وقت کاقافلہ
ساتھ بیٹھا شخص خاصا رعب دارتھا ۔ لمبی سفیدداڑھی اورماتھے پرمحراب کانشان۔
ساتھ بیٹھا شخص خاصا رعب دارتھا ۔ لمبی سفیدداڑھی اورماتھے پرمحراب کانشان۔ سادہ کُرتے شلوارمیں ملبوس کون تھا۔میرے لیے سوال تھا۔ذہن میں سوچناشروع کیا کہ ہو نہ ہو بزرگ اپنے کسی چھوٹے بھائی کے ساتھ کھانے پر آیا ہوگا۔ دعوت، ڈویژنل پبلک اسکول لائل پور(فیصل آباد)کے ایک ہم جماعت نے دی تھی۔پرانے دوست بلکہ بہت ہی زیادہ پرانے ۔ لاہورمیں مقیم تمام احباب شامل تھے اور زاہد اسلم لائل پورسے آیاہوا تھا۔مجبورہوکر میزبان سے پوچھاکہ شیخ قیصرنہیں آیا۔اس نے جواب دیا، تمہارے ساتھ شیخ قیصر توبیٹھاہواہے۔میں حیران رہ گیا۔قیصر اتنا بوڑھا کیسے ہوگیا۔اپنے سوال کاخودہی ذہن سے جواب آیاکہ تم بھی توبوڑھے ہوچکے ہو۔
قیصر سے ملاقات چاردہائیوں کے بعدہوئی۔انتہائی کامیاب کاروباری شخص ہے۔ چھ ٹیکسٹائل ملوں کا مالک۔ مزاج وہی بچپن کا۔انتہائی سادہ انسان۔چالیس سال کی برف یک دم پگھل گئی۔تمام بزرگ،بچے بن گئے۔ پانچویں یاچھٹی کلاس کے طالبعلم۔ایسے لگاکہ اپنے اسکول میں بیٹھے ہیں۔بیٹھے بیٹھے زندگی گزرگئی، پتہ ہی نہیں چلا۔ انجم گلزار بلا کا مہمان نواز ہے۔اسے صرف موقع چاہیے، تمام دوستوں کواکٹھاکرنے کا۔یہ فن اسے ورثہ میں ملا ہے۔ خیرضیافت میں ایسے ایسے پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی جن کوذہن تقریباًفراموش کرچکاتھا۔لیکن زاہداسلم ان میں سے نہیں۔ وہ اسکول دور سے ہی لیڈرٹائپ کا طالبعلم تھا۔ مگر سیاسی نہ ہی سماجی لیڈر۔مگر لیڈرضرورتھا۔ہم جماعت ہونے کے علاوہ جناح کالونی کامکین تھا۔ والد،اسلم صاحب،مقامی سیاست میں فعال تھے۔
مگر توجہ کے ساتھ کاروبارکرنے والے تاجر۔زاہداسلم بھی لائل پورمیں کامیاب ترین کاروباری شخص ہے۔چیمبرکاصدربھی رہا ہے۔مگرمیں جس زاہدکوجانتاہوں،اسے بہت کم لوگ پہنچانتے ہیں۔ دس بارہ برس پہلے لائل پورمیں سرراہے ملاقات ہوئی توپرانی سی گاڑی چلارہاتھا، غضب کی گرمی میں اے۔سی کے بغیر۔ اتنی سادگی بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔بلکہ اکثر لوگوں کے پاس سادگی جیسی بڑی دولت ہوتی ہی نہیں۔جیسے ہی کوئی شخص امیر ہوتا ہے، بڑی گاڑی، بڑاگھراورذاتی محافظوں کی قطار۔مگرزاہد اکیلاپھرتا ہے۔ پرانے لوگ اسی طرح کے ہیں۔
جتنا کامیاب ہے،اتناہی خاموش ہے۔ آج کے نودولتیے غریبوں کامذاق اُڑانا حق سمجھتے ہیں۔ آپکو اشاروں کنایوں میں بتادیتے ہیں کہ ان کے پاس نئے ماڈل کی لینڈکروزر ہے اور ایکڑوں پرمحیط فارم ہاؤس میں رہتے ہیں۔ لوگ اپنی نیکی اورپارسائی کوبھی ہرجگہ کیش کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ لائل پورکوفیصل آبادکیوں لکھتا ہوں۔اس لیے کہ میرے لیے فیصل آباد قدرے اجنبی شہرہے مگرلائل پورکے ساتھ جڑاہوا انسان ہوں۔بتایاجاتاہے کہ سعودی فرنرواشاہ فیصل کی شہادت پرلائل پورکانام تبدیل کیاگیا۔شروع میں توپورانام شاہ فیصل آبادلکھاگیا۔نام کی تختیاں کئی بسوں کی پیشانی پر آویزاں ہوتی تھیں۔ پھر سرکاری اختصارکی خاطرشاہ کالفظ ہٹادیاگیا۔عجیب بات ہے کہ طاقتورلوگ زندگی کے سفرکے اختتام پربھی کمزورطبقے کی اصل شناخت تک تبدیل کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ میری نظرمیں دنیامیں تقسیم صرف اور صرف ایک بنیاد پر ہے۔
کون کمزورہے اورکون طاقت کے گھوڑے پر سوار ہے۔ مذہب کی بنیادپرتقسیم دیکھتاہوں تو سوال ذہن میں آتاہے کہ مغربی دنیا میں جاتے ہی تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکرکیسے ہوجاتے ہیں۔لندن میں کسی بھی دیسی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے کوئی نہیں پوچھتا کہ اس کا باورچی مسلمان ہے، ہندوہے، سکھ ہے یا عیسائی۔ سب کھاناکھاکرروانہ ہوجاتے ہیں۔نیویارک میں اسٹور سے ضرورت کی چیزیں خریدتے ہوئے، کمپنی کے لوگوں کا مذہب کوئی دریافت نہیںکرتا ۔یہ بھی نہیں پوچھتاکہ اسٹور کا مالک کون سے دین سے تعلق رکھتا ہے۔کاؤنٹرپرکون کھڑا ہے۔آجکل سیکولر اور مذہبی تفریق پربحث شدت سے جاری ہے۔دونوں طرف دلائل کے انبارہیں۔سوال ہے کہ کیا مذہبی انسان اپنے ذاتی رویہ میں سیکولرنہیں ہوسکتا۔ کیا سیکولر آدمی پانچ وقت نمازنہیں پڑھ سکتا۔تاریخی اعتبارسے انسانی تقسیم کی بنیاد ضعف اور طاقت کے فلسفہ پرہے۔انسانوں کو کسی اور بنیاد پر جانچنا مشکل سے مشکل ترہوچکا ہے۔لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں مذہبی تقسیم اور اسے بڑھاوادینے والے تجارتی ذہن رکھتے ہیں۔
کہاوتیں اور قدیم لوریاں سناکرلوگوں کوسوال کرنے کی طاقت سے ہی محروم کیا جا چکا ہے۔ہم سے اصل نکتہ چھپایا جارہا ہے۔ مبالغہ کی بنیاد پر ہمارے ذہن برباد کیے جارہے ہیں۔ خیر اس سنجیدہ موضوع کوکسی اوروقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ میرا اصل موضوع لائل پور، اپنا اسکول اور پرانے ہم جماعت ہیں۔ اسکول میں جاوید بھی میراہم جماعت تھا۔ڈاکٹربن کر لائل پورکے نزدیک اپناکلینک چلارہاہے۔چاردہائیوں میں اس سے صرف دوباربات ہوئی۔اس درجہ شرارتی اور ذہین طالبعلم تھاکہ خداکی پناہ۔ آج بھی اس کی ایک حرکت یاد ہے۔کلاس میں ٹیچربلیک بورڈ پرلکھنے میں مصروف تھے۔ ان کی پشت کلاس کی جانب تھی۔جیسے ہی استادمحترم کچھ لکھنا شروع کرتے،جاوید اگلی سیٹ سے ہماری طرف منہ کرکے اتنی مزاحیہ شکل بنالیتاتھاکہ بچے ہنس ہنس کرپاگل ہوجاتے تھے۔شورسن کرجیسے ہی استادکلاس کی طرف مڑتے تھے۔ جاویدانتہائی انہماک سے بلیک بورڈکی طرف دیکھناشروع کردیتا تھا۔
استاداس سے پوچھتے تھے کہ کیاہوا۔سارے کیوں ہنس رہے ہیں۔جاوید معصومانہ شکل بناکرجواب دیتا کہ اسے کچھ نہیں پتہ۔اسکول میں ایک عجیب ساالیکشن ہوتاتھا۔ہماری کلاس سے ایک مستقل امیدوارالیکشن لڑتا تھا۔یہ کس چیزکاالیکشن تھایہ بالکل بے معنی تھا۔مگرہماری جماعت کاایک امیدوار بالکل مستعداورمستقل تھا۔ شارق۔ الیکشن سے کچھ دن پہلے ایک کالے رنگ کا بریف کیس اسکول لاتا تھا۔ڈبہ سے اپنے نام کاکارڈنکالتاتھااور تقسیم کرنا شروع کرتا تھا۔درسگاہ میں مشہورتھاکہ ہرالیکشن میں ناکام ہونا شارق کے لیے اسی طرح لازم تھا،جس طرح ہوم ورک کرنا یا کلاس میں پڑھنا۔جس مسلسل استقامت سے شارق ہر الیکشن میں کھڑا ہوتا تھا، یہ اپنی جگہ پرایک کارنامہ تھا۔ شارق،الیکشن اور ہار تقریباً لازم وملزوم ہوچکے تھے۔
ہم ہر بار بغیرمانگے ووٹ دیتے تھے اور نتیجہ کاانتظارکیے بغیرواپس چلے جاتے تھے۔نتیجہ سب کو پہلے ہی سے معلوم ہوتا تھا۔ حدتویہ تھی کہ اگلے دن شارق بغیرکسی ترددکے آرام سے کلاس میں بیٹھاہوتا تھااورہم جیسے ووٹراس سے رسمی سا افسوس تک نہیں کرتے تھے ۔عجیب زندگی تھی۔سچے اور ایماندار جذبے سے معمور۔اب پیچھے مڑ کر دیکھتاہوں تو لگتا ہے کہ آج کی زندگی اصل ہے یا بچپن کا زمانہ ۔میرے پاس اس درجہ مشکل سوال کاکوئی جواب نہیں۔
کلاس میں ایک طالبعلم تھا۔اسکارنگ گندمی سے بھی گہراتھا۔ایک بچہ کہنے لگاکہ اس نے موبل آئل دیکھا تھا۔ وہ بھی سیاہی مائل تھا۔اس مخصوص وقت سے اس بچہ کا نام موبل آئل پڑگیا۔پھربگڑکرموبل لائٹ بن گیا۔ پھرکسی منچلے نے اس کے ساتھ کرنل کالفظ لگادیا۔چنانچہ اب وہ پورے اسکول کے لیے کرنل موبل لائٹ تھا۔ موبل لائٹ تمام بچوں کو فخر سے اپنا نیانام بتاتاتھا۔موبل لائٹ کہاں ہے، مجھے بالکل نہیں معلوم۔ میرے لیے وہ جہاں بھی ہے جس حال میں بھی ہے،ہنستا مسکراتا کرنل موبل لائٹ ہے۔ خدا اسے خوش وخرم رکھے۔
بریک یاآدھی چھٹی کے وقت اسکول کی کینٹین پرکافی رش ہوجاتاتھا۔چارآنے کی کوکاکولاکی بوتل اوردوآنے کا سموسہ۔یعنی چھ آنے میں ایک پوری تفریح۔کسی بھی بچے کے پاس آٹھ آنے سے زیادہ نہیں ہوتے تھے۔عجیب سی کینٹین تھی۔ہجوم،آوازوںاورکھانے کی چیزوں سے بھرپور۔ بریک میں ہی گراؤنڈمیںمٹی کے چبوترے کے اردگردکمال کی جنگ ہوتی تھی۔زاہداورشکیل چبوترے پر قبضہ کرلیتے تھے اورباقی چھڑوانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ کافی غیرمہذب قسم کاوقت ہوتاتھاکیونکہ اب ہم سارے بابے ہیں،کئی تواتنے باریش ہیں کہ انھیں پہچاناہی نہیں جا سکتا،لہذا اس بریک کی تمام گفتگوکالم ضبط تحریرنہیں کر سکتا۔ یہ کھیل ہفتے میں چارپانچ بارہوتاتھا۔گھنٹی کی آواز پرختم ہوکر کلاسوں کی طرف بھاگناشروع کردیتے تھے۔ کلاس میں جاکرایسے لگتاتھاکہ شائد بریک ہوئی ہی نہیں!
میرے سامنے پڑے ہوئے کافی کے گرم کپ سے دھواں نکل رہاہے۔اس لکیرکوغورسے دیکھ رہا ہوں۔ لگتاہے کہ وقت،دھواں اوربچپن سب کچھ آپس میں تحلیل ہوگئے ہیں۔معلوم ہوتاہے کوئی خواب تھا۔شائد میں کبھی اسکول گیاہی نہیں!
قیصر سے ملاقات چاردہائیوں کے بعدہوئی۔انتہائی کامیاب کاروباری شخص ہے۔ چھ ٹیکسٹائل ملوں کا مالک۔ مزاج وہی بچپن کا۔انتہائی سادہ انسان۔چالیس سال کی برف یک دم پگھل گئی۔تمام بزرگ،بچے بن گئے۔ پانچویں یاچھٹی کلاس کے طالبعلم۔ایسے لگاکہ اپنے اسکول میں بیٹھے ہیں۔بیٹھے بیٹھے زندگی گزرگئی، پتہ ہی نہیں چلا۔ انجم گلزار بلا کا مہمان نواز ہے۔اسے صرف موقع چاہیے، تمام دوستوں کواکٹھاکرنے کا۔یہ فن اسے ورثہ میں ملا ہے۔ خیرضیافت میں ایسے ایسے پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی جن کوذہن تقریباًفراموش کرچکاتھا۔لیکن زاہداسلم ان میں سے نہیں۔ وہ اسکول دور سے ہی لیڈرٹائپ کا طالبعلم تھا۔ مگر سیاسی نہ ہی سماجی لیڈر۔مگر لیڈرضرورتھا۔ہم جماعت ہونے کے علاوہ جناح کالونی کامکین تھا۔ والد،اسلم صاحب،مقامی سیاست میں فعال تھے۔
مگر توجہ کے ساتھ کاروبارکرنے والے تاجر۔زاہداسلم بھی لائل پورمیں کامیاب ترین کاروباری شخص ہے۔چیمبرکاصدربھی رہا ہے۔مگرمیں جس زاہدکوجانتاہوں،اسے بہت کم لوگ پہنچانتے ہیں۔ دس بارہ برس پہلے لائل پورمیں سرراہے ملاقات ہوئی توپرانی سی گاڑی چلارہاتھا، غضب کی گرمی میں اے۔سی کے بغیر۔ اتنی سادگی بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔بلکہ اکثر لوگوں کے پاس سادگی جیسی بڑی دولت ہوتی ہی نہیں۔جیسے ہی کوئی شخص امیر ہوتا ہے، بڑی گاڑی، بڑاگھراورذاتی محافظوں کی قطار۔مگرزاہد اکیلاپھرتا ہے۔ پرانے لوگ اسی طرح کے ہیں۔
جتنا کامیاب ہے،اتناہی خاموش ہے۔ آج کے نودولتیے غریبوں کامذاق اُڑانا حق سمجھتے ہیں۔ آپکو اشاروں کنایوں میں بتادیتے ہیں کہ ان کے پاس نئے ماڈل کی لینڈکروزر ہے اور ایکڑوں پرمحیط فارم ہاؤس میں رہتے ہیں۔ لوگ اپنی نیکی اورپارسائی کوبھی ہرجگہ کیش کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ لائل پورکوفیصل آبادکیوں لکھتا ہوں۔اس لیے کہ میرے لیے فیصل آباد قدرے اجنبی شہرہے مگرلائل پورکے ساتھ جڑاہوا انسان ہوں۔بتایاجاتاہے کہ سعودی فرنرواشاہ فیصل کی شہادت پرلائل پورکانام تبدیل کیاگیا۔شروع میں توپورانام شاہ فیصل آبادلکھاگیا۔نام کی تختیاں کئی بسوں کی پیشانی پر آویزاں ہوتی تھیں۔ پھر سرکاری اختصارکی خاطرشاہ کالفظ ہٹادیاگیا۔عجیب بات ہے کہ طاقتورلوگ زندگی کے سفرکے اختتام پربھی کمزورطبقے کی اصل شناخت تک تبدیل کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ میری نظرمیں دنیامیں تقسیم صرف اور صرف ایک بنیاد پر ہے۔
کون کمزورہے اورکون طاقت کے گھوڑے پر سوار ہے۔ مذہب کی بنیادپرتقسیم دیکھتاہوں تو سوال ذہن میں آتاہے کہ مغربی دنیا میں جاتے ہی تمام مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکرکیسے ہوجاتے ہیں۔لندن میں کسی بھی دیسی ہوٹل میں کھانا کھاتے ہوئے کوئی نہیں پوچھتا کہ اس کا باورچی مسلمان ہے، ہندوہے، سکھ ہے یا عیسائی۔ سب کھاناکھاکرروانہ ہوجاتے ہیں۔نیویارک میں اسٹور سے ضرورت کی چیزیں خریدتے ہوئے، کمپنی کے لوگوں کا مذہب کوئی دریافت نہیںکرتا ۔یہ بھی نہیں پوچھتاکہ اسٹور کا مالک کون سے دین سے تعلق رکھتا ہے۔کاؤنٹرپرکون کھڑا ہے۔آجکل سیکولر اور مذہبی تفریق پربحث شدت سے جاری ہے۔دونوں طرف دلائل کے انبارہیں۔سوال ہے کہ کیا مذہبی انسان اپنے ذاتی رویہ میں سیکولرنہیں ہوسکتا۔ کیا سیکولر آدمی پانچ وقت نمازنہیں پڑھ سکتا۔تاریخی اعتبارسے انسانی تقسیم کی بنیاد ضعف اور طاقت کے فلسفہ پرہے۔انسانوں کو کسی اور بنیاد پر جانچنا مشکل سے مشکل ترہوچکا ہے۔لیکن ہمارے جیسے ملکوں میں مذہبی تقسیم اور اسے بڑھاوادینے والے تجارتی ذہن رکھتے ہیں۔
کہاوتیں اور قدیم لوریاں سناکرلوگوں کوسوال کرنے کی طاقت سے ہی محروم کیا جا چکا ہے۔ہم سے اصل نکتہ چھپایا جارہا ہے۔ مبالغہ کی بنیاد پر ہمارے ذہن برباد کیے جارہے ہیں۔ خیر اس سنجیدہ موضوع کوکسی اوروقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ میرا اصل موضوع لائل پور، اپنا اسکول اور پرانے ہم جماعت ہیں۔ اسکول میں جاوید بھی میراہم جماعت تھا۔ڈاکٹربن کر لائل پورکے نزدیک اپناکلینک چلارہاہے۔چاردہائیوں میں اس سے صرف دوباربات ہوئی۔اس درجہ شرارتی اور ذہین طالبعلم تھاکہ خداکی پناہ۔ آج بھی اس کی ایک حرکت یاد ہے۔کلاس میں ٹیچربلیک بورڈ پرلکھنے میں مصروف تھے۔ ان کی پشت کلاس کی جانب تھی۔جیسے ہی استادمحترم کچھ لکھنا شروع کرتے،جاوید اگلی سیٹ سے ہماری طرف منہ کرکے اتنی مزاحیہ شکل بنالیتاتھاکہ بچے ہنس ہنس کرپاگل ہوجاتے تھے۔شورسن کرجیسے ہی استادکلاس کی طرف مڑتے تھے۔ جاویدانتہائی انہماک سے بلیک بورڈکی طرف دیکھناشروع کردیتا تھا۔
استاداس سے پوچھتے تھے کہ کیاہوا۔سارے کیوں ہنس رہے ہیں۔جاوید معصومانہ شکل بناکرجواب دیتا کہ اسے کچھ نہیں پتہ۔اسکول میں ایک عجیب ساالیکشن ہوتاتھا۔ہماری کلاس سے ایک مستقل امیدوارالیکشن لڑتا تھا۔یہ کس چیزکاالیکشن تھایہ بالکل بے معنی تھا۔مگرہماری جماعت کاایک امیدوار بالکل مستعداورمستقل تھا۔ شارق۔ الیکشن سے کچھ دن پہلے ایک کالے رنگ کا بریف کیس اسکول لاتا تھا۔ڈبہ سے اپنے نام کاکارڈنکالتاتھااور تقسیم کرنا شروع کرتا تھا۔درسگاہ میں مشہورتھاکہ ہرالیکشن میں ناکام ہونا شارق کے لیے اسی طرح لازم تھا،جس طرح ہوم ورک کرنا یا کلاس میں پڑھنا۔جس مسلسل استقامت سے شارق ہر الیکشن میں کھڑا ہوتا تھا، یہ اپنی جگہ پرایک کارنامہ تھا۔ شارق،الیکشن اور ہار تقریباً لازم وملزوم ہوچکے تھے۔
ہم ہر بار بغیرمانگے ووٹ دیتے تھے اور نتیجہ کاانتظارکیے بغیرواپس چلے جاتے تھے۔نتیجہ سب کو پہلے ہی سے معلوم ہوتا تھا۔ حدتویہ تھی کہ اگلے دن شارق بغیرکسی ترددکے آرام سے کلاس میں بیٹھاہوتا تھااورہم جیسے ووٹراس سے رسمی سا افسوس تک نہیں کرتے تھے ۔عجیب زندگی تھی۔سچے اور ایماندار جذبے سے معمور۔اب پیچھے مڑ کر دیکھتاہوں تو لگتا ہے کہ آج کی زندگی اصل ہے یا بچپن کا زمانہ ۔میرے پاس اس درجہ مشکل سوال کاکوئی جواب نہیں۔
کلاس میں ایک طالبعلم تھا۔اسکارنگ گندمی سے بھی گہراتھا۔ایک بچہ کہنے لگاکہ اس نے موبل آئل دیکھا تھا۔ وہ بھی سیاہی مائل تھا۔اس مخصوص وقت سے اس بچہ کا نام موبل آئل پڑگیا۔پھربگڑکرموبل لائٹ بن گیا۔ پھرکسی منچلے نے اس کے ساتھ کرنل کالفظ لگادیا۔چنانچہ اب وہ پورے اسکول کے لیے کرنل موبل لائٹ تھا۔ موبل لائٹ تمام بچوں کو فخر سے اپنا نیانام بتاتاتھا۔موبل لائٹ کہاں ہے، مجھے بالکل نہیں معلوم۔ میرے لیے وہ جہاں بھی ہے جس حال میں بھی ہے،ہنستا مسکراتا کرنل موبل لائٹ ہے۔ خدا اسے خوش وخرم رکھے۔
بریک یاآدھی چھٹی کے وقت اسکول کی کینٹین پرکافی رش ہوجاتاتھا۔چارآنے کی کوکاکولاکی بوتل اوردوآنے کا سموسہ۔یعنی چھ آنے میں ایک پوری تفریح۔کسی بھی بچے کے پاس آٹھ آنے سے زیادہ نہیں ہوتے تھے۔عجیب سی کینٹین تھی۔ہجوم،آوازوںاورکھانے کی چیزوں سے بھرپور۔ بریک میں ہی گراؤنڈمیںمٹی کے چبوترے کے اردگردکمال کی جنگ ہوتی تھی۔زاہداورشکیل چبوترے پر قبضہ کرلیتے تھے اورباقی چھڑوانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ کافی غیرمہذب قسم کاوقت ہوتاتھاکیونکہ اب ہم سارے بابے ہیں،کئی تواتنے باریش ہیں کہ انھیں پہچاناہی نہیں جا سکتا،لہذا اس بریک کی تمام گفتگوکالم ضبط تحریرنہیں کر سکتا۔ یہ کھیل ہفتے میں چارپانچ بارہوتاتھا۔گھنٹی کی آواز پرختم ہوکر کلاسوں کی طرف بھاگناشروع کردیتے تھے۔ کلاس میں جاکرایسے لگتاتھاکہ شائد بریک ہوئی ہی نہیں!
میرے سامنے پڑے ہوئے کافی کے گرم کپ سے دھواں نکل رہاہے۔اس لکیرکوغورسے دیکھ رہا ہوں۔ لگتاہے کہ وقت،دھواں اوربچپن سب کچھ آپس میں تحلیل ہوگئے ہیں۔معلوم ہوتاہے کوئی خواب تھا۔شائد میں کبھی اسکول گیاہی نہیں!