خواجہ صوفی محمد اسلم نقشبندیؒ

میاں کرم داد تاجر تھے اور کشمیر سے ہجرت کرکے جہلم میں آباد ہوئے تھے، جو کہ ایک نہایت پاک باز سادہ لوح انسان تھے۔

فوٹو: فائل

شہباز حقیقت حضرت خواجہ صوفی محمد اسلم نقشبندیؒ مؤرخہ 14؍اپریل 1934 بمطابق 1353ھ میاں کرم داد کشمیری کے ہاں شادپور قصبہ ٹایلیاں والا جہلم شہر میں پیدا ہوئے، یہ جگہ دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے۔ میاں کرم داد تاجر تھے اور کشمیر سے ہجرت کرکے جہلم میں آباد ہوئے تھے، جو کہ ایک نہایت پاک باز سادہ لوح انسان تھے۔

ان کے زیر نگرانی آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔ وہ خود پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ اس لیے صوفی محمد اسلم بھی بچپن ہی سے نماز کی طرف راغب تھے اور اپنے والد محترم کے ساتھ باقاعدگی سے مسجد جایا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے صوفی کا لفظ آپ کے نام کے ساتھ اس طرح جڑ گیا کہ آپ کے نام کا حصہ ہی بن کر رہ گیا

زندگی یادوں کا مجموعہ ہے، مگر ہے عجیب۔ کچھ باتیں ہم بھلا دینا چاہتے ہیں۔ انہیں بھلا نہیں پاتے، کچھ یاد رکھنا چاہتے ہیں، لیکن کوشش کے باوجود وہ یاد نہیں رہتیں۔ پھر بھی الماریوں میں سلیقے سے سجائی گئی کتابوں کی طرح کہیں وجود کے اندر ہی ان کی لائبریری بھی موجود ہے۔ یہ یادیں روشنی بھی ہیں اور تاریکی بھی۔ کیوںکہ زندگی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے۔ حال، ماضی سے بنتا ہے اور مستقبل چال سے۔ یعنی اگر ہم روشن یادوں کی روشنی میں آگے بڑھیں تو ہمارا حال روشن ہوگا اور روشن حال کا سفر تاب ناک مستقبل کا ضامن ہوگا۔ فارسی زبان کا ایک شعر ہے، جو اسی حقیقت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

تازہ خواہی داشتن کر داغہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصّۂ پارینہ را

ترجمہ: ''اگر سینے کے زخموں کو تازہ رکھنے کا خواہش مند ہے تو پھر کبھی کبھی اس پرانے قصّے کو دہرالیا کر۔''

اس سارے کھیل میں بنیادی ضرورت زخمی دل ہے۔ قصۂ پارینہ تو ہر کتاب زیست میں ہوتا ہے، لیکن اس نے دل کو زخمی کیا یا نہیں؟ اصل چیز یہ ہے۔ زمانۂ طالب علمی کی ایک یاد جو بھلائے نہیں بھولتی، وہ پنجابی زبان کا ایک شعر ہے۔ یہ شعر ایک گداگر ایک ٹرین میں پڑھا کرتا تھا۔ اسی ٹرین میں ہمارا بھی آنا جانا ہوتا تھا۔ وہ گداگر ٹرین کے جس ڈبے میں داخل ہوتا، پہلے یہ شعر پڑھتا اور پھر بھیک مانگا کرتا تھا۔ اس وقت تو اتنا شعور نہ تھا۔ آج اس کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ ہوتا ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ اس ایک شعر میں پورا معاشرتی ڈھانچا بند کیا ہوا ہے۔ اس شعر میں شاعر نے یہ بتایا ہے کہ دردِ دل فرد کی قیمتی متاع اور انسانی معاشرے کی اساس ہے۔ شعر سُنیے!

درداں باہجہ نہیں کالجے چھیک پیندے

چھیکیاں باہجہ نہیں موتی پروئے جاندے

ترجمہ: ''دردِ دل کے بغیر جگر چھلنی نہیں ہوتا، اور موتیوں میں اگر سوراخ نہ ہوں تو وہ پروئے نہیں جاسکتے۔''

یعنی جس جگر میں دردِ دل کی وجہ سے سوراخ ہے، وہی قیمتی موتی ہے۔ موتی جب ایک لڑی میں پروئے جائیں تو تب ہی ہار بنتے ہیں اور تب ہی کوئی ملکہ، کوئی شہزادی اسے اپنے گلے میں ڈالتی ہے۔ سوراخ نہ ہوں تو موتی پروئے نہیں جاسکتے۔ نہ ہار بنیں گے، نہ کوئی ملکہ یا شہزادی اپنے گلے میں پہنے گی۔ کسی معاشرے کو متحد و متفق دردِ دل کرتا ہے۔ دردِ دل کے بغیر انسانوں کا ہجوم معاشرے کی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔

ہم نے تو بدقسمتی سے اُلٹا سفر شروع کیا۔ جب جگر کے سوراخ بند ہوگئے تو ہم معاشرہ ہی نہ رہے۔ اپنے اپنے مفادات کے غلام ہوگئے۔ سوراخ میں سوئی ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری طرف نکل جاتی ہے، لیکن ہمارے جگر میں سوئی ایک طرف سے داخل تو ضرور ہوتی ہے، لیکن دوسری طرف سے نکلتی نہیں ہے۔ یعنی ہم یہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ ہمارے گھر میں تو آئے، وہاں سے باہر کچھ نہ جائے، معاشرے ایسے بنتے ہیں نہ چلتے ہیں۔

اس طرح معاشرے میں جرم پنپتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جرم بڑے کرتے ہیں، مارے چھوٹے جاتے ہیں۔ یہ خودکش حملے، یہ بم دھماکے، راہ زنی، بینک لوٹنا یہ کسی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ نہ اخلاقی لحاظ سے، نہ قانونی لحاظ سے، نہ معاشرتی لحاظ سے اور نہ ہی مذہبی لحاظ سے۔ نہ کوئی سچا محب وطن اور نہ ہی سچا مسلمان ان افعال کو درست قرار دے سکتا ہے۔

ایسے خائن لوگوں کا ذکر کرکے میں قلم و قرطاس کے تقدس کو پامال نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے یہیں سے اصل موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ میرا ہمیشہ سے یہ مؤقف رہا ہے کہ حکومت کی مدد کے بغیر ہم اپنے تمام مسائل کو خود حل کرسکتے ہیں۔ لیکن بے حسی کا یہ عالم ہے کہ آج تک کسی ایک شخص نے بھی نہیں پوچھا کہ وہ منصوبہ اور اس پر عمل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ اسلام میں باوجود اپنی کمائی ہونے کے فضول خرچی حرام ہے اور فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کے بھائی فرمایا ہے۔ اس لیے کہ جو پیسہ فضول خرچی کے ذریعے ضایع کیا جارہا ہے دراصل اس پر فضول خرچی کرنے والے کا کوئی حق ہی نہیں ہے۔

اگر یہ اس کا حق تسلیم کرلیا جائے تو پھر ان کا حصہ کہاں گیا جو محروم ہیں؟ کیوںکہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ جہاں تمہیں خلیفۃ اﷲ کا کردار ادا کرنا ہے وہاں تم سب کے لیے رہنے کا اور حاجات زندگی کا اکمل و احسن انتظام موجود ہے۔ تقسیم کا نظام تم تک حضرات انبیاء کرام کے ذریعے پہنچے گا، اگر اس نظام کو عدل سے چلاؤ گے تو تم میں سے کوئی محروم رہے گا اور نہ ہی میرے خزانے کبھی ختم ہوںگے۔'' ہاں آزمائش کے لیے کمی بیشی کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم ایمان والے ہیں اور اس کی ربوبیت پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر کسی دوسرے کا حق باطل طریقے سے کھانے کی تو سوچ بھی ہمارے اندر پیدا نہیں ہونی چاہیے۔

ہمیں یہ تو علم ہونا چاہیے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں خزانوں کے لیے پیدا نہیں فرمایا، خزانے ہمارے لیے پیدا فرمائے ہیں۔ ویسے ہمارا ہر کام ہی اُلٹا ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں،''یااﷲ! اگر ہمارا یہ کام ہوجائے تو میں فلاں مزار پر دیگ چڑھاؤں گا''۔ بھئی! اگر تم سمجھتے ہو کہ وہ کام کرنے پر قادر ہے تو دیگ چڑھادو۔ یہ بے یقینی کیوں ہے کہ دیگ لے کر وہ کام نہیں کرے گا؟ اور تمہارے اوپر کیسے اعتبار کرلیا جائے کہ کام ہونے کے بعد تم دیگ دو گے؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کو اپنے قیاس پر دیکھتے ہیں۔ اگر کوئی کسی کو کچھ دے رہا ہے تو اس کا حق دے رہا ہے۔

اس پر کوئی احسان نہیں کر رہا ہے، لیکن یہ اﷲ کی رحمت ہے کہ وہ اسے اپنے ذمے قرض سمجھتا ہے، اور اس کا کئی گنا بڑھا کر واپس لوٹاتا ہے۔ اس سودے میں کچھ نقصان نہیں ہے۔ صرف ایمان و ایقان کی ضرورت ہے۔ برکت وہ عطا کرے گا۔ غریب آدمی کو روٹی کے لالے پڑے ہیں، یہ دیگیں چڑھانے والے کون ہیں؟ اگر وہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ یہ سودا کریں کہ اے اﷲ کریم! تُو میرے اوپر رحم فرما، میں اپنے پڑوس میں رہنے والے یتیموں کی سال بھر کفالت کروں گا، یا جیسی حیثیت ہو ویسا عہد کرلے، تو اﷲ اپنے ذمے کسی کا قرض نہیں رکھتا۔


کسی کو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کروا دینا، اگر یہ ممکن نہ ہو تو اسی کام کے لیے کمیٹی بنائی جاسکتی ہے، جس میں چند لوگ مل کر کسی ایک خاندان کی کفالت کرسکتے ہیں۔ چند یتامیٰ کے تعلیمی اخراجات برداشت کرسکتے ہیں۔ چند بیماروں کا علاج معالجہ کروا سکتے ہیں۔ حکومت اگر مدد نہیں کرتی تو ان کاموں سے منع بھی نہیں کرتی۔ رفتہ رفتہ یہ کام بڑھتا جائے گا۔ جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ غیرمستحق لوگوں نے بھی گداگری کو پیشہ بنالیا ہے۔ اس تکلیف دہ صورت حال سے بچنے کے لیے اپنے علاقے کی مسجد کو مرکز بنائیں اور وہاں مستحقین کی فہرست تیار کریں۔ روزانہ، ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر جو کچھ بھی ان کو دینا ہو۔

خاموشی اور وقار کے ساتھ ان کے گھروں میں پہنچادیں تاکہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔ سڑکوں، چوراہوں پر بھیک مانگنے والوں کی حوصلہ شکنی کریں، گھر کے دروازے پر آکر مانگنے والوں کے لیے تو دروازہ بھی نہ کھولیں، اس لیے کہ یہ لوگ ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، مساجد کا تعلق بیت اﷲ سے ہے اور بیت المال کا تعلق نظام بیت اللہ سے ہے۔ بیت اﷲ کا نظام نظامِِ خیر ہے۔ ثابت ہوا کہ مساجد نظام خیر کا حصہ ہیں۔ چناںچہ ہر مسجد کا ایک بیت المال ہو، جو اپنی مدد آپ کے تحت قائم ہو، اس مسجد کے ساتھ وابستہ لوگوں میں سے جو مستحق ہوں ان کے رہن سہن کا، صحت کا، ان کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اس مال میں سے کیا جائے۔

اس علاقے میں امن و امان کی ذمے داری اس مسجد کی انتظامیہ کی ذمے داری ہو۔ مسجد کی انتظامیہ تمام سرکاری اداروں سے رابطے میں ہو۔ مسجد کی انتظامیہ صادق اور امین لوگوں پر مشتمل ہو۔ ڈھونڈے سے شاید اتنے صادق اور امین مل ہی جائیں۔ ویسے تو یہ جنس نایاب ہوچکی ہے۔ صادق اور امین کا معیار اپنا بنایا ہوا نہیں بلکہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا بنایا ہوا ہو۔ اس وقت تو اتنا ہی کافی ہے۔ جب کوئی ایسا کرنا چاہے گا تو اسے پورا طریقۂ کار تحریری شکل میں پیش کردیا جائے گا۔ اس سے نفرتوں میں، جرائم میں اور بے راہ روی میں کمی واقع ہوگی۔ یہ وہی نظام ہے جس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،''جو اس میں داخل ہوگیا اسے ہر طرح امن مل گیا، یعنی وہ دوسروں سے مامون ہوا دوسرے اس سے مامون ہوگئے۔'' جس سے عرب جیسا معاشرہ جس میں چہار سُو جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی منور و تاب ناک ہوگیا۔ انہی چراغوں نے چار دانگ عالم میں حق کی روشنی پھیلائی۔

ارشادِ ربانی ہے،''لوگ ستاروں سے راہ پاتے ہیں۔'' حدیث مبارک ہے،''میرے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ستاروں کی مانند ہیں، جس کی پیروی کروگے راہ پاجاؤ گے۔'' جو بات بات پر تلواریں سونت لیتے تھے، وہی نوع انساں کے راہ نما بن گئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے،''جس کا سینہ اسلام کے لیے کھل گیا وہ اپنے اﷲ کی طرف سے نور ہدایت پر ہے۔'' گویا وہی عرب حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنے سے تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آگئے۔ یہ رحمت خداوندی کا وہی نظام ہے، جو اﷲ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نوع انساں کی طرف نازل فرمایا، جن کے سینے اسلام کے لیے کھل گئے، وہی نسل آدم کے بہترین انسان قرار پائے۔

شہباز حقیقت حضرت خواجہ صوفی محمد اسلم نقشبندیؒ مؤرخہ 14؍اپریل 1934 بمطابق 1353ھ میاں کرم داد کشمیری کے ہاں شادپور قصبہ ٹایلیاں والا جہلم شہر میں پیدا ہوئے، یہ جگہ دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے۔ میاں کرم داد تاجر تھے اور کشمیر سے ہجرت کرکے جہلم میں آباد ہوئے تھے، جو کہ ایک نہایت پاک باز سادہ لوح انسان تھے۔ ان کے زیر نگرانی آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔ وہ خود پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔ اس لیے صوفی محمد اسلم بھی بچپن ہی سے نماز کی طرف راغب تھے اور اپنے والد محترم کے ساتھ باقاعدگی سے مسجد جایا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے صوفی کا لفظ آپ کے نام کے ساتھ اس طرح جڑ گیا کہ آپ کے نام کا حصہ ہی بن کر رہ گیا۔

پنجاب میں بچپن کے نمازیوں کو عموماً صوفی مولوی یا ملّاں جیسے الفاظ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ آپ نے اسلامیہ ہائی اسکول جہلم شہر سے میٹرک پاس کیا۔ اسکول میں آپ کا شمار ذہن و فطین طلباء میں ہوتا تھا۔ چناںچہ کھیل کود میں وقت ضائع کرنے کی بجائے خاموشی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ تعلیم سے فارغ ہوکر آپ نے فوجی ٹیکسٹائل ملز جہلم میں ملازمت کرلی۔ زیادہ تر باوضو رہنے کی کوشش کرتے۔ اپنے اہل خانہ کے لیے رزق حلال کمانے کو ترجیح دیتے۔ جو وقت بچ رہتا اس میں عبادات کرتے، طبیعت فقیرانہ تھی۔ آپ کے ایک ساتھی نے آپ سے کہا،''موہری، کھاریاں میں ایک بزرگ حضرت خواجہ محمد نواب الدین نقشبندی زری زربخشؒؒ ہیں، ان سے مل کر آپ خوش ہوں گے۔'' یکم اکتوبر 1957کو آپ موہری پہنچے۔ جب مرشد سے آنکھیں چار ہوئیں تو ان کی کیمیا اثر نگاہ دل میں اتر گئی۔ مرید ہونے کی درخواست کی، حضرت خواجہ نواب الدین نے مرید کرلیا۔

آپ کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے کچھ ہی عرصے بعد خلافت سے سرفراز فرمایا۔ مرشد نے آپ کو برطانیہ جاکر تبلیغ کا حکم دیا۔ برطانیہ میں کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ وہ نمازوں کی ادائیگی کے سلسلے میں کافی پریشان تھے۔ انہوں نے آپ سے امامت کی درخواست کی جو آپ نے قبول کرلی۔ لوگوں نے معاوضہ دینے کی کوشش کی تو آپ نے انکار کردیا۔ آہستہ آہستہ پورے لندن کے مسلمان آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے لگے۔

والتھ اسٹو فیکٹری میں آپ آٹھ سال تک کام کرتے رہے اور ساتھ ہی تبلیغ دین بھی کرتے رہے۔ ایک دن آپ کا ایک عقیدت مند حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کیا کہ مڈلز برو میں ایک مسجد ہے، مگر وہاں کام نہیں ہورہا۔ آپ اس مسجد کو آباد کریں۔ آپ اس کے ساتھ مڈلزبرو گئے اور خانہ خدا کو آباد کیا۔ وہاں باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ مسلمانوں کے بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس نظام کو مستحکم کرکے آپ لندن واپس چلے آئے۔ 1971 میں آپ بریڈ فورڈ منتقل ہوگئے۔ وہاں دو منزلہ مکان خرید کر تصوف اور تبلیغ کا کام جاری کیا۔ یہ کام بارہ برس تک جاری رہا۔ پھر وہاں سے بلیک برن چلے گئے۔ جہاں اپنا ایک مستقل ادارہ قائم کیا۔ وہاں کئی عیسائی اور سکھ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔

یہ مرکز 1995میں قائم ہوا۔ یہ مسجد تو نہیں ہے کہ وہاں مسجد کی اجازت لینا مشکل امر ہے۔ آپ نے وہاں سب سے بڑا کام یہ کیا کہ اپنے مریدین کے دلوں میں عشق رسولؐؐ کی شمع جلائی۔ 12؍ ربیع الاول کی مجالس بڑے اہتمام کے ساتھ منعقد کی جاتیں۔ آپ بڑے متقی اور پرہیزگار تھے۔ صورت و سیرت میں سادہ انداز کے قائل تھے، تصنع اور بناوٹ سے پاک زندگی گزارنے کے قائل تھے۔ خالق کائنات نے آپ کو اتنی جاذب اور دل کش صورت عطا فرمائی تھی کہ جو ایک نظر دیکھتا آپ کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ یورپی ماحول کے پروردہ ہزاروں لوگ آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے، جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ آپ مخلص بندگان خدا میں شامل تھے۔

آپ کی نگاہ دلوں کو مسخر کرتی تھی، آپ کی گفتار، آپ کا کردار ملنے والوں کے دل موہ لیتا تھا، یہ بھی اللہ والوں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ برطانیہ کے ہر شہر اور قصبے میں آپ کے مرید پھیلے ہوئے ہیں۔ تبلیغ دین کے لیے برطانیہ میں قیام کے دوران اپنی محنت سے اپنے اہل خانہ کی کفالت فرمایا کرتے تھے۔ کبھی کسی سے ایک پائی تک نہ لی۔ آپ بہت ہی خوددار اور غیّور تھے۔

کسی سے کچھ لینے کے بجائے اپنے ہاتھ سے کسی کو کچھ دینا زیادہ پسند تھا۔ جب مسجد و مدرسہ کی ذمے داریاں بہت بڑھ گئیں تو اﷲ کے توکل پر ذریعہ روزگار بھی ترک کردیا اور تن من دھن سے دین متین کی تبلیغ و اشاعت میں جُت گئے۔ ایسے میں اگر کوئی ساتھی دینی خدمت میں حصہ ملانے کے لیے کچھ پیش کرے تو قبول فرمالیتے ہیں انکار نہیں کرتے۔ ہر آنے والے کی دل کھول کر مہمان نواز کرتے۔ علمائے کرام کی مالی خدمت حد درجہ کیا کرتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے، ''یہ علمائے کرام ہی ہیں، جنہوں نے نامساعد حالات میں سختیاں برداشت کیں، مگر دین متین ہم تک پہنچایا۔ یہ دین متین کے امین ہیں۔ اس لیے ان کی خدمت سب سے مقدم و متبرک ہے۔''

آپ کبھی کبھار برطانیہ کی جیلوں کا دورہ بھی کیا کرتے تھے۔ ان دوروں کے دوران کئی غیر مسلم قیدیوں نے آپ کی سیرت سے متاثر ہوکر اسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کی اور اپنی عاقبت سنواری۔ کئی غیر مسلم نوجوان مسجد میں آتے اور آپ کی نظر التفات سے ان کے دلوں کی دنیا بدل گئی۔ وہ ذاکر و شاغل ہوئے اور عشق رسولؐؐ میں ڈوب گئے۔ جہاں جہاں مراکز قائم ہیں وہاں لنگر کا انتظام بھی ہے اور یتامیٰ و بیوگان کے لیے خصوصی فنڈز بھی قائم کیے گئے ہیں، تاکہ ان کی باوقار انداز میں خدمت کی جاسکے۔ یہی درویشوں کا شیوہ ہے اور آپ عمر بھر اسی مقصد کے لیے کوشاں رہے۔

ایک پادری نے جو اُردو زبان بھی بہت اچھی طرح جانتا تھا، برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو متاثر کرنے کے لیے اُردو میں تبلیغ شروع کردی۔ ایک دن وہ اسی غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ آپ ہماری بائبل کا مطالعہ کیا کریں، تاکہ آپ کا شعور جاگے۔ آپ نے اس سے پوچھا: ''پادری صاحب! آپ کب سے تبلیغ کر رہے ہیں؟'' اس نے جواب دیا:''عرصہ بیس سال سے'' آپ نے پوچھا: ''اس عرصے میں آپ نے کتنے مسلمانوں کو عیسائی کیا ہے؟'' کہنے لگا: ''ایک کو بھی نہیں۔''

آپ نے فرمایا: ''پھر آپ بائبل کے مطالعے کی دعوت کس لیے دیتے ہیں؟ اللہ کی رحمت سے میں نے اس عرصے میں سیکڑوں عیسائیوں کو مسلمان کیا ہے۔'' اسی اثناء میں ایک نومسلم پروفیسر حسن جیلانی کا فون آگیا جو پہلے عیسائی پادری تھے۔ انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا سارا احوال سنایا، مگر پادری بہ ضد رہا کہ آپ بائبل کا مطالعہ ضرور کیا کریں۔ آپ نے فرمایا: ''میں نے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حضور پیش کردیا ہے، تاکہ آپ عیسیٰ علیہ السلام سے حقانیت معلوم کرلیں۔'' پادری اپنی بات پر اڑا رہا۔ آپ نے پھر فرمایا: ''آپ بتائیں بائبل کا کون سا لفظ ہے جس کا ورد کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے؟'' پادری نے کہا کہ اس بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ نے کہا : ''قرآن پاک کا ہر ہر لفظ دل کو سکون بخشتا ہے۔ اس لیے آپ قرآن حکیم کا مطالعہ کیا کریں، تاکہ آپ کے دل کو سکون حاصل ہو اور آپ حق قبول کرسکیں۔'' ان کی یہ بات سن کر پادری صاحب چلے گئے۔

جیساکہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے آپ کے مریدین پورے برطانیہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اکثر شہروں میں ذکر کے حلقے قائم ہیں، ان میں عام لوگوں کے علاوہ علماء کرام اور غیرمسلم بھی شریک ہوتے ہیں۔ صوفی محمد اصغر صاحب نے دعویٰ کیا تھا کہ میں نے بزرگان دین کی کتابیں بھی پڑھی ہیں اور بڑے بڑے آستانوں پر جاکر تبلیغ کے کام کا قریب سے جائزہ بھی لیا ہے اور اس کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حضرت خواجہ صوفی محمد اسلم صاحب کی زندگی شریعت کے عین مطابق ہے ان کے قول و فعل میں تضاد نہیں وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں، ان کی خاموشی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے، آپ کی محنت نے وہ رنگ دکھایا کہ جو نوجوان کلبوں اور قبحہ خانوں کی زینت بنے ہوئے تھے وہ نوجوان آپ کی صحبت کی برکت سے پنجگانہ نماز کے پابند ہوئے۔

صحیح انسانوں والا روپ دھارا، انگریز کی دوستی اور اس کے لباس کو ترک کیا، اسلام کا لبادہ اوڑھا، ان کی عادات درست ہوئیں، ان کا لباس صحیح ہوا، ان کی نظروں میں پاکیزگی آئی، با شرع ہوئے، یہود و نصاریٰ کے تہذیب و تمدن کو ٹھکرایا، اپنے چہروں پر سنت رسولؐؐؐ کو سجایا، آپ کی محبت نے ہر چیز کی طلب کو مغلوب کردیا جو نوجوان دنیا کی ہنگامہ آرائی میں خوش رہتے تھے وہ ذکر وفکر کی یکسوئی میں دل چسپی لینے لگے۔ انہیں معرفت الٰہی عشق مصطفیؐ اور علم دین کی دولت عطا ہوئی اور شیخ کامل کی نگاہوں کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارادت مندوں کے قلبی کیفیات کو یکسر بدل دے، انہیں گم راہی کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لے آئے۔

آج کے اس دور میں جو گم راہی، بدکاری اور دین سے بیزاری نظر آرہی ہے، اس پر کسی رائے کی ضرورت نہیں، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دامے، درہمے قدمے سخنے ہر اچھا انسان دوسروں کو اچھائی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے۔ یہی ایک کوشش ہے جس سے ہم اپنی آئندہ نسلوں کو گم راہی کی تاریکیوں میں گم ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ یہی محنت خواجہ پیر محمد اسلم نے کی اور یہی محنت ہمارے اسلاف کا طریقہ ہے۔ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کے لئے جو کوششیں کیں ان میں اندرونِ و بیرون ملک اسلامی مراکز کا قیام بھی قابل ذکر اور قابل فخر کارنامہ بھی شامل ہے۔ دربار عالیہ شا دپور کالیاں والا جہلم میں آپ نے آستانۂ عالیہ نقشبندیہ نوابیہ مجدید قائم فرمایا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

آپ 12؍اپریل 1999 کو بلیک برن برطانیہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے، جسد خاکی 16اپریل کو جہلم لایا گیا. ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ آپ کا مزار آپ کی بنائی ہوئی مسجد جامع مسجد نقشبندیہ اسلمیہ کے قریب ہی مرجع خلائق ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو چار صاحب زادے عطا فرمائے جو چاروں کے چاروں برطانیہ میں قائم مراکز پر تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اﷲ ان کے کام کو قبول فرمائے اور برکت عطا فرمائے۔
Load Next Story