فخر پاکستان ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی
سلیم الزماں نے یونیورسٹی کالج لندن میں داخلہ لیا لیکن جلد ہی فرینکفرٹ چلےگئےاوروہیں سےنامیاتی کیمیا میں پی ایچ ڈی کیا
یہ تاثر عام ہے کہ سائنس ایک خشک مضمون ہے اور سائنسداں بھی خشک مزاج ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی شخصیت اس عام خیال کے بالکل اُلٹ ثابت ہوئی۔
اس تاثر کی مکمل نفی نہیں تو کی جاسکتی لیکن چند ایک ایسے سائنسداں ضرور گزرے ہیں جو ایک ہی وقت میں سائنس کے علاوہ شاعری اور مصوری وغیرہ میں بھی ماہر تھے۔ ایسے ہی ایک عظیم سائنسداں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی تھے۔
سائنس کی بات ہو تو ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کیمیا کے میدان میں ایسی اعلیٰ پائے کی تحقیق کی کہ ''فیلو آف رائل سوسائٹی'' (ایف آر ایس) منتخب ہوئے، یہ اعزاز اب تک گنتی کے چند پاکستانی سائنسدانوں ہی کو حاصل ہوسکا ہے۔ مصوری کی بات کریں تو بقول خود ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم، ''اپنی زندگی کی پہلی کمائی میں نے تصویروں کی نمائش سے حاصل کی۔'' شاعری کا تذکرہ نکلے تو غالب، حافظ اور مشہور جرمن شاعر رلکے تک پر اتھارٹی تصور کئے جاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے جرمن شاعری کے اردو تراجم کئے، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مجلے میں شائع ہوئے، علاوہ ازیں انہوں نے سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس، کراچی کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 2013ء میں بزمِ سائنسی ادب نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر مبسوط کتاب ''امتزاج'' شائع کی جس میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے ان ہی پہلوؤں کا تفصیلی احوال پیش کیا گیا تھا۔
اسی کتاب میں ڈاکٹر قاضی عبدالقادر کے حوالے سے یہ واقعہ درج ہے کہ احباب کے درمیان رقص کی کسی خاص طرز کے بارے میں بحث چھڑ گئی تو ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اس طرز کا عملی مظاہرہ کرکے اپنی بات واضح کی۔
ابتدائی حالات
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر 1897 کو لکھنؤ کے علاقے بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق وہاں کے ایک نواب گھرانے سے تھا اور تحریکِ پاکستان کے مشہور رہنما، چوہدری خلیق الزماں آپ کے بڑے بھائی تھے۔ ابتداء میں انہیں سائنس کا کچھ خاص شوق نہ تھا بلکہ ادب، شاعری اور مصوری جیسے فنونِ لطیفہ ان کے مرکزِ توجہ تھے؛ جس کی وجہ گھر کا ماحول تھا۔لکھنؤ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ آگئے اور ایم اے او کالج سے 1919ء میں گریجویشن کیا۔ یہ کالج بعد ازاں علی گڑھ یونیورسٹی بنا۔
یورپ روانگی اور ہندوستان واپسی
مزید اعلیٰ تعلیم کی غرض سے آپ اگلے ہی سال لندن چلے گئے جہاں یونیورسٹی کالج لندن میں داخلہ لیا لیکن یہاں زیادہ عرصے قیام نہ کیا اور جلد ہی فرینکفرٹ، جرمنی چلے گئے؛ اور وہیں سے نامیاتی کیمیا میں اپنا پی ایچ ڈی 1927ء میں مکمل کیا۔
اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا: ''اس انتخاب کا سبب یہ تھا کہ میرے جرمنی کے قیام کے دوران حکیم اجمل خان کسی وفد کے ساتھ یورپ گئے۔ یہ 1921ء کا ذکر ہے، میں اِن سے ملا تو یہ طے پایا کہ میں اپنی تعلیم اِس عنوان سے انجام دوں کہ طبیہ کالج میں ایک تحقیقی ادارہ قائم کرسکوں،میں نے حکیم اجمل خان کے کہنے پر الکلائیڈ پر کام کرنا پسند کیا۔
جرمنی میں اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب نے اپنی دوسری شادی ایک جرمن خاتون سے کی جب کہ کم عمری ہی میں آپ کی پہلی شادی لکھنؤ میں شاکرہ نامی خاتون سے ہوچکی تھی۔ سائنس سے پیشہ ورانہ تعلق ہوجانے کے باوجود بھی ڈاکٹر صاحب کا رجحان فنِ مصوری کی طرف مائل رہا، پی ایچ ڈی کرتے دوران آپ کی تصویروں کی دو نمائشیں ہوئیں، جن سے مناسب آمدنی بھی ہوئی۔
ہندوستان واپس آئے تو حکیم اجمل خاں مرحوم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے دہلی میں طبیہ کالج کے تحت 1931ء میں ایک طبّی تحقیقی تجربہ گاہ قائم کی جس کا مقصد طبّ یونانی اور آیورویدک طریقہ علاج پر جدید سائنسی بنیادوں پر کام کرنا تھا۔
1940ء میں ڈاکٹر صاحب نے کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) ہندوستان میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔
پاکستان آمد
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد سی ایس آئی آر انڈیا کی کچھ ٹوٹی پھوٹی تجربہ گاہیں پاکستان کے حصے میں آئیں اور یہ ادارہ ''پی سی ایس آئی آر'' (پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ) سے معنوِن ہوا۔ لیکن یہاں ایسا کوئی سائنسداں نہیں تھا جو اتنے بڑے تحقیقی ادارے کو درست طور پر منظم کرسکتا۔
ایسے میں نگاہِ انتخاب ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی پر پڑی جو اُس وقت تک سی ایس آئی آر انڈیا کے سربراہ تھے۔ شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان کی درخواست پر ڈاکٹر صاحب پاکستان آگئے اور 1951ء میں یہاں آتے ہی انہوں نے پی سی ایس آئی آر کی ذمہ داری سنبھال لی جس کا مرکز کراچی میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی سربراہی میں اس ادارے نے خوب ترقی کی اور کراچی کے علاوہ لاہور، پشاور، ڈھاکا، راج شاہی اور چٹاگانگ اس کی تجربہ گاہیں خوب سے خوب تر بنائی گئیں۔ 1961ء میں، جب ''پاکستان نیشنل سائنس کونسل'' قائم ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کو اس کا پہلا چیئرمین منتخب کیاگیا؛ اور یوں ان پر بہ یک وقت دو اداروں کی ذمہ داری آن پڑی۔
تحقیق و ترقی کے ساتھ ساتھ پی سی ایس آئی آر نے 1964ء میں سائنس سے عوامی آگہی کی غرض سے تین سہ ماہی جرائد بھی شروع کئے: سائنس کرونیکلز (انگلش)، وگیان پرگتی (بنگالی)، اور کاروانِ سائنس (اردو)۔ ان تینوں جرائد کا اجراء، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی ذاتی دلچسپی کا نتیجہ تھا۔
ایچ ای جے کا قیام
1966ء میں ڈاکٹر صاحب کو اچانک ہی، بغیر کوئی وجہ بتائے، پی سی ایس آئی آر اور پاکستان نیشنل سائنس کونسل سے برطرف کردیا گیا۔ لیکن اگلے ہی روز ڈاکٹر محمود حسین اور ڈاکٹر افضال حسین قادری کی درخواست پر انہوں نے جامعہ کراچی میں ''پوسٹ گریجویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری'' کی داغ بیل ڈالی جو شعبہ کیمیا میں دو کمروں پر مشتمل تھا۔
یہی وہ ادارہ تھا جو 1976ء میں ''حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری'' (ایچ ای جے) بنا؛ اور آج جامعہ کراچی کے ''انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیالوجیکل سائنسز'' (آئی سی سی بی ایس) کے اہم ترین جزو کا درجہ رکھتا ہے۔ ایچ ای جے سے ڈاکٹر صاحب کی وابستگی اپنے مرتے دم تک برقرار رہی۔
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے ساری زندگی کوئی باقاعدہ ملازمت نہیں کی۔ سی ایس آئی آر انڈیا سے لے کر ایچ ای جے تک، وہ ہمیشہ معاہدے (کنٹریکٹ) پر ہی ملازم رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے اعتراف میں جامعہ کراچی نے انہیں اسٹاف ٹاؤن کے ایک مکان میں مستقل رہائش فراہم کردی تھی۔ اگرچہ حکومتِ پاکستان نے بھی ان کےلئے 5 ہزار روپے ماہانہ کا اعزازیہ مقرر کردیا تھا لیکن 1993ء میں یہ اعزازیہ بند کردیا گیا۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا انتقال 96 برس کی عمر میں، 14 اپریل 1994ء کے روز جامعہ کراچی میں اپنی قیام گاہ پر ہوا؛ اور وہ جامعہ کراچی ہی میں سپردِ خاک ہوئے۔
اسے پاکستانی صحافت کا المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی وفات پر اردو کے سب سے بڑے اخبار نے اندرونی صفحات پر صرف دو کالمی خبر شائع کی جب کہ پاکستان کے سب سے معتبر انگریزی اخبار نے قدرے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی بارے میں 3 کالمی خبر شائع کی۔
نئی نسل اور قابلیت کا پیمانہ
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے ایک طرف پاکستان میں سائنس کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا تو دوسری جانب نوجوان سائنسی ماہرین کی تازہ دم کھیپ تیار کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔
ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی، ڈاکٹر وقار الدین احمد، ڈاکٹر ظفر حسنین زیدی مرحوم اور پاکستانی و عالمی سائنس میں نہ جانے ایسے کتنے ہی بڑے نام ہیں جو ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے براہِ راست شاگرد رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان اگرچہ کبھی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے شاگرد نہیں رہے، لیکن ڈاکٹر صدیقی انہیں اپنی زندگی کی ''اہم ترین دریافت'' قرار دیتے تھے۔
یہ بات اس لئے بھی درست ہے کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر عطاء الرحمان کی قابلیت اسی وقت جانچ لی تھی جب وہ پہلی بار ڈاکٹر صدیقی کے پاس ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے ملنے آئے تھے۔ بعد ازاں ڈاکٹر صدیقی ہی نے، صرف اور صرف قابلیت کی بنیاد پر، ڈاکٹر عطاء الرحمان کو ایچ ای جے کا ڈائریکٹر مقرر کیا؛ اور یوں ترقی کےلئے تجربے (سنیارٹی) کے بجائے قابلیت کا ایک ایسا پیمانہ مقرر کیا جو کم از کم ایچ ای جے میں آج تک رائج ہے۔ یہ معیار شاید آج تک کسی دوسرے پاکستانی تحقیقی ادارے میں موجود نہیں۔
سائنسی تحقیق
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا شمار''نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری'' کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ تاہم راولفیا سرپنٹینا (Rauvolfia serpentina) اور نیم پر تحقیق کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی خصوصی دلچسپی کے موضوعات میں شامل رکھا۔ راولفیا سے، جسے مقامی طور پر ''سرپاگندھا'' بھی کہتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے ''اجملین'' کے نام سے ایک دوا بھی تیار کی، جس کا مقصد دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کو قابو میں لانا ہے۔
پی سی ایس آئی آر میں ڈاکٹر صاحب کے زیرِ نگرانی متعدد نئے مرکبات اور صنعتی طریقہ ہائے کار (انڈسٹریل پروسیسز) وضع کرکے پیٹنٹ بھی کرائے؛ لیکن سوائے انمٹ مقناطیسی روشنائی کے، حکومتِ پاکستان ان کامیابیوں سے موزوں فائدہ نہیں اٹھاسکی۔
نیم کے حوالے سے ایچ ای جے میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی گروپ بے حد فعال رہا جس نے نیم کے پتوں، پھل، چھال اور جڑوں تک پر تحقیق کی اور پچاس سے زائد مفید مرکبات دریافت کرکے پیٹنٹ بھی کروائے۔ یہ مرکبات مختلف الاقسام جرثوموں، وائرسوں، پھپھوندیوں اور کیڑے مکوڑوں (حشرات) کے خلاف مؤثر پائے گئے ہیں۔
اعزازات و اعترافات
اس تاثر کی مکمل نفی نہیں تو کی جاسکتی لیکن چند ایک ایسے سائنسداں ضرور گزرے ہیں جو ایک ہی وقت میں سائنس کے علاوہ شاعری اور مصوری وغیرہ میں بھی ماہر تھے۔ ایسے ہی ایک عظیم سائنسداں ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی تھے۔
سائنس کی بات ہو تو ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کیمیا کے میدان میں ایسی اعلیٰ پائے کی تحقیق کی کہ ''فیلو آف رائل سوسائٹی'' (ایف آر ایس) منتخب ہوئے، یہ اعزاز اب تک گنتی کے چند پاکستانی سائنسدانوں ہی کو حاصل ہوسکا ہے۔ مصوری کی بات کریں تو بقول خود ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم، ''اپنی زندگی کی پہلی کمائی میں نے تصویروں کی نمائش سے حاصل کی۔'' شاعری کا تذکرہ نکلے تو غالب، حافظ اور مشہور جرمن شاعر رلکے تک پر اتھارٹی تصور کئے جاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے جرمن شاعری کے اردو تراجم کئے، جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مجلے میں شائع ہوئے، علاوہ ازیں انہوں نے سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹس، کراچی کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 2013ء میں بزمِ سائنسی ادب نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر مبسوط کتاب ''امتزاج'' شائع کی جس میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے ان ہی پہلوؤں کا تفصیلی احوال پیش کیا گیا تھا۔
اسی کتاب میں ڈاکٹر قاضی عبدالقادر کے حوالے سے یہ واقعہ درج ہے کہ احباب کے درمیان رقص کی کسی خاص طرز کے بارے میں بحث چھڑ گئی تو ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اس طرز کا عملی مظاہرہ کرکے اپنی بات واضح کی۔
ابتدائی حالات
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر 1897 کو لکھنؤ کے علاقے بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق وہاں کے ایک نواب گھرانے سے تھا اور تحریکِ پاکستان کے مشہور رہنما، چوہدری خلیق الزماں آپ کے بڑے بھائی تھے۔ ابتداء میں انہیں سائنس کا کچھ خاص شوق نہ تھا بلکہ ادب، شاعری اور مصوری جیسے فنونِ لطیفہ ان کے مرکزِ توجہ تھے؛ جس کی وجہ گھر کا ماحول تھا۔لکھنؤ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ آگئے اور ایم اے او کالج سے 1919ء میں گریجویشن کیا۔ یہ کالج بعد ازاں علی گڑھ یونیورسٹی بنا۔
یورپ روانگی اور ہندوستان واپسی
مزید اعلیٰ تعلیم کی غرض سے آپ اگلے ہی سال لندن چلے گئے جہاں یونیورسٹی کالج لندن میں داخلہ لیا لیکن یہاں زیادہ عرصے قیام نہ کیا اور جلد ہی فرینکفرٹ، جرمنی چلے گئے؛ اور وہیں سے نامیاتی کیمیا میں اپنا پی ایچ ڈی 1927ء میں مکمل کیا۔
اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے ایک انٹرویو میں بتایا: ''اس انتخاب کا سبب یہ تھا کہ میرے جرمنی کے قیام کے دوران حکیم اجمل خان کسی وفد کے ساتھ یورپ گئے۔ یہ 1921ء کا ذکر ہے، میں اِن سے ملا تو یہ طے پایا کہ میں اپنی تعلیم اِس عنوان سے انجام دوں کہ طبیہ کالج میں ایک تحقیقی ادارہ قائم کرسکوں،میں نے حکیم اجمل خان کے کہنے پر الکلائیڈ پر کام کرنا پسند کیا۔
جرمنی میں اپنے قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب نے اپنی دوسری شادی ایک جرمن خاتون سے کی جب کہ کم عمری ہی میں آپ کی پہلی شادی لکھنؤ میں شاکرہ نامی خاتون سے ہوچکی تھی۔ سائنس سے پیشہ ورانہ تعلق ہوجانے کے باوجود بھی ڈاکٹر صاحب کا رجحان فنِ مصوری کی طرف مائل رہا، پی ایچ ڈی کرتے دوران آپ کی تصویروں کی دو نمائشیں ہوئیں، جن سے مناسب آمدنی بھی ہوئی۔
ہندوستان واپس آئے تو حکیم اجمل خاں مرحوم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے دہلی میں طبیہ کالج کے تحت 1931ء میں ایک طبّی تحقیقی تجربہ گاہ قائم کی جس کا مقصد طبّ یونانی اور آیورویدک طریقہ علاج پر جدید سائنسی بنیادوں پر کام کرنا تھا۔
1940ء میں ڈاکٹر صاحب نے کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) ہندوستان میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔
پاکستان آمد
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد سی ایس آئی آر انڈیا کی کچھ ٹوٹی پھوٹی تجربہ گاہیں پاکستان کے حصے میں آئیں اور یہ ادارہ ''پی سی ایس آئی آر'' (پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ) سے معنوِن ہوا۔ لیکن یہاں ایسا کوئی سائنسداں نہیں تھا جو اتنے بڑے تحقیقی ادارے کو درست طور پر منظم کرسکتا۔
ایسے میں نگاہِ انتخاب ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی پر پڑی جو اُس وقت تک سی ایس آئی آر انڈیا کے سربراہ تھے۔ شہیدِ ملّت خان لیاقت علی خان کی درخواست پر ڈاکٹر صاحب پاکستان آگئے اور 1951ء میں یہاں آتے ہی انہوں نے پی سی ایس آئی آر کی ذمہ داری سنبھال لی جس کا مرکز کراچی میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی سربراہی میں اس ادارے نے خوب ترقی کی اور کراچی کے علاوہ لاہور، پشاور، ڈھاکا، راج شاہی اور چٹاگانگ اس کی تجربہ گاہیں خوب سے خوب تر بنائی گئیں۔ 1961ء میں، جب ''پاکستان نیشنل سائنس کونسل'' قائم ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کو اس کا پہلا چیئرمین منتخب کیاگیا؛ اور یوں ان پر بہ یک وقت دو اداروں کی ذمہ داری آن پڑی۔
تحقیق و ترقی کے ساتھ ساتھ پی سی ایس آئی آر نے 1964ء میں سائنس سے عوامی آگہی کی غرض سے تین سہ ماہی جرائد بھی شروع کئے: سائنس کرونیکلز (انگلش)، وگیان پرگتی (بنگالی)، اور کاروانِ سائنس (اردو)۔ ان تینوں جرائد کا اجراء، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی ذاتی دلچسپی کا نتیجہ تھا۔
ایچ ای جے کا قیام
1966ء میں ڈاکٹر صاحب کو اچانک ہی، بغیر کوئی وجہ بتائے، پی سی ایس آئی آر اور پاکستان نیشنل سائنس کونسل سے برطرف کردیا گیا۔ لیکن اگلے ہی روز ڈاکٹر محمود حسین اور ڈاکٹر افضال حسین قادری کی درخواست پر انہوں نے جامعہ کراچی میں ''پوسٹ گریجویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری'' کی داغ بیل ڈالی جو شعبہ کیمیا میں دو کمروں پر مشتمل تھا۔
یہی وہ ادارہ تھا جو 1976ء میں ''حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری'' (ایچ ای جے) بنا؛ اور آج جامعہ کراچی کے ''انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیالوجیکل سائنسز'' (آئی سی سی بی ایس) کے اہم ترین جزو کا درجہ رکھتا ہے۔ ایچ ای جے سے ڈاکٹر صاحب کی وابستگی اپنے مرتے دم تک برقرار رہی۔
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے ساری زندگی کوئی باقاعدہ ملازمت نہیں کی۔ سی ایس آئی آر انڈیا سے لے کر ایچ ای جے تک، وہ ہمیشہ معاہدے (کنٹریکٹ) پر ہی ملازم رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے اعتراف میں جامعہ کراچی نے انہیں اسٹاف ٹاؤن کے ایک مکان میں مستقل رہائش فراہم کردی تھی۔ اگرچہ حکومتِ پاکستان نے بھی ان کےلئے 5 ہزار روپے ماہانہ کا اعزازیہ مقرر کردیا تھا لیکن 1993ء میں یہ اعزازیہ بند کردیا گیا۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا انتقال 96 برس کی عمر میں، 14 اپریل 1994ء کے روز جامعہ کراچی میں اپنی قیام گاہ پر ہوا؛ اور وہ جامعہ کراچی ہی میں سپردِ خاک ہوئے۔
اسے پاکستانی صحافت کا المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی وفات پر اردو کے سب سے بڑے اخبار نے اندرونی صفحات پر صرف دو کالمی خبر شائع کی جب کہ پاکستان کے سب سے معتبر انگریزی اخبار نے قدرے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی بارے میں 3 کالمی خبر شائع کی۔
نئی نسل اور قابلیت کا پیمانہ
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے ایک طرف پاکستان میں سائنس کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا تو دوسری جانب نوجوان سائنسی ماہرین کی تازہ دم کھیپ تیار کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔
ڈاکٹر بینا شاہین صدیقی، ڈاکٹر وقار الدین احمد، ڈاکٹر ظفر حسنین زیدی مرحوم اور پاکستانی و عالمی سائنس میں نہ جانے ایسے کتنے ہی بڑے نام ہیں جو ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے براہِ راست شاگرد رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمان اگرچہ کبھی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے شاگرد نہیں رہے، لیکن ڈاکٹر صدیقی انہیں اپنی زندگی کی ''اہم ترین دریافت'' قرار دیتے تھے۔
یہ بات اس لئے بھی درست ہے کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر عطاء الرحمان کی قابلیت اسی وقت جانچ لی تھی جب وہ پہلی بار ڈاکٹر صدیقی کے پاس ایک نوجوان طالب علم کی حیثیت سے ملنے آئے تھے۔ بعد ازاں ڈاکٹر صدیقی ہی نے، صرف اور صرف قابلیت کی بنیاد پر، ڈاکٹر عطاء الرحمان کو ایچ ای جے کا ڈائریکٹر مقرر کیا؛ اور یوں ترقی کےلئے تجربے (سنیارٹی) کے بجائے قابلیت کا ایک ایسا پیمانہ مقرر کیا جو کم از کم ایچ ای جے میں آج تک رائج ہے۔ یہ معیار شاید آج تک کسی دوسرے پاکستانی تحقیقی ادارے میں موجود نہیں۔
سائنسی تحقیق
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا شمار''نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری'' کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ تاہم راولفیا سرپنٹینا (Rauvolfia serpentina) اور نیم پر تحقیق کو ڈاکٹر صاحب نے اپنی خصوصی دلچسپی کے موضوعات میں شامل رکھا۔ راولفیا سے، جسے مقامی طور پر ''سرپاگندھا'' بھی کہتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے ''اجملین'' کے نام سے ایک دوا بھی تیار کی، جس کا مقصد دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کو قابو میں لانا ہے۔
پی سی ایس آئی آر میں ڈاکٹر صاحب کے زیرِ نگرانی متعدد نئے مرکبات اور صنعتی طریقہ ہائے کار (انڈسٹریل پروسیسز) وضع کرکے پیٹنٹ بھی کرائے؛ لیکن سوائے انمٹ مقناطیسی روشنائی کے، حکومتِ پاکستان ان کامیابیوں سے موزوں فائدہ نہیں اٹھاسکی۔
نیم کے حوالے سے ایچ ای جے میں ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی گروپ بے حد فعال رہا جس نے نیم کے پتوں، پھل، چھال اور جڑوں تک پر تحقیق کی اور پچاس سے زائد مفید مرکبات دریافت کرکے پیٹنٹ بھی کروائے۔ یہ مرکبات مختلف الاقسام جرثوموں، وائرسوں، پھپھوندیوں اور کیڑے مکوڑوں (حشرات) کے خلاف مؤثر پائے گئے ہیں۔
اعزازات و اعترافات
- 1946ء: برطانوی حکومت کی جانب سے اعزازِ کمال (آرڈر آف دی برٹش ایمپائر)
- 1953ء: پاکستان اکیڈمی آف سائنس کے ''فیلو'' بنائے گئے
- 1956ء: ممبر ٹیکنیکل، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن
- 1958ء: تمغۂ پاکستان
- 1961ء:''فیلو آف رائل سوسائٹی'' (ایف آر ایس)؛ یہ اعزاز اب تک گنتی کے چند پاکستانی سائنسدانوں کو حاصل ہوسکا ہے
- 1962ء: ستارۂ امتیاز، حکومتِ پاکستان
- 1964ء: سوویت اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے سونے کا تمغہ
- 1964ء: ممبر، ویٹی کن اکیڈمی آف سائنسز
- 1966ء: صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، حکومتِ پاکستان
- 1967ء: لیڈز یونیورسٹی، برطانیہ سے اعزازی ڈاکٹریٹ
- 1967ء: جامعہ کراچی سے اعزازی ڈاکٹریٹ
- 1980ء: ہلالِ امتیاز، حکومتِ پاکستان
- 1983ء: بانی رُکن، تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز (TWAS)
- 1999ء: پانچویں برسی پر محکمہ ڈاک، حکومتِ پاکستان کی جانب سے یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجراء