ترکی حیاتِ نو

صدر اردگان نے اپنے عرصہ اقتدار میں عوام کو جو کچھ مہیا کیا ہے اس کا پاکستان میں تصور تک محال ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

PRAGUE:
ترکی میں ناکام بغاوت پر قابو پانے کے بعد صدر رجب طیب اردگان نے تین ماہ کے لیے ملک بھر میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا ہے تاکہ حکومت بغاوت کو مکمل طور پر کچل سکے اور باغیوں و غداروں کو نشان عبرت بنا سکے، اس ضمن میں وسیع پیمانے پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، آپریشن کلین اپ جاری ہے اور اب تک ہزاروں گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی ہیں۔

جو لوگ ترکی اور پاکستان کا سیاسی و عسکری اور ملکی و قومی اعتبار سے موازنہ کر رہے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ دونوں اگرچہ برادر ملک ہیں تاہم دونوں کے زمینی حقائق میں واضح فرق اور حالات حاضرہ بالکل برعکس ہیں۔ طیب اردگان مسلسل تیسری بار ترکی پر حکمرانی کر رہے ہیں، وہ 2002ء سے 2014ء تک تین بار ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور پھر وہ ترکی کے صدر بھی منتخب ہو گئے۔

یہ کامیابی ان کی ترکی میں ہر دلعزیز ہونے کی واضح علامت ہے اور یہ اعزاز انھیں ایسے ہی نہیں مل گیا، اس کے پیچھے ایک جہد مسلسل ہے، خالص قومی و ملکی خدمت اور معیشت کا عظیم استحکام ہے، آئی ایم ایف کے سارے قرضے مکمل طور چکا دیے گئے ہیں، بدعنوانی کا خاتمہ کیا جا چکا ہے، امن و انصاف کا قیام و حصول یقینی بنا دیا گیا ہے، تعلیم و صحت کی مثالی سہولتیں عوام کو فراہم کی گئی ہیں۔

صدر اردگان نے اپنے عرصہ اقتدار میں عوام کو جو کچھ مہیا کیا ہے اس کا پاکستان میں تصور تک محال ہے۔ ہمارے ملک میں مسلم لیگ (ن) بھی تیسری بار اقتدار کی کرسی پر براجمان ہے اور اب تو وہ آزاد جموں و کشمیر کا انتخاب بھی حیرت انگیز طور پر بڑے پیمانے پر جیت گئی ہے، تاہم میاں صاحب کے گزشتہ دو ادوار بدقسمتی سے اپنی مدت تک مکمل نہیں کر سکے، جب کہ حالیہ حکومت کا دور مدت بھی چہ میگوئیوں کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 7 اگست سے حکومت مخالف تحریک چلانے کا اعلان کر چکے ہیں اور اکثر حلقوں میں غالب گمان آج بھی یہی پایا جاتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی ہو کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کر پائے۔ کوئی کسی اسکینڈل کی آڑ میں اس حکومت کے خاتمے کا خواہش مند ہے تو کوئی فوج کی آمد کا خواہاں و آرزو مند۔

بہرحال افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس حقیقت سے انکار بھی سچ سے منہ موڑنے والی بات ہے کہ ہمارے ملک میں جب بھی فوج آئی تو عوام نے بلاشبہ مٹھائیاں تقسیم کی ہیں اور فوجی ادوار میں ملکی ترقی مجموعی طور پر مختلف شعبوں میں کارکردگی کے اعتبار سے بہتر بھی رہی، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ مارشل لا کی حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ لینا چاہیے کہ جمہوری حکومتیں اپنے ادوار میں اپنا قبلہ درست رکھیں، خالص عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائیں، جمہوری اقدار اور جمہوری طرز حکمرانی کو اس قدر موثر و مفید بنائیں کہ ملک میں کبھی مارشل لا کی راہ ہموار ہی نہ ہونے پائے اور جمہور درحقیقت جمہوریت ہی میں عافیت جانیں۔


اچھی جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوام کو باآسانی تمام بنیادی سہولیات زندگی میسر ہوں، معیشت کا استحکام اولین ترجیح ہو، خصوصاً آئی ایم ایف کے مسلسل بڑھتے قرضوں سے ملک و قوم کی جان چھڑائی جائے، ملک سے بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کیا جائے، غربت، بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پایا جائے، افراط زر کو کنٹرول کیا جائے۔ لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج تک اس درجے کا اسپتال تک وجود میں نہ آ سکا جہاں حکمراں اپنا علاج ہی کروا سکیں، بڑی ہو یا چھوٹی ہر بیماری کے علاج کے لیے وہ بیرون ملک بھاگتے اور بھاری اخراجات کرتے ہیں۔ حکمراں عوام سے بالاتر نہیں، یہ فرق ختم ہونا چاہیے۔

ترکی میں ناکام بغاوت کے آغاز سے اختتام تک جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ ترکی میں ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے جس کی مثال دنیا میں ملنا محال ہے۔ یہ ترکی تاریخ میں عہد حاضر کا سب سے سنہری باب ہے، جب ترکی کو گویا حیات نو ملی اور پوری قوم نے متحد و منظم ہو کر اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی شورشوں کا منہ توڑ جواب دے کر اپنی مکمل بیداری کا پکا ثبوت دے کر اندرونی و بیرونی مخالفین اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں، ریاکاریوں، دھوکا بازیوں اور دغا بازیوں کو منہ چڑا دیا۔ پاکستان کا ترکی سے اور صدر طیب اردگان کا میاں نواز شریف سے بھلا کیا مقابلہ؟

صدر طیب اردگان نے اپنے ملک و قوم کی جو سب سے عظیم خدمت کی وہ یہ کہ انھوں نے ترکی میں اسلامی روایات اور ورثے کو نئی زندگی بخشی، مذہبی آزادی اور شعائر اسلام کی پابندی کو رواج دیا تو لوگ ان کے شیدائی اور متوالے بن گئے۔ کمال اتاترک نے اسلام مخالف پالیسیوں کو ترکی میں رائج کر دیا تھا اور عوام کو اسلام سے بہت دور کر دیا تھا، ترکی میں سیکولرازم کا یہ عالم تھا کہ فوجیوں پر روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے پر بھی پابندی عائد تھی، کوئی خاتون چادر یا دوپٹہ نہیں اوڑھ سکتی تھی، ترکی پر یورپ کے بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے، یہاں عربی زبان کے پڑھنے پڑھانے نیز عربی میں اذان دینے تک پر پابندی عائد تھی لیکن صدر طیب اردگان نے اپنے ملک و قوم کو دوبارہ اسلام کے قریب جانے کا موقع فراہم کیا۔

ان بہترین اور مثالی اقدامات پر عوام ان کے قریب لیکن اسلام دشمن عناصر اور قوتیں ان سے دور ہو گئیں اور ان مخالف قوتوں نے صدر طیب اردگان کو مرسی، قذافی، صدام حسین بنانے کی سازش رچائی، لیکن یہ دشمن قوتیں ہار گئیں اور جمہوریت اور جمہور کی جیت ہوئی۔ امریکا میں مقیم جلاوطن فتح اللہ گولن کا کاندھا استعمال نہ ہو سکا اور ترکی نے امریکا سے بغاوت کے محرک فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کر کے گویا واضح کر دیا کہ اس سازش کے تانے بانے کس ملک میں بنے جا رہے ہیں اور بے وفائی و غداری کے ڈانڈے کہاں سے جاملتے ہیں؟

بہرحال ترکی میں بغاوت کی ناکامی اور ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد تطہیر کا عمل تیزی سے جاری ہے، بڑے پیمانے پر تبدیلیاں عمل میں لائی جا رہی ہیں، سیاسی، عسکری اور عوامی حلقوں کی تنظیم نو ہو رہی ہے، چن چن کر باغیوں اور غداروں کو قانون کے دائرے میں لانے اور عبرت ناک سزائیں دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور ایمرجنسی کے نفاذ پر غیر ملکی تنقید کو ترکی سختی سے رد کر چکا ہے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، ہمارے غیور عوام بھی ترکی کی قوم سے کسی طور پیچھے نہیں، فقدان ہے تو صرف طیب اردگان جیسی طاقتور، ذہین و فطین، زیرک لیڈرشپ کا جو قوم کا ہمدرد، غمخوار بھی ہو اور ایماندار و دیانتدار بھی، ورنہ ہماری مثالی قوم کا تو وہ جذبہ ہے کہ ہم دشمن کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شہادتوں کو گلے لگانے کی عظیم تاریخ ترکی سے بہت پہلے 1965ء ہی میں رقم کر چکے ہیں۔ ایک عظیم اور یادگار فتح کی تاریخ۔ جسے تاشقند کی سیاسی میز پر ہم نے شکست میں بدل دیا۔ ترکی اس اعتبار سے بھی پاکستان سے مختلف ہے۔
Load Next Story