کھلی توہین
بدقسمتی سے ترکی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے آمرانہ طرز پر حکومتی نظم و نسق چلتا رہا ہے
PESHAWAR:
ترک عوام نے مارشل لا کا راستہ روک کر ثابت کر دیا ہے کہ اگر عوام چاہیں تو کبھی کسی ملک میں جمہوریت پر شب خون نہیں مارا جا سکتا، لیکن ترکی میں صرف عوام ہی جمہوریت پسند نہیں ہیں بلکہ وہاں کے سیاستدانوں نے بھی جمہوریت سے اپنی وفاداری ثابت کر دی ہے۔ حالانکہ ترکی میں سیکولر سیاسی پارٹیاں طیب اردگان کے سخت خلاف ہیں، وہ ان کے اسلامی ایجنڈے کے خلاف آئے دن عوام کو احتجاج پر اکساتی رہتی ہیں، مگر جب 15 جولائی کو فوجی انقلاب کی خبریں نشر ہوئیں دائیں اور بائیں بازو کی تمام پارٹیاں اپنے اختلافات بھلا کر جمہوریت کی بقا کے لیے سینہ سپر ہوگئیں اور بالآخر انھوں نے اپنے آہنی عزم سے ملک کو ایک بار پھر مارشل لا کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا۔
بدقسمتی سے ترکی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے آمرانہ طرز پر حکومتی نظم و نسق چلتا رہا ہے، چونکہ اس وقت ملک کے اکثر فوجی جرنیل خلافت عثمانیہ سے بدظن ہو کر مغرب کی تقلید میں سیکولر نظریات کے حامل ہو چکے تھے، خود مصطفیٰ کمال اتاترک بھی سیکولر نظریات کے حامی تھے، چنانچہ چالیس سال تک ملک میں سیکولر فوجی طرز حکومت چلتا رہا۔ 1960ء میں عوام نے جمہوریت کے حق میں اپنا وزن ڈال کر ملک میں جمہوریت کی راہ ہموار کر دی تھی۔ جمہوری حکومت کے پہلے وزیراعظم عدنان مندریس تھے۔ حالانکہ یہ جمہوری حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال چکی تھی مگر فوج کو جمہوریت پسند نہ آئی اور اس نے بغاوت کر کے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔
واضح ہو کہ ترکی میں فوج کو جمہوری حکومت کے خلاف کسی وقت بھی مداخلت کرنے کا حق آئین میں دیا گیا ہے۔ آئین کی اسی شق کو بہانہ بناکر ترکی میں چار بار فوجی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں، لیکن ہر فوجی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس کے خاتمے کے بعد جمہوری حکومت قائم ہوتی رہی ہے۔ جب سے طیب اردگان نے اقتدار سنبھالا ہے، وہاں تسلسل سے جمہوریت قائم ہے، البتہ اردگان حکومت کو بائیں بازو کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کی فوج کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حکومت کا تختہ پلٹنے کا ہر وقت دھڑکا ضرور لگا رہتا ہے کیونکہ فوج اور سیکولر جماعتوں کو اردگان کی ملک میں اسلامی رجحان عام کرنے کی روش ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے، مگر تازہ تختہ پلٹ کی کوشش ایک مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن کی جماعت کی جانب سے بتائی جا رہی ہے، جس پر سب کو ہی حیرانی ہوئی ہے، کیونکہ فتح اللہ گولن طیب اردگان کی سیکولر نظریات کے خلاف قائم ہونے والی حکومت کے مکمل حمایتی تھے، دراصل وہ بھی ترکی میں اسلامی تشخص کو واپس رائج کرنے کے حامی ہیں۔یہ دونوں اسلامی افکار کے حامل لیڈر بعد میں حکومتی کرپشن کے مسئلے پر اختلافات کا شکار ہو گئے، جس سے ترکی میں اسلام کی احیا کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان دونوں بڑے رہنماؤں میں مکمل اسلامی احیا تک اتحاد قائم رہتا تاکہ طاغوتی طاقتوں کو پھر کبھی ترکی کو اس کے اسلامی تشخص سے بھٹکانے کا موقع نہ مل پاتا، مگر ایسا نہ ہو سکا اور ان دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ملک دونوں کے پیروکاروں کے درمیان دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اردگان کو ماننے والے اکثریت میں ہیں اور وہ ان پر جان چھڑکتے ہیں۔ گولن کے پیروکار بھی فوج سے لے کر عدلیہ اور تعلیمی اداروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ خبروں کے مطابق انھوں نے مل کر حالیہ بغاوت میں حصہ لیا ہے۔
تاہم یہ بات بڑی عجیب ہے کہ گولن نے اس بغاوت سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ بہرحال ابھی تک بغاوت کے اصل محرکات سامنے نہیں آ سکے، ابھی تحقیقات جاری ہے، ہو سکتا ہے اس بغاوت میں فوج کے سیکولر دھڑے نے بعض سیکولر حلقوں کے ساتھ مل کر بغاوت کی ہو۔ ترک عدلیہ پہلے سے اردگان کے خلاف ہے، تاہم اردگان کی جانب سے تعلیمی اداروں سے اساتذہ کا بڑے پیمانے پر تطہیر کا عمل سمجھ سے باہر ہے لیکن بغاوت میں حصہ لینے والوں پر اردگان کی جانب سے مقدمات چلانے اور پھانسی دینے کے بیانات سے مغربی ممالک میں ہلچل مچ گئی ہے، چنانچہ وہ اردگان پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں، تاہم اس سے بغاوت میں ان کا ہاتھ ہونے کے شبے کو بھی تقویت مل رہی ہے۔یہ وقت بڑا نازک ہے، اردگان کو جذبات کے بجائے حکمت عملی سے کام لینا ہو گا، ورنہ کہیں بنا بنایا کام نہ بگڑ جائے۔
اردگان کو اب اس تاثر کو بھی زائل کرنا ہوگا کہ وہ ترکی کے طاقتور ترین حکمران بننا چاہتے ہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ جس طرح پہلے سے ملک میں پارلیمانی نظام چلتا رہا ہے وہ اس کو جاری رکھیں، کیونکہ صدارتی طرز حکومت ترکی میں صرف آمروں کے اقتدار میں ہی نافذ رہا ہے، جس میں ایک شخص تمام سفید و سیاہ کا مالک بن جاتا ہے اور اس سے عام لوگوں کے مسائل کے حل ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں بھی چار مرتبہ فوجی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ ان حکومتوں کے قیام سے ملک کا بھلا ہونے کے بجائے خسارہ ہی ہوا ہے، حتیٰ کہ ملک بھی دولخت ہو گیا، لیکن ایک بات ضرور قابل توجہ ہے کہ ہمارے پاس کبھی فوج نے خود شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سیاستدانوں کی نااہلی اور ان کی دعوت پر ہی فوجی حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس وقت خوش قسمتی سے ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہے مگر چند کالی بھیڑیں جمہوریت کی بساط کو الٹنے کے لیے بے قرار دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے میں کپتان کی جانب سے یہ جمہوریت کش بیان سامنے آیا ہے کہ اگر پاکستان میں فوج آئی تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔
یہ پاکستانی عوام کی کھلی توہین ہے انھوں نے مگر ساتھ ہی اپنی آمریت پسندی پر بھی مہر ثبت کر دی ہے۔ ہماری غیور افواج بھی جمہوریت پر کامل یقین رکھتی ہیں اور وہ مفاد پرست چاپلوسوں سے مکمل باخبر ہیں۔ ملک کی نئی سیاسی جماعتوں نے اس جمہوریت کش بیان پر انھیں آڑے ہاتھوں لیا ہے اور انھیں ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی سخت ضرورت ہے کیونکہ ملک میں گیم چینجر سی پیک منصوبے پر زور و شور سے کام جاری ہے، ساتھ ہی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب اب آخری مراحل میں ہے۔
اسی وقت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بھارت لہولہان کر رہا ہے، ایسے میں کشمیری پاکستان کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں مگر یہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں ان کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔ ادھر عالمی حقوق انسانی کی تنظیمیں ترکی کے باغیوں کے حق میں تو زور و شور سے آواز بلند کر رہی ہیں مگر انھیں کشمیریوں پر بھارتی درندگی نظر نہیں آ رہی، جب کہ اب تک 55 سے زائد نہتے کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے، وہ بھارت کے اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کر کے اپنے متعصب ہونے کا واضح ثبوت پیش کر رہی ہیں ان متعصب نام نہاد حقوق انسانی کی تنظیموں کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے اور پاکستان میں موجود ان کے تمام دفاتر بند کرا دینا چاہیے بہرحال اس نازک وقت میں ملک میں قومی یکجہتی اور امن و امان کی سخت ضرورت ہے۔ امید ہے ہمارے نئے اور پرانے سیاستدان اپنی قومی ذمے داریوں کو کما حقہ پورا کریں گے۔
ترک عوام نے مارشل لا کا راستہ روک کر ثابت کر دیا ہے کہ اگر عوام چاہیں تو کبھی کسی ملک میں جمہوریت پر شب خون نہیں مارا جا سکتا، لیکن ترکی میں صرف عوام ہی جمہوریت پسند نہیں ہیں بلکہ وہاں کے سیاستدانوں نے بھی جمہوریت سے اپنی وفاداری ثابت کر دی ہے۔ حالانکہ ترکی میں سیکولر سیاسی پارٹیاں طیب اردگان کے سخت خلاف ہیں، وہ ان کے اسلامی ایجنڈے کے خلاف آئے دن عوام کو احتجاج پر اکساتی رہتی ہیں، مگر جب 15 جولائی کو فوجی انقلاب کی خبریں نشر ہوئیں دائیں اور بائیں بازو کی تمام پارٹیاں اپنے اختلافات بھلا کر جمہوریت کی بقا کے لیے سینہ سپر ہوگئیں اور بالآخر انھوں نے اپنے آہنی عزم سے ملک کو ایک بار پھر مارشل لا کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیا۔
بدقسمتی سے ترکی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے آمرانہ طرز پر حکومتی نظم و نسق چلتا رہا ہے، چونکہ اس وقت ملک کے اکثر فوجی جرنیل خلافت عثمانیہ سے بدظن ہو کر مغرب کی تقلید میں سیکولر نظریات کے حامل ہو چکے تھے، خود مصطفیٰ کمال اتاترک بھی سیکولر نظریات کے حامی تھے، چنانچہ چالیس سال تک ملک میں سیکولر فوجی طرز حکومت چلتا رہا۔ 1960ء میں عوام نے جمہوریت کے حق میں اپنا وزن ڈال کر ملک میں جمہوریت کی راہ ہموار کر دی تھی۔ جمہوری حکومت کے پہلے وزیراعظم عدنان مندریس تھے۔ حالانکہ یہ جمہوری حکومت ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال چکی تھی مگر فوج کو جمہوریت پسند نہ آئی اور اس نے بغاوت کر کے ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا۔
واضح ہو کہ ترکی میں فوج کو جمہوری حکومت کے خلاف کسی وقت بھی مداخلت کرنے کا حق آئین میں دیا گیا ہے۔ آئین کی اسی شق کو بہانہ بناکر ترکی میں چار بار فوجی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں، لیکن ہر فوجی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس کے خاتمے کے بعد جمہوری حکومت قائم ہوتی رہی ہے۔ جب سے طیب اردگان نے اقتدار سنبھالا ہے، وہاں تسلسل سے جمہوریت قائم ہے، البتہ اردگان حکومت کو بائیں بازو کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کی فوج کے ساتھ ساز باز کے ذریعے حکومت کا تختہ پلٹنے کا ہر وقت دھڑکا ضرور لگا رہتا ہے کیونکہ فوج اور سیکولر جماعتوں کو اردگان کی ملک میں اسلامی رجحان عام کرنے کی روش ایک آنکھ نہیں بھا رہی ہے، مگر تازہ تختہ پلٹ کی کوشش ایک مذہبی اسکالر فتح اللہ گولن کی جماعت کی جانب سے بتائی جا رہی ہے، جس پر سب کو ہی حیرانی ہوئی ہے، کیونکہ فتح اللہ گولن طیب اردگان کی سیکولر نظریات کے خلاف قائم ہونے والی حکومت کے مکمل حمایتی تھے، دراصل وہ بھی ترکی میں اسلامی تشخص کو واپس رائج کرنے کے حامی ہیں۔یہ دونوں اسلامی افکار کے حامل لیڈر بعد میں حکومتی کرپشن کے مسئلے پر اختلافات کا شکار ہو گئے، جس سے ترکی میں اسلام کی احیا کی کوششوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان دونوں بڑے رہنماؤں میں مکمل اسلامی احیا تک اتحاد قائم رہتا تاکہ طاغوتی طاقتوں کو پھر کبھی ترکی کو اس کے اسلامی تشخص سے بھٹکانے کا موقع نہ مل پاتا، مگر ایسا نہ ہو سکا اور ان دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ملک دونوں کے پیروکاروں کے درمیان دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اردگان کو ماننے والے اکثریت میں ہیں اور وہ ان پر جان چھڑکتے ہیں۔ گولن کے پیروکار بھی فوج سے لے کر عدلیہ اور تعلیمی اداروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ خبروں کے مطابق انھوں نے مل کر حالیہ بغاوت میں حصہ لیا ہے۔
تاہم یہ بات بڑی عجیب ہے کہ گولن نے اس بغاوت سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ بہرحال ابھی تک بغاوت کے اصل محرکات سامنے نہیں آ سکے، ابھی تحقیقات جاری ہے، ہو سکتا ہے اس بغاوت میں فوج کے سیکولر دھڑے نے بعض سیکولر حلقوں کے ساتھ مل کر بغاوت کی ہو۔ ترک عدلیہ پہلے سے اردگان کے خلاف ہے، تاہم اردگان کی جانب سے تعلیمی اداروں سے اساتذہ کا بڑے پیمانے پر تطہیر کا عمل سمجھ سے باہر ہے لیکن بغاوت میں حصہ لینے والوں پر اردگان کی جانب سے مقدمات چلانے اور پھانسی دینے کے بیانات سے مغربی ممالک میں ہلچل مچ گئی ہے، چنانچہ وہ اردگان پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں، تاہم اس سے بغاوت میں ان کا ہاتھ ہونے کے شبے کو بھی تقویت مل رہی ہے۔یہ وقت بڑا نازک ہے، اردگان کو جذبات کے بجائے حکمت عملی سے کام لینا ہو گا، ورنہ کہیں بنا بنایا کام نہ بگڑ جائے۔
اردگان کو اب اس تاثر کو بھی زائل کرنا ہوگا کہ وہ ترکی کے طاقتور ترین حکمران بننا چاہتے ہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ جس طرح پہلے سے ملک میں پارلیمانی نظام چلتا رہا ہے وہ اس کو جاری رکھیں، کیونکہ صدارتی طرز حکومت ترکی میں صرف آمروں کے اقتدار میں ہی نافذ رہا ہے، جس میں ایک شخص تمام سفید و سیاہ کا مالک بن جاتا ہے اور اس سے عام لوگوں کے مسائل کے حل ہونے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہاں بھی چار مرتبہ فوجی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ ان حکومتوں کے قیام سے ملک کا بھلا ہونے کے بجائے خسارہ ہی ہوا ہے، حتیٰ کہ ملک بھی دولخت ہو گیا، لیکن ایک بات ضرور قابل توجہ ہے کہ ہمارے پاس کبھی فوج نے خود شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سیاستدانوں کی نااہلی اور ان کی دعوت پر ہی فوجی حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس وقت خوش قسمتی سے ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہے مگر چند کالی بھیڑیں جمہوریت کی بساط کو الٹنے کے لیے بے قرار دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے میں کپتان کی جانب سے یہ جمہوریت کش بیان سامنے آیا ہے کہ اگر پاکستان میں فوج آئی تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔
یہ پاکستانی عوام کی کھلی توہین ہے انھوں نے مگر ساتھ ہی اپنی آمریت پسندی پر بھی مہر ثبت کر دی ہے۔ ہماری غیور افواج بھی جمہوریت پر کامل یقین رکھتی ہیں اور وہ مفاد پرست چاپلوسوں سے مکمل باخبر ہیں۔ ملک کی نئی سیاسی جماعتوں نے اس جمہوریت کش بیان پر انھیں آڑے ہاتھوں لیا ہے اور انھیں ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی سخت ضرورت ہے کیونکہ ملک میں گیم چینجر سی پیک منصوبے پر زور و شور سے کام جاری ہے، ساتھ ہی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب اب آخری مراحل میں ہے۔
اسی وقت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی تحریک آزادی کو بھارت لہولہان کر رہا ہے، ایسے میں کشمیری پاکستان کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں مگر یہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں ان کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔ ادھر عالمی حقوق انسانی کی تنظیمیں ترکی کے باغیوں کے حق میں تو زور و شور سے آواز بلند کر رہی ہیں مگر انھیں کشمیریوں پر بھارتی درندگی نظر نہیں آ رہی، جب کہ اب تک 55 سے زائد نہتے کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے، وہ بھارت کے اس انسانیت سوز ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کر کے اپنے متعصب ہونے کا واضح ثبوت پیش کر رہی ہیں ان متعصب نام نہاد حقوق انسانی کی تنظیموں کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے اور پاکستان میں موجود ان کے تمام دفاتر بند کرا دینا چاہیے بہرحال اس نازک وقت میں ملک میں قومی یکجہتی اور امن و امان کی سخت ضرورت ہے۔ امید ہے ہمارے نئے اور پرانے سیاستدان اپنی قومی ذمے داریوں کو کما حقہ پورا کریں گے۔