نہیں جائیں گے
حکومتِ پاکستان اور پاکستانیوں کی اکثریت تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو باعزت واپس افغانستان بھیجنا چاہتی ہے
QUETTA:
حکومتِ پاکستان اور پاکستانیوں کی اکثریت تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو باعزت واپس افغانستان بھیجنا چاہتی ہے۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے متعلقہ ذمے داران پر بھی اپنا عندیہ واضح کردیا ہے۔ اس عالمی ادارے کی سفارش پر ہمارے حکمرانوں نے مہربانی کرکے افغان مہاجرین کو مزید چھ ماہ تک (دسمبر 2016ء) پاکستان میں رہنے کی اجازت دے دی ہے۔ افغان مہاجرین مگر واپس جانے سے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ اکڑ بھی رہے ہیں اور پاکستان کو افغانستان کی طرف سے دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔
ایک وفاقی وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دس لاکھ افغان مہاجرین نے ہماری ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے ایک مقتدر دوست، جس کے درجن بھر رشتہ دار بلوچستان حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، نے افغانستان کے ایک انگریزی اخبار کو افغان مہاجرین کے حق میں جو انٹرویو دیا ہے، اس نے حالات مزید دگرگوں کردیے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے خرابی ہوگی۔ افغانوں کا شیوا رہا ہے کہ وہ جب ایکبار افغانستان سے نکل آتے ہیں تو بمشکل ہی واپس اپنے وطن جاتے ہیں۔
قدیم افغانوں کی پاکستان میں ایک بڑی نشانی ہمیں حسن ابدال (پنجاب کے ضلع اٹک) میں نظر آتی ہے جو اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ افغانی جب ایک بار افغانستان سے نکل آتے ہیں تو پھر دوبارہ اپنے وطن کا رُخ نہیں کرتے۔ ایک سادہ سی بات یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ہوتا کیا ہے کہ وہاں سے نکلنے کے بعد دوبارہ اس طرف کا رخ کیا جائے؟ صدیوں قبل بھی یہی حالت تھی اور حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ حسن ابدال میں تین اہم مقامات ہیں: اوّل، شاندار اور پُر شکوہ حسن ابدال کیڈٹ کالج جسے پاکستان کا پہلا باقاعدہ کیڈٹ کالج ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دوم، گُردوارہ پنجہ صاحب جو سکھوں کا دوسرا مقدس ترین مذہبی مقام کہلاتا ہے۔ سوم، صُوفی بزرگ پیر ولی قندھاری صاحب کا مزار شریف۔ اسی مزار اور مقبرے کو ہم حسن ابدال میں قدیم افغانوں کی اہم نشانی قرار دیتے ہیں۔یہ پیر صاحب افغانستان کے مشہور شہر قندھار سے یہاں آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
پیر قندھاری صاحب پندرھویں صدی عیسوی کے اواخر میں حسن ابدال آئے تھے۔ شہنشاہ جہانگیر نے اپنی خود نوشت ''تزکِ جہانگیری'' میں بھی پیر ولی قندھاری اور ان سے منسوب جاری ہونے والے پانی کے دو چشموں کا ذکر بڑے والہانہ اور عقیدت مندانہ اندازمیں کیا ہے۔ ایک انگریز سیاح نے بھی اپنے رپورتاژ میں(حسن ابدال کیڈٹ کالج کے سامنے واقع) سات سو میٹر بلند پہاڑی کی چوٹی پر واقع پیر ولی قندھاری کا ذکر کیا ہے۔ اگر افغانستان سے تعلق رکھنے والے درویش اپنے وطن واپس نہیں جاسکے تو آج کے دنیا دار افغان مہاجرین سے یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس چلے جائیں گے۔ پنجاب ہی کی ایک تحصیل، ٹیکسلا، کا ایک مشہور علاقہ، گڑھی افغاناں، بھی زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ افغانستان سے باہر نکلنے والے دوبارہ کبھی افغانستان نہیں جاتے۔
افغانوں کے حملوں، لوٹ مار، غارتگری اور خونریزی کی نہایت خوںرنگ کہانی، مختصر انداز میں، پروفیسر عزیز الدین احمد صاحب نے ''پنجاب اور بیرونی حملہ آور'' کے عنوان سے مرتب کی ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ افغانوں کی جنوبی ایشیا سے نفرت اس شکل میں بھی برقرار رہی کہ 47ء میں پاکستان بنا تو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو سب سے آخر میں تسلیم کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا قاتل (سید اکبر) بھی افغانی تھا۔ اور یہ پھر پاکستان ہی تھا جس نے 80ء کے عشرے میں پانچ ملین کے قریب اُجڑے افغان مہاجرین کو سینے سے لگایا مگر ساڑھے تین عشروں کی میزبانی کے صلے میں ہمیں آج انھی افغان مہاجرین اور افغانستان سے کیا مل رہا ہے؟ سازشیں، گالیاں، جاسوس، پاکستان دشمنی میں بھارت کی طرف افغانوں کا جھکاؤ اور بم دھماکے!!
صدیوں پرانے افغانوں کی باقیات اور افغانستان کے ''زندہ نشانات'' ہمیں شکر گڑھ میں بھی ملتے ہیں۔ شکر گڑھ، پاکستان کی آخری، دور افتادہ اور پسماندہ ترین تحصیل ہے۔ کابل اور شکر گڑھ کے درمیان تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ حائل ہے۔ تو پھر بھلا شکر گڑھ میں قدیم افغانوں اور افغانستان کے نشانات کیوں اور کیسے؟ لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہاں کم از کم تین مقامات ایسے ہیں جو ہمیں پرانے افغانستان اور افغانوں کی یاد دلاتے ہیں: فتح پور افغاناں، بھاٹی افغاناں اور بُستان افغاناں!! ''فتح پور افغاناں'' تحصیل شکر گڑھ کا مشہور گاؤں ہے جو یہاں کے ایک مرکزی قصبے (نُور کوٹ) سے متصل ہی واقع ہے۔ شنید ہے یہ گاؤں اپنی رزم آرائیوں کی وجہ سے ایک مخصوص شہرت کا حامل ہے۔ ''بھاٹی افغاناں'' نامی گاؤں شکر گڑھ شہر کے مشرق میں واقع ہے۔
یہاں کے مشہور برساتی نالے، نالہ بئیں، کو عبور کرتے ہی یہ گاؤں آتا ہے اور یہ مسلم لیگ نون کے مشہور رکنِ قومی اسمبلی جناب دانیال عزیز کے حلقے میں شامل ہے۔ جناب دانیال عزیز اور ان کے مشہور سیاستدان اور بزرگ والدِ گرامی، چوہدری انور عزیز، کا ڈیرہ بھی ''بھاٹی افغاناں'' گاؤں سے قریب ایک جنگل میں واقع ہے۔ اور کسی زمانے میں ''بُستان افغاناں'' شکر گڑھ تحصیل کا معروف ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ اجڑ پجڑ چکا ہے کہ نارووال سے چک امرو جانے والی ریلوے لائن ہی برباد اور غیر فعال ہوچکی ہے۔ ان تینوں مذکورہ بالا مقامات کا تعلق آج کے افغانستان اور افغانوں سے ہر گز نہیں ہے لیکن یہاں کے لوگ اب بھی خود کو ''فخرِ افاغنہ'' کہلاتے ہیں۔ صدیوں قبل لُوٹ مار کرتے ہوئے اور جنگی جارحیت کا ارتکاب کرتے افغان جرنیل اور ان کی فوجیں شکر گڑھ سے گزری ہوں گی اور ان کے کچھ فوجی تھک ہار کر یہاں رک گئے ہوں گے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فتح پور افغاناں، بھاٹی افغاناں اور بُستان افغاناں انھی قدیم افغانیوں کی آل اولاد کے بسائے گئے مقامات ہیں جو رفتہ رفتہ مقامی لوگوں میں رَچ بَس گئے اور پھر انھوں نے افغانستان واپس جانے سے انکار کردیا؛ چنانچہ اس پس منظر میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر صدیوں قبل حملہ آور افغانوں کی باقیات نے شکر گڑھ سے واپس اپنے ملک جانے سے انکار کردیا تھا تو جنرل ضیاء الحق کے دَور میں پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کیوں اور کیونکر واپس افغانستان جائیں گے؟ کہ پاکستان تو افغان مہاجرین کے لیے جنت سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔
اور جنت بھلا کون تیاگتا ہے؟ مجھے میرے بعض شکر گڑھی دوستوں اور واقف کاروں نے بتایا ہے کہ شکر گڑھ میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہوچکے ہیں اور اب ان مہاجر افغانیوں کا پنجابی لہجہ سن کر کوئی مقامی شخص بھی پہچان نہیں سکتا کہ وہ شکر گڑھ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ انھیں اب کون اور کیسے نکالے گا؟ ہاں مقامی انتظامیہ کی اعانت اور مقامی شکر گڑھیوں کی خفیہ مدد سے یہ مشکل مہم انجام دی جاسکتی ہے۔ یہ ہمت مگر کرے گا کون اور کب کرے گا؟
حکومتِ پاکستان اور پاکستانیوں کی اکثریت تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو باعزت واپس افغانستان بھیجنا چاہتی ہے۔ پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے متعلقہ ذمے داران پر بھی اپنا عندیہ واضح کردیا ہے۔ اس عالمی ادارے کی سفارش پر ہمارے حکمرانوں نے مہربانی کرکے افغان مہاجرین کو مزید چھ ماہ تک (دسمبر 2016ء) پاکستان میں رہنے کی اجازت دے دی ہے۔ افغان مہاجرین مگر واپس جانے سے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ اکڑ بھی رہے ہیں اور پاکستان کو افغانستان کی طرف سے دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔
ایک وفاقی وزیر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں دس لاکھ افغان مہاجرین نے ہماری ملازمتوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے ایک مقتدر دوست، جس کے درجن بھر رشتہ دار بلوچستان حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، نے افغانستان کے ایک انگریزی اخبار کو افغان مہاجرین کے حق میں جو انٹرویو دیا ہے، اس نے حالات مزید دگرگوں کردیے ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے خرابی ہوگی۔ افغانوں کا شیوا رہا ہے کہ وہ جب ایکبار افغانستان سے نکل آتے ہیں تو بمشکل ہی واپس اپنے وطن جاتے ہیں۔
قدیم افغانوں کی پاکستان میں ایک بڑی نشانی ہمیں حسن ابدال (پنجاب کے ضلع اٹک) میں نظر آتی ہے جو اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ افغانی جب ایک بار افغانستان سے نکل آتے ہیں تو پھر دوبارہ اپنے وطن کا رُخ نہیں کرتے۔ ایک سادہ سی بات یہ بھی ہے کہ افغانستان میں ہوتا کیا ہے کہ وہاں سے نکلنے کے بعد دوبارہ اس طرف کا رخ کیا جائے؟ صدیوں قبل بھی یہی حالت تھی اور حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ حسن ابدال میں تین اہم مقامات ہیں: اوّل، شاندار اور پُر شکوہ حسن ابدال کیڈٹ کالج جسے پاکستان کا پہلا باقاعدہ کیڈٹ کالج ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دوم، گُردوارہ پنجہ صاحب جو سکھوں کا دوسرا مقدس ترین مذہبی مقام کہلاتا ہے۔ سوم، صُوفی بزرگ پیر ولی قندھاری صاحب کا مزار شریف۔ اسی مزار اور مقبرے کو ہم حسن ابدال میں قدیم افغانوں کی اہم نشانی قرار دیتے ہیں۔یہ پیر صاحب افغانستان کے مشہور شہر قندھار سے یہاں آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
پیر قندھاری صاحب پندرھویں صدی عیسوی کے اواخر میں حسن ابدال آئے تھے۔ شہنشاہ جہانگیر نے اپنی خود نوشت ''تزکِ جہانگیری'' میں بھی پیر ولی قندھاری اور ان سے منسوب جاری ہونے والے پانی کے دو چشموں کا ذکر بڑے والہانہ اور عقیدت مندانہ اندازمیں کیا ہے۔ ایک انگریز سیاح نے بھی اپنے رپورتاژ میں(حسن ابدال کیڈٹ کالج کے سامنے واقع) سات سو میٹر بلند پہاڑی کی چوٹی پر واقع پیر ولی قندھاری کا ذکر کیا ہے۔ اگر افغانستان سے تعلق رکھنے والے درویش اپنے وطن واپس نہیں جاسکے تو آج کے دنیا دار افغان مہاجرین سے یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ وہ پاکستان چھوڑ کر افغانستان واپس چلے جائیں گے۔ پنجاب ہی کی ایک تحصیل، ٹیکسلا، کا ایک مشہور علاقہ، گڑھی افغاناں، بھی زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ افغانستان سے باہر نکلنے والے دوبارہ کبھی افغانستان نہیں جاتے۔
افغانوں کے حملوں، لوٹ مار، غارتگری اور خونریزی کی نہایت خوںرنگ کہانی، مختصر انداز میں، پروفیسر عزیز الدین احمد صاحب نے ''پنجاب اور بیرونی حملہ آور'' کے عنوان سے مرتب کی ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ افغانوں کی جنوبی ایشیا سے نفرت اس شکل میں بھی برقرار رہی کہ 47ء میں پاکستان بنا تو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو سب سے آخر میں تسلیم کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کا قاتل (سید اکبر) بھی افغانی تھا۔ اور یہ پھر پاکستان ہی تھا جس نے 80ء کے عشرے میں پانچ ملین کے قریب اُجڑے افغان مہاجرین کو سینے سے لگایا مگر ساڑھے تین عشروں کی میزبانی کے صلے میں ہمیں آج انھی افغان مہاجرین اور افغانستان سے کیا مل رہا ہے؟ سازشیں، گالیاں، جاسوس، پاکستان دشمنی میں بھارت کی طرف افغانوں کا جھکاؤ اور بم دھماکے!!
صدیوں پرانے افغانوں کی باقیات اور افغانستان کے ''زندہ نشانات'' ہمیں شکر گڑھ میں بھی ملتے ہیں۔ شکر گڑھ، پاکستان کی آخری، دور افتادہ اور پسماندہ ترین تحصیل ہے۔ کابل اور شکر گڑھ کے درمیان تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ حائل ہے۔ تو پھر بھلا شکر گڑھ میں قدیم افغانوں اور افغانستان کے نشانات کیوں اور کیسے؟ لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہاں کم از کم تین مقامات ایسے ہیں جو ہمیں پرانے افغانستان اور افغانوں کی یاد دلاتے ہیں: فتح پور افغاناں، بھاٹی افغاناں اور بُستان افغاناں!! ''فتح پور افغاناں'' تحصیل شکر گڑھ کا مشہور گاؤں ہے جو یہاں کے ایک مرکزی قصبے (نُور کوٹ) سے متصل ہی واقع ہے۔ شنید ہے یہ گاؤں اپنی رزم آرائیوں کی وجہ سے ایک مخصوص شہرت کا حامل ہے۔ ''بھاٹی افغاناں'' نامی گاؤں شکر گڑھ شہر کے مشرق میں واقع ہے۔
یہاں کے مشہور برساتی نالے، نالہ بئیں، کو عبور کرتے ہی یہ گاؤں آتا ہے اور یہ مسلم لیگ نون کے مشہور رکنِ قومی اسمبلی جناب دانیال عزیز کے حلقے میں شامل ہے۔ جناب دانیال عزیز اور ان کے مشہور سیاستدان اور بزرگ والدِ گرامی، چوہدری انور عزیز، کا ڈیرہ بھی ''بھاٹی افغاناں'' گاؤں سے قریب ایک جنگل میں واقع ہے۔ اور کسی زمانے میں ''بُستان افغاناں'' شکر گڑھ تحصیل کا معروف ریلوے اسٹیشن ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ اجڑ پجڑ چکا ہے کہ نارووال سے چک امرو جانے والی ریلوے لائن ہی برباد اور غیر فعال ہوچکی ہے۔ ان تینوں مذکورہ بالا مقامات کا تعلق آج کے افغانستان اور افغانوں سے ہر گز نہیں ہے لیکن یہاں کے لوگ اب بھی خود کو ''فخرِ افاغنہ'' کہلاتے ہیں۔ صدیوں قبل لُوٹ مار کرتے ہوئے اور جنگی جارحیت کا ارتکاب کرتے افغان جرنیل اور ان کی فوجیں شکر گڑھ سے گزری ہوں گی اور ان کے کچھ فوجی تھک ہار کر یہاں رک گئے ہوں گے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فتح پور افغاناں، بھاٹی افغاناں اور بُستان افغاناں انھی قدیم افغانیوں کی آل اولاد کے بسائے گئے مقامات ہیں جو رفتہ رفتہ مقامی لوگوں میں رَچ بَس گئے اور پھر انھوں نے افغانستان واپس جانے سے انکار کردیا؛ چنانچہ اس پس منظر میں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر صدیوں قبل حملہ آور افغانوں کی باقیات نے شکر گڑھ سے واپس اپنے ملک جانے سے انکار کردیا تھا تو جنرل ضیاء الحق کے دَور میں پاکستان آنے والے افغان مہاجرین کیوں اور کیونکر واپس افغانستان جائیں گے؟ کہ پاکستان تو افغان مہاجرین کے لیے جنت سے کسی بھی طرح کم نہیں ہے۔
اور جنت بھلا کون تیاگتا ہے؟ مجھے میرے بعض شکر گڑھی دوستوں اور واقف کاروں نے بتایا ہے کہ شکر گڑھ میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں افغان مہاجرین آباد ہوچکے ہیں اور اب ان مہاجر افغانیوں کا پنجابی لہجہ سن کر کوئی مقامی شخص بھی پہچان نہیں سکتا کہ وہ شکر گڑھ سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔ انھیں اب کون اور کیسے نکالے گا؟ ہاں مقامی انتظامیہ کی اعانت اور مقامی شکر گڑھیوں کی خفیہ مدد سے یہ مشکل مہم انجام دی جاسکتی ہے۔ یہ ہمت مگر کرے گا کون اور کب کرے گا؟