سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں دسویں قسط
سنگاپور ہم سے پہلےمقبوضہ ہوا تھا اور ہماری آزادی کے بہت بعد آزاد ہوا لیکن آج وہ چوتھا ایشین ٹائیگر کہلاتا ہےاور ہم؟
سنگاپور فلائر
یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے پیر پھیلانے شروع کئے، اسی صدی کی دوسری دھائی میں یعنی سن 1819ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنگاپور کو ایک تجارتی مرکز کے طور پر دریافت کیا اور بہت ہی قلیل عرصے میں یعنی 1826ء میں سنگاپور کا علاقہ برطانیہ کی کالونی بن چکا تھا۔
برصغیر پر قبضے کا خیال برطانیہ کو سنگاپور کے کامیاب تجربے کے بعد آیا۔ سنگاپور کو بھی برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے حاصل کیا اور مغلیہ سلطنت کا زوال اور ہندوستان کو بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے حاصل کیا۔ تاجِ برطانیہ سے اسے آزادی سن 1963ء میں ملی۔ سنگاپور ہم سے پہلے مقبوضہ ہوا تھا اور ہماری آزادی کے بہت بعد آزاد ہوا۔ ہم سنگاپور کی تاریخ کے حوالے سے سوچ رہے تھے کہ ترقی کی ریس میں ہم سے 17 سال بعد اپنا سفر شروع کرنے والا سنگاپور آج چوتھا ایشین ٹائیگر کہلاتا ہے، اور ہم کہاں ہیں؟
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (نویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (آٹھویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (ساتویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چھٹی قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پانچویں قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)
سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)
ایسٹ انڈیا کمپنی برطانیہ سے تو ہم نے آزادی حاصل کرلی لیکن ایک اور ایسٹ انڈیا کمپنی انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ہاتھوں غلام بن گئے۔ سنگاپور چوتھا ایشین ٹائیگر جبکہ ملائیشیا ترقی کی راہ پر بہت تیزی سے گامزن ہے۔ یہی نہیں بلکہ سنگاپور دنیا کے لیڈنگ کمرشل مراکز میں شامل ہے۔ سب سے اہم اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے سنگاپور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے اثاثے بیچ بیچ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ ایسا سوچتے ہوئے ہمیں جھرجھری سی آ گئی، پھر ہم نے سر کو جھٹک دیا کہ ایسا سوچنے سے کیا پاکستان میں کوئی تبدیلی آ جائے گی؟ زمین جنبد نا جنبد گل محمد۔ بس پھر یہ سب سوچنے کے بجائے ہم مرلائن کے بعد سنگاپور فلائر دیکھنے چل دئیے۔
سنگاپور فلائر دنیا بھر میں طویل ترین ابزرویشن ویل ہے جس کے ذریعے 360 ڈگری نظارہ کرسکتے ہیں۔ اگر دن کے وقت اس ویل کے ذریعے نظارہ کیا جائے تو مرینا بے کے پار ملائیشیا اور انڈونیشیا تک کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ایشیاء کی قابلِ توجہ چیزوں میں سے ایک یہ سنگاپور فلائر سن 2008ء میں سیاحوں کے لئے کھولا گیا ہے۔ 165 میٹر اونچائی کے حامل فلائر میں 28 کیپسول ہیں جن میں 800 مسافروں کی گنجائش ہے۔ ہر کیپسول ایئر کنڈیشنڈ ہے اور اپنا ایک چکر 30 منٹ میں مکمل کرتا ہے۔ مرلائن پارک میں جس جگہ مرلائن کا مجسمہ نصب ہے اس کے بالکل سامنے ایک عمارت عجیب نظارہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے تین پلرز پر ایک بحری جہاز کھڑا ہو۔ یہ فلرٹون واٹر بوٹ ہاوس ہے۔ جو ایک لگژری ہوٹل بھی ہے۔
آج 25 دسمبر کا دن تھا، سنگاپور میں کرسمس کی تیاریاں پورے عروج پر تھیں۔ دوسرے ممالک کی طرح سنگاپور بھی سیاحوں سے بھرا ہوا تھا۔ آرچرڈ روڈ کو بتیوں سے خوب سجایا ہوا تھا۔ سنگاپور مال اسی روڈ پر ایک دیکھنے کے قابل مال ہے۔ اسی روڈ پر کرسمس کی تقریبات ہونے والی تھیں۔ ویسے تو سنگاپور میں 70 فیصد آبادی چینیوں پر مشتمل ہے لیکن کرسمس کی تقریبات دیکھ کر سے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے پوری آبادی ہی کرسچن ہے۔ سنگاپور چونکہ سو سوا سو سال برطانیہ کے زیرِ نگیں رہا ہے اس لئے عسائیت کے اثرات بھی نمایاں نظر آتے ہیں، ویسے بھی سیاحت کے فروغ کے لئے کرسمس سے نیو ایئر تک تقریبات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ تقریباً ہر ملک میں شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے مواقع پر بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کاش پوری دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمان کم از کم عید کو وہ اہمیت دے دیں کہ یہ بھی پوری دنیا میں ثقافتی تہوار کے طور پر منایا جائے تاکہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں۔
ڈاون ٹاون میں واقع قابلِ دید مقامات دیکھنے کے بعد ہم ہوٹل واپس آگئے۔ تھوڑی دیر ریسٹ کے بعد ہم پیدل ہی آرچیڈ روڈ کی طرف چل دئیے۔ ہمارے ہوٹل سے یہ سڑک دس منٹ کی مسافت پر تھی جو بڑے بڑے شاپنگ پلازوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم اس وقت ایک بہت بڑے شاپنگ مال سنگاپور مال دیکھنے جا رہے تھے۔ جب ہم ڈائون ٹاون دیکھنے کے لئے نکلے تو ٹیکسی ڈرائیور نے ہمیں بتایا تھا کہ آرچیڈ روڈ پر ایک سے ایک بڑھ شاپنگ سینٹر ہیں۔ ان میں سنگاپور شاپنگ مال سب سے نمایاں ہے۔ ہم وہی شاپنگ مال دیکھنے جا رہے تھے، جوں جوں رات کی سیاہی بڑھ رہی تھی، آرچیڈ روڈ پر روشنی بڑھتی جا رہی تھی۔ کرسمس کی تقریبات کے لئے اس روڈ کو خوب سجایا گیا تھا۔ دوران سفر ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اس روڈ پر آدھی رات کو کرسمس کی تقریبات ہوں گی۔ جب ہم سنگاپور شاپنگ مال پہنچے تو وہاں بھی لائیٹنگ دیدہ زیب تھیں۔ ہمارا اس مال میں آنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عنایا کے لئے کچھ فوڈ خرید لیا جائے کیونکہ بڑے بڑے اسٹورز پر فلیورڈ یوگرڈ جیسی بہت سی چیزیں مل جاتی ہیں۔ اس مال کی دوسری بیسمنٹ میں اس قسم کی چیروں کا بہت بڑا اسٹور موجود تھا۔ اب چونکہ ہمارے پاس مقامی کرنسی بہت کم رہ گئی تھی اس لئے بیٹا عدیل ہمیں دوسری بیسمنٹ میں اس اسٹور پر جانے کا کہہ کر خود منی ایکسچینجر کی تلاش میں روانہ ہوگیا۔
ہم نے اس اسٹور میں کچھ چیزیں عنایا بے بی کے لئے خریدیں اور جب تک کاونٹر پر جانے کا وقت آیا تو عدیل بیٹا واپس آیا اور اس نے بتایا کہ تمام منی ایکسچینجر کرسمس کی وجہ سے بند ہیں۔ اِس موقع پر ہمیں خاصی مشکل ہوگئی تھی۔ اگرچہ بے بی عنایا کی خوراک تو کچھ زیادہ رقم کی نہیں تھی اور ہم نے جو کرنسی رنگٹ کی شکل میں لنکاوی میں بچ گئی تھی اسے سنگاپور ڈالر میں تبدیل کرلیا تھا جو اِس موقع پر کام آگئی۔ اِس وقت ہمارا بل پچیس ڈالر کا بنا تھا جو پاکستانی رقم کے حوالے سے تو اچھے خاصے تھے لیکن سنگاپور کے اعتبار سے زیادہ نہیں تھے کیونکہ سنگاپور ڈالر بھی امریکی ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے، ایک سو امریکی ڈالر کے بدلے ایکسو بائیس سنگاپور ڈالر ملتے ہیں،۔ ہماری جیب میں پاکستانی روپے بھی تھے لیکن کیا فائدہ کہ کوئی منی ایکسجینجر انہیں تبدیل کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔ اب مقامی کرنسی نہ ہونے کی وجہ سے شاپنگ مال میں ونڈو شاپنگ کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا، اس لئے ہم دو تین منزلوں پر یہی کرتے رہے۔ جب خریداری نہ ہوسکے تو بوریت ہونے لگتی ہے اس لئے ہم سنگاپور شاپنگ مال سے باہر آگئے۔ ارادہ تو یہی تھا کہ شاپنگ مال کی سیر کے بعد کرسمس کی تقریبات دیکھیں گے لیکن اس موقع پر عنایا نے شور مچانا شروع کردیا۔ اس کو بھوک لگی تھی اور جب اسے بھوک لگی ہو تو وہ کسی کی نہیں سنتی۔ اس لئے ہم اپنے ہوٹل واپس آگئے تاکہ عنایا کھانا کھا کر مطمئن ہوجائے اور ہم سکون سے دوسری تقریبات دیکھنے جا سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔