جدوجہد کا ایک تابناک باب بند ہوگیا
مظلوم طبقات کی جدوجہد کا ایک کارکن دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مہذب بے لوث سیاست کا ایک باب ختم ہوا۔
مظلوم طبقات کی جدوجہد کا ایک کارکن دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مہذب بے لوث سیاست کا ایک باب ختم ہوا۔ معراج محمد خان نے 60ء کی دہائی میں ایک طالب علم کارکن کی حیثیت سے زندگی کا آغاز کیا، پھر تعلیم کو سستا کرنے، نئے تعلیمی اداروں کے قیام، بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور سوشلسٹ جمہوریت کے قیام کے لیے زندگی بھر جدو جہد کی اور کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ زندگی کے 13 سال جیلوں میں گزارے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی قائم کی، مگر اپنی پارٹی کے دور میں ہی پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور کئی سال کراچی حیدرآباد کی جیلوں میں مقید رہے۔
معراج محمد خان 20 اکتوبر 1938 کو ناگپور میں پیدا ہوئے۔ وہ چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ معراج محمد خان کے والد مولوی تاج الدین حکیم تھے۔ ان کے خاندان کا تعلق آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ ذخہ خیل کے ذیلی قبیلے سے تھا۔ ان کے آباؤ اجداد قبائلی علاقے سے ہجرت کرکے فرخ آباد میں آباد ہوئے تھے۔ معراج خان کے والد مولوی تاج الدین نے خلافت تحریک میں حصہ لیا تھا۔
یہ خاندان قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ میں آباد ہوا۔ انھوں نے کوئٹہ کے سرکاری اسکول سے میٹرک کیا اور پھر اپنے بھائی منہاج برنا کے پاس کراچی چلے آئے۔ معراج محمد خان نے ایس ایم کالج کراچی سے بی اے کیا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کرنا چاہتے تھے مگر کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی ہدایت پر انھیں داخلہ نہیں دیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے شعبہ تاریخ عام کے سربراہ ڈاکٹر محمود حسین نے مشورہ دیا کہ شعبہ تاریخ عام میں داخلے کے لیے درخواست جمع کرائیں مگر انھیں شعبہ تاریخ عام میں بھی داخلہ نہیں ملا۔ معراج محمد خان نے پھر اسلامیہ لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
معراج محمد خان نے دائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہ وقت تھا جب بائیں بازو کی طلبا تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور پاکستان امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں منسلک ہوچکا تھا۔ اس کے علاوہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کردیا تھا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن، طلبا، مزدور، کسان، دانشور، شاعر اور صحافیوں کو قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا تھا۔ 13 نومبر 1959 کو کمیونسٹ رہنما حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کردیا گیا۔
معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے دائیںبازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) میں شمولیت اختیار کی اور پھر این ایس ایف بائیں بازو کی طلبا تنظیم میں تبدیل ہوگئی اور کمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہوگئی۔ 1961 میں کانگو کے قوم پرست رہنما اور وزیراعظم پیٹرس لوممبا کو قتل کردیا گیا۔ معراج کی قیادت میں این ایس ایف نے لوممبا کے قتل کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ اسی دوران بھارت کے شہر جبل پور میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فسادات ہوئے۔ معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے لوممبا کے قتل کے خلاف احتجاجی تحریک کو جبل پور فسادات کے خلاف تحریک میں تبدیل کردیا۔
پولیس نے طاقت کے ذریعے اس تحریک کو کچلا۔ این ایس ایف اور منتخب طلبا یونینوں کے عہدیداروں کی تنظیم انٹر کالج باڈی (ICB) کے عہدیداروں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں کو 6،6 ماہ کی سزا دی گئی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1963 میں تین سالہ ڈگری کورس نافذ کیا۔ این ایس ایف نے تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف تحریک شروع کردی۔ حکومت نے این ایس ایف کے 12 رہنماؤں معراج محمد خان، انور احسن صدیقی، واحد بشیر، فتحیاب علی خان، شیر افضل ملک، عبدالودود، سید سعید حسن، جوہر حسین، آغا جعفر، اقبال میمن، نواز بٹ اور حسین نقی کو کراچی بدر کردیا۔ ان رہنماؤں کو مختلف شہروں میں جانا پڑا، جہاں سے انھیں نکال دیا جاتا تھا۔ مگر حکومت کو این ایس ایف کے مطالبات ماننے پڑے اور تین سالہ ڈگری B.A کورس کے نفاذ کا فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔
عالمی کمیونسٹ تحریک تقسیم ہوئی تو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں تقسیم ہوگئی۔ این ایس ایف کے پرو چائنا گروپ کی قیادت معراج محمد خان اور پرو سوویت یونین گروپ کی قیادت امیر حیدر کاظمی نے کی۔ این ایس ایف معراج گروپ نے معاہدہ تاشقند کے خلاف تحریک چلائی۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی پرو چائنا کے سربراہ پی آئی اے کے مزدور رہنما طفیل عباس تھے۔ اس کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کے مطابق 1964 میں صدارتی انتخاب میں این ایس ایف نے معراج محمد خان کی قیادت میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ پھر انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ معراج محمد خان کو ستمبر 1965 میں اس وقت رہا کیا گیا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہوچکی تھی۔ حکومت نے معراج محمد خان سے اپیل کی کہ وہ ریڈیو پاکستان سے قومی یکجہتی کے لیے تقریر کریں۔ انھوں نے ریڈیو پر ایک پراثر تقریر کی۔
معراج محمد خان کی قیادت میں این ایس ایف نے معاہدہ تاشقند کی مخالفت کی۔ جب 1966 میں ذوالفقار علی بھٹو وزارت سے مستعفی ہوکر کراچی آئے تو این ایس ایف نے کراچی کینٹ اسٹیشن پر بھٹوکا شاندار استقبال کیا۔ 1967 میں این ایس ایف نے بھٹو کے اعزاز میں کراچی کے کاسمو یونین کلب میں استقبالیہ دیا۔ اس استقبالیہ میں بھٹو نے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کے ارادے کا اعلان کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کے تحت معراج محمد خان نے 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی قائم کی۔ معراج محمد خان نے 1968 میں ایوب خان کے خلاف تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایوب حکومت نے انھیں گرفتار کیا۔ بھٹو صاحب نے ایک وقت معراج محمد خان کو اپنا جانشین قرار دیا۔
معراج محمد خان کو جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں مارشل لاء کے خلاف تقاریر کرنے پر فوجی عدالت نے قید اور جرمانے کی سزا دی۔ انھوں نے ایک سال سے زائد عرصہ مختلف جیلوں میں گزارا۔ پیپلز پارٹی نے 1970 کے انتخابات میں معراج محمد خان کو لیاقت آباد سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کی بناء پر معراج محمد خان نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ معراج کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کے وقت راولپنڈی جیل میں تھے اور اس فیصلے سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور صحافیوں کے رہنما منہاج برنا نے راولپنڈی جیل میں پارٹی فیصلے سے انھیں آگاہ کیا تھا اور پارٹی کے فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے انھوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ معراج محمد خان کی اس وقت انتخاب میں کامیابی یقینی تھی۔ 20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو صدر بھٹو نے معراج محمد خان کو Public Affairsکا مشیر مقرر کیا اور وزیر کا درجہ دیا گیا۔ بعد میں جب 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد بھٹو نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو معراج محمد خان وزیر مملکت برائے Public Affairs بنادیے گئے مگر سائٹ اور لانڈھی میں مزدوروں پر فائرنگ کے بعد معراج محمد خان اور بھٹو میں اختلافات شدید ہوگئے۔ یکم مئی 1974 کو مزار قائد کے سامنے پولیس نے اساتذہ کے جلوس پر لاٹھی چارج کیا۔
معراج محمد خان نے خواتین اساتذہ کو بچانے کی کوشش کی اور پولیس کی لاٹھیوں سے ان کا سر پھٹ گیا۔ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے سندھ اسمبلی گئے تو پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا۔ بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں ولی خان، میر غوث بخش بزنجو اور عطاء اﷲ مینگل وغیرہ کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کیے اور خصوصی ٹریبونل قائم کیا۔ اس ٹریبونل نے حیدرآباد میں مقدمے کی سماعت کی۔ ان مقدمات میں معراج محمد خان کو بھی ملوث کیا گیا۔ یہ مقدمہ حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ 1978 میں جیل سے رہا ہوئے۔
معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے قومی محاذ آزادی کے نام سے بائیں بازو کی ایک جماعت قائم کی۔ 1981 میں ان کی قیادت میں قومی محاذ آزادی نے تحریک بحالی جمہوریت (MRD) بنانے میں حصہ لیا۔ معراج محمد خان کو اسی رات میاں محمود علی قصوری کی لاہور کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے 14 ماہ پنجاب کی جیلوں میں گزارے۔ ایم آر ڈی نے 14 اگست 1983 سے تحریک بحالی جمہوریت شروع کی۔
معراج محمد خان ریگل چوک سے پیپلز پارٹی کے رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ 90ء کی دہائی میں معراج بائیں بازو کی جماعت کے اتحاد کی کوششوں میں شریک رہے اور عوامی جمہوری پارٹی کے نام سے پارٹی قائم کی، مگر یہ تجربہ ناکام رہا۔ انھوں نے 1998 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے مگر 2003 میں وہ تحریک انصاف سے علیحدہ ہوگئے۔
معراج محمد کا تعلق اس نسل سے تھا جو سخت نظریات کے باوجود رواداری، برداشت اور انسانی رشتوں کو ترجیح دیتی تھی۔ انھوں نے ایمانداری سے مزدور طبقہ کی سیاست کی، ان سے بعض غلطیاں بھی ہوئیں جن کا وہ اقرار کرتے تھے مگر مرتے دم تک ان کے عزم میں فرق نہ آیا۔ معراج کے انتقال سے جدوجہد کا ایک تابناک باب بند ہوگیا۔
معراج محمد خان 20 اکتوبر 1938 کو ناگپور میں پیدا ہوئے۔ وہ چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ معراج محمد خان کے والد مولوی تاج الدین حکیم تھے۔ ان کے خاندان کا تعلق آفریدی قبیلے کی ذیلی شاخ ذخہ خیل کے ذیلی قبیلے سے تھا۔ ان کے آباؤ اجداد قبائلی علاقے سے ہجرت کرکے فرخ آباد میں آباد ہوئے تھے۔ معراج خان کے والد مولوی تاج الدین نے خلافت تحریک میں حصہ لیا تھا۔
یہ خاندان قیام پاکستان کے بعد کوئٹہ میں آباد ہوا۔ انھوں نے کوئٹہ کے سرکاری اسکول سے میٹرک کیا اور پھر اپنے بھائی منہاج برنا کے پاس کراچی چلے آئے۔ معراج محمد خان نے ایس ایم کالج کراچی سے بی اے کیا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کرنا چاہتے تھے مگر کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی ہدایت پر انھیں داخلہ نہیں دیا گیا۔ کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے شعبہ تاریخ عام کے سربراہ ڈاکٹر محمود حسین نے مشورہ دیا کہ شعبہ تاریخ عام میں داخلے کے لیے درخواست جمع کرائیں مگر انھیں شعبہ تاریخ عام میں بھی داخلہ نہیں ملا۔ معراج محمد خان نے پھر اسلامیہ لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
معراج محمد خان نے دائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہ وقت تھا جب بائیں بازو کی طلبا تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور پاکستان امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں منسلک ہوچکا تھا۔ اس کے علاوہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کردیا تھا اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن، طلبا، مزدور، کسان، دانشور، شاعر اور صحافیوں کو قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا تھا۔ 13 نومبر 1959 کو کمیونسٹ رہنما حسن ناصر کو لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کردیا گیا۔
معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے دائیںبازو کی تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) میں شمولیت اختیار کی اور پھر این ایس ایف بائیں بازو کی طلبا تنظیم میں تبدیل ہوگئی اور کمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہوگئی۔ 1961 میں کانگو کے قوم پرست رہنما اور وزیراعظم پیٹرس لوممبا کو قتل کردیا گیا۔ معراج کی قیادت میں این ایس ایف نے لوممبا کے قتل کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ اسی دوران بھارت کے شہر جبل پور میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فسادات ہوئے۔ معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے لوممبا کے قتل کے خلاف احتجاجی تحریک کو جبل پور فسادات کے خلاف تحریک میں تبدیل کردیا۔
پولیس نے طاقت کے ذریعے اس تحریک کو کچلا۔ این ایس ایف اور منتخب طلبا یونینوں کے عہدیداروں کی تنظیم انٹر کالج باڈی (ICB) کے عہدیداروں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں کو 6،6 ماہ کی سزا دی گئی۔ جنرل ایوب خان کی حکومت نے 1963 میں تین سالہ ڈگری کورس نافذ کیا۔ این ایس ایف نے تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف تحریک شروع کردی۔ حکومت نے این ایس ایف کے 12 رہنماؤں معراج محمد خان، انور احسن صدیقی، واحد بشیر، فتحیاب علی خان، شیر افضل ملک، عبدالودود، سید سعید حسن، جوہر حسین، آغا جعفر، اقبال میمن، نواز بٹ اور حسین نقی کو کراچی بدر کردیا۔ ان رہنماؤں کو مختلف شہروں میں جانا پڑا، جہاں سے انھیں نکال دیا جاتا تھا۔ مگر حکومت کو این ایس ایف کے مطالبات ماننے پڑے اور تین سالہ ڈگری B.A کورس کے نفاذ کا فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔
عالمی کمیونسٹ تحریک تقسیم ہوئی تو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں تقسیم ہوگئی۔ این ایس ایف کے پرو چائنا گروپ کی قیادت معراج محمد خان اور پرو سوویت یونین گروپ کی قیادت امیر حیدر کاظمی نے کی۔ این ایس ایف معراج گروپ نے معاہدہ تاشقند کے خلاف تحریک چلائی۔ اس وقت کمیونسٹ پارٹی پرو چائنا کے سربراہ پی آئی اے کے مزدور رہنما طفیل عباس تھے۔ اس کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کے مطابق 1964 میں صدارتی انتخاب میں این ایس ایف نے معراج محمد خان کی قیادت میں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ پھر انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ معراج محمد خان کو ستمبر 1965 میں اس وقت رہا کیا گیا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہوچکی تھی۔ حکومت نے معراج محمد خان سے اپیل کی کہ وہ ریڈیو پاکستان سے قومی یکجہتی کے لیے تقریر کریں۔ انھوں نے ریڈیو پر ایک پراثر تقریر کی۔
معراج محمد خان کی قیادت میں این ایس ایف نے معاہدہ تاشقند کی مخالفت کی۔ جب 1966 میں ذوالفقار علی بھٹو وزارت سے مستعفی ہوکر کراچی آئے تو این ایس ایف نے کراچی کینٹ اسٹیشن پر بھٹوکا شاندار استقبال کیا۔ 1967 میں این ایس ایف نے بھٹو کے اعزاز میں کراچی کے کاسمو یونین کلب میں استقبالیہ دیا۔ اس استقبالیہ میں بھٹو نے بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کے ارادے کا اعلان کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کے تحت معراج محمد خان نے 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی قائم کی۔ معراج محمد خان نے 1968 میں ایوب خان کے خلاف تحریک کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایوب حکومت نے انھیں گرفتار کیا۔ بھٹو صاحب نے ایک وقت معراج محمد خان کو اپنا جانشین قرار دیا۔
معراج محمد خان کو جنرل یحییٰ خان کے دورِ اقتدار میں مارشل لاء کے خلاف تقاریر کرنے پر فوجی عدالت نے قید اور جرمانے کی سزا دی۔ انھوں نے ایک سال سے زائد عرصہ مختلف جیلوں میں گزارا۔ پیپلز پارٹی نے 1970 کے انتخابات میں معراج محمد خان کو لیاقت آباد سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کے فیصلے کی بناء پر معراج محمد خان نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ معراج کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کے وقت راولپنڈی جیل میں تھے اور اس فیصلے سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے رکن اور صحافیوں کے رہنما منہاج برنا نے راولپنڈی جیل میں پارٹی فیصلے سے انھیں آگاہ کیا تھا اور پارٹی کے فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے انھوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ معراج محمد خان کی اس وقت انتخاب میں کامیابی یقینی تھی۔ 20 دسمبر 1971 کو پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو صدر بھٹو نے معراج محمد خان کو Public Affairsکا مشیر مقرر کیا اور وزیر کا درجہ دیا گیا۔ بعد میں جب 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد بھٹو نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو معراج محمد خان وزیر مملکت برائے Public Affairs بنادیے گئے مگر سائٹ اور لانڈھی میں مزدوروں پر فائرنگ کے بعد معراج محمد خان اور بھٹو میں اختلافات شدید ہوگئے۔ یکم مئی 1974 کو مزار قائد کے سامنے پولیس نے اساتذہ کے جلوس پر لاٹھی چارج کیا۔
معراج محمد خان نے خواتین اساتذہ کو بچانے کی کوشش کی اور پولیس کی لاٹھیوں سے ان کا سر پھٹ گیا۔ وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے سندھ اسمبلی گئے تو پولیس نے انھیں گرفتار کرلیا۔ بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں ولی خان، میر غوث بخش بزنجو اور عطاء اﷲ مینگل وغیرہ کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کیے اور خصوصی ٹریبونل قائم کیا۔ اس ٹریبونل نے حیدرآباد میں مقدمے کی سماعت کی۔ ان مقدمات میں معراج محمد خان کو بھی ملوث کیا گیا۔ یہ مقدمہ حیدرآباد سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ وہ 1978 میں جیل سے رہا ہوئے۔
معراج محمد خان اور ان کے ساتھیوں نے قومی محاذ آزادی کے نام سے بائیں بازو کی ایک جماعت قائم کی۔ 1981 میں ان کی قیادت میں قومی محاذ آزادی نے تحریک بحالی جمہوریت (MRD) بنانے میں حصہ لیا۔ معراج محمد خان کو اسی رات میاں محمود علی قصوری کی لاہور کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے 14 ماہ پنجاب کی جیلوں میں گزارے۔ ایم آر ڈی نے 14 اگست 1983 سے تحریک بحالی جمہوریت شروع کی۔
معراج محمد خان ریگل چوک سے پیپلز پارٹی کے رہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ گرفتار ہوئے۔ 90ء کی دہائی میں معراج بائیں بازو کی جماعت کے اتحاد کی کوششوں میں شریک رہے اور عوامی جمہوری پارٹی کے نام سے پارٹی قائم کی، مگر یہ تجربہ ناکام رہا۔ انھوں نے 1998 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے مگر 2003 میں وہ تحریک انصاف سے علیحدہ ہوگئے۔
معراج محمد کا تعلق اس نسل سے تھا جو سخت نظریات کے باوجود رواداری، برداشت اور انسانی رشتوں کو ترجیح دیتی تھی۔ انھوں نے ایمانداری سے مزدور طبقہ کی سیاست کی، ان سے بعض غلطیاں بھی ہوئیں جن کا وہ اقرار کرتے تھے مگر مرتے دم تک ان کے عزم میں فرق نہ آیا۔ معراج کے انتقال سے جدوجہد کا ایک تابناک باب بند ہوگیا۔