ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان اور عوام کی امیدیں
آج کل میں امریکا میں موجود ہوں ، یہاں کا میڈیا ہر وقت ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتا نظر آرہا ہے
KARACHI:
آج کل میں امریکا میں موجود ہوں ، یہاں کا میڈیا ہر وقت ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتا نظر آرہا ہے، کچھ دن پہلے پاکستان میں تھا تو وہاں کا میڈیا عمران خان کے پیچھے پڑا ہوا تھا یعنی پاکستانی چینل دیکھو تو جناب عمران خان اور اگر امریکی چینل دیکھو تو جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی ''یاترا'' ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے پوری دنیا میں صرف دو ہی شخصیات ہیں جنھیں عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں اور اپنے نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے زبان زدعام ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا میں وہ لوگ سپورٹ کر رہے ہیں جو صرف ہائی اسکول والے ہیں ، یعنی وہ لوگ جو کم پڑھے لکھے ہیں اور سیاسی سمجھ بوجھ سے نابلد ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں عمران خان ہیں جنھیں نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا کو مزہ آتا ہے ان کے کسی بیان کو طول دینے کا۔ ویسے بیٹھے بٹھائے ایک دم سے میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ آیا یہ دیکھا جائے کہ دنیا کی تاریخ میں کتنے کرکٹرز ہیں جو سیاستدان بنے اور وزیر اعظم یا سب سے اعلیٰ سیاسی عہدے پر فائز ہوئے۔
یقین مانیے ایشیائی کرکٹرز ہی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں پیش پیش رہے۔ سری لنکا کی اگر مثال دی جائے تو وہاں رانا ٹنگا اور جے سوریا، انڈیا میں اظہر الدین ، سچن ٹنڈولکر، چتن چوہان، نجوت سنگھ سدھو، کرتی آزاد وغیرہ جب کہ دیگر ممالک میں بھی چند ایک کرکٹرز نے عمران خان کی طرح سیاست میں قدم تو ضرور رکھا مگر وہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ مجھے ایک بھی کھلاڑی ایسا نہ ملا جسے عوام نے کسی بڑی سیٹ پر بٹھایا ہو، ہاں چھوٹی موٹی وزارت دے کر انھیں ٹرخایا جاتا رہا۔ اگر عمران خان وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو انھیں دیگر فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ایک اور ریکارڈ ان کے نام ہو جائے گا، اور وہ ہے پہلے کرکٹر وزیر اعظم ...
عمران خان نے ایک بار پھر سڑکوں پر ہل چلانے میرا مطلب کہ لوگوں کو دوڑانے کا بندوبست کر لیا ہے۔ انھوں نے 7 اگست سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ نواز شریف کا احتساب ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔ یہ تحریک ایک شرط پر رکے گی جو ٹی او آر اپوزیشن نے دیے ہیں ان کے مطابق سپریم کورٹ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیں۔چند روزقبل متحدہ اپوزیشن نے پانامہ لیکس کو لے کر وزیراعظم نوازشریف کے احتساب کے لیے سڑکوں پر نہ آنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس اتفاق رائے کا اعلان اپوزیشن رہنماؤں کی موجودگی میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کیا تھا۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے معاملات پارلیمان میں لے جانے کے فیصلے کا اعلان بھی اسی پریس کانفرنس میں کیا گیا تھا مگر عمران خان نے گزشتہ روز متحدہ اپوزیشن کے فیصلوں کے برعکس وزیراعظم کے احتساب کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور دھرنے کی دھمکی دیدی۔
میں توخود عمران خان کا سخت حامی ہوں مگر عمران خان کی سیاست کو دیکھ کر ہی سیاسی سیانے کہتے ہیں کہ سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو جمہوریت کی ریل پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔مجھے ان پرائز بانڈ کی پیداوار امیر ترین سیاستدانوں سے ذرا ہٹ کر آپ کا کردار بہتر لگا تھا اور مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے آپ سے بہت سی امیدیں لگائی تھیں مگر آپ تو آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ کیا آپ ڈیموکریٹ ہیں، سوشل ڈیموکریٹ ہیں، بورژوا ڈیموکریسی پر یقین رکھتے ہیں کہ عوامی ڈیموکریسی پر، اسلامی بنیاد پرست ہیں یا کہ اسلامسٹ، ماڈریٹ اسلامسٹ ہیں کہ انتہاپسند، سوشلسٹ ہیں یا کہ کمیونسٹ۔ آپ برطانیہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ اِن سیاسی اصطلاحات کے معانی کیا ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کبھی جواب ملا ہو۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کا سیاسی فلسفہ کیا ہے جس کو آپ دل وجان سے مانتے ہیں تو مجھے جواب دینے میں چند سیکنڈ ہی درکار ہیں۔کہتے ہیں سیانا وہی ہوتا ہے جو کم گو ہو اور جب وہ بولے تو اس کی بات میں وزن ہو... لیکن آپ کی تقریریں اب بے وزن ہوتی جارہی ہیں، لوگ یہ سب کچھ سن سن کر تنگ آتے جا رہے ہیں آپ کے جیالوں میں جذبات کی شدت کم ہوتی جا رہی ہے، روزانہ کی پریس کانفرنسیں ہی آپ کو سیاسی شکست دے سکتی ہیں، آپ کو شاید اپنی خوش نصیبی کا اندازہ نہیں ، اسی لیے تو آپ نے اپنے اردگرد اُن لوگوں کا راج قائم کردیا ہے جو عوام کے لیے نہیں،راج کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
اگر آپ اس ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو آپ کو دنیا کے اُن لوگوں کو پڑھنا ہوگا جنہوں نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنی قوموں کی تقدیر بدل دی۔ راقم کے مطالعے کے مطابق صرف اُن سیاسی لیڈروں نے اپنی قوموں کی قسمت بدلی جنہوں نے دعوے نہیں کیے، جنہوں نے غصہ نہیں کیا، جنہوں نے صبر اور تدبر کا حسین امتزاج اپنایا، جن میں سرفہرست ہیں نیلسن منڈیلا۔ اگر تقریریں قوموں کی قسمت بدل سکتیں توقائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مقابلے میں جتنے بھی سیاست دان اور رہنما تھے، بڑے مقرر اور خطیب تھے، جن کو سننے کے لیے لوگ رات بھر پیروں پر کھڑے رہتے تھے۔
ان خطیبوں کے پاس الفاظ، بیان اور آواز کے صوتی آہنگ ایسے تھے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن کامیابی اُس کو ملی جس نے تدبر سے کام لیا، قائداعظم محمد علی جناحؒ... جس طرح آپ کے جلسوں میں لوگوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اسی طرح لوگ تو ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی بہت زیادہ سننے کو آتے ہیں لیکن سنجیدہ طبقہ آپ کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے کہ آپ جس عوام کو سڑکوں پر بلا رہے ہیں وہ کیوں کر آپ کے لیے اپنے وقت کا ضیاع کرے یا کیوں کر وہ آپ کے لیے اپنی جان قربان کرے ۔
عمران خان صاحب ہم آج بھی اور پہلے بھی آپ کی سپورٹ محض اس لیے کرتے رہے ہیں کہ ایک تو آپ ایماندار ہیں اور دوسرا آپ کو کبھی آزمایا نہیں گیا ، کیوں کہ ہم دونوں پارٹیوں کے سیاستدانوں کو آزما بھی چکے ہیں اور ان سے دھوکا بھی کھا چکے ہیں ، لیکن آپ کی حرکات و سکنات اور فیصلوں سے ایسے لگ رہا ہے جیسے آپ ریموٹ کنٹرول سیاستدان بن کر رہ گئے ہیں۔ آخر عوام آپ سے یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ آپ فیصلے کن کی مشاورت سے کر رہے ہیں کیوں کہ آپ کی کور کمیٹی یا سینئر ممبران کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ آپ نے کون سا فیصلہ کب مسلط کر دیا ہے۔
لہٰذآپ جمہوریت پسند بنیں نہ کہ جمہوریت کش بن جائیں۔ سب کو ساتھ لے کر چلیں کیوں کہ عوام کو آپ سے آج بھی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ آپ کے سڑکوں پر آنے کے فیصلے سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا،اور نہ ہی عوام اس حوالے سے کان دھر رہے ہیں ۔ عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے آپ میں سیاسی سمجھ بوجھ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے!اور سیاسی سمجھ بوجھ سے ہی عوام کی امیدوں پر پورا اتریں۔
آج کل میں امریکا میں موجود ہوں ، یہاں کا میڈیا ہر وقت ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتا نظر آرہا ہے، کچھ دن پہلے پاکستان میں تھا تو وہاں کا میڈیا عمران خان کے پیچھے پڑا ہوا تھا یعنی پاکستانی چینل دیکھو تو جناب عمران خان اور اگر امریکی چینل دیکھو تو جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی ''یاترا'' ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے پوری دنیا میں صرف دو ہی شخصیات ہیں جنھیں عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں اور اپنے نفرت انگیز بیانات کی وجہ سے زبان زدعام ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا میں وہ لوگ سپورٹ کر رہے ہیں جو صرف ہائی اسکول والے ہیں ، یعنی وہ لوگ جو کم پڑھے لکھے ہیں اور سیاسی سمجھ بوجھ سے نابلد ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں عمران خان ہیں جنھیں نہ چاہتے ہوئے بھی میڈیا کو مزہ آتا ہے ان کے کسی بیان کو طول دینے کا۔ ویسے بیٹھے بٹھائے ایک دم سے میرے ذہن میں ایک بات آئی کہ آیا یہ دیکھا جائے کہ دنیا کی تاریخ میں کتنے کرکٹرز ہیں جو سیاستدان بنے اور وزیر اعظم یا سب سے اعلیٰ سیاسی عہدے پر فائز ہوئے۔
یقین مانیے ایشیائی کرکٹرز ہی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں پیش پیش رہے۔ سری لنکا کی اگر مثال دی جائے تو وہاں رانا ٹنگا اور جے سوریا، انڈیا میں اظہر الدین ، سچن ٹنڈولکر، چتن چوہان، نجوت سنگھ سدھو، کرتی آزاد وغیرہ جب کہ دیگر ممالک میں بھی چند ایک کرکٹرز نے عمران خان کی طرح سیاست میں قدم تو ضرور رکھا مگر وہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکے ۔ مجھے ایک بھی کھلاڑی ایسا نہ ملا جسے عوام نے کسی بڑی سیٹ پر بٹھایا ہو، ہاں چھوٹی موٹی وزارت دے کر انھیں ٹرخایا جاتا رہا۔ اگر عمران خان وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو انھیں دیگر فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ایک اور ریکارڈ ان کے نام ہو جائے گا، اور وہ ہے پہلے کرکٹر وزیر اعظم ...
عمران خان نے ایک بار پھر سڑکوں پر ہل چلانے میرا مطلب کہ لوگوں کو دوڑانے کا بندوبست کر لیا ہے۔ انھوں نے 7 اگست سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ نواز شریف کا احتساب ہونے تک تحریک جاری رہے گی۔ یہ تحریک ایک شرط پر رکے گی جو ٹی او آر اپوزیشن نے دیے ہیں ان کے مطابق سپریم کورٹ کی سربراہی میں ایک کمیشن بنا دیں۔چند روزقبل متحدہ اپوزیشن نے پانامہ لیکس کو لے کر وزیراعظم نوازشریف کے احتساب کے لیے سڑکوں پر نہ آنے پر اتفاق کیا تھا۔
اس اتفاق رائے کا اعلان اپوزیشن رہنماؤں کی موجودگی میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کیا تھا۔ پانامہ لیکس کے حوالے سے معاملات پارلیمان میں لے جانے کے فیصلے کا اعلان بھی اسی پریس کانفرنس میں کیا گیا تھا مگر عمران خان نے گزشتہ روز متحدہ اپوزیشن کے فیصلوں کے برعکس وزیراعظم کے احتساب کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کردیا اور دھرنے کی دھمکی دیدی۔
میں توخود عمران خان کا سخت حامی ہوں مگر عمران خان کی سیاست کو دیکھ کر ہی سیاسی سیانے کہتے ہیں کہ سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو جمہوریت کی ریل پٹڑی سے اتر سکتی ہے۔مجھے ان پرائز بانڈ کی پیداوار امیر ترین سیاستدانوں سے ذرا ہٹ کر آپ کا کردار بہتر لگا تھا اور مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں نے آپ سے بہت سی امیدیں لگائی تھیں مگر آپ تو آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ کیا آپ ڈیموکریٹ ہیں، سوشل ڈیموکریٹ ہیں، بورژوا ڈیموکریسی پر یقین رکھتے ہیں کہ عوامی ڈیموکریسی پر، اسلامی بنیاد پرست ہیں یا کہ اسلامسٹ، ماڈریٹ اسلامسٹ ہیں کہ انتہاپسند، سوشلسٹ ہیں یا کہ کمیونسٹ۔ آپ برطانیہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔
آپ جانتے ہیں کہ اِن سیاسی اصطلاحات کے معانی کیا ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ کبھی جواب ملا ہو۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کا سیاسی فلسفہ کیا ہے جس کو آپ دل وجان سے مانتے ہیں تو مجھے جواب دینے میں چند سیکنڈ ہی درکار ہیں۔کہتے ہیں سیانا وہی ہوتا ہے جو کم گو ہو اور جب وہ بولے تو اس کی بات میں وزن ہو... لیکن آپ کی تقریریں اب بے وزن ہوتی جارہی ہیں، لوگ یہ سب کچھ سن سن کر تنگ آتے جا رہے ہیں آپ کے جیالوں میں جذبات کی شدت کم ہوتی جا رہی ہے، روزانہ کی پریس کانفرنسیں ہی آپ کو سیاسی شکست دے سکتی ہیں، آپ کو شاید اپنی خوش نصیبی کا اندازہ نہیں ، اسی لیے تو آپ نے اپنے اردگرد اُن لوگوں کا راج قائم کردیا ہے جو عوام کے لیے نہیں،راج کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
اگر آپ اس ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں تو آپ کو دنیا کے اُن لوگوں کو پڑھنا ہوگا جنہوں نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنی قوموں کی تقدیر بدل دی۔ راقم کے مطالعے کے مطابق صرف اُن سیاسی لیڈروں نے اپنی قوموں کی قسمت بدلی جنہوں نے دعوے نہیں کیے، جنہوں نے غصہ نہیں کیا، جنہوں نے صبر اور تدبر کا حسین امتزاج اپنایا، جن میں سرفہرست ہیں نیلسن منڈیلا۔ اگر تقریریں قوموں کی قسمت بدل سکتیں توقائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مقابلے میں جتنے بھی سیاست دان اور رہنما تھے، بڑے مقرر اور خطیب تھے، جن کو سننے کے لیے لوگ رات بھر پیروں پر کھڑے رہتے تھے۔
ان خطیبوں کے پاس الفاظ، بیان اور آواز کے صوتی آہنگ ایسے تھے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن کامیابی اُس کو ملی جس نے تدبر سے کام لیا، قائداعظم محمد علی جناحؒ... جس طرح آپ کے جلسوں میں لوگوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اسی طرح لوگ تو ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی بہت زیادہ سننے کو آتے ہیں لیکن سنجیدہ طبقہ آپ کی ہر حرکت کا جائزہ لے رہا ہوتا ہے کہ آپ جس عوام کو سڑکوں پر بلا رہے ہیں وہ کیوں کر آپ کے لیے اپنے وقت کا ضیاع کرے یا کیوں کر وہ آپ کے لیے اپنی جان قربان کرے ۔
عمران خان صاحب ہم آج بھی اور پہلے بھی آپ کی سپورٹ محض اس لیے کرتے رہے ہیں کہ ایک تو آپ ایماندار ہیں اور دوسرا آپ کو کبھی آزمایا نہیں گیا ، کیوں کہ ہم دونوں پارٹیوں کے سیاستدانوں کو آزما بھی چکے ہیں اور ان سے دھوکا بھی کھا چکے ہیں ، لیکن آپ کی حرکات و سکنات اور فیصلوں سے ایسے لگ رہا ہے جیسے آپ ریموٹ کنٹرول سیاستدان بن کر رہ گئے ہیں۔ آخر عوام آپ سے یہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ آپ فیصلے کن کی مشاورت سے کر رہے ہیں کیوں کہ آپ کی کور کمیٹی یا سینئر ممبران کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ آپ نے کون سا فیصلہ کب مسلط کر دیا ہے۔
لہٰذآپ جمہوریت پسند بنیں نہ کہ جمہوریت کش بن جائیں۔ سب کو ساتھ لے کر چلیں کیوں کہ عوام کو آپ سے آج بھی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ آپ کے سڑکوں پر آنے کے فیصلے سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا،اور نہ ہی عوام اس حوالے سے کان دھر رہے ہیں ۔ عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے آپ میں سیاسی سمجھ بوجھ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے!اور سیاسی سمجھ بوجھ سے ہی عوام کی امیدوں پر پورا اتریں۔