ایدھی صاحب کی یاد میں تعزیتی جلسہ

البتہ میں سوچ رہا ہوں کہ ہم ایک اچھی سیاست قیادت کے متلاشی ضرور ہیں

KARACHI:
قبل اس کے کہ ہم اس تعزیتی جلسے کا تذکرہ کریں مناسب ہو گا کہ صد قابل احترام محترم عبدالستار ایدھی صاحب کی شخصیت پر تھوڑی روشنی ڈالی جائے۔ کسی فلسفی کا قول ہے کہ کسی بھی کامیاب مرد کے پیچھے کسی خاتون کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں عبدالستار ایدھی نہایت خوش قسمت تھے کہ ان کی کامیابیوں کے پس پردہ ایک نہیں، دو دو خواتین کے ہاتھ تھے۔

یہاں ہم ان خاتون کا ذکر کریں گے جوکہ ان کی والدہ محترمہ تھیں، جو کہ تمام تر کسمپرسی کے باوجود کمسن عبدالستار ایدھی کی جیب میں دو پیسے ڈالتے ہوئے نصیحت کرتیں کہ بیٹا اسکول جاؤ، خوب دل لگا کر پڑھو اور خیال رہے کہ جو دو پیسے تمہاری جیب میں ہیں ان دو پیسوں میں سے ایک پیسے کی چیز خود کھا لینا اور ایک پیسہ اپنے ساتھ پڑھنے والے کسی ایسے بچے پر خرچ کرنا جس کے والدین اپنی کسمپرسی کے باعث اپنے بچے کو ایک پیسہ دینے سے بھی قاصر ہوں۔ سعادت مند و فرمانبردار عبدالستار ایدھی اپنی والدہ کی نصیحت پر پورا پورا عمل کرتے۔ ہمیں یہاں یہ ضرور معلوم ہو گیا کہ دوسرے لوگوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینا ایدھی کی خاندانی روایت تھی۔

یکم جنوری 1928ء کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر جوناگڑھ کے نواحی قصبے بانٹوا میں جنم لینے والے عبدالستار ایدھی قیام پاکستان کے وقت کراچی تشریف لے آئے، جب کہ قیام پاکستان کے وقت یعنی 14 اگست 1947ء کو ان کی عمر تھی 19 برس 7 ماہ و 14 یوم۔ کراچی آ کر عبدالستار ایدھی چھوٹی موٹی مزدوری کر کے اپنی گزر بسر کرنے لگے۔ شنید یہ ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے مقام پر کام کے دوران ایک محنت کش کو چوٹ لگ گئی، مسئلہ یہ تھا کہ اس محنت کش کو کسی اسپتال کیسے پہنچایا جائے، کیونکہ کام کرنے کے مقام پر کوئی گاڑی دستیاب نہ تھی۔ اس موقع پر حساس دل رکھنے والے عبدالستار ایدھی تڑپ اٹھے، کیونکہ اس مجروح محنت کش کو اس اذیت ناک کیفیت میں ان سے دیکھا نہ جا رہا تھا۔

چنانچہ دردمند عبدالستار ایدھی اس محنت کش کو سامان کے لیے استعمال ہونے والی 4 وہیل ٹرالی پر ڈال کر قریبی اسپتال کی جانب روانہ ہو گئے اور اسپتال جا کر اپنے سامنے اس محنت کش کو تمام تر ابتدائی طبعی امداد دلائی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ان کے دل میں قدرت نے یہ بات ڈال دی کہ حقیقی عبادت یہ ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کی جائے۔ چنانچہ اسی جذبے کے تحت انھوں نے محدود پیمانے پر ایک چھوٹی سی ڈسپنسری قائم کی۔ نیت صاف تھی، منزل آسان ہوتی چلی گئی۔ یہ ذکر ہے کوئی 60 برس قبل کا۔ پھر 1965ء میں ان کی شادی محترمہ بلقیس ایدھی سے انجام پائی۔

اپنی شادی کا تذکرہ کرتے ہوئے عبدالستار ایدھی نے بتایا کہ ایک اور ایک گیارہ کیسے ہوتے ہیں، یہ فلسفے کا ادراک مجھے اس وقت ہوا جب بلقیس ایدھی میری ازدواجی زندگی میں داخل ہوئیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ محترمہ بلقیس ایدھی سے شادی کے بعد ایدھی صاحب کا قائم کردہ ادارہ شب و روز ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا۔ آج یہ ادارہ دنیا بھر میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ بن چکا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ محترمہ بلقیس ایدھی ان کی والدہ محترمہ کے بعد دوسری خاتون ہیں جن کا پس پردہ محترم عبدالستار ایدھی کی کامیابیوں میں پورا پورا ہاتھ رہا ہے اور اب یہی ہاتھ عبدالستار ایدھی کے ولی عہد جاں نشین و سعادت مند صاحب زادے فیصل ایدھی کے سر پر دست شفقت کی شکل میں موجود ہے۔


جب 8 جولائی 2016ء کو عبدالستار ایدھی خالق حقیقی سے جا ملے تو گویا تمام پاکستانیوں کی آنکھیں نم ہوگئیں اور کراچی کے شہری رنج و الم کی کیفیت میں نیشنل اسٹیڈیم کی جانب 9 جولائی کو ان کی نماز جنازہ کے لیے امڈ آئے اور محسن انسانیت عبدالستار ایدھی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی اور انھیں سفر آخرت پر روانہ کیا۔ یوں تو ایدھی کی خدمات کے اعتراف میں ہنوز خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن و ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جانب سے 22 جولائی 2016ء کو کراچی کے مقامی ہال میں عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد کیا گیا۔

اس تعزیتی جلسے کا وقت شام 4 بجے کا تھا، البتہ شرکا کی آمد تین بجے سے شروع ہو گئی اور ساڑھے تین بجے تک تمام نشستوں پر لوگ براجمان ہو چکے تھے، شرکا کی کثیر تعداد میں آمد کے باعث اضافی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ شرکا میں ترقی پسند دانشوروں، ترقی پسند رہنماؤں، محنت کشوں و کثیر تعداد میں خواتین و بچوں نے شرکت کی، جب کہ اس تعزیتی جلسے میں خصوصی طور پر عبدالستار ایدھی کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے اپنی شریک حیات کے ہمراہ شرکت کی۔ اس تعزیتی جلسے کی کمپیئرنگ نامور صحافی مشتاق علی شان نے کی اور اپنے خوبصورت اشعار کے ذریعے عبدالستار ایدھی کو خراج عقیدت پیش کیا، جب کہ مقررین جن میں ڈاکٹر ریاض احمد شیخ (SAZABIST)، ڈاکٹر تیمور الرحمن (MKP لال بینڈ) نامور اینکر پرسن مظہر عباس، کرامت علی، زہرا خان (HBWWF)، سعیدہ خاتون (سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن) رفیق بلوچ گل رحمن، ریاض عباسی نے خطاب جب کہ ناصر منصور (NTUF) نے دیگر مقررین کی طرح عبدالستار ایدھی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ ناصر منصور نے حکومت وقت سے پرزور مطالبہ کیا کہ اسلام آباد میں نئے تعمیر ہونے والے ایئرپورٹ کو عبدالستار ایدھی کے نام سے منسوب کیا جائے، مزید یہ کہ ملک بھر میں ہاریوں و محنت کشوں کے لیے صحت اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم کے مراکز قائم کیے جائیں، جہاں ان کو مفت صحت و تعلیم کی سہولیات فراہم کی جائیں۔فیصل ایدھی نے اپنے مختصر خطاب میں اپنے والد محترم کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور تمام شرکا جلسہ کا ان کی آمد پر شکریہ ادا کیا۔

البتہ میں سوچ رہا ہوں کہ ہم ایک اچھی سیاست قیادت کے متلاشی ضرور ہیں مگر کاش ہم اپنے سماج میں دو چار مرد قلندر ہی پیدا کر سکیں، جو کہ ایدھی کی طرح مسائل سے دوچار مفلس عوام کی خدمت کا سچا جذبہ رکھتے ہوں، کیونکہ ہمارے سامنے ایدھی کی مثال موجود ہے، جنھوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وہ کر دکھایا جو 69 برس میں کوئی پاکستانی حکومت بھی نہ کر سکی، کیونکہ ان حکمرانوں کے دل میں عوام کی خدمت کے سچے جذبے کا فقدان تھا۔ آخر میں پنجابی زبان کے شیکسپیئر صوفی شاعر وارث شاہ کی زبان میں ایدھی کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کریں گے کہ:

وارث شاہ اھو سدا جیوندے نے

جنھا کیتیاں نیک کمائیاں نے
Load Next Story