کال گرل معاشرے کی ایسی حقیقت جسے ہم جھٹلا نہیں سکتے
دنیا بھی کتنی ظالم ہے کہ انسان کی مجبوری کا کیسا فائدہ اٹھاتی ہے اوریہ مجبوری کسی لڑکی کی ہو تو پھر نہ پوچھیے
WASHINGTON/KABUL:
دنیا بھی کتنی ظالم ہے کہ انسان کی مجبوری کا کیسا فائدہ اٹھاتی ہے اوریہ مجبوری کسی لڑکی کی ہو تو پھر نہ پوچھیے کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے۔یہ معصوم لڑکی جس کا نام ہم اس خبر میں نہیں لکھ رہے اوراس کو''ع'' کے نام سے خبر میں لکھا جائے گا کہ وہ کیسے کال گرل بنی یہ ایک دردناک حقیقت ہے۔
کراچی کے ایک غریب علاقے کی رہائشی''ع''اپنے گھروالوں کی واحد کفیل تھی، گھر میں بیمار والد، والدہ اور3 بہنیں تھیں، جن کے لئے یہ صبح سے رات تک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی لیکن اخراجات آمدنی سے زیادہ تھے جس کے لئے وہ ہمیشہ پریشان رہتی، ایک طرف بیمار والد اورتینوں بہنیں بھی اسکول جاتی تھیں لیکن''ع'' ایک باہمت لڑکی تھی اوراس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھروالوں کی ہر خواہش پوری کرے اوران کو کبھی یہ احساس نہ ہو کہ کاش ہمارا بھی بیٹا ہوتا،اسی وجہ سے وہ فیکٹری میں اوورٹائم بھی کرلیا کرتی تھی، ایک دن اسے فیکٹری میں کچھ زیادہ دیر ہوگئی اورتقریباًتمام ہی ورکرز گھر جاچکے تھے ایسے میں اس کا سپروائزز جس کی ہمیشہ سے ہی اس پر نظر تھی، موقع غنیمت جان کر اس کے پاس آیا اوراس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگا جس سے وہ خوفزدہ ہوگئی اس دوران سپروائزر کے دو چمچے بھی آگئے اوران ہوس کے پجاریوں نے نہ صرف ''ع'' کی عزت تار تار کی بلکہ اس کی وڈیو بھی بناڈالی اوردھمکی دی کہ اگر اس بات کا کسی کو بتایا تو یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی جائے گی۔
لڑکی بوجھل قدموں سے اٹھی اوردل چاہا کہ عمارت سے کود کر خود کشی کرلے لیکن آنکھوں کے سامنے گھروالے آگئے تاہم عزت کی خاطر اس نے چپ سادھ لی اورکسی کو کچھ نہ بتایا اور کچھ دن تک فیکٹری نہ گئی اس دوران اس اوباش سپروائزر کا فون اس کے پاس آتا رہتا لیکن وہ نہ اٹھاتی لیکن جب گھر میں معاشی مسائل نے جنم لینا شروع کیا تو وہ دوبارہ فیکٹری چلی گئی، اب وہ اوباش سپروائزر جب چاہتا اس کو بلیک میل کرکے اپنی جنسی خواہش پوری کرلیتا، پھر اس نے اپنے دوستوں کو بھی اسی کی ویڈیو دکھادی تھی اوراس کا فون نمبر بھی دے دیا تھا جو اس کو فون کرکے طرح طرح کی واہیات باتیں کرتے تھے اوراسے نہ جانے کس کس ناموں سے پکارتے تھے۔
ایک دن اس لڑکی نے سوچا کہ جب وہ اتنی بدنام ہوہی گئی ہے تو پھر کیوں نہ ان شریف زادوں کے ساتھ بھی کھیلے، اس کے بعد وہ ہر اس آدمی سے فون پر بات کرنا شروع کردی جو اس کو تنگ کرتا تھا اس دوران وہ ان سے اپنے گھر کی وہ تمام ضروریات پوری کراتی تھی جس کو گھر کو ضرورت ہوتی تھی ، اس کے بعد اس نے ان لوگوں کے ساتھ جانا بھی شروع کردیا تھا جو اسے منہ مانگے پیسے دینے لگے، بس یہیں سے یہ ایک معصوم اورشریف لڑکی''کال گرل'' بن گئی۔
(نوٹ) اس لڑکی کی کہانی شائع کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملازمت پیشہ لڑکیوں کو کبھی بھی کسی بھی صورتحال سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ مردانہ وار ایسے لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اوراس طرح کا کوئی بھی اندوہناک واقعہ پیش آئے تو کم از کم اپنے گھروالوں کو ضروربتانا چاہئے تاکہ ایسے درندوں کوعبرتناک سزا دی جاسکے اورکوئی اورلڑکی اس طرح کے حادثے کا شکار ہوکر اس راہ پر نہ نکل پڑے۔
ہم اٹھارہے ہیں معاشرے کے ان کرداروں پر سے پردہ جن پر بات کرتے ہم تھوڑا تذبذب کا شکار ہوتے ہیں لیکن وہ اس مقام تک کیسے پہنچتے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں اس ظالم سماج کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو جانتے ہوں تو ہمیں لکھ بھیجیں ان کی کہانی۔
web@express.com.pk
دنیا بھی کتنی ظالم ہے کہ انسان کی مجبوری کا کیسا فائدہ اٹھاتی ہے اوریہ مجبوری کسی لڑکی کی ہو تو پھر نہ پوچھیے کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے۔یہ معصوم لڑکی جس کا نام ہم اس خبر میں نہیں لکھ رہے اوراس کو''ع'' کے نام سے خبر میں لکھا جائے گا کہ وہ کیسے کال گرل بنی یہ ایک دردناک حقیقت ہے۔
کراچی کے ایک غریب علاقے کی رہائشی''ع''اپنے گھروالوں کی واحد کفیل تھی، گھر میں بیمار والد، والدہ اور3 بہنیں تھیں، جن کے لئے یہ صبح سے رات تک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی لیکن اخراجات آمدنی سے زیادہ تھے جس کے لئے وہ ہمیشہ پریشان رہتی، ایک طرف بیمار والد اورتینوں بہنیں بھی اسکول جاتی تھیں لیکن''ع'' ایک باہمت لڑکی تھی اوراس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھروالوں کی ہر خواہش پوری کرے اوران کو کبھی یہ احساس نہ ہو کہ کاش ہمارا بھی بیٹا ہوتا،اسی وجہ سے وہ فیکٹری میں اوورٹائم بھی کرلیا کرتی تھی، ایک دن اسے فیکٹری میں کچھ زیادہ دیر ہوگئی اورتقریباًتمام ہی ورکرز گھر جاچکے تھے ایسے میں اس کا سپروائزز جس کی ہمیشہ سے ہی اس پر نظر تھی، موقع غنیمت جان کر اس کے پاس آیا اوراس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگا جس سے وہ خوفزدہ ہوگئی اس دوران سپروائزر کے دو چمچے بھی آگئے اوران ہوس کے پجاریوں نے نہ صرف ''ع'' کی عزت تار تار کی بلکہ اس کی وڈیو بھی بناڈالی اوردھمکی دی کہ اگر اس بات کا کسی کو بتایا تو یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی جائے گی۔
لڑکی بوجھل قدموں سے اٹھی اوردل چاہا کہ عمارت سے کود کر خود کشی کرلے لیکن آنکھوں کے سامنے گھروالے آگئے تاہم عزت کی خاطر اس نے چپ سادھ لی اورکسی کو کچھ نہ بتایا اور کچھ دن تک فیکٹری نہ گئی اس دوران اس اوباش سپروائزر کا فون اس کے پاس آتا رہتا لیکن وہ نہ اٹھاتی لیکن جب گھر میں معاشی مسائل نے جنم لینا شروع کیا تو وہ دوبارہ فیکٹری چلی گئی، اب وہ اوباش سپروائزر جب چاہتا اس کو بلیک میل کرکے اپنی جنسی خواہش پوری کرلیتا، پھر اس نے اپنے دوستوں کو بھی اسی کی ویڈیو دکھادی تھی اوراس کا فون نمبر بھی دے دیا تھا جو اس کو فون کرکے طرح طرح کی واہیات باتیں کرتے تھے اوراسے نہ جانے کس کس ناموں سے پکارتے تھے۔
ایک دن اس لڑکی نے سوچا کہ جب وہ اتنی بدنام ہوہی گئی ہے تو پھر کیوں نہ ان شریف زادوں کے ساتھ بھی کھیلے، اس کے بعد وہ ہر اس آدمی سے فون پر بات کرنا شروع کردی جو اس کو تنگ کرتا تھا اس دوران وہ ان سے اپنے گھر کی وہ تمام ضروریات پوری کراتی تھی جس کو گھر کو ضرورت ہوتی تھی ، اس کے بعد اس نے ان لوگوں کے ساتھ جانا بھی شروع کردیا تھا جو اسے منہ مانگے پیسے دینے لگے، بس یہیں سے یہ ایک معصوم اورشریف لڑکی''کال گرل'' بن گئی۔
(نوٹ) اس لڑکی کی کہانی شائع کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ملازمت پیشہ لڑکیوں کو کبھی بھی کسی بھی صورتحال سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ مردانہ وار ایسے لوگوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اوراس طرح کا کوئی بھی اندوہناک واقعہ پیش آئے تو کم از کم اپنے گھروالوں کو ضروربتانا چاہئے تاکہ ایسے درندوں کوعبرتناک سزا دی جاسکے اورکوئی اورلڑکی اس طرح کے حادثے کا شکار ہوکر اس راہ پر نہ نکل پڑے۔
ہم اٹھارہے ہیں معاشرے کے ان کرداروں پر سے پردہ جن پر بات کرتے ہم تھوڑا تذبذب کا شکار ہوتے ہیں لیکن وہ اس مقام تک کیسے پہنچتے ہیں اس میں کہیں نہ کہیں اس ظالم سماج کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو جانتے ہوں تو ہمیں لکھ بھیجیں ان کی کہانی۔
web@express.com.pk