سینئر جونیئرکی لڑائی میں سب کو نقصان اُٹھانا پڑے گا
عیدالفطر،عیدالاضحیٰ اوردیگرتہواروں پراپنے ملک میں سینما گھروں میں وقت نہ ملنے پرشدیدمالی نقصان برداشت کررہے ہیں
KARACHI:
پاکستان میں بولی وڈ سٹارزکی فلمیں گزشتہ چند برس سے باقاعد گی کے ساتھ نمائش کیلئے پیش کی جارہی ہیں۔ جن کی وجہ سے ملک کے بڑے شہروں میں جدید طرزکے سینما گھرتعمیرہوئے اور وہاں لوگوںکی بڑی تعداد اپنی فیملیزکے ساتھ روزانہ معیاری فلمیں دیکھنے کیلئے آرہی ہے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اورفلم بینوں میں تیزی سے بدلتے رجحان کومدنظررکھتے ہوئے اب ہمارے ہاں بھی انٹرنیشنل معیارکی فلمیں بننے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مگرجیسے ہی یہ سلسلہ دن بدن تیزہورہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری پرماضی میں راج کرنے والوں اورنئے آنے والوں کے درمیان کانٹے دارجنگ کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ ایک طرف تونوجوان فلم میکرز ماضی میں فلمیں بنانے والوںکو فلم انڈسٹری کے شدید بحران کا ذمہ دارٹھہراتے ہیں ۔
دوسری جانب سینئرفلم میکر، ہدایتکار اورفنکاربھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی نوجوان فلم میکرز کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے کام کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ہرپلیٹ فارم پربات کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ وہ آپسی لڑائی ہے جوان دنوں بہت عروج پرہے۔ اس لڑائی نے لاہوراورکراچی کودودھڑوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ایک تاثر یہ ہے کہ کراچی میں بننے والی فلموں میں شامل فنکاروں، تکنیک کاروں اوردیگر کی فہرست دیکھی جائے تواس میں فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے وہی سینئرفنکاردکھائی دیتے ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے، لاہوریا دیگرشہروں سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کوان فلموں کا حصہ کم ہی بنایا جا رہا ہے۔
جس کی وجہ سے لاہور سے تعلق رکھنے والے فنکارعدم توجہ کاشکار ہو رہے ہیں۔ یہی نہیں گزشتہ چند برسوں کے دوران بننے والی فلموں میں زیادہ تران فنکاروں کو ہی سائن کیاگیا ہے جن کا تعلق ٹی وی ڈرامہ سے ہے۔ اس کے علاوہ فلم کی ڈائریکشن کیلئے ایک تجربہ کار ڈائریکٹرکی ضرورت ہوتی ہے لیکن تجربہ کار ہدایتکاروں کے بجائے ٹی وی ڈراموں یا ویڈیو اورٹی وی کمرشل بنانے والے ہدایتکاروں کومنتخب کیا گیا۔ اس کے برعکس اگرپاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دورکی بات کی جائے تو اس وقت لاہورمیں فلم انڈسٹری اپنے عروج پرتھی اوریہاں کراچی سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کوبھرپورانداز سے ویلکم کیا گیا بلکہ ایسے جاندارکرداروں میں سائن کیا گیا کہ پھرانہوں نے فلم انڈسٹری پرکامیاب اورلمبی اننگز کھیلیں۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
اب ہم بات کرتے ہیں موجودہ صورتحال کی ، جس کی وجہ سے لاہوراورکراچی کا نہیں بلکہ پاکستان فلم انڈسٹری کا نقصان ہورہا ہے۔ ان کی پسندناپسند اورآپسی اختلافات کی بدولت پاکستان میں پاکستانی فلمیں نہیں بلکہ امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانے والی بالی وڈسٹارز کی فلموںکو زیادہ رسپانس ملنے لگا۔ فلم میکرزکے آپسی اختلاف کا فائدہ سینما مالکان، امپورٹرزاورڈسٹری بیوٹریشن سے وابستہ مفاد پرستوںکا ٹولہ اٹھا رہا ہے۔
ہمارے لوگ عیدالفطر، عیدالاضحیٰ اوردیگرتہواروں پراپنے ہی ملک میں سینما گھروں میں وقت نہ ملنے پرشدیدمالی نقصان برداشت کررہے ہیں جبکہ مفاد پرست گروپ چند دنوں میں کروڑوں روپے کماکراپنی تجوریاں بھررہے ہیں۔ ہم پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دورپرایک نظرڈالیں اوراس کا تذکرہ کیاجائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی کہانی تھی یا گہری نیند میں آنے والا سپنا تھا۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی فلمسازی کا معیار ایک دورمیں کچھ خاص نہیں تھا لیکن انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا اوراس سلسلہ میں حکومت نے بھی ان کی بھرپورسپورٹ کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بالی وڈ دنیا کی مقبول ترین فلم انڈسٹری بن چکی ہے۔
اس کامیابی کے پیچھے اگردیکھا جائے تو صرف جدید ٹیکنالوجی نے ہی اہم کردارادا نہیں کیا بلکہ ان کی یکجہتی نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ وہاں پرنئے آنے والے اپنے سینئرز کی خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے میڈیا میں جگہ نہیں بناتے بلکہ وہاں پرتوایک دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے ایک مثبت پیغام لوگوںتک پہنچایا جاتا ہے کہ ہم ایک ہیں اورہم سب مل کراپنے وطن کی ترقی کیلئے کام کررہے ہیں۔ اسی لئے توماضی کے سپرسٹارآج کے نوجوان فلم میکرز کے ساتھ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، مگرہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ ہم اپنے سینئرکی خامیوںکوتوسب کے سامنے لاتے ہیں یا فلم میکنگ کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا رونا روتے ہیں اورحکومت کوبھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن متحدہوکرچلنے کے فارمولے کوکبھی نہیں اپنا تے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا ماضی بہت شاندار تھا۔ پاکستان میں بننے والی سالانہ فلموںکی تعداد 100سے زائد ہوا کرتی تھی، نگارخانے فلمی ستاروںکی شوٹنگزکی وجہ سے جگمگاتے رہتے تھے، سینما گھروں میں فلموں کی کبھی سلور توکبھی گولڈن جوبلی ہوا کرتی تھی، فلم بینوں کی لمبی قطاریں سینماہال کے باہر لگی ہوتی تھیں۔
کوئی بلیک میں ٹکٹ خریدتا تھا توکوئی سفارش کرواکر ٹکٹ حاصل کرتا تھا ، ایک طرف سینما گھروں میں ہالی وڈ کی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں تودوسری جانب پاکستان کی اردو اورپنجابی زبان میں بننے والی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی، بزنس میں دونوں فلموںکو زبردست رسپانس ملتا تھا، اکثروبیشتر ایسا ہوتا کہ کم بجٹ سے بننے والی پاکستانی فلمیں ہالی وڈ کی کثیر سرمائے سے بننے والی فلموں کے مقابلے میں زیادہ بزنس کرتی تھیں، فلموں میں مرکزی کردار نبھانے والے پاکستانی فلمی ستارے جب کبھی اپنی فلم کا شودیکھنے سینما گھر پہنچ جاتے توسینماہال میں موجود مرد، خواتین، بچے اوربزرگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے گیٹ پرجمع ہوجایا کرتے تھے۔
کوئی تصویر بنواتا تھا توکوئی آٹوگراف لے کرخوابوں کی دنیا میں کھو جایا کرتا تھا، ٹریفک کا نظام درھم برھم ہوجاتا تھا، باری، ایورنیواورشاہ نورسٹوڈیو کے باہربھی فلمی ستاروں کے چاہنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، فلم کی شوٹنگ دیکھنے کے خواہشمند ہر روزدوردراز علاقوں سے آتے اور سٹوڈیوز کے باہر رش لگا رہتا تھا، سٹوڈیو کے باہر ہجوم کی وجہ سے اردگرد واقع کھانے پینے کے ہوٹل اوردیگر کاروباری مراکز24گھنٹے مصروف رہتے تھے، اگرکوئی خوش قسمتی سے سٹوڈیو کے اندرداخل ہوجاتا تو پھروہ اپنے دوستوںاورقریبی عزیز واقارب کو اس چار دیواری کی چکاچوند اورفلمی ستاروں کے ٹھاٹ باٹھ کے قصے سناتا رہتا تھا ، کوئی بابرہ شریف کے ہیئرسٹائل کو اپناتا توکوئی ندیم کے ڈریسز کادیوانہ بن جاتا تھا، سنتوش کمار، محمد علی، وحید مراد، ندیم، شاہد، صبیحہ خانم، شمیم آراء، شبنم اورانجمن سمیت دیگرکے ڈریسز، ہیئرسٹائلز اورجوتوں کولوگ کاپی کیا کرتے تھے۔
یہ عظیم فنکارجوکپڑے اورجوتے پہنتے وہ فیشن بن جاتا ، گلی، محلوںمیں لوگ فلمی ڈائیلاگ بولتے سنائی دیتے تھے یا پھر معروف فنکاروںکی پیروڈی توہردوسرے گھر ٔمیں ہوتی تھی، فلمی ستارے جس تقریب میں شرکت کرتے اس کو چارچاند لگ جایا کرتے تھے۔ لیکن اب سنہرے دورکی باگ دوڑجب نوجوان فنکاروں اورفلم میکرزکے ہاتھوں میں آئی ہے تواسے بہتربنانے کی بجائے ایک دوسرے کی خامیوں پربات ہونے لگی ۔ وقت اورحالات کی ضرورت یہ ہے کہ سب لوگ مل کرکام کریں اورپاکستان فلم انڈسٹری کی بہتری اورترقی کیلئے اپنا کرداراداکریں۔ جس دن یہ لوگ اس بات کوسمجھ جائیں گے اس دن پاکستان فلم انڈسٹری کانیا جنم ہوگا ،و گرنہ جس طرح ماضی میں شدیدبحران نے فلم انڈسٹری کواندھیروں میں دھکیلا تھا اسی طرح موجودہ دورکی روشنی بھی اندھیروں میں تبدیل ہوجائے گی۔
پاکستان میں بولی وڈ سٹارزکی فلمیں گزشتہ چند برس سے باقاعد گی کے ساتھ نمائش کیلئے پیش کی جارہی ہیں۔ جن کی وجہ سے ملک کے بڑے شہروں میں جدید طرزکے سینما گھرتعمیرہوئے اور وہاں لوگوںکی بڑی تعداد اپنی فیملیزکے ساتھ روزانہ معیاری فلمیں دیکھنے کیلئے آرہی ہے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اورفلم بینوں میں تیزی سے بدلتے رجحان کومدنظررکھتے ہوئے اب ہمارے ہاں بھی انٹرنیشنل معیارکی فلمیں بننے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مگرجیسے ہی یہ سلسلہ دن بدن تیزہورہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ فلم انڈسٹری پرماضی میں راج کرنے والوں اورنئے آنے والوں کے درمیان کانٹے دارجنگ کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ ایک طرف تونوجوان فلم میکرز ماضی میں فلمیں بنانے والوںکو فلم انڈسٹری کے شدید بحران کا ذمہ دارٹھہراتے ہیں ۔
دوسری جانب سینئرفلم میکر، ہدایتکار اورفنکاربھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ وہ بھی نوجوان فلم میکرز کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے کام کوتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ہرپلیٹ فارم پربات کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ وہ آپسی لڑائی ہے جوان دنوں بہت عروج پرہے۔ اس لڑائی نے لاہوراورکراچی کودودھڑوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ایک تاثر یہ ہے کہ کراچی میں بننے والی فلموں میں شامل فنکاروں، تکنیک کاروں اوردیگر کی فہرست دیکھی جائے تواس میں فلم انڈسٹری میں کام کرنے والے وہی سینئرفنکاردکھائی دیتے ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے، لاہوریا دیگرشہروں سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کوان فلموں کا حصہ کم ہی بنایا جا رہا ہے۔
جس کی وجہ سے لاہور سے تعلق رکھنے والے فنکارعدم توجہ کاشکار ہو رہے ہیں۔ یہی نہیں گزشتہ چند برسوں کے دوران بننے والی فلموں میں زیادہ تران فنکاروں کو ہی سائن کیاگیا ہے جن کا تعلق ٹی وی ڈرامہ سے ہے۔ اس کے علاوہ فلم کی ڈائریکشن کیلئے ایک تجربہ کار ڈائریکٹرکی ضرورت ہوتی ہے لیکن تجربہ کار ہدایتکاروں کے بجائے ٹی وی ڈراموں یا ویڈیو اورٹی وی کمرشل بنانے والے ہدایتکاروں کومنتخب کیا گیا۔ اس کے برعکس اگرپاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دورکی بات کی جائے تو اس وقت لاہورمیں فلم انڈسٹری اپنے عروج پرتھی اوریہاں کراچی سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کوبھرپورانداز سے ویلکم کیا گیا بلکہ ایسے جاندارکرداروں میں سائن کیا گیا کہ پھرانہوں نے فلم انڈسٹری پرکامیاب اورلمبی اننگز کھیلیں۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
اب ہم بات کرتے ہیں موجودہ صورتحال کی ، جس کی وجہ سے لاہوراورکراچی کا نہیں بلکہ پاکستان فلم انڈسٹری کا نقصان ہورہا ہے۔ ان کی پسندناپسند اورآپسی اختلافات کی بدولت پاکستان میں پاکستانی فلمیں نہیں بلکہ امپورٹ قوانین کے تحت لائی جانے والی بالی وڈسٹارز کی فلموںکو زیادہ رسپانس ملنے لگا۔ فلم میکرزکے آپسی اختلاف کا فائدہ سینما مالکان، امپورٹرزاورڈسٹری بیوٹریشن سے وابستہ مفاد پرستوںکا ٹولہ اٹھا رہا ہے۔
ہمارے لوگ عیدالفطر، عیدالاضحیٰ اوردیگرتہواروں پراپنے ہی ملک میں سینما گھروں میں وقت نہ ملنے پرشدیدمالی نقصان برداشت کررہے ہیں جبکہ مفاد پرست گروپ چند دنوں میں کروڑوں روپے کماکراپنی تجوریاں بھررہے ہیں۔ ہم پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دورپرایک نظرڈالیں اوراس کا تذکرہ کیاجائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی کہانی تھی یا گہری نیند میں آنے والا سپنا تھا۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی فلمسازی کا معیار ایک دورمیں کچھ خاص نہیں تھا لیکن انہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا اوراس سلسلہ میں حکومت نے بھی ان کی بھرپورسپورٹ کی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بالی وڈ دنیا کی مقبول ترین فلم انڈسٹری بن چکی ہے۔
اس کامیابی کے پیچھے اگردیکھا جائے تو صرف جدید ٹیکنالوجی نے ہی اہم کردارادا نہیں کیا بلکہ ان کی یکجہتی نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ وہاں پرنئے آنے والے اپنے سینئرز کی خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے میڈیا میں جگہ نہیں بناتے بلکہ وہاں پرتوایک دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے ایک مثبت پیغام لوگوںتک پہنچایا جاتا ہے کہ ہم ایک ہیں اورہم سب مل کراپنے وطن کی ترقی کیلئے کام کررہے ہیں۔ اسی لئے توماضی کے سپرسٹارآج کے نوجوان فلم میکرز کے ساتھ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، مگرہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ ہم اپنے سینئرکی خامیوںکوتوسب کے سامنے لاتے ہیں یا فلم میکنگ کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا رونا روتے ہیں اورحکومت کوبھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن متحدہوکرچلنے کے فارمولے کوکبھی نہیں اپنا تے۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا ماضی بہت شاندار تھا۔ پاکستان میں بننے والی سالانہ فلموںکی تعداد 100سے زائد ہوا کرتی تھی، نگارخانے فلمی ستاروںکی شوٹنگزکی وجہ سے جگمگاتے رہتے تھے، سینما گھروں میں فلموں کی کبھی سلور توکبھی گولڈن جوبلی ہوا کرتی تھی، فلم بینوں کی لمبی قطاریں سینماہال کے باہر لگی ہوتی تھیں۔
کوئی بلیک میں ٹکٹ خریدتا تھا توکوئی سفارش کرواکر ٹکٹ حاصل کرتا تھا ، ایک طرف سینما گھروں میں ہالی وڈ کی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں تودوسری جانب پاکستان کی اردو اورپنجابی زبان میں بننے والی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی، بزنس میں دونوں فلموںکو زبردست رسپانس ملتا تھا، اکثروبیشتر ایسا ہوتا کہ کم بجٹ سے بننے والی پاکستانی فلمیں ہالی وڈ کی کثیر سرمائے سے بننے والی فلموں کے مقابلے میں زیادہ بزنس کرتی تھیں، فلموں میں مرکزی کردار نبھانے والے پاکستانی فلمی ستارے جب کبھی اپنی فلم کا شودیکھنے سینما گھر پہنچ جاتے توسینماہال میں موجود مرد، خواتین، بچے اوربزرگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے گیٹ پرجمع ہوجایا کرتے تھے۔
کوئی تصویر بنواتا تھا توکوئی آٹوگراف لے کرخوابوں کی دنیا میں کھو جایا کرتا تھا، ٹریفک کا نظام درھم برھم ہوجاتا تھا، باری، ایورنیواورشاہ نورسٹوڈیو کے باہربھی فلمی ستاروں کے چاہنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، فلم کی شوٹنگ دیکھنے کے خواہشمند ہر روزدوردراز علاقوں سے آتے اور سٹوڈیوز کے باہر رش لگا رہتا تھا، سٹوڈیو کے باہر ہجوم کی وجہ سے اردگرد واقع کھانے پینے کے ہوٹل اوردیگر کاروباری مراکز24گھنٹے مصروف رہتے تھے، اگرکوئی خوش قسمتی سے سٹوڈیو کے اندرداخل ہوجاتا تو پھروہ اپنے دوستوںاورقریبی عزیز واقارب کو اس چار دیواری کی چکاچوند اورفلمی ستاروں کے ٹھاٹ باٹھ کے قصے سناتا رہتا تھا ، کوئی بابرہ شریف کے ہیئرسٹائل کو اپناتا توکوئی ندیم کے ڈریسز کادیوانہ بن جاتا تھا، سنتوش کمار، محمد علی، وحید مراد، ندیم، شاہد، صبیحہ خانم، شمیم آراء، شبنم اورانجمن سمیت دیگرکے ڈریسز، ہیئرسٹائلز اورجوتوں کولوگ کاپی کیا کرتے تھے۔
یہ عظیم فنکارجوکپڑے اورجوتے پہنتے وہ فیشن بن جاتا ، گلی، محلوںمیں لوگ فلمی ڈائیلاگ بولتے سنائی دیتے تھے یا پھر معروف فنکاروںکی پیروڈی توہردوسرے گھر ٔمیں ہوتی تھی، فلمی ستارے جس تقریب میں شرکت کرتے اس کو چارچاند لگ جایا کرتے تھے۔ لیکن اب سنہرے دورکی باگ دوڑجب نوجوان فنکاروں اورفلم میکرزکے ہاتھوں میں آئی ہے تواسے بہتربنانے کی بجائے ایک دوسرے کی خامیوں پربات ہونے لگی ۔ وقت اورحالات کی ضرورت یہ ہے کہ سب لوگ مل کرکام کریں اورپاکستان فلم انڈسٹری کی بہتری اورترقی کیلئے اپنا کرداراداکریں۔ جس دن یہ لوگ اس بات کوسمجھ جائیں گے اس دن پاکستان فلم انڈسٹری کانیا جنم ہوگا ،و گرنہ جس طرح ماضی میں شدیدبحران نے فلم انڈسٹری کواندھیروں میں دھکیلا تھا اسی طرح موجودہ دورکی روشنی بھی اندھیروں میں تبدیل ہوجائے گی۔