لحد میں اترنے والا ایک زندہ شخص
موت کو زندگی کی اٹل حقیقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بینائی سے محروم معاشرے میں ''دیدہ ور'' کی پیدائش یا موجودگی معاشرے کے حسن اور اس کی مضبوطی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم اور اٹل ہے کہ ہر عہد اور قوم اپنے مثالی پیکر اور شبیہہ کے مطابق اپنا رہنما، اپنا مسیحا تلاش کرتی ہے اور وہ رہنما یا مسیحا اپنے دور اور اپنی قوم کی ممتاز خصوصیات کا انتہائی واضح اور صاف انعکاس ہوتا ہے اور دوسروں کے مقابلے میں اپنے دور کی ضروریات کا بدرجہ غایت اظہار کرتا ہے، وہ اپنی قوم کی اجتماعی روح کا امین ہوتا ہے۔ یہ وہی رہنما ہوتا ہے جو تاریخ اور واقعات کی رفتار پر اپنی عظیم شخصیت اور کردار کی گہری چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔
عبدالستار ایدھی بلاشبہ ہمارے ملک و قوم کے ہی نہیں بلکہ فی الحقیقت پوری دنیا کے ایسے عظیم، انتھک، درویش صفت خوددار و جواں عزم اور بے لوث ''خادم انسانیت'' تھے جس کی کوئی دوسری مثال پوری موجودہ انسانی برادری میں ڈھونڈنا آسان نہیں۔ وسائل سے محروم انسانوں سے سچی محبت، اپنائیت، وابستگی اور ان کی خدمت کا عملی ثبوت، اس دور میں خدمت انسانی کا شاید ہی کوئی دوسرا علمبردار پیش کرسکتا ہے۔ پوری انسانیت کی بلاتفریق خدمات کے حوالے سے ان کے عزائم، مقاصد اور ان کے کارہائے عالم انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے کروڑوں دلوں کی دیرینہ امنگوں اور تمناؤں پر مشتمل ہیں۔
بلاشبہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے، ایک عہد تھے اور اپنے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے یہ بات بھی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ وہ عبقری تھے۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود وہ خود کو بے مثال اور لازوال بناگئے، صرف اور صرف اپنے کاموں کی وجہ سے۔ غریب نادار، لاچار اور لاوارث لوگوں کی جس طرح انھوں نے اپنے ادارے سے خدمت کی اتنا بڑا کٹھن کام جو حکومتی وسائل کے بغیر ممکن دکھائی نہیں دیتا وہ ایک ناتواں شخص کے عزم و حوصلے نے اسے ممکن کر دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا گیا اور اس پر انھیں اعلیٰ قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔
موت کو زندگی کی اٹل حقیقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اﷲ کے محبوب سے لے کر ہم خاکی انسانوں کے پیارے آخرکار پیوند خاک ہوئے یا ہوں گے۔ لیکن کمال یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ موت کے منہ میں جاکر بھی زندہ رہتے ہیں۔ مرتے بلاشبہ لاکھوں کروڑوں ہیں لیکن موت کے بعد زندہ و پائندہ صرف اور صرف چند ہی لوگ رہتے ہیں۔
یہ رتبہ، یہ عزت، یہ شان، یہ مقام کروڑوں کے ہجوم میں صرف ایک دو ہی کو نصیب ہوپاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں، اپنی ذات اور مفادات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی خاطر زندہ رہتے ہیں اور زندگی کسی مقصد کسی کاز کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا نام اور کام ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا ہے اور تاریخ کے اوراق میں سنہری لفظوں سے رقم کیا جاتا ہے۔ عبدالستار ایدھی بھی ایک ایسا ہی نام، تحریک، ادارہ اور مقصد تھے اور اعلیٰ و ارفع مقاصد کبھی فوت نہیں ہوتے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عبدالستار ایدھی نے ایثار، خدمت اور قربانی کی ایسی نادر مثالیں پیش کی ہیں جو ہمارے معاشرے میں اتنی خال خال ہیں کہ انھیں ''الشاذ کالمعدوم'' کے زمرے میں ہی شمار کیا جاسکتا ہے۔ 23 سال کی عمر میں ایک معمولی فری ڈسپنسری بناکر چلانا اور پھر اسے دنیا بھر میں خدمات کی پہچان بنا دینا یہ فرد واحد عبدالستار ایدھی ہی کا کام و ہنر تھا۔
عبدالستار ایدھی کا یہ اعجاز تھا کہ وہ کھارادر کراچی سے دنیا بھر کے ایسے بدترین علاقوں میں بھی چلے گئے، چاہے سونامی ہو یا کترینہ، لبنان کی جنگ تک میں وہ زخمیوں کی مدد کو پہنچ گئے اور لبنان کیا، جب بھی جہاں بھی ان کی ضرورت پڑی، وہ وہاں پہنچے۔ ہمارے معاشرے کی ایک برہنہ سچائی یہ ہے کہ ہم کسی کی عظمت اور اہمیت کا اعتراف کرنے میں حد درجہ دیر کردیتے ہیں اور یہ بات ہماری سرشت میں ہمیشہ سے شامل رہی ہے کہ ہم کسی گریٹ انسان کو سراہنے یا اس کو ماننے کے لیے اس کی موت کا انتظار کرتے ہیں اور یوں اکثر اوقات غیروں کی طرف سے ان لوگوں کی عظمت کا اعتراف ہم سے پہلے کرلیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی اعزاز ''لینن امن انعام'' 1962 جب فیض احمد فیض کو دیا گیا تو وہ غدار کہلائے تھے۔ عبدالستار ایدھی کے حوالے سے یہ تلخ حقیقت ہے کہ رحمت کے اس فرشتے کی قدر و قیمت یا ہمت افزائی ہم اپنوں سے پہلے غیروں نے کی۔ انھیں ''لینن امن انعام'' 1988 میں دیا گیا تھا اور پاکستان میں کچھ لوگوں نے اس اعزاز پر بڑے اعتراضات کیے تھے۔ عبدالستار ایدھی کو ''نشان امتیاز'' ہمارے ہاں بہت بعد میں دیا گیا تھا لیکن انھوں نے ان دنیاوی اعزازات کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ تاہم وطن عزیز میں ان کی موت کے بعد انھیں فوجی اعزازات و احترام کے ساتھ سپرد خاک کرنا ایک اچھی روایت ضرور کہی جاسکتی ہے۔
عبدالستار ایدھی اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے، شاید اس لیے بھی کہ فرشتے زمین پر زیادہ دیر قیام نہیں کرتے۔ واقعی زمین کا فرشتہ واپس آسمانوں کی طرف چلا گیا مگر اپنے پیچھے ایسے نشان، ایسے استعارے چھوڑ گیا جو اب ایک ادارے کی شکل اختیار کرچکے ہیں، ان کے بوئے ہوئے بیج تناور درخت بن چکے ہیں اور ان کے رفاہی ادارے رہتی دنیا تک قائم رہیں گے کہ ادارے کبھی نہیں مرتے۔ تاہم عبدالستار ایدھی کی موت نے ہمارے ارباب اختیار، ہمارے ایوانوں، ہمارے حکمرانوں اور ان کے ''خزانوں'' پر بھی کئی سوال کھڑے کیے ہیں جس میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر عبدالستار ایدھی وسائل کی کمیابی کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا ''خیراتی ادارہ'' چلا سکتے تھے تو ہمارے حکمران تمام تر ملکی وسائل پر قابض ہوکر بھی ملک کے غریب و نادار عوام کو ریلیف کیوں نہیں پہنچاسکتے؟ ہماری حکومتیں اپنے اپنے ادوار میں عوام کو کبھی صحیح معنوں میں سہولت اور ان کا حق پہنچانے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکیں؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ عبدالستار ایدھی کی روشن و تابندہ مثال کو پوری پاکستانی قوم اپنے لیے مشعل راہ بنائے، خصوصیت سے ہماری نئی نسل ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے اپنے ذوق اور وسائل کے مطابق مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پوری انسانیت کی خدمت کو اپنا مشن بنالے۔ یہ وہ راستہ ہے جو پاکستان کو یقینی طور پر اقوام عالم میں عزت و سرفرازی کے بلند ترین مقامات تک پہنچا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ریاستی انتظامات کے تحت ایسے مزید فلاحی ادارے قائم کیے جائیں۔
آخر ہماری سرکار عوام کے خرچوں پر ہی پلتی بڑھتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس کا پیسہ اس کی فلاح و بقا پر صرف نہیں ہوپاتا؟ عبدالستار ایدھی نے تن تنہا سماجی شعبے میں جو خدمات سرانجام دیں اس میں حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا سبق ہے کہ وہ بھی اگر اپنا ''شاہانہ جاہ و جلال'' چھوڑ کر سادگی اختیار کریں اور قومی اموال کی پائی پائی عوام کی بہبود کے لیے خرچ کریں تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔
عبدالستار ایدھی بلاشبہ ہمارے ملک و قوم کے ہی نہیں بلکہ فی الحقیقت پوری دنیا کے ایسے عظیم، انتھک، درویش صفت خوددار و جواں عزم اور بے لوث ''خادم انسانیت'' تھے جس کی کوئی دوسری مثال پوری موجودہ انسانی برادری میں ڈھونڈنا آسان نہیں۔ وسائل سے محروم انسانوں سے سچی محبت، اپنائیت، وابستگی اور ان کی خدمت کا عملی ثبوت، اس دور میں خدمت انسانی کا شاید ہی کوئی دوسرا علمبردار پیش کرسکتا ہے۔ پوری انسانیت کی بلاتفریق خدمات کے حوالے سے ان کے عزائم، مقاصد اور ان کے کارہائے عالم انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے کروڑوں دلوں کی دیرینہ امنگوں اور تمناؤں پر مشتمل ہیں۔
بلاشبہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے، ایک عہد تھے اور اپنے اوصاف حمیدہ کی وجہ سے یہ بات بھی کسی شک و شبے سے بالاتر ہے کہ وہ عبقری تھے۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود وہ خود کو بے مثال اور لازوال بناگئے، صرف اور صرف اپنے کاموں کی وجہ سے۔ غریب نادار، لاچار اور لاوارث لوگوں کی جس طرح انھوں نے اپنے ادارے سے خدمت کی اتنا بڑا کٹھن کام جو حکومتی وسائل کے بغیر ممکن دکھائی نہیں دیتا وہ ایک ناتواں شخص کے عزم و حوصلے نے اسے ممکن کر دکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا گیا اور اس پر انھیں اعلیٰ قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔
موت کو زندگی کی اٹل حقیقت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اﷲ کے محبوب سے لے کر ہم خاکی انسانوں کے پیارے آخرکار پیوند خاک ہوئے یا ہوں گے۔ لیکن کمال یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ موت کے منہ میں جاکر بھی زندہ رہتے ہیں۔ مرتے بلاشبہ لاکھوں کروڑوں ہیں لیکن موت کے بعد زندہ و پائندہ صرف اور صرف چند ہی لوگ رہتے ہیں۔
یہ رتبہ، یہ عزت، یہ شان، یہ مقام کروڑوں کے ہجوم میں صرف ایک دو ہی کو نصیب ہوپاتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں، اپنی ذات اور مفادات کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی خاطر زندہ رہتے ہیں اور زندگی کسی مقصد کسی کاز کے لیے وقف کردیتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا نام اور کام ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتا ہے اور تاریخ کے اوراق میں سنہری لفظوں سے رقم کیا جاتا ہے۔ عبدالستار ایدھی بھی ایک ایسا ہی نام، تحریک، ادارہ اور مقصد تھے اور اعلیٰ و ارفع مقاصد کبھی فوت نہیں ہوتے۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ عبدالستار ایدھی نے ایثار، خدمت اور قربانی کی ایسی نادر مثالیں پیش کی ہیں جو ہمارے معاشرے میں اتنی خال خال ہیں کہ انھیں ''الشاذ کالمعدوم'' کے زمرے میں ہی شمار کیا جاسکتا ہے۔ 23 سال کی عمر میں ایک معمولی فری ڈسپنسری بناکر چلانا اور پھر اسے دنیا بھر میں خدمات کی پہچان بنا دینا یہ فرد واحد عبدالستار ایدھی ہی کا کام و ہنر تھا۔
عبدالستار ایدھی کا یہ اعجاز تھا کہ وہ کھارادر کراچی سے دنیا بھر کے ایسے بدترین علاقوں میں بھی چلے گئے، چاہے سونامی ہو یا کترینہ، لبنان کی جنگ تک میں وہ زخمیوں کی مدد کو پہنچ گئے اور لبنان کیا، جب بھی جہاں بھی ان کی ضرورت پڑی، وہ وہاں پہنچے۔ ہمارے معاشرے کی ایک برہنہ سچائی یہ ہے کہ ہم کسی کی عظمت اور اہمیت کا اعتراف کرنے میں حد درجہ دیر کردیتے ہیں اور یہ بات ہماری سرشت میں ہمیشہ سے شامل رہی ہے کہ ہم کسی گریٹ انسان کو سراہنے یا اس کو ماننے کے لیے اس کی موت کا انتظار کرتے ہیں اور یوں اکثر اوقات غیروں کی طرف سے ان لوگوں کی عظمت کا اعتراف ہم سے پہلے کرلیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی اعزاز ''لینن امن انعام'' 1962 جب فیض احمد فیض کو دیا گیا تو وہ غدار کہلائے تھے۔ عبدالستار ایدھی کے حوالے سے یہ تلخ حقیقت ہے کہ رحمت کے اس فرشتے کی قدر و قیمت یا ہمت افزائی ہم اپنوں سے پہلے غیروں نے کی۔ انھیں ''لینن امن انعام'' 1988 میں دیا گیا تھا اور پاکستان میں کچھ لوگوں نے اس اعزاز پر بڑے اعتراضات کیے تھے۔ عبدالستار ایدھی کو ''نشان امتیاز'' ہمارے ہاں بہت بعد میں دیا گیا تھا لیکن انھوں نے ان دنیاوی اعزازات کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ تاہم وطن عزیز میں ان کی موت کے بعد انھیں فوجی اعزازات و احترام کے ساتھ سپرد خاک کرنا ایک اچھی روایت ضرور کہی جاسکتی ہے۔
عبدالستار ایدھی اس فانی دنیا سے رخصت ہوگئے، شاید اس لیے بھی کہ فرشتے زمین پر زیادہ دیر قیام نہیں کرتے۔ واقعی زمین کا فرشتہ واپس آسمانوں کی طرف چلا گیا مگر اپنے پیچھے ایسے نشان، ایسے استعارے چھوڑ گیا جو اب ایک ادارے کی شکل اختیار کرچکے ہیں، ان کے بوئے ہوئے بیج تناور درخت بن چکے ہیں اور ان کے رفاہی ادارے رہتی دنیا تک قائم رہیں گے کہ ادارے کبھی نہیں مرتے۔ تاہم عبدالستار ایدھی کی موت نے ہمارے ارباب اختیار، ہمارے ایوانوں، ہمارے حکمرانوں اور ان کے ''خزانوں'' پر بھی کئی سوال کھڑے کیے ہیں جس میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر عبدالستار ایدھی وسائل کی کمیابی کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا ''خیراتی ادارہ'' چلا سکتے تھے تو ہمارے حکمران تمام تر ملکی وسائل پر قابض ہوکر بھی ملک کے غریب و نادار عوام کو ریلیف کیوں نہیں پہنچاسکتے؟ ہماری حکومتیں اپنے اپنے ادوار میں عوام کو کبھی صحیح معنوں میں سہولت اور ان کا حق پہنچانے میں کیوں کامیاب نہ ہوسکیں؟
ضرورت اس بات کی ہے کہ عبدالستار ایدھی کی روشن و تابندہ مثال کو پوری پاکستانی قوم اپنے لیے مشعل راہ بنائے، خصوصیت سے ہماری نئی نسل ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے اپنے ذوق اور وسائل کے مطابق مختلف شعبہ ہائے زندگی میں پوری انسانیت کی خدمت کو اپنا مشن بنالے۔ یہ وہ راستہ ہے جو پاکستان کو یقینی طور پر اقوام عالم میں عزت و سرفرازی کے بلند ترین مقامات تک پہنچا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ریاستی انتظامات کے تحت ایسے مزید فلاحی ادارے قائم کیے جائیں۔
آخر ہماری سرکار عوام کے خرچوں پر ہی پلتی بڑھتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس کا پیسہ اس کی فلاح و بقا پر صرف نہیں ہوپاتا؟ عبدالستار ایدھی نے تن تنہا سماجی شعبے میں جو خدمات سرانجام دیں اس میں حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا سبق ہے کہ وہ بھی اگر اپنا ''شاہانہ جاہ و جلال'' چھوڑ کر سادگی اختیار کریں اور قومی اموال کی پائی پائی عوام کی بہبود کے لیے خرچ کریں تو ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔