مسائل سے دوچار پولیس کا احوال
شہر قائد میں2771 شہریوں کے لیے صرف ایک پولیس اہلکار تعینات ہے۔ ایسی صورت میں یہ کیسے مکمل سیکورٹی فراہم کرسکتے ہیں؟
QUETTA:
کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد سے ان کے شعبے سے متعلق پوچھا جائے تو کم و بیش ایک ہی قسم کا جواب سُننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ
دور کیوں جائیں؟ شعبہ صحافت کو ہی لے لیجئے۔ یہاں کوئی صحافی کسی دوسرے شخص کو کبھی صحافی بننے کا مشورہ نہیں دیتا۔
لیکن دیگر شعبوں کے برعکس سیکورٹی اداروں کے معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ اگرچہ وہاں بھی کم تنخواہوں یا ڈیوٹی کی سختی کا مسئلہ ہے لیکن وہاں موجود لوگوں کے خاص جذبے کے وجہ یہ مسائل کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ آج ہمارا مقصد محکمہ پولیس کے حوالے سے بات کرنا ہے۔
ہم میں اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ یہ تو پورا ادارہ ہی کرپٹ ہے، یہاں کوئی اچھا کام ہوتا ہی نہیں، اور منفی خیالات کی ایک لمبی فہرست ہے جو ہم پولیس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن سچ بتائیے کہ کیا کبھی آپ نے یہ کوشش کی کہ اِس ادارے میں موجود اہلکاروں کی کارکردگی اور اِن کی قربانیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں؟ یہ وہ اہلکار ہے جو کم آمدنی ملنے کے باوجود بھی 12 گھنٹے سے زائد سڑکوں پر ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں۔ پھر چاہے شدید گرمی یا شدید سردی ہی کیوں نہ ہو، دہشتگردی کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔
پولیس کا نام آتے ہی ذہن میں دو خیالات ضرور گردش کرتے ہیں۔ یعنی 'بے چاری پولیس' اور 'کرپٹ پولیس'، اور سچ پوچھا جائے تو اِس شعبے میں بے چارگی کا عالم چھایا ہوا ہے۔ کیونکہ پولیس اہلکار عید تہوار پر اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر ہمارے سکون، آرام اور حفاظت کے لئے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ یہ حضرات اس اہم دن میں بھی مساجد و امام بارگاہ کے باہر لوگوں کی حفاظت مامور کھڑے نظر آتے ہیں، اور دوسری طرف ہم ہیں جو اُن کی خدمات کو سراہنے کے بجائے اُن کے عید ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
کمال بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے سبب ہزاروں جوان جان سے چلے گئے، لیکن اِن مشکل ترین حالات کے باوجود آج بھی پولیس اہلکاروں کے جذبے غیر متزلزل نہیں ہوئے اور تمام تر مشکلات کے باوجود یہ اب بھی ہماری حفاظت کے لیے کمر بستہ ہیں۔ جتنی تنخواہیں ہمارے پولیس اہلکاروں کو ملتی ہے، اتنی کمائی تو وہ کوئی اور کام کرکے باآسانی کرسکتے ہیں، لیکن جناب معاملہ صرف پیسہ کمانے کا ہرگز نہیں، بلکہ اگر آج بھی پولیس اہلکار مشکل ترین حالات میں بھی حفاظتی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں تو اُس کے پیچھے خاص جذبہ ہے جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔
یہ بھی بہرحال ایک حقیقت ہے کہ ہر ادارے میں صرف اچھے لوگ نہیں ہوتے، اور پولیس کا شعبہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جنہوں نے پورے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اِس کی تازہ مثال حال ہی میں ہونے والی نیب کی کارروائی ہے جس کے تحت ایک سابق آئی جی سمیت 70 افسران و اہلکاروں کو ایک ارب چالیس کروڑ کی کرپشن کے الزام میں نامزد کیا تھا جبکہ دوسری طرف سندھ پولیس نے خود سپریم کورٹ کے روبرو 3400 سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں کے جرائم میں ملوث ہونے کا اعترف کیا تھا۔ ان تمام اہلکاروں پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، گینگ وار کی حمایت اور مجرمانہ سرگرمیوں کی سرپرستی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات تھے مگر 2 ہزار اہلکاروں کے خلاف ثبوت نہ ہونے کی بناء پر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی جبکہ 1400 اہلکاروں کو معمولی سزائیں ہوئی۔
ایک دوسری رپورٹ جو سامنے آئی ہے اس کے مطابق 100 سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں پر مشتمل ایک گروہ ہے جو اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے۔ یہ گروہ خوشحال اور امیر گھرانوں کے نوجوانوں کو کسی نہ کسی بہانے گرفتار کرکے بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ایسے جرائم کی بڑی وجہ پولیس محکمے میں موجود وہ اعلی افسران ہیں جو نئے جوانوں کی بھرتی پر بھاری بھرکم رشوت وصول کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے بھاری پیسوں سے خریدی گئی نوکری یا مخصوص پوسٹ والے اہلکار کی دلچسپی امن و امان قائم کرنے کی بجائے رشوت میں دی گئی رقم کو بھرپور کرپشن کے ذریعے پوری کرنے میں لگی ہوتی ہے۔
لیکن یہ سب حقائق بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اِس حقیقت کو ماننے سے بہرحال ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کرپٹ لوگ ہیں، وہاں کرپشن ہوتی ہے، لیکن اِن کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اگر پورا ادارہ کرپٹ ہوتا تو ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ معاملہ کس قدر خراب ہوتا۔ آج بھی آپ کو سڑکوں پر ایسے اہلکار ملیں گے جو رشوت لینے سے انکار کردیتے ہیں، جو مشکل کے وقت آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
ہماری پولیس کے حوالے سے ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی پولیس قانون کے مطابق 450 شہریوں کیلئے ایک پولیس اہلکار درکار ہوتا ہے، لیکن دو کروڑ سے زائد آبادی کے اس شہر میں صرف 26,647 پولیس اہلکار کی تعداد سامنے آئی ہے، اِس سے بھی حیران کن امر یہ ہے کہ عوامی سیکورٹی کے لیے صرف 14,433 اہلکار دستیاب ہیں جس کی بنیادی وجہ وی آئی پی سیکورٹی ہے۔ اب ان 14,433 اہلکاروں کو دو شفٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، یعنی ایک وقت میں دو کروڑ لوگوں کیلئے 7,216 پولیس اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔ اِس پوری صورتحال میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ شہر قائد میں 2771.6 شہریوں کے لیے صرف ایک پولیس اہلکار تعینات ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں یہ بیچارے تمام شہریوں کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟
اِس لیے نئے وزیراعلی مراد علی شاہ کی آمد کے بعد ہم نہ صرف اُمید کرتے ہیں بلکہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ پولیس کے لیے خاص اقدامات کریں۔ ان کے لیے اصلاحات بھی کریں، ان کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اُن کی تربیت کا آغاز بھی کریں اور سب سے اہم بات یہ کہ یہاں سے سیاسی بھرتیوں اور مداخلت کا خاتمہ کریں۔ اگر یہ کام ہوگیا تو پورا یقین ہے کہ پولیس کے حوالے سے لوگوں میں منفی خیالات بتدریج ختم ہوجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد سے ان کے شعبے سے متعلق پوچھا جائے تو کم و بیش ایک ہی قسم کا جواب سُننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ
''ارے میاں یہ سب سے بُرا اور سراسر گھاٹے کا سودا ہے''۔
دور کیوں جائیں؟ شعبہ صحافت کو ہی لے لیجئے۔ یہاں کوئی صحافی کسی دوسرے شخص کو کبھی صحافی بننے کا مشورہ نہیں دیتا۔
لیکن دیگر شعبوں کے برعکس سیکورٹی اداروں کے معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ اگرچہ وہاں بھی کم تنخواہوں یا ڈیوٹی کی سختی کا مسئلہ ہے لیکن وہاں موجود لوگوں کے خاص جذبے کے وجہ یہ مسائل کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ آج ہمارا مقصد محکمہ پولیس کے حوالے سے بات کرنا ہے۔
ہم میں اکثریت کا یہ ماننا ہے کہ یہ تو پورا ادارہ ہی کرپٹ ہے، یہاں کوئی اچھا کام ہوتا ہی نہیں، اور منفی خیالات کی ایک لمبی فہرست ہے جو ہم پولیس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن سچ بتائیے کہ کیا کبھی آپ نے یہ کوشش کی کہ اِس ادارے میں موجود اہلکاروں کی کارکردگی اور اِن کی قربانیوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں؟ یہ وہ اہلکار ہے جو کم آمدنی ملنے کے باوجود بھی 12 گھنٹے سے زائد سڑکوں پر ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں۔ پھر چاہے شدید گرمی یا شدید سردی ہی کیوں نہ ہو، دہشتگردی کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔
پولیس کا نام آتے ہی ذہن میں دو خیالات ضرور گردش کرتے ہیں۔ یعنی 'بے چاری پولیس' اور 'کرپٹ پولیس'، اور سچ پوچھا جائے تو اِس شعبے میں بے چارگی کا عالم چھایا ہوا ہے۔ کیونکہ پولیس اہلکار عید تہوار پر اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر ہمارے سکون، آرام اور حفاظت کے لئے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ یہ حضرات اس اہم دن میں بھی مساجد و امام بارگاہ کے باہر لوگوں کی حفاظت مامور کھڑے نظر آتے ہیں، اور دوسری طرف ہم ہیں جو اُن کی خدمات کو سراہنے کے بجائے اُن کے عید ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
کمال بات تو یہ ہے کہ دہشت گردی کے سبب ہزاروں جوان جان سے چلے گئے، لیکن اِن مشکل ترین حالات کے باوجود آج بھی پولیس اہلکاروں کے جذبے غیر متزلزل نہیں ہوئے اور تمام تر مشکلات کے باوجود یہ اب بھی ہماری حفاظت کے لیے کمر بستہ ہیں۔ جتنی تنخواہیں ہمارے پولیس اہلکاروں کو ملتی ہے، اتنی کمائی تو وہ کوئی اور کام کرکے باآسانی کرسکتے ہیں، لیکن جناب معاملہ صرف پیسہ کمانے کا ہرگز نہیں، بلکہ اگر آج بھی پولیس اہلکار مشکل ترین حالات میں بھی حفاظتی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں تو اُس کے پیچھے خاص جذبہ ہے جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔
یہ بھی بہرحال ایک حقیقت ہے کہ ہر ادارے میں صرف اچھے لوگ نہیں ہوتے، اور پولیس کا شعبہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسی کالی بھیڑیں موجود ہیں جنہوں نے پورے شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ اِس کی تازہ مثال حال ہی میں ہونے والی نیب کی کارروائی ہے جس کے تحت ایک سابق آئی جی سمیت 70 افسران و اہلکاروں کو ایک ارب چالیس کروڑ کی کرپشن کے الزام میں نامزد کیا تھا جبکہ دوسری طرف سندھ پولیس نے خود سپریم کورٹ کے روبرو 3400 سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں کے جرائم میں ملوث ہونے کا اعترف کیا تھا۔ ان تمام اہلکاروں پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، گینگ وار کی حمایت اور مجرمانہ سرگرمیوں کی سرپرستی جیسے سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات تھے مگر 2 ہزار اہلکاروں کے خلاف ثبوت نہ ہونے کی بناء پر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی جبکہ 1400 اہلکاروں کو معمولی سزائیں ہوئی۔
ایک دوسری رپورٹ جو سامنے آئی ہے اس کے مطابق 100 سے زائد پولیس افسران و اہلکاروں پر مشتمل ایک گروہ ہے جو اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے۔ یہ گروہ خوشحال اور امیر گھرانوں کے نوجوانوں کو کسی نہ کسی بہانے گرفتار کرکے بڑی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ایسے جرائم کی بڑی وجہ پولیس محکمے میں موجود وہ اعلی افسران ہیں جو نئے جوانوں کی بھرتی پر بھاری بھرکم رشوت وصول کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے بھاری پیسوں سے خریدی گئی نوکری یا مخصوص پوسٹ والے اہلکار کی دلچسپی امن و امان قائم کرنے کی بجائے رشوت میں دی گئی رقم کو بھرپور کرپشن کے ذریعے پوری کرنے میں لگی ہوتی ہے۔
لیکن یہ سب حقائق بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اِس حقیقت کو ماننے سے بہرحال ہمیں انکار نہیں کرنا چاہیے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کرپٹ لوگ ہیں، وہاں کرپشن ہوتی ہے، لیکن اِن کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اگر پورا ادارہ کرپٹ ہوتا تو ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ معاملہ کس قدر خراب ہوتا۔ آج بھی آپ کو سڑکوں پر ایسے اہلکار ملیں گے جو رشوت لینے سے انکار کردیتے ہیں، جو مشکل کے وقت آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
ہماری پولیس کے حوالے سے ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی پولیس قانون کے مطابق 450 شہریوں کیلئے ایک پولیس اہلکار درکار ہوتا ہے، لیکن دو کروڑ سے زائد آبادی کے اس شہر میں صرف 26,647 پولیس اہلکار کی تعداد سامنے آئی ہے، اِس سے بھی حیران کن امر یہ ہے کہ عوامی سیکورٹی کے لیے صرف 14,433 اہلکار دستیاب ہیں جس کی بنیادی وجہ وی آئی پی سیکورٹی ہے۔ اب ان 14,433 اہلکاروں کو دو شفٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، یعنی ایک وقت میں دو کروڑ لوگوں کیلئے 7,216 پولیس اہلکار ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں۔ اِس پوری صورتحال میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ شہر قائد میں 2771.6 شہریوں کے لیے صرف ایک پولیس اہلکار تعینات ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں یہ بیچارے تمام شہریوں کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟
اِس لیے نئے وزیراعلی مراد علی شاہ کی آمد کے بعد ہم نہ صرف اُمید کرتے ہیں بلکہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ پولیس کے لیے خاص اقدامات کریں۔ ان کے لیے اصلاحات بھی کریں، ان کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ اُن کی تربیت کا آغاز بھی کریں اور سب سے اہم بات یہ کہ یہاں سے سیاسی بھرتیوں اور مداخلت کا خاتمہ کریں۔ اگر یہ کام ہوگیا تو پورا یقین ہے کہ پولیس کے حوالے سے لوگوں میں منفی خیالات بتدریج ختم ہوجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔