چائنیز سوپ کا بھی اہتمام کیا۔ یعنی ہوم سک نس Home Sickness کا موقع ہی پیدا نہیں ہونے دیا۔
اس ہوم سک نس پر ایک بہت دلچسپ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ کسی ہوٹل میں ایک گاہک نے بیرے کو ناشتے کا آرڈر کچھ اس طرح سے دیا کہ وہ انڈوں کا آملیٹ لاؤ جو نمک سے بھرا ہوا ہو۔ دو ٹوسٹ لاؤ جو انتہائی ٹھنڈے اور کناروں سے جلے ہوئے ہوں۔ ایک کپ چائے لاؤ جو انتہائی بدمزہ ہو اور پھر میرے سامنے بیٹھ کر مجھے برا بھلا کہو۔ بیرے نے حیرت اور پریشانی سے پوچھا اس عجیب و غریب آرڈر کی وجہ؟ جواب ملا، وہ اس لیے کہ میں ہوم سک فِیل کر رہا ہوں۔
ہمارے ہٹس سے تقریباً پچاس گز کے فاصلے پر دریائے کنہار شور مچاتا ہوا گزر رہا تھا۔ پانی کی رفتار خاصی تیز اور دریا کے کنارے پتھریلے اور غیر محفوظ تھے حالانکہ معمولی سے خرچ کے ساتھ یہاں دوچار سیڑھیاں بنا کر ایسی ریلنگ لگائی جا سکتی تھی کہ بچے اور بڑے دونوں آسانی اور سہولت سے دریا کی روانی اور بہتے پانی کی تیزی اور ٹھنڈک سے محظوظ ہو سکتے۔ اسی طرح ہٹس کے اردگرد بہت سی بکریاں سارا دن پھرتی اور چیزوں میں منہ مارتی رہتی تھیں جن کی وجہ سے بہت چھوٹے بچے اور کھانے پینے کی چیزیں غیر محفوظ ہو جاتی تھیں۔
معلوم ہوا کہ یہ بکریاں مقامی لوگوں کی ہیں اور اگر انھیں روکنے یا باندھنے کی کوشش کی جائے تو وہ لوگ دنگے فساد پر اتر آتے ہیں جب کہ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ یہ بکریاں اصل میں لوکل اسٹاف اور ملازمین ہی کی تھیں جنھیں وہ مفت چرنے کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہتے تھے۔تین بڑے جوڑوں یعنی شاہد اور ناظمہ، مجاہد اور شاہین اور میرے اور فردوس کے ساتھ ساتھ دو نوجوان جوڑے یعنی عثمان اور ثناء عثمان اور علی اور رابعہ علی تھے جب کہ مجاہد کے تینوں غیر شادی شدہ بچے طیب، خدیجہ اور زینب اور شاہد نسیم کا بیٹا فیضان شاہد ان کے علاوہ تھے۔
بچہ پارٹی عثمان کے بچوں احمد، صدف، ماہ رخ اور فاطمہ اور علی ذی شان کے بچوں یعنی میرے پوتوں ابراہیم اور موسیٰ پر مشتمل تھی۔ سینئرز اور جونیئرز کی اپنی اپنی ترجیحات تھیں لیکن متفقہ فیصلے سے یہ طے پایا کہ ایک دن بابوسر ٹاپ کے لیے اور دوسرا جھیل سیف الملوک اور کشتی رانی کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔ علی کو پہاڑی سفر صرف اس صورت میں راس آتا ہے جب وہ خود ڈرائیو کر رہا ہو ورنہ اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے سو اس کی فرمائش پر بابوسر ٹاپ کے سفر سے اس کو استثنا دے دیا گیا اور وہ دن اس نے اور موسیٰ نے ایک طرح سے گھر پر گزارا۔ یہ اور بات ہے کہ اس دوران میں اس نے Bon fire کا انتظام کرا لیا اور اس رات ہم نے دیر تک شعلوں کے رقص کے دوران باتوں کے دیپ جلائے۔
بابوسر پاس یا ٹاپ 13690 فٹ کی بلندی پر واقع ایک ایسا پوائنٹ ہے جہاں ناران آنے والے بیشتر سیاح ضرور جاتے ہیں کہ اس کے رستے میں لولوسر جھیل بھی واقع ہے جو اپنی جگہ پر ایک قابل دید مقام ہے یہ سارا راستہ اس قدر رنگارنگ اور دلکش قدرتی مناظر سے بھرا پڑا ہے کہ ذرا سی توجہ اور مناسب سہولیات کی فراہمی ہو تو یہ کسی طرح سے سوئٹزرلینڈ سے کم نہ ٹھہرے۔ یہاں کی خوبصورت وادیاں اور دلکش پہاڑی سلسلے ایسے ہیں کہ انسان بس دیکھتا اور جھومتا ہی رہ جائے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ سیاحوں کی اس قدر آمدورفت کے باوجود یہاں مناسب باتھ روم اور بیٹھنے یا کھانے پینے کی بنیادی سہولتیں تک نہ ہونے کے برابر کیوں ہیں! میرے خیال میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، گورنر خیبرپختون خواہ ظفر اقبال جھگڑا اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک سمیت صوبے کی تمام انتظامیہ کو اس علاقے کی ترقی اور یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے خصوصی اور فوری انتظامات کرنے چاہئیں کہ اس سے نہ صرف پورے صوبے کی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ دنیا بھر سے سیاح یہاں آنا پسند کریں گے اور یوں پاکستان کے اس Soft Image کو بے انتہا تشہیر اور تقویت ملے گی جو فی الوقت صرف ایسے سرکاری بیانات تک محدود ہے جن کا شیرازہ کسی معمولی دھماکے یا دہشت گردی کی ایک عام سی واردات سے بکھر جاتا ہے۔
پہاڑی سفر کی مخصوص تھکن کی وجہ سے میرا دل چند لمحوں کے لیے کہیں آرام سے بیٹھنے اور سانس ٹھیک کرنے کوچاہ رہا تھا مگر صورتحال کچھ ایسی تھی کہ مجھے فوراً اس کے لیے اپنے کوسٹر کا رخ کرنا پڑا اور یوں میں اس منظر کی خوب صورتی کو اس طرح سے کشید نہ کر سکا جو اس کا حق بنتا تھا۔
کم و بیش ایسا ہی معاملہ اس علاقے کی مشہور ترین سوغات ٹراؤٹ مچھلی کا ہے۔ احباب نے بتایا کہ چند برس قبل تک یہاں نہ صرف یہ مچھلی افراط کے ساتھ موجود تھی بلکہ فشنگ کے شوقین خود اس کا شکار کیا کرتے تھے۔ ان کی سہولت کے لیے دریا میں زیادہ مچھلی فراہم کرنے کی خاطر اطلاعات کے مطابق محکمہ ماہی پروری نے خاص طور پر ایک ہیچری قائم کی تا کہ نسل پروری کے بعد زیادہ سے زیادہ دریا میں مچھلی چھوڑی جا سکے مگر عملی طور پر یہ نہ ہوا کہ خود اسی محکمے نے نہ صرف اسے کاروبار بنا لیا بلکہ اس پر ایک طرح کی اجارہ داری بھی قائم کر لی جس کی وجہ سے نہ صرف مچھلی کے شوقین شکاری لذت شکار س محروم ہو گئے بلکہ بازار میں بھی اس کا ریٹ دو تین سو روپے فی کلو سے چار ہزار روپے فی کلو تک پہنچ گیا۔
ہماری فرمائش پر علی اصغر نے ریستوران میں فرائیڈ ٹراؤٹ کا انتظام تو کروا دیا مگر تین کلو مچھلی آٹھ ہزار میں پڑی جو یقینا سیاحوں کے لیے کوئی حوصلہ افزا صورت حال نہیں ہے کہ جب کوئی لطف بوجھ بن جائے تو وہ اپنی کشش کھو دیتا ہے۔ اگر ذرا سی سنجیدہ کوشش کی جائے تو اب بھی اس لطف کو اس کی اصل اور سابقہ شکل میں واپس لایا جا سکتا ہے۔ باقی کی روداد انشا اللہ اس سلسلے کے اگلے اور آخری کالم میں۔