وادی کشمیر آزادی کی منتظر
حال ہی میں بیس مظلوم کشمیریوں کو خون میں نہلا دیا گیا
''بھارتی حکومت نے تین مغربی ممالک کے صحافیوں کو مقبوضہ کشمیر میں داخلے پر پابندی عائد کر دی'' یہ ایک عام سی خبر نہیں تھی بلکہ بہت اہم اور سنجیدہ ایشو پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ مقبوضہ کشمیر ایک ایسا ٹائم بم بن چکا ہے، جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے، اوپر والے کی جانب سے کیا وقت مقرر ہے یہ وہی جانتا ہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک وادی کشمیر میں ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہیں کہ ان کی گنتی بھی کرنا مشکل ہے۔
حال ہی میں جس بربریت کی نئی طرز ڈالی گئی ہے، بظاہر اس سے کچھ زیادہ نقصان نہیں فقط مظلوموں کی بینائی اور معذوری کے۔ یہ کچھ زیادہ نقصان نہیں کی پالیسی نے کشمیری نوجوانوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں کو ایک نئے انداز سے اذیت دینے کا عمل شروع کیا ہے۔ حریت پسند نوجوان کمانڈر برہان مظفر اور ان کے ساتھیوں کو جس طرح ان کے ہی خون میں نہلا دیا گیا۔ اس سے شاید یہ تاثر لیا جاتا رہا تھا کہ اس طرح آزادی کا ابلتا لاوا سرد ہو جائے گا لیکن یہ تو ایک ایسی آگ ہے جو مسلسل بھڑک رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ کے قریب بھارتی افواج اپنے آقاؤں کے کہنے پر مستقل مظلوم کشمیری عوام کو ظلم کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
حال ہی میں بیس مظلوم کشمیریوں کو خون میں نہلا دیا گیا، خواتین اور بزرگوں کے ساتھ جو سلوک سرحد کے اس جانب کیا جاتا ہے، اس کی تصاویر اور تفصیلات انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔
یہ بھی ایک گھناؤنی سازش تھی کہ یہ رابطہ بھی منقطع ہو جائے اورایسا ہوا بھی لیکن جذبہ آزادی خدا کے بندوں میں کچھ ایسا جوش اور ایمان پیدا کر دیتا ہے کہ کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں۔ دنیائے عالم میں اس انسانی وحشتناک بربادی کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مسلمانوں پر جس طرح جنگ کو لادا جا رہا ہے کہ بے سرو سامانی، بھوک، خون اور ہجرت یہ ان کے نصیبوں میں لکھا جا رہا ہے آپ نظر اٹھا کر دیکھ لیں ایشیا ہو یا مغربی سرحد کس طرح ایک خاموش ان کہی سازش سر اٹھا رہی ہے۔ ترکی میں بھی اسی سازش کی ایک کلی پھوٹنے سے پہلے ہی کچل دی گئی جس پر امت مسلمہ کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے ایک اور ملک میں مسلمانوں کی جانوں اورعزتوں کو بچا لیا۔
کشمیر جسے قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس کے کٹ جانے سے کشمیریوں اور پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اسی شہ رگ کو عرصہ انسٹھ (69) سال سے کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن خدا کوکیا منظور ہے کون جانے کہ کہیں کاٹنے والے اپنے ہاتھ ہی نہ کھو بیٹھیں۔
تقسیم ہندکے وقت ترتیب تواس طرح سے کی گئی تھی کہ ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں اور مسلمان اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل کیے جائیں گے۔کشمیر میں کیونکہ اس وقت نوے فیصد مسلمان اکثریت تھی (جموں وکشمیر کہلاتا تھا) لہٰذا اس کے لیے بھی ایسا ہی طے پایا، کیونکہ اس سے پہلے جونا گڑھ کے سلسلے میں بھی ہو چکا تھا کہ وہاں کی اکثریتی آبادی ہندو کی تھی جب کہ وہاں کے حکمران مسلمان نواب تھے۔ انھوں نے بلاجھجک پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا لیکن بھارت نے فوراً ہندو اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استصواب رائے کے ذریعے بھارت میں مدغم ہونے کا فیصلہ دیا۔
گو نواب جوناگڑھ نے اپنی رعایا کے ساتھ بنا کسی لسانی فرق کے بہت اچھا سلوک روا رکھا تھا لیکن عوام کی رائے ان کے سر تھوپ دی گئی اور انھوں نے سر جھکا دیا لیکن کشمیر کے سلسلے میں ایسا نہ ہوا ، وہاں کا حکمران راجہ ہری سنگھ تھا جس نے اپنی سازشوں کا جال بھارتی ایوانوں تک پھیلا رکھا تھا یہ تعصب ہی تھا جس نے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو پاکستانی حدود میں شامل نہ ہونے دیا، حالانکہ یہ علاقہ مسلم اکثریتی ہونے کی وجہ سے اتنا مقبول تھا کہ قائد اعظم کہا کرتے تھے کہ "Kashmir is in my Pocket" لیکن قائد اعظم کی جیب کاٹنے کی کوشش کی جانے لگی اور آج تک بھارتی حکومت اس مقصد کو مکمل کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔
آزاد کشمیر کو اگر اس وقت پاکستانی افواج اور عوام کی حدود اور جنگ ان غاصبوں کے تسلط سے آزاد نہ کراتی تو یقین جانیے آج بھی وہ حصہ بھی اپنے ہی خون سے سرخ ہوتا لیکن اس وقت پاکستان ایک نوخیز مملکت تھا۔ آج ہم اس وقت کے ان تمام مجاہدین اور عوامی طاقت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی ہمت اور بہادری سے کشمیر کا ایک بازو آزادی کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج تک یہ مسئلہ حل کیوں نہ ہوا تو اس کا جواب ہے کہ ہماری اپنی اندرونی کمزوریاں اور خامیاں ہم اندرونی طور پر ہی اتنی سازشوں کا شکار رہے کہ ہم کو مشرقی پاکستان کو کھو دینا پڑا یہ ایک اور بڑا سانحہ تھا جسے ہمیں سہنا پڑا۔
آج ہمارے دل میں بھی اپنے پیارے کشمیر کے لیے بہت درد ہے دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن بہت معذرت کے ساتھ ہم ایک ناشکری قوم ہیں کہ جس نے آزادی کی قدر نہ کی۔ آج ہم ٹی وی اسکرین پر اپنے پیارے مسلمان بھائیوں کو بیدردی سے پٹتے اور قتل ہوتے دیکھتے ہیں اپنی ہی بہنوں کی عصمت دری کی کہانیاں سنتے ہیں اپنے بزرگوں کی بے حرمتی دیکھتے ہیں تو دل بے چین ہو جاتا ہے آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں آخر کب تک... اور اسی لمحے اپنے پروردگار کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمیں ایک آزاد مملکت میں پیدا کیا۔بھارت روس کی آشیر باد سے ڈالرز اور روبل خرچ کر رہا ہے ہتھیاروں اور افواج کو کشمیر میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کا حربہ اختیار کر رہا ہے کیونکہ روس افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان پر کشمیر کے ذریعے اپنا دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔
مودی حکومت امریکا کی آشیرباد بھی حاصل کر کے کشمیرکے مسئلے پر عسکری طاقتوں پر مٹی ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس طرح کے بہت سے منصوبے اور مفروضے جن کی ایک لمبی فہرست تیار ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم تو اپنے اندر ہی چھوٹے چھوٹے مسائل اور کرسیوں پر قبضے کی کوشش میں ایسے الجھے ہیں کہ ہر وقت گو، گو کے نعرے لگتے رہتے ہیں، کسی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ترکیبیں ہو رہی ہیں تو کسی مافیا کو مضبوط کرنے کے منصوبے۔ ہم آج تک ایک قوم نہ بن سکے۔
ہم مہاجر اور غیر مہاجر، سنی اور شیعہ کے مسئلوں میں الجھ گئے ہیں یا الجھا دیے گئے ہیں یہ سب بہت آسانی سے کیا گیا کیونکہ ہمارے اپنے دلوں میں ہی نفاق ہے صرف ''ہم، میں'' اور ''اپنا'' کے تسلط سے نکل ہی نہیں پائے۔ دعا ہے کہ وادی کشمیر آزادی کی حسین نعمت سے جلد از جلد مستفید ہو۔ آزادی وادی کشمیر کی دھرتی پر نصب ہے کیونکہ مظلوموں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا گلا گھوٹنا نہیں جا سکتا۔
حال ہی میں جس بربریت کی نئی طرز ڈالی گئی ہے، بظاہر اس سے کچھ زیادہ نقصان نہیں فقط مظلوموں کی بینائی اور معذوری کے۔ یہ کچھ زیادہ نقصان نہیں کی پالیسی نے کشمیری نوجوانوں، بچوں، خواتین اور بزرگوں کو ایک نئے انداز سے اذیت دینے کا عمل شروع کیا ہے۔ حریت پسند نوجوان کمانڈر برہان مظفر اور ان کے ساتھیوں کو جس طرح ان کے ہی خون میں نہلا دیا گیا۔ اس سے شاید یہ تاثر لیا جاتا رہا تھا کہ اس طرح آزادی کا ابلتا لاوا سرد ہو جائے گا لیکن یہ تو ایک ایسی آگ ہے جو مسلسل بھڑک رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ لاکھ کے قریب بھارتی افواج اپنے آقاؤں کے کہنے پر مستقل مظلوم کشمیری عوام کو ظلم کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
حال ہی میں بیس مظلوم کشمیریوں کو خون میں نہلا دیا گیا، خواتین اور بزرگوں کے ساتھ جو سلوک سرحد کے اس جانب کیا جاتا ہے، اس کی تصاویر اور تفصیلات انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔
یہ بھی ایک گھناؤنی سازش تھی کہ یہ رابطہ بھی منقطع ہو جائے اورایسا ہوا بھی لیکن جذبہ آزادی خدا کے بندوں میں کچھ ایسا جوش اور ایمان پیدا کر دیتا ہے کہ کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں۔ دنیائے عالم میں اس انسانی وحشتناک بربادی کے لیے کیا کچھ کیا جا رہا ہے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مسلمانوں پر جس طرح جنگ کو لادا جا رہا ہے کہ بے سرو سامانی، بھوک، خون اور ہجرت یہ ان کے نصیبوں میں لکھا جا رہا ہے آپ نظر اٹھا کر دیکھ لیں ایشیا ہو یا مغربی سرحد کس طرح ایک خاموش ان کہی سازش سر اٹھا رہی ہے۔ ترکی میں بھی اسی سازش کی ایک کلی پھوٹنے سے پہلے ہی کچل دی گئی جس پر امت مسلمہ کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے ایک اور ملک میں مسلمانوں کی جانوں اورعزتوں کو بچا لیا۔
کشمیر جسے قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اس کے کٹ جانے سے کشمیریوں اور پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اسی شہ رگ کو عرصہ انسٹھ (69) سال سے کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن خدا کوکیا منظور ہے کون جانے کہ کہیں کاٹنے والے اپنے ہاتھ ہی نہ کھو بیٹھیں۔
تقسیم ہندکے وقت ترتیب تواس طرح سے کی گئی تھی کہ ہندو اکثریتی علاقے بھارت میں اور مسلمان اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل کیے جائیں گے۔کشمیر میں کیونکہ اس وقت نوے فیصد مسلمان اکثریت تھی (جموں وکشمیر کہلاتا تھا) لہٰذا اس کے لیے بھی ایسا ہی طے پایا، کیونکہ اس سے پہلے جونا گڑھ کے سلسلے میں بھی ہو چکا تھا کہ وہاں کی اکثریتی آبادی ہندو کی تھی جب کہ وہاں کے حکمران مسلمان نواب تھے۔ انھوں نے بلاجھجک پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا لیکن بھارت نے فوراً ہندو اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استصواب رائے کے ذریعے بھارت میں مدغم ہونے کا فیصلہ دیا۔
گو نواب جوناگڑھ نے اپنی رعایا کے ساتھ بنا کسی لسانی فرق کے بہت اچھا سلوک روا رکھا تھا لیکن عوام کی رائے ان کے سر تھوپ دی گئی اور انھوں نے سر جھکا دیا لیکن کشمیر کے سلسلے میں ایسا نہ ہوا ، وہاں کا حکمران راجہ ہری سنگھ تھا جس نے اپنی سازشوں کا جال بھارتی ایوانوں تک پھیلا رکھا تھا یہ تعصب ہی تھا جس نے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو پاکستانی حدود میں شامل نہ ہونے دیا، حالانکہ یہ علاقہ مسلم اکثریتی ہونے کی وجہ سے اتنا مقبول تھا کہ قائد اعظم کہا کرتے تھے کہ "Kashmir is in my Pocket" لیکن قائد اعظم کی جیب کاٹنے کی کوشش کی جانے لگی اور آج تک بھارتی حکومت اس مقصد کو مکمل کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہے۔
آزاد کشمیر کو اگر اس وقت پاکستانی افواج اور عوام کی حدود اور جنگ ان غاصبوں کے تسلط سے آزاد نہ کراتی تو یقین جانیے آج بھی وہ حصہ بھی اپنے ہی خون سے سرخ ہوتا لیکن اس وقت پاکستان ایک نوخیز مملکت تھا۔ آج ہم اس وقت کے ان تمام مجاہدین اور عوامی طاقت کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کی ہمت اور بہادری سے کشمیر کا ایک بازو آزادی کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج تک یہ مسئلہ حل کیوں نہ ہوا تو اس کا جواب ہے کہ ہماری اپنی اندرونی کمزوریاں اور خامیاں ہم اندرونی طور پر ہی اتنی سازشوں کا شکار رہے کہ ہم کو مشرقی پاکستان کو کھو دینا پڑا یہ ایک اور بڑا سانحہ تھا جسے ہمیں سہنا پڑا۔
آج ہمارے دل میں بھی اپنے پیارے کشمیر کے لیے بہت درد ہے دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن بہت معذرت کے ساتھ ہم ایک ناشکری قوم ہیں کہ جس نے آزادی کی قدر نہ کی۔ آج ہم ٹی وی اسکرین پر اپنے پیارے مسلمان بھائیوں کو بیدردی سے پٹتے اور قتل ہوتے دیکھتے ہیں اپنی ہی بہنوں کی عصمت دری کی کہانیاں سنتے ہیں اپنے بزرگوں کی بے حرمتی دیکھتے ہیں تو دل بے چین ہو جاتا ہے آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں آخر کب تک... اور اسی لمحے اپنے پروردگار کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کہ انھوں نے ہمیں ایک آزاد مملکت میں پیدا کیا۔بھارت روس کی آشیر باد سے ڈالرز اور روبل خرچ کر رہا ہے ہتھیاروں اور افواج کو کشمیر میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے ہر طرح کا حربہ اختیار کر رہا ہے کیونکہ روس افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان پر کشمیر کے ذریعے اپنا دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔
مودی حکومت امریکا کی آشیرباد بھی حاصل کر کے کشمیرکے مسئلے پر عسکری طاقتوں پر مٹی ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس طرح کے بہت سے منصوبے اور مفروضے جن کی ایک لمبی فہرست تیار ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہم تو اپنے اندر ہی چھوٹے چھوٹے مسائل اور کرسیوں پر قبضے کی کوشش میں ایسے الجھے ہیں کہ ہر وقت گو، گو کے نعرے لگتے رہتے ہیں، کسی کو جڑ سے اکھاڑنے کی ترکیبیں ہو رہی ہیں تو کسی مافیا کو مضبوط کرنے کے منصوبے۔ ہم آج تک ایک قوم نہ بن سکے۔
ہم مہاجر اور غیر مہاجر، سنی اور شیعہ کے مسئلوں میں الجھ گئے ہیں یا الجھا دیے گئے ہیں یہ سب بہت آسانی سے کیا گیا کیونکہ ہمارے اپنے دلوں میں ہی نفاق ہے صرف ''ہم، میں'' اور ''اپنا'' کے تسلط سے نکل ہی نہیں پائے۔ دعا ہے کہ وادی کشمیر آزادی کی حسین نعمت سے جلد از جلد مستفید ہو۔ آزادی وادی کشمیر کی دھرتی پر نصب ہے کیونکہ مظلوموں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کا گلا گھوٹنا نہیں جا سکتا۔