دمشق کے خلاف سامراجی سازش

شام اور عراق کسی وقت عالم عرب کے ترقی یافتہ ممالک تھے لیکن آج کھنڈرات بن چکے ہیں۔

zb0322-2284142@gmail.com

شام اور عراق کسی وقت عالم عرب کے ترقی یافتہ ممالک تھے لیکن آج کھنڈرات بن چکے ہیں۔ جس طرح آج کل لندن اور امریکا میں لوگ اعلیٰ تعلیم کے لیے پڑھنے جاتے ہیں، اسی طرح چھٹی صدی میں لوگ یورپ سے دمشق اعلیٰ تعلیم کے لیے پڑھنے آتے تھے۔ چند دہائیوں قبل کی بات ہے جب شام میں بعث سوشلسٹ پارٹی کی حکومت تھی تو عرب ممالک میں سب سے زیادہ لکھے پڑھے لوگ عراق اور شام میں ہوا کرتے تھے۔

ہمارے ایک محترم بزرگ ساتھی اور سینئر صحافی محمد میاں دمشق یونیورسٹی میں پڑھا چکے ہیں، وہ ایس ایم لا کالج کراچی میں بھی انگریزی کے استاد رہ چکے ہیں۔ عرب بادشاہتوں کے خلاف جب عرب میں بعث سوشلسٹ پارٹی بنی تو مصر کے کرنل ناصر کی قیادت میں مصر کی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا اور تمام بھاری صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا، اس کے بعد پے درپے لیبیا، الجزائر، شام اور عراق میں بھی بادشاہتوں کا خاتمہ ہوا۔ شام میں تعلیم مفت، جاگیرداری کا خاتمہ، بڑی اور بھاری صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔

صحت کے شعبے کو فعال اور مفت علاج کا اعلان کیا گیا۔ شام نے مصر اور لیبیا کو ایک کرنے کے لیے پیش قدمی کی۔ اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے خلاف مصر اور عراق کے ساتھ قدم بہ قدم جدوجہد کرتا رہا۔ لیکن حافظ الاسد کی حکومت کے اختتام کے وقت سے ہی شامی حکومت نے پرائیویٹائزیشن کی جانب قدم بڑھایا اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے شروع کردیے۔ جس کے نتیجے میں وہاں مہنگائی بڑھی اور بے روزگاری بھی، جب بشارالاسد اقتدار پہ آئے تو انھوں نے مزید آئی ایم ایف کے ایجنڈا کی جانب جھکاؤ کیا۔

مسلسل نجکاری کی وجہ سے شام میں بے روزگاری بڑھتی گئی اور عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ اسی دوران عرب بہار انقلاب کا طوفان آگیا، جس نے مصر، بحرین، تیونس، کویت، اردن اور شام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آمر زین العابدین، حسینی مبارک کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ شام اور لیبیا کا بہار انقلاب انتہاپسندوں اور رجعتی قوتوں کے ابھرنے سے خانہ جنگی میں تبدیل ہوگیا۔ اس مثبت انقلابی جدوجہد کو بیرونی مداخلت نے عوام کو طبقاتی بنیادوں کے بجائے رنگ، نسل، مذہب اور فرقوں میں بانٹ دیا۔ آج اسی شام میں بیرونی مداخلت کی وجہ سے یہ ملک کھنڈرات بن چکا ہے۔

حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شام میں بیرون مداخلت پر ایک رپورٹ شایع کی ہے۔ جب کہ یہ مداخلت بہت عرصے سے ہورہی ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا کا سابق صوبہ اور جزیرہ 'تیمور' میں جنر ل سوہارتو نے جمیعت نہدۃ العلماء سے مل کر امریکی سی آئی اے کی سرپرستی میں کمیونسٹوں کا قتل عام کیا تھا، جس کی رپورٹ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیس سال بعد شایع کی تھی۔ اب بھی دیر میں شایع کی ہے۔


بہرحال دیر آید درست آید۔ رپورٹ کچھ یوں ہے کہ 'امریکا، سعودی عرب، قطر اور ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغی گروپوں پر اغوا اور تشدد کے ساتھ ساتھ موت کی سزائیں دینے کے بھی سنگین الزامات عائد کیے ہیں اور انھیں مجرم قرار دیا ہے۔ لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک جائزے میں 2012-16 کے درمیانی عرصے میں شامی صوبوں حلب اور ادلب میں مسلح گروپوں کی جانب سے اغوا کے واقعات کی تفصیلات جمع کی گئی ہیں۔ اغوا کیے گئے ان افراد میں امن کے لیے سرگرم کارکنوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی شامل تھے۔

ایمنسٹی نے شام میں سرگرم کارکنوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ نورالدین زنگی موومنٹ اور القائدہ سے وابستگی رکھنے والے شامی گروپ النصرۃ فرنٹ کی جانب سے بھی تشدد کے وہی طریقے اپنائے جاتے رہے ہیں، جس کے بارے میں اکثر کہا جاتا رہا ہے کہ صدر بشارالاسد کی حکومت ایسے طریقے روا رکھتی رہی ہے۔ ایمنسٹی کی جانب سے جن تنظیموں کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے، ان میں نورالدین زنگی موومنٹ، لیوانت فرنٹ اور سولہویں ڈویژن کے ساتھ ساتھ سخت گیر موقف رکھنے والا گروپ احرارالسلام اور النصرۃ فرنٹ بھی شامل ہے۔ ایمنسٹی کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر فلپ لوتھر کے مطابق باغیوں کے زیر انتظام علاقوں کے شامی حکومت سے تنگ آئے ہوئے شہریوں نے شروع شروع میں باغیوں کا خیر مقدم کیا تھا، لیکن یہی باغی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔

عراق میں مہلک ہتھیاروں کے ہونے پر اور افغانستان میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بہانہ بنا کر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے حملہ کیا۔ مگر لیبیا اور شام کا تو کوئی جھوٹا جواز بھی نہ بن سکا کہ اس پر حملہ کیا جاسکے۔ اس لیے شام میں سامراجیوں نے اپنے اور اپنے آلہ کاروں کے ذریعے مداخلت شروع کی۔ امریکا کی جانب سے ایسی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔

معروف امریکی انارکسٹ دانشور کامریڈ پروفیسر نوم چومسکی کے مطابق 'امریکا اب تک 88 ممالک میں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کرچکا ہے، جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسان مارے جاچکے ہیں'۔ کچھ عرصے قبل پروفیسر صاحب نے فرانس میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے کہا تھا کہ 'فرانس، امریکا یا برطانیہ میں پرتشدد واقعات ہوتے ہیں تو پوری مغربی دنیا شور مچا دیتی ہے، جب کہ امریکا اور اس کے اتحادی دنیا بھر میں جب مسلسل قتل عام کرتے ہیں اور کر رہے ہیں تو پھر خاموش رہتے ہیں۔ یہی سامراج کا منافقانہ رویہ ہے'۔

سامراجی مداخلت کار کو چونکہ اب شکست در شکست ہورہی ہے، اس لیے ایمنسٹی کو بھی خیال آیا۔ یوکرین میں روس کی یکطرفہ کارروائی پر امریکا کچھ نہ کرپایا بلکہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ 'کریمیا' ایک خودمختار علاقہ بن گیا اور یہاں کی حکومت نے بھاری صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ یمن میں سعودی امریکی مداخلت ناکامی سے دوچار ہے، بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کی ضد سے سامراجیوں کو دستبردار ہونا پڑا۔ ادھر یزدی اور کرد مسلح ہوکر انتہاپسندوں اور سامراجیوں کے خلاف ڈٹ گئے۔ نتیجتاً شام میں کردوں اور یزدیوں نے داعش کی پیش قدمی کو روک دیا۔ اب مزید برآں کہ شام اور عراق میں داعش، النصرۃ، القاعدہ اور احرارالاسلام کو پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ اس میں کردوں، یزدیوں، امن پسندوں اور جنگ مخالفوں کا بڑا کردار ہے۔

عالمی سامراج نے جس بے دردی سے دنیا کے انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب میں تقسیم کردیا ہے اس سے طبقاتی جدوجہد ختم نہیں ہوسکتی ہے۔ جہاں مسائل ہوں گے، لوگ وہاں جدوجہد بھی کریں گے۔ آج خود امریکا اور برطانیہ میں سوشلسٹ تحریک ابھر رہی ہے، نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوچکی ہے، ہندوستان کے ایک تہائی علاقے میں ماؤ نواز کمیونسٹوں کا قبضہ ہے۔ اس صورتحال میں دنیا بھر کے عوام ایک غیر ریاستی کمیونسٹ نظام یعنی امداد باہمی کے آزاد معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔
Load Next Story