انڈونیشیا میں سزائے موت پانے والے پاکستانی شہری کی رہائی کیلئے اقدامات شروع کردیئے دفترخارجہ
انڈونیشیا میں پاکستانی سفیر نے معاملے کو اٹھایا اور وہ انڈونیشین حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، ترجمان
انڈونیشیا میں منشیات رکھنے کے الزام میں سزائے موت کے منتظر پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی رہائی کے لئے دفترخارجہ نے سفارتی کوششیں تیز کردیں۔
ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا میں تعینات پاکستانی سفیر نے ذوالفقارعلی کی سزائے موت کے معاملے کو اٹھایا تھا جس کے بعد اس کیس کے حوالے سے مسلسل پاکستانی سفیر انڈونیشین حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں جب کہ اسلام آباد میں موجود انڈونیشین سفیر کو وزارت خارجہ نے طلب کیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ موت کے منتظر پاکستانی شہری کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے خدشات اپنی حکومت کو پہنچائیں اور مقدمے کا شفاف ٹرائل یقینی بنائیں۔
دوسری جانب ذوالفقار علی کے خاندان کو ان کی پھانسی سے متعلق آگاہ کیا جاچکا ہے اور ان کی بوڑھی والدہ کل رات 9 بجے کی فلائٹ سے انڈونیشیا کے لئے روانہ ہوں گی۔
لاہورکا رہائشی ذوالفقارعلی 15 سال قبل روزگار کے لئے انڈونیشیا گیا تھا جہاں اس کی دوستی بھارتی شہری گردیپ سنگھ کے ساتھ ہوئی جس نے اسے ہیرون اسمگلنگ کے مقدمے میں پھنسا دیا اور الزام لگایا کہ میرے ساتھ ہیروئن اسمگلنگ میں ذوالفقار بھی ملوث ہے جب کہ 52 سالہ ذوالفقار کو نومبر 2004 میں 300 گرام ہیرون کی اسمگلنگ کے کیس میں جکارتہ سے گرفتارکیا گیا۔
انسانی حقوق کیلئے سرگرم قانونی فرم دی جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق ذوالفقار علی مقامی زبان نہیں بول سکتا اور مقدمے کی پیروی کے دوران اسے مترجم کی محدود معاونت فراہم کی گئی یہی نہیں ذوالفقار علی نے پروسیکیوٹر کو بتایا کہ اس کے خلاف جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ جھوٹی ہے اور اسے تشدد کرکے حاصل کیا گیا ہے۔ ذوالفقارعلی نے عدالت کو بھی بتایا کہ پولیس نے اس پر تشدد کیا ہے اور اس کی تصاویر بھی عدالت کے پاس موجود ہیں جب پاکستانی شہری نے اپنے خلاف پیش ہونے والی رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس کی سزائے موت کو ختم کرکے 10 سے 15 برس قید میں تبدیل کرنے کیلئے اس سے 40 کروڑ انڈونیشین روپے مانگے گئے جسے ذوالفقار نے دینے سے انکارکیا اور اپنی بے گناہی پراصرار کرتا رہا۔
ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات کرتے ہوئے ترجمان دفترخارجہ نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا میں تعینات پاکستانی سفیر نے ذوالفقارعلی کی سزائے موت کے معاملے کو اٹھایا تھا جس کے بعد اس کیس کے حوالے سے مسلسل پاکستانی سفیر انڈونیشین حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں جب کہ اسلام آباد میں موجود انڈونیشین سفیر کو وزارت خارجہ نے طلب کیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ موت کے منتظر پاکستانی شہری کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے خدشات اپنی حکومت کو پہنچائیں اور مقدمے کا شفاف ٹرائل یقینی بنائیں۔
دوسری جانب ذوالفقار علی کے خاندان کو ان کی پھانسی سے متعلق آگاہ کیا جاچکا ہے اور ان کی بوڑھی والدہ کل رات 9 بجے کی فلائٹ سے انڈونیشیا کے لئے روانہ ہوں گی۔
لاہورکا رہائشی ذوالفقارعلی 15 سال قبل روزگار کے لئے انڈونیشیا گیا تھا جہاں اس کی دوستی بھارتی شہری گردیپ سنگھ کے ساتھ ہوئی جس نے اسے ہیرون اسمگلنگ کے مقدمے میں پھنسا دیا اور الزام لگایا کہ میرے ساتھ ہیروئن اسمگلنگ میں ذوالفقار بھی ملوث ہے جب کہ 52 سالہ ذوالفقار کو نومبر 2004 میں 300 گرام ہیرون کی اسمگلنگ کے کیس میں جکارتہ سے گرفتارکیا گیا۔
انسانی حقوق کیلئے سرگرم قانونی فرم دی جسٹس پروجیکٹ پاکستان کے مطابق ذوالفقار علی مقامی زبان نہیں بول سکتا اور مقدمے کی پیروی کے دوران اسے مترجم کی محدود معاونت فراہم کی گئی یہی نہیں ذوالفقار علی نے پروسیکیوٹر کو بتایا کہ اس کے خلاف جو رپورٹ پیش کی گئی ہے وہ جھوٹی ہے اور اسے تشدد کرکے حاصل کیا گیا ہے۔ ذوالفقارعلی نے عدالت کو بھی بتایا کہ پولیس نے اس پر تشدد کیا ہے اور اس کی تصاویر بھی عدالت کے پاس موجود ہیں جب پاکستانی شہری نے اپنے خلاف پیش ہونے والی رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس کی سزائے موت کو ختم کرکے 10 سے 15 برس قید میں تبدیل کرنے کیلئے اس سے 40 کروڑ انڈونیشین روپے مانگے گئے جسے ذوالفقار نے دینے سے انکارکیا اور اپنی بے گناہی پراصرار کرتا رہا۔