ابتدائی دو ٹیسٹ میچوں پر ایک طائرانہ نظر
اُمید کرتے ہیں کہ قومی ٹیم تیسرے ٹیسٹ میں لارڈز ٹیسٹ والے ولولے سے میدان میں اتر کر ایک بار پھر فتح کے جھنڈے گاڑھے گی۔
لارڈز کا پہلا ٹیسٹ
پاکستان کیلئے دورہ انگلستان میں پہلا ٹیسٹ ہی جیت لینا ایک بہت بڑی اور ناممکن کو ممکن دکھا دینے والی کامیابی تھی۔ جس کا سہرا سلیکٹرز کے بعد پوری ٹیم کو جاتا ہے جنہوں نے مل کر انگلستان کو چت کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ لیکن پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ شاباشی کے حقدار کپتان مصباح الحق بھی ہیں جنہوں اپنی زیادہ عمر کو نہ اپنے اُوپر حاوی ہونے دیا اور نہ ہی اپنی ٹیم پر کسی قسم کا ایسا دباو ڈالا جس کی وجہ سے وہ گھبرائے ہوئے نظر آتے۔
کامیابی کا سہراساری ٹیم پر
کپتان مصباح الحق نے انگلستان میں اپنے پہلے ٹیسٹ میچ کی پہلی ہی اننگ میں سنچری بنانے کے بعد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اُس ہی وقت گراونڈ میں دس پش اَپس لگا کر اُن کی عمر پر تنقید کرنے والوں کو بتادیا کہ وہ اب بھی کس قدر فٹ ہیں۔ پھر لیگ سپنر یاسر شاہ کی کارکردگی بھی مثالی تھی جنہوں نے میچ میں 10 وکٹیں لیکر پاکستان کو فتح کی راہ پر گامزن کیا۔ اُن کا کمال یہ بھی ہے کہ 10 وکٹیں لیکر وہ پاکستان کے دوسرے گیند باز بن گئے ہیں جنہوں نے لارڈز کے میدان میں یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ یہ کارنامہ 1996 میں مشتاق احمد نے سرانجام دیا تھا۔ یہی وہ شاندار کارکردگی تھی کہ جس کی بنیاد پر وہ اچانک ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ چوتھی پوزیشن سے پہلی پوزیشن پر براجمان ہوگئے تھے۔ بات صرف ان دو کھلاڑیوں کی نہیں ہے، بلکہ قومی ٹیم میں لارڈز ٹیسٹ کے دوران ایک بھرپور جوڑ نظر آیا اور ہر کھلاڑی نے انتہائی ذمہ داری سے پورے میچ میں اپنا حصہ ڈالا جسکی وجہ سے یہ قیمتی فتح نصیب ہوئی۔
دوسری طرف انگلستان کی ٹیم کے اگر بلے باز ناکام نظر آئے تو اُن کے گیند بازوں کی کارگردگی قابل ِتعریف رہی۔ خصوصی طور پر کرس ووکس کی جس نے میچ میں 11 کھلاڑی کا شکار کیا۔ کرس براڈ اگرچہ بہت زیادہ وکٹیں نہ لے سکے لیکن اپنی شاندار گیند بازی سے وہ پاکستانی بلے بازوں پر اپنا دباو مسلسل رکھنے میں کامیاب رہے، پھر اِسی میچ میں انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی 350 وکٹیں بھی مکمل کرلیں۔
اِس میچ کی سب سے خاص بات پاکستانی ٹیم کی جانب سے فتح کا جشن تھا جو تمام ہی لوگوں کے لیے بالکل نیا انداز تھا۔ پوری ٹیم نے پش اپس لگا کر اپنے ٹرینرز اور پاک فوج و پاکستان ملٹری اکیڈمی کے ماہرین کو خصوصی خراجِ تحسین پیش کیا۔ اِن پش اپس کا واحد مقصد تو خراج تحسین پیش کرنا تھا ہی لیکن یہ انداز دنیا میں اِس قدر مضبوط ہوا کہ ہر جگہ اِس کے چرچے ہوئے۔
اولڈ ٹریفرڈ ٹیسٹ
پہلے میچ میں پاکستانی فتح کے بعد یہی خیال کیا جارہا تھا کہ اب انگلستان کی ٹیم لوہے کے چنوں سے کم ثابت نہیں ہوگی، اور اولڈ ٹریفرڈ میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میں خیال کے مطابق انگلستان کے کھلاڑیوں نے کھیل پیش کیا۔ پہلے دن سے چوتھے دن تک ایک بار بھی ایسا نہیں لگا کہ پاکستان کی میچ پر گرفت مضبوط ہوئی ہے۔ اِس شاندار فتح کی وجہ اُن کی ہر شعبے میں اعلیٰ کارکردگی تھی۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ انگلینڈ کے کپتان اور کھلاڑیوں نے فتح کی خوشی تو منائی لیکن سخت مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی خاص جوش نہیں دِکھایا۔
پاکستان ٹیم کی ناکامی کی وجہ ساری ٹیم کی کارکردگی
مانچسٹر میں اولڈ ٹریفرڈ فُٹ بال اسٹیڈیم اور دوسرا اولڈ ٹریفرڈ کرکٹ گراونڈ بہت مشہور ہے اور دونوں جگہ بالترتیب اپنے کلب ہوم آف مانچسٹر یونائیٹڈ ایف سی اور ہوم آف لنکا شائر کاونٹی کرکٹ کلب کی وجہ سے اہم سمجھی جاتی ہیں۔ انگلینڈ کے اہم فاسٹ بائولر جیمز اینڈریسن جو انجری کے سبب پہلا ٹیسٹ نہیں کھیل سکے تھے، ان کو صحتیاب ہونے کے بعد دوسرے ٹیسٹ میں شامل کیا گیا۔ یاد رہے کہ اولڈ ٹریفرڈ اُن کا ہوم گراونڈ بھی ہے، لہذا اُن کی شمولیت کا کہیں نہ کہیں نفساتی اثر پاکستان کی ٹیم پر ضرور تھا۔ ساتھ میں انگلستان کے گیند بازوں کی تربیت کے لیے ثقلین مشتاق کا سامنے آنا بھی کارکردگی میں فرق ثابت ہوا۔
بلے بازوں کے لیے سازگار وکٹ اور اولڈ ٹریفرڈ میں پہلے دِن کا مناسب گرم ترین موسم بلے بازوں کیلئے بہت سازگار سمجھا جارہا تھا اور اس وجہ سے دونوں کپتانوں کی یہ خواہش تھی کہ وہی ٹاس جیتیں اور قرعہ الیسٹر کک کے نام نکلا اور انہوں نے بغیر کوئی وقت ضائع کیے بلے بازی کا فیصلہ کرلیا۔
کپتان ایلسٹر کک یہی چاہتا تھے لہذا اُنہوں نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے بلے بازوں کے ساتھ مِل کر پاکستان کے خلاف 589 رنز بنا ڈالے، اب بھی سارے کھلاڑی آوٹ نہیں ہوئے تھے بلکہ 8 کھلاڑی آوٹ پر ٹیم ڈیکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اتنا بڑا اسکور دیکھ کر پاکستانی بلے باز نفسیاتی دبائو میں آگئے اور پھر دونوں اننگز میں ایک ایسی کوشش کرتے ہوئے نظر آئے جس میں ہم آہنگی کا فقدان واضح نظر آیا۔ جسکی مثال وقت ہونے کے باوجود بے ترتیب یا غیر ذمہ دارانہ شارٹس کھیل کر آوٹ ہونا تھا۔
پاکستان کی کرکٹ ٹیم ایسے لگ رہی تھی جیسے پہلے دِن سے ہی ذہنی طور پر تھکی ہوئی تھی اور گیند بازی، فیلڈنگ کے بعد بلے بازی میں بھی تھکان کے اثرات نے مقابلے کی دوڑ سے باہر کردیا تھا۔ اگر پہلی اننگز میں جمیز وینس کا سلپ میں یونس خان نے کیچ چھوڑا تھا تو دوسری اننگز میں ایلسٹر کک نے بھی سلپ میں یونس خان کا کیچ چھوڑ دیا تھا۔ لیکن فرق یہ تھا کہ یہ ٹیسٹ وہ جتنے آئے تھے لہذا اُنہوں نے ذہنی طور پر ایسا کوئی دباو محسوس نہ کیا اور تمام ہی شعبوں میں شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے بڑی فتح اپنے نام کی۔
ایک اور غور طلب معاملہ تھا یاسر شاہ کی ناکامی بھی ہے۔ ایسے لگتا تھا کہ انگلستان کے کھلاڑیوں نے ٹیسٹ شروع ہونے سے پہلے یاسر شاہ کی گیند بازی پر بہت محنت کی ہے، یہ سب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یاسر شاہ نے دوسرے ٹیسٹ میں 266 رنز کے عوض صرف 1 وکٹ ہی لی۔ اِس خراب کارکردگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی سے پانچویں پوزیشن پر آگئے، اور ان کی جگہ بھارت کے روی چندرن ایشوون ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 7 وکٹیں لینے کے بعد پہلی پوزیشن پر آگئے ہیں۔
یقیناً اِس شکست کے بعد ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم قومی ٹیم پر ڈنڈے لیکر پیچھے پڑ جائیں اور تنقید کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیں، لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ شاہد آفریدی کے چند دِن پہلے دیے جانے والے بیان پر ہمیں تنقید کرنے کے بجائے غور کرنا چاہیئے کہ عالمی کرکٹ کی طلب کے مطابق ٹیلنٹ سامنے نہیں آرہا ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میں یہ واضح نظر آیا ہے کہ کسی نوجوان بلے باز نے بہترین اننگز کھیلنے کی کوشش تک نہیں کی یا اُس سے کھیلی ہی نہیں گئی۔ اظہر علی نے 4 اننگز میں 38، محمد حفیظ نے 100، شان مسعود نے 71، یونس خان نے 87 اور سرفراز احمد نے 103 رنز بنائے۔ اِس مرتبہ بھی کپتان مصباح الحق ہی کامیاب بلے باز رہے جنہوں نے 201 رنز اور ان کے بعد اسد شفیق 165 رنز بنانے کے بعد دوسرے نمبر پر رہے۔
ٹیسٹ سیریز 2016
چار ٹیسٹ میچوں پر مشتمل سیریز اب اب 1-1 سے برابر ہوگئی ہے۔ اُمید کرتے ہیں کہ قومی ٹیم اپنی خامیوں اور ماہرین کی مثبت تنقید کو مد ِنظر رکھتے ہوئے 3ِ اگست کو برمنگھم میں شروع ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میں ایک دفعہ پھر لارڈز ٹیسٹ والے ولولے کے ساتھ میدان میں اُتر ایک بار پھر فتح کے جھنڈے گاڑھے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصرمگرجامعتعارفکےساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔