علم و عمل
’’جن کے اعمال کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ لوگ خسارہ پانے والے ہوں گے‘‘
وہ عالم جو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا اس جاہل کی مانند ہے جو جہالت کی سرمستیوں سے ہوش میں نہیں آتا۔ عالم پر اﷲ کی حجت زیادہ ہے اور حسرت و افسوس اس کے لازم و ضروری ہے، اﷲ کے نزدیک وہ زیادہ قابل ملامت اور قابل گرفت ہے۔
علم کی روشنی میں عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ کوئی روشن راہ پر چل رہا ہو، مگر بے عمل کی مثال گم راہ مسافر کی مانند ہے۔ تسلیم و رضا بہترین مصاحب، علم شریف ترین میراث، علمی و عملی اوصاف خلعتِ فاخرہ اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔ علم کی موجودی میں عمل ہی کام یابی و کام رانی کا موثر ذریعہ ہے۔ صاحبِ علم و عمل نے ارشاد فرمایا اور بجا فرمایا کہ جسے اس کے اعمال پیچھے دھکیل دیں، اسے اس کا حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔ وہ علم بہت بے قدر و قیمت ہے جو صرف زبان تک رہ جائے اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو۔
بہت سے پڑھے لکھوں کو دین سے بے خبری تباہ کردیتی ہے اور جو علم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اﷲ کا کچھ حصہ نہ ہو تو اﷲ کو ایسے شخص کی کوئی ضرورت نہیں۔ عمل سے خالی عالم کا علم اس کے گلے میں طوق بنا کر پہنا دیا جائے گا۔
علم حاصل کرنا مشکل نہیں لیکن اس علم کو بہتر عمل کے ذریعے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی نظر میں اپنے لیے باعث قبولیت اور عزت و توقیر بنانا ریاضت چاہتا ہے۔ عالم اگر اپنے علم پر تکبّر کرے اور وہ علم اس کی روز مرہ زندگی، خیالات، احساسات اور اس کی شخصیت پر اثر انداز نہ ہو یعنی وہ بہ مطابق علم عمل نہ کرے تو وہ علم بھی بے کار اور قابل گرفت ہوگا۔ جیسا کہ ابلیس کو قبل از تخلیق آدم ؑ علم عطا فرمایا گیا اور وہ اس عطا کردہ علم کی بنا پر عمل کرکے اﷲ تعالیٰ کا مقرب بن گیا بعدازاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت حضرت آدم ؑ کی تخلیق فرمائی اور اُن کو بھی علم عطا فرمایا، فرشتوں اور آدم ؑ کے درمیان علمی مقابلہ بھی ہوا اور رب العالمین نے حکم فرمایا کہ اب آدم ؑ کو سجدہ کرو، سب نے سجدہ کیا مگر اس پر عمل کرنے سے انکار صرف ابلیس نے کیا، اُس عمل سے انکار اور تکبّر پر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اسے اپنے مقربین کی فہرست سے خارج کردیا اور اسے قیامت تک کے لیے شیطان، لعین اور مغضوب قرار دے دیا اور وہ علم اس کے گلے کا پھندہ بن گیا۔
صرف علم نہیں بل کہ بہ مطابق علم عمل کرنا ازحد ضروری ہے۔ روز محشر وہ علم والے بہت زیادہ خسارہ میں ہوں گے جو عمل سے خالی رہے ہوں گے۔ اﷲ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش اور عمل سے محروم کردیتا ہے۔ جو عمل نہیں کرتا وہ محروم رہتا اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ حالاں کہ اعمال ہی بنیادی اہمیت اور حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی حوالے سے اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے، '' اور اس روز اعمال کا وزن ہوگا، جن کے اعمال کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ لوگ خسارہ پانے والے ہوں گے۔'' ( سورۃ الاعراف )
اﷲ تعالیٰ نے تو واضح فرما دیا ہے کہ جاننے والا (عالم) اور نہ جاننے والا (غیر عالم) برابر نہیں ہوسکتے۔ جاہل کا نہ کیا گیا عمل اگرچہ اس کے لیے باعث سزا ہوگا مگر عالم کا نہ کیا گیا عمل اس کے لیے زیادہ موجبِ سزا ہوگا۔ نہ جاننے والا تو یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا اگر ہوتا تو ضرور کرتا اگرچہ پھر بھی وہ سزا کا مستحق ہوگا کیوں کہ اس نے جاننے (علم حاصل کرنے ) کی کوشش نہیں کی کیوں کہ اگر وہ جاننے کی کوشش کرتا تو یقیناً جان لیتا یہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے جب کہ جاننے والا تو یہ عذر بھی پیش نہیں کرسکتا ہے۔
علم حاصل کرنا بہت آسان مگر اس پر عمل کرنا بے حد مشکل ہے کیوں کہ عمل کرنے کے لیے ہمیں اپنے نفس کو شکست دینی پڑتی ہے جو ہم دینے سے قاصر ہوتے ہیں، کیوں کہ ہمارا نفس ہمیں دنیاوی لذّت کا عادی بنا چکا ہوتا ہے اور ہم دنیا سے دل لگا بیٹھتے ہیں اور اپنی ہر خواہش پر عمل پیرا ہونے کی کوشش میں مصروف عمل رہتے ہیں لیکن ہمارے رب کے احکامات اس کے برعکس ہیں۔ اسی حوالے سے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان ہے کہ '' اپنے نفوس کو اس طرح قابو میں رکھو کہ ہمیشہ ان کے ساتھ جہاد کرتے رہو اور مخالفت کرتے رہو، اپنے عہد و پیماں کو مضبوط رکھو، آنکھیں کھولو، بھوکے پیٹ رہو، جسم کو ریاضت میں ڈال کر دبلا کرو، اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اپنی جان پر جبر کرنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔''
یہی اصل وجہ ہے جو ہمارے اعمال کے آڑے آتی ہے کیوں کہ ہم اپنی جان پر جبر نہیں کرتے۔ جس دن ہم اپنی جان پر جبر کرنا سیکھ لیں گے تو ہم اعمال کرنے لگیں گے، جب اعمال کرنے لگیں گے تو علم ہمارے لیے باعث فخر و نجات اور باعث عزت و توقیر بنے گا ورنہ علمِ بے عمل ہمارے لیے وبالِ جان ہی رہے گا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی جان پر جبر کرنے، علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین
علم کی روشنی میں عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ کوئی روشن راہ پر چل رہا ہو، مگر بے عمل کی مثال گم راہ مسافر کی مانند ہے۔ تسلیم و رضا بہترین مصاحب، علم شریف ترین میراث، علمی و عملی اوصاف خلعتِ فاخرہ اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔ علم کی موجودی میں عمل ہی کام یابی و کام رانی کا موثر ذریعہ ہے۔ صاحبِ علم و عمل نے ارشاد فرمایا اور بجا فرمایا کہ جسے اس کے اعمال پیچھے دھکیل دیں، اسے اس کا حسب و نسب آگے نہیں بڑھا سکتا۔ وہ علم بہت بے قدر و قیمت ہے جو صرف زبان تک رہ جائے اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو۔
بہت سے پڑھے لکھوں کو دین سے بے خبری تباہ کردیتی ہے اور جو علم ان کے پاس ہوتا ہے انہیں ذرہ بھر بھی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ جو عمل میں کوتاہی کرتا ہے وہ رنج و اندوہ میں مبتلا رہتا ہے اور جس کے مال و جان میں اﷲ کا کچھ حصہ نہ ہو تو اﷲ کو ایسے شخص کی کوئی ضرورت نہیں۔ عمل سے خالی عالم کا علم اس کے گلے میں طوق بنا کر پہنا دیا جائے گا۔
علم حاصل کرنا مشکل نہیں لیکن اس علم کو بہتر عمل کے ذریعے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی نظر میں اپنے لیے باعث قبولیت اور عزت و توقیر بنانا ریاضت چاہتا ہے۔ عالم اگر اپنے علم پر تکبّر کرے اور وہ علم اس کی روز مرہ زندگی، خیالات، احساسات اور اس کی شخصیت پر اثر انداز نہ ہو یعنی وہ بہ مطابق علم عمل نہ کرے تو وہ علم بھی بے کار اور قابل گرفت ہوگا۔ جیسا کہ ابلیس کو قبل از تخلیق آدم ؑ علم عطا فرمایا گیا اور وہ اس عطا کردہ علم کی بنا پر عمل کرکے اﷲ تعالیٰ کا مقرب بن گیا بعدازاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت حضرت آدم ؑ کی تخلیق فرمائی اور اُن کو بھی علم عطا فرمایا، فرشتوں اور آدم ؑ کے درمیان علمی مقابلہ بھی ہوا اور رب العالمین نے حکم فرمایا کہ اب آدم ؑ کو سجدہ کرو، سب نے سجدہ کیا مگر اس پر عمل کرنے سے انکار صرف ابلیس نے کیا، اُس عمل سے انکار اور تکبّر پر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اسے اپنے مقربین کی فہرست سے خارج کردیا اور اسے قیامت تک کے لیے شیطان، لعین اور مغضوب قرار دے دیا اور وہ علم اس کے گلے کا پھندہ بن گیا۔
صرف علم نہیں بل کہ بہ مطابق علم عمل کرنا ازحد ضروری ہے۔ روز محشر وہ علم والے بہت زیادہ خسارہ میں ہوں گے جو عمل سے خالی رہے ہوں گے۔ اﷲ جس بندے کو ذلیل کرنا چاہتا ہے اسے علم و دانش اور عمل سے محروم کردیتا ہے۔ جو عمل نہیں کرتا وہ محروم رہتا اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہتا ہے۔ حالاں کہ اعمال ہی بنیادی اہمیت اور حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی حوالے سے اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے، '' اور اس روز اعمال کا وزن ہوگا، جن کے اعمال کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ لوگ خسارہ پانے والے ہوں گے۔'' ( سورۃ الاعراف )
اﷲ تعالیٰ نے تو واضح فرما دیا ہے کہ جاننے والا (عالم) اور نہ جاننے والا (غیر عالم) برابر نہیں ہوسکتے۔ جاہل کا نہ کیا گیا عمل اگرچہ اس کے لیے باعث سزا ہوگا مگر عالم کا نہ کیا گیا عمل اس کے لیے زیادہ موجبِ سزا ہوگا۔ نہ جاننے والا تو یہ عذر پیش کرسکتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا اگر ہوتا تو ضرور کرتا اگرچہ پھر بھی وہ سزا کا مستحق ہوگا کیوں کہ اس نے جاننے (علم حاصل کرنے ) کی کوشش نہیں کی کیوں کہ اگر وہ جاننے کی کوشش کرتا تو یقیناً جان لیتا یہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے جب کہ جاننے والا تو یہ عذر بھی پیش نہیں کرسکتا ہے۔
علم حاصل کرنا بہت آسان مگر اس پر عمل کرنا بے حد مشکل ہے کیوں کہ عمل کرنے کے لیے ہمیں اپنے نفس کو شکست دینی پڑتی ہے جو ہم دینے سے قاصر ہوتے ہیں، کیوں کہ ہمارا نفس ہمیں دنیاوی لذّت کا عادی بنا چکا ہوتا ہے اور ہم دنیا سے دل لگا بیٹھتے ہیں اور اپنی ہر خواہش پر عمل پیرا ہونے کی کوشش میں مصروف عمل رہتے ہیں لیکن ہمارے رب کے احکامات اس کے برعکس ہیں۔ اسی حوالے سے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان ہے کہ '' اپنے نفوس کو اس طرح قابو میں رکھو کہ ہمیشہ ان کے ساتھ جہاد کرتے رہو اور مخالفت کرتے رہو، اپنے عہد و پیماں کو مضبوط رکھو، آنکھیں کھولو، بھوکے پیٹ رہو، جسم کو ریاضت میں ڈال کر دبلا کرو، اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اپنی جان پر جبر کرنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔''
یہی اصل وجہ ہے جو ہمارے اعمال کے آڑے آتی ہے کیوں کہ ہم اپنی جان پر جبر نہیں کرتے۔ جس دن ہم اپنی جان پر جبر کرنا سیکھ لیں گے تو ہم اعمال کرنے لگیں گے، جب اعمال کرنے لگیں گے تو علم ہمارے لیے باعث فخر و نجات اور باعث عزت و توقیر بنے گا ورنہ علمِ بے عمل ہمارے لیے وبالِ جان ہی رہے گا۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی جان پر جبر کرنے، علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت و توفیق عطا فرمائے۔ آمین