بھارت میں عید پرخصوصی دعا کرانے کی سزا اسکول سے تمام مسلمانوں کونکالنے کا حکم
اسکول میں لڑکیوں کے لئے شلوار قمیض کے بجائے دوسرے لباس کو یونیفارم کے طور پر رائج کیا جائے، پنچایت کا فیصلہ
LONDON:
بھارتی ریاست ہریانہ میں مقامی پنچایت نے عید الفطرکے موقع پرخصوصی اسمبلی کرانے کے جرم میں ایک اسکول کو اپنا تمام مسلمان عملہ اورطلبہ کو نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست ہریانہ کے ضلع میوات میں واقع تاوڑو نامی قصبے میں قائم گرین ڈیلاس پبلک اسکول میں عید الفطرکے موقع پرخصوصی اسمبلی کا انعقاد کیا گیا تھا، جس پرعلاقے کے انتہا پسند ہندو نے اسکول پر پتھراؤ کردیا. ان کا کہنا تھا کہ اسکول کی انتظامیہ وہاں پڑھنے والے ہندوبچوں میں اسلام کی ترویج کریج کررہی ہے۔ واقعے کے بعد مقامی پنچایت نے اسکول پر5 لاکھ روپے جرمانہ اور وہاں کے اکلوتے مسلمان استاد کو نکال کر نئی دلی جانے کا حکم دے دیا ہے۔
اس کے علاوہ پنجائت نے اسکول انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اسکول میں پڑھنے والے تمام مسلمان بچوں کو نکال دے، لڑکیوں کا یونیفارم شلوار قمیض کے بجائے دوسرا کوئی لباس کیا جائے اوراسکول آئندہ دوسال تک بچوں کی فیس بھی نہیں بڑھا سکتا۔ پنچائت کے ایک رکن تیک چند سیانی کا کہنا ہے کہ وہ اسکول ہمارے بچوں کو مسلمان بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسکول کی انتظامیہ ہندو بچوں کو نماز اور قرآن کی آیات سکھارہی ہے جسےکسی طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خبر بھی پڑھیں: بھارت میں رواں برس ہندو انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی، 86 افراد قتل
اسکول کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عید کے موقع پر بچوں نے گانے گائے، کھیل کود میں حصہ لیا اور عبادت کی، اس کا مقصد یہ تھا کہ بچوں میں مذہبی منافرت پیدا کرنے کے بجائے ان میں ایک دوسرے کے مذہبی اعتقاد کے احترام کا جذبہ اجاگرکیا جائے۔ اس کے علاوہ اسکول کے بچوں کا بھی کہنا تھا کہ تقریب کے دوران ہم نے بالی ووڈ فلموں کے گانے گائے اور ہندی میں دعا کی۔ علاقے سے منتخب ہونے والے ریاستی رکن پارلیمنٹ چوہدری ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ اسکول کے خلاف فیصلہ دینے والی پنچایت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں: بڑھتی ہندوانتہا پسندی؛ روس نے بھارت کوغیرمحفوظ سیاحتی ملک قراردے دیا
دوسری جانب مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکول کے خلاف انتہا پرستی کا باعث بننے والا ایک الیکٹریشن ہے جسے عید کے روزاسکول میں بجلی کے کام کے لئے بلایا گیا تھا لیکن اسکول کے گارڈز نے اسے عین اس وقت اندر جانے سے منع کردیا تھا جب بچوں کی اسمبلی ہورہی تھی۔ اس نے باہر جاکر یہ بات پھیلادی کہ اسکول میں بچوں کو نماز پڑھائی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اترپردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان کو عید الاضحیٰ کے موقع پر صرف اس لئے زندہ جلا دیا تھا کہ انہیں شک تھا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت موجود ہے۔
بھارتی ریاست ہریانہ میں مقامی پنچایت نے عید الفطرکے موقع پرخصوصی اسمبلی کرانے کے جرم میں ایک اسکول کو اپنا تمام مسلمان عملہ اورطلبہ کو نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست ہریانہ کے ضلع میوات میں واقع تاوڑو نامی قصبے میں قائم گرین ڈیلاس پبلک اسکول میں عید الفطرکے موقع پرخصوصی اسمبلی کا انعقاد کیا گیا تھا، جس پرعلاقے کے انتہا پسند ہندو نے اسکول پر پتھراؤ کردیا. ان کا کہنا تھا کہ اسکول کی انتظامیہ وہاں پڑھنے والے ہندوبچوں میں اسلام کی ترویج کریج کررہی ہے۔ واقعے کے بعد مقامی پنچایت نے اسکول پر5 لاکھ روپے جرمانہ اور وہاں کے اکلوتے مسلمان استاد کو نکال کر نئی دلی جانے کا حکم دے دیا ہے۔
اس کے علاوہ پنجائت نے اسکول انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اسکول میں پڑھنے والے تمام مسلمان بچوں کو نکال دے، لڑکیوں کا یونیفارم شلوار قمیض کے بجائے دوسرا کوئی لباس کیا جائے اوراسکول آئندہ دوسال تک بچوں کی فیس بھی نہیں بڑھا سکتا۔ پنچائت کے ایک رکن تیک چند سیانی کا کہنا ہے کہ وہ اسکول ہمارے بچوں کو مسلمان بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسکول کی انتظامیہ ہندو بچوں کو نماز اور قرآن کی آیات سکھارہی ہے جسےکسی طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔
یہ خبر بھی پڑھیں: بھارت میں رواں برس ہندو انتہا پسندی عروج پر پہنچ گئی، 86 افراد قتل
اسکول کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عید کے موقع پر بچوں نے گانے گائے، کھیل کود میں حصہ لیا اور عبادت کی، اس کا مقصد یہ تھا کہ بچوں میں مذہبی منافرت پیدا کرنے کے بجائے ان میں ایک دوسرے کے مذہبی اعتقاد کے احترام کا جذبہ اجاگرکیا جائے۔ اس کے علاوہ اسکول کے بچوں کا بھی کہنا تھا کہ تقریب کے دوران ہم نے بالی ووڈ فلموں کے گانے گائے اور ہندی میں دعا کی۔ علاقے سے منتخب ہونے والے ریاستی رکن پارلیمنٹ چوہدری ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ اسکول کے خلاف فیصلہ دینے والی پنچایت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں: بڑھتی ہندوانتہا پسندی؛ روس نے بھارت کوغیرمحفوظ سیاحتی ملک قراردے دیا
دوسری جانب مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسکول کے خلاف انتہا پرستی کا باعث بننے والا ایک الیکٹریشن ہے جسے عید کے روزاسکول میں بجلی کے کام کے لئے بلایا گیا تھا لیکن اسکول کے گارڈز نے اسے عین اس وقت اندر جانے سے منع کردیا تھا جب بچوں کی اسمبلی ہورہی تھی۔ اس نے باہر جاکر یہ بات پھیلادی کہ اسکول میں بچوں کو نماز پڑھائی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس اترپردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان کو عید الاضحیٰ کے موقع پر صرف اس لئے زندہ جلا دیا تھا کہ انہیں شک تھا کہ اس کے گھر میں گائے کا گوشت موجود ہے۔