نئے وزیراعلیٰ سندھ کی ترجیحات و چیلنجز
سندھ اسمبلی نے پیپلزپارٹی کے سید مراد علی شاہ کو سندھ کا نیا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا ہے
سندھ اسمبلی نے پیپلزپارٹی کے سید مراد علی شاہ کو سندھ کا نیا وزیراعلیٰ منتخب کرلیا ہے۔ جمعہ کو سندھ اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے رائے شماری ہوئی جس کے مطابق سید مراد علی شاہ کو91 میں سے 88 ووٹ ملے جب کہ ان کے مد مقابل امیدوار تحریک انصاف کے خرم شیر زمان کو صرف 3 ووٹ ملے۔
مسلم لیگ (ن) کے 2 ارکان عاقب خان جتوئی اور سید امیر حیدر شاہ شیرازی اور سابق داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے فرزند حسنین مرزا نے بھی سید مراد علی شاہ کو ووٹ دیا۔ متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (فنکشنل) کے ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے باقی ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو مبارکباد اور قائم علی شاہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد مراد علی شاہ نے سندھ کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ان سے حلف لیا۔
تقریب حلف برداری میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، قائم علی شاہ، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ اور اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے پالیسی خطاب میں سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں کام کرنے کے لیے میری تین ترجیحات ہیں، عوامی خدمت، عوامی خدمت، عوامی خدمت، یقینا خدمت وہ تعلیم ، صحت اور امن کے شعبے میں اس ترجیح کے ساتھ کرینگے کہ سندھ کی کایا پلٹ جائے اور کراچی کو اس کی محرومیوں سے نجات ملے، اس کی ماضی جیسی سیاسی شناخت کا احیا ہو، سیاسی شراکت دار اختلافات ، کشیدگی، قتل و غارت اور محاذ آرائی کے ملبے کو دفن کریں لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ مراد علی شاہ کتنے اچھے ایڈمنسٹریٹر ثابت ہوتے ہیں اور وہ صورتحال کو کس طرح ہینڈل کرتے ہیں، ان کے سامنے سیاسی ، سماجی و معاشی چیلنجز کا ایک سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے، کراچی بے سمت میگا سٹی ہے، اسے درست سمت دینا بچوں کا کھیل نہیں، بلدیاتی ادارے بشمول واٹر بورڈ وغیرہ ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں، تھر میں ہلاکتیں ہیں، رینجرز کے اختیارات کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے، تاہم ان کی سوچ تروتازہ ہے ، وہ صاف ترین کراچی، سبز ترین تھر اور محفوظ ترین سندھ کا وژن رکھتے ہیں، وزیراعلی نے کراچی میں آنکھ کھولی ہے ، ان کے والد سید عبداللہ شاہ اسی سندھ کے وزیراعلی رہے ہیں۔
وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی سیاسی حکمت عملی کیسی ہونی چاہیے جو کراچی اور اندرون سندھ کو موجودہ پیچیدہ صورتحال سے نکالدے، کراچی کی تعمیر نو ایک عظیم الشان ٹاسک ہے، اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ کراچی کو سندھ کا آئینہ اور دلہن کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، پی پی ہر حال میں کراچی کو ترجیح دیگی، یہ صحت مند انداز نظر سندھ حکومت کو سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم سے اشتراک عمل اور جمہوری مفاہمت کے امکانات سے جوڑ سکتی ہے، نئے وزیراعلی کو اس بات کا بھی گہرا ادراک ہوگا کہ کراچی کو جرائم پیشہ مافیاؤں نے بار بار قتل کیا ہے، اس کی روح مسخ ہوئی ہے، اس کی وسیع المشربی ، رواداری و بندہ نوازی کو کاری زخم لگے ہیں، ان کا اندمال ہونا لازم ہے۔
سندھ حکومت شہر قائد کو سماجی، معاشی اور موثر فزیکل پلاننگ سے اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتی ہے، شہر کو ٹرانسپورٹ مافیا سے نجات ملنی چاہیے ورنہ بقول ایک ممتاز ٹاؤن پلانر کے یہ شہر اپنے ہاتھوں خود کشی کرلے گا جب کہ دہشتگردی ، جرائم اور کرپشن کا خاتمہ اور انفرااسٹرکچر کی فراہمی ممکن ہو تو کراچی سمیت سندھ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی چوائس مراد علی شاہ ہیں جو خزانہ ، ترقیات ، منصوبہ بندی اور توانائی کے سینئر صوبائی وزیر رہے ہیں ، 2008 ء سے لے کر آج تک وہ سیاسی رہنماؤں سے تجربات اور سیاسی شعور و خرد افروز اقدامات کے کئی ہنر آزما چکے ہونگے لیکن اب سندھ سنگھار اور کراچی نکھار کا ماسٹر پلان ان کو ہی دینا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ سب سیاسی اور جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے ، نئے وزیراعلی کا یہ عزم بھی لائق تحسین ہے کہ آپ سب کو تبدیلی نظر آئے گی، مسائل بہت ہیں ، سب ساتھ مل کر مسائل حل کریں، اس اشتراک عمل کی دعوت اپنی سیاسی روح کے ساتھ روبہ عمل لائی گئی تو سندھ انتظامی کھنڈر سے اٹھ کر ایک شاندار تہذیبی جست لگا سکتا ہے، وہ کہتے ہیں کرپشن کوئی نیا مسئلہ نہیں، انشاء اللہ اسے ختم کرکے دم لیں گے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے سید مراد علی شاہ کو سندھ کا وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ اپنے ایک تہنیتی پیغام میں انھوں نے کہا کہ مراد علی شاہ اس مشکل وقت میں تمام درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نومنتخب وزیر اعلیٰ سندھ نے حلف اٹھانے کے بعد بلاول ہاؤس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور نئی کابینہ کی تشکیل، رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع اور دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا، بلاول بھٹو زرداری نے سید مراد علی شاہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی توجہ صوبہ سندھ میں انفرااسٹرکچر ، صحت ، تعلیم اور امن و امان کو بہتر کرنے پر مرکوز کریں۔ سندھ کابینہ کے 7 ارکان ہفتہ کو حلف اٹھائیں گے، ابتدائی طور پر تین مشیر لیے جانے کا امکان ہے، وزیراعلی محکمہ داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھیں گے۔
نئے وزیراعلی کے لیے اپوزیشن سیاسی جماعتوں سے رواداری ، جمہوری تعلقات کار اور مفاہمانہ طرز عمل ان کی کامیاب سیاسی حکمت عملی کی کلید ثابت ہوسکتی ہے۔ سندھ نے سیاسی کشیدگی اور دہشتگردی کے ہاتھوں سخت نقصان اٹھایا ہے، دیہی و شہری تقسیم ،کوٹہ سسٹم اور ایم کیو ایم کے گلے شکوے دور کرنے کے لیے گرانڈ پولیٹیکل سٹریجی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، ایم کیو ایم بھی عملیت پسندی کے ساتھ معاملات کو نبھانے کے لیے سندھ حکومت سے ایک نئے معاہدہ عمرانی کی بنیاد رکھے، مصالحت و مفاہمت سندھ کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
روشن خیالی پر مبنی سیاسی روش اختیار کر لی جائے تو وزیر اعلی سے کسی بھی فورم پر بات چیت مشکل نہیں ہوگی۔ تمام سیاسی شراکت داروں کو وزیراعلی کی مدد کرنی چاہیے، سابق سندھ حکومت تنہائیوں کا شکار ہوگئی تھی، اس لیے مراد علی شاہ کو فری ہینڈ ملنا چاہیے، انھیں داخلی طور پر اور پس پردہ مستقل آزمائش میں ڈالنے کے بجائے اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اپنے مخالفین کا نقطہ نظر سنیں، ان کی دلجوئی کریں، ایسی سیاسی وکٹ بنائیں کہ جس پر تمام سیاسی کھلاڑیوں کو فیئر پلے اور اسپورٹسمین شپ کے گہرے احساس کے ساتھ کھیلنے کا لطف محسوس ہو۔
سندھ کو ساختیاتی تنظیم نو درکار ہے، جمہوریت اور جاگیردارانہ رعونت کبھی ساتھ نہیں چل سکتے،اسی طرح فسطائیت اور اربن وڈیرہ شاہی کی بھی ہر کوشش ناکام بنانی چاہیے، سندھ حکمت کوامن و امان، میرٹ، انتظامی شفافیت، سستے انصاف ، روزگار کی فراہمی اور کچی آبادیوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے جہاں بے شمار انسانی مسائل شہر قائد کی خوبصورتی ، قانون کی حکمرانی اور لائف اسٹائل کو تہہ وبالا کررہے ہیں۔
کراچی میں ایک کروڑ 30 لاکھ افراد دوسرے صوبوں سے آئے ہیں، وزیراعلی نے امیر وغریب کے فرق کا ذکر کیا ہے، وہ سماجی جمہوریت کے حامی ہیں، پچھلے این ایف سی ایوارڈ کی خرابیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں، ٹیکس نیٹ سسٹم میں مضمر خرابیوں سے واقف ہیں اور کہتے ہیں کہ صوبوں پر اعتماد نہیں ہوگا تو صوبے انتظامی ڈھانچہ فعال نہیں بنا سکیں گے،شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم، صحت اور زراعت میں کوئی کام نہیں ہوا، تمام عہدے اور وزرا نمائشی ہیں۔ اگر اس ادراک و ذمے داری سے مسائل پر نظر رکھی جائے گی تویقیناً سندھ کی نئی انتظامیہ اپنے گراں بارمسائل کا جمہوری حل تلاش کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیگی۔
مسلم لیگ (ن) کے 2 ارکان عاقب خان جتوئی اور سید امیر حیدر شاہ شیرازی اور سابق داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کے فرزند حسنین مرزا نے بھی سید مراد علی شاہ کو ووٹ دیا۔ متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (فنکشنل) کے ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے باقی ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے نئے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو مبارکباد اور قائم علی شاہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد مراد علی شاہ نے سندھ کی وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھا لیا۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ان سے حلف لیا۔
تقریب حلف برداری میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، فریال تالپور، قائم علی شاہ، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ اور اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے پالیسی خطاب میں سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ صوبہ سندھ میں کام کرنے کے لیے میری تین ترجیحات ہیں، عوامی خدمت، عوامی خدمت، عوامی خدمت، یقینا خدمت وہ تعلیم ، صحت اور امن کے شعبے میں اس ترجیح کے ساتھ کرینگے کہ سندھ کی کایا پلٹ جائے اور کراچی کو اس کی محرومیوں سے نجات ملے، اس کی ماضی جیسی سیاسی شناخت کا احیا ہو، سیاسی شراکت دار اختلافات ، کشیدگی، قتل و غارت اور محاذ آرائی کے ملبے کو دفن کریں لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ مراد علی شاہ کتنے اچھے ایڈمنسٹریٹر ثابت ہوتے ہیں اور وہ صورتحال کو کس طرح ہینڈل کرتے ہیں، ان کے سامنے سیاسی ، سماجی و معاشی چیلنجز کا ایک سمندر ٹھاٹیں مار رہا ہے، کراچی بے سمت میگا سٹی ہے، اسے درست سمت دینا بچوں کا کھیل نہیں، بلدیاتی ادارے بشمول واٹر بورڈ وغیرہ ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں، تھر میں ہلاکتیں ہیں، رینجرز کے اختیارات کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے، تاہم ان کی سوچ تروتازہ ہے ، وہ صاف ترین کراچی، سبز ترین تھر اور محفوظ ترین سندھ کا وژن رکھتے ہیں، وزیراعلی نے کراچی میں آنکھ کھولی ہے ، ان کے والد سید عبداللہ شاہ اسی سندھ کے وزیراعلی رہے ہیں۔
وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی سیاسی حکمت عملی کیسی ہونی چاہیے جو کراچی اور اندرون سندھ کو موجودہ پیچیدہ صورتحال سے نکالدے، کراچی کی تعمیر نو ایک عظیم الشان ٹاسک ہے، اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ کراچی کو سندھ کا آئینہ اور دلہن کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا، پی پی ہر حال میں کراچی کو ترجیح دیگی، یہ صحت مند انداز نظر سندھ حکومت کو سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم سے اشتراک عمل اور جمہوری مفاہمت کے امکانات سے جوڑ سکتی ہے، نئے وزیراعلی کو اس بات کا بھی گہرا ادراک ہوگا کہ کراچی کو جرائم پیشہ مافیاؤں نے بار بار قتل کیا ہے، اس کی روح مسخ ہوئی ہے، اس کی وسیع المشربی ، رواداری و بندہ نوازی کو کاری زخم لگے ہیں، ان کا اندمال ہونا لازم ہے۔
سندھ حکومت شہر قائد کو سماجی، معاشی اور موثر فزیکل پلاننگ سے اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتی ہے، شہر کو ٹرانسپورٹ مافیا سے نجات ملنی چاہیے ورنہ بقول ایک ممتاز ٹاؤن پلانر کے یہ شہر اپنے ہاتھوں خود کشی کرلے گا جب کہ دہشتگردی ، جرائم اور کرپشن کا خاتمہ اور انفرااسٹرکچر کی فراہمی ممکن ہو تو کراچی سمیت سندھ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی چوائس مراد علی شاہ ہیں جو خزانہ ، ترقیات ، منصوبہ بندی اور توانائی کے سینئر صوبائی وزیر رہے ہیں ، 2008 ء سے لے کر آج تک وہ سیاسی رہنماؤں سے تجربات اور سیاسی شعور و خرد افروز اقدامات کے کئی ہنر آزما چکے ہونگے لیکن اب سندھ سنگھار اور کراچی نکھار کا ماسٹر پلان ان کو ہی دینا ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ سب سیاسی اور جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے ، نئے وزیراعلی کا یہ عزم بھی لائق تحسین ہے کہ آپ سب کو تبدیلی نظر آئے گی، مسائل بہت ہیں ، سب ساتھ مل کر مسائل حل کریں، اس اشتراک عمل کی دعوت اپنی سیاسی روح کے ساتھ روبہ عمل لائی گئی تو سندھ انتظامی کھنڈر سے اٹھ کر ایک شاندار تہذیبی جست لگا سکتا ہے، وہ کہتے ہیں کرپشن کوئی نیا مسئلہ نہیں، انشاء اللہ اسے ختم کرکے دم لیں گے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے سید مراد علی شاہ کو سندھ کا وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ اپنے ایک تہنیتی پیغام میں انھوں نے کہا کہ مراد علی شاہ اس مشکل وقت میں تمام درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
نومنتخب وزیر اعلیٰ سندھ نے حلف اٹھانے کے بعد بلاول ہاؤس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور نئی کابینہ کی تشکیل، رینجرز کے اختیارات کی مدت میں توسیع اور دیگر امور پر تبادلہ خیال ہوا، بلاول بھٹو زرداری نے سید مراد علی شاہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی توجہ صوبہ سندھ میں انفرااسٹرکچر ، صحت ، تعلیم اور امن و امان کو بہتر کرنے پر مرکوز کریں۔ سندھ کابینہ کے 7 ارکان ہفتہ کو حلف اٹھائیں گے، ابتدائی طور پر تین مشیر لیے جانے کا امکان ہے، وزیراعلی محکمہ داخلہ کا قلمدان اپنے پاس رکھیں گے۔
نئے وزیراعلی کے لیے اپوزیشن سیاسی جماعتوں سے رواداری ، جمہوری تعلقات کار اور مفاہمانہ طرز عمل ان کی کامیاب سیاسی حکمت عملی کی کلید ثابت ہوسکتی ہے۔ سندھ نے سیاسی کشیدگی اور دہشتگردی کے ہاتھوں سخت نقصان اٹھایا ہے، دیہی و شہری تقسیم ،کوٹہ سسٹم اور ایم کیو ایم کے گلے شکوے دور کرنے کے لیے گرانڈ پولیٹیکل سٹریجی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، ایم کیو ایم بھی عملیت پسندی کے ساتھ معاملات کو نبھانے کے لیے سندھ حکومت سے ایک نئے معاہدہ عمرانی کی بنیاد رکھے، مصالحت و مفاہمت سندھ کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
روشن خیالی پر مبنی سیاسی روش اختیار کر لی جائے تو وزیر اعلی سے کسی بھی فورم پر بات چیت مشکل نہیں ہوگی۔ تمام سیاسی شراکت داروں کو وزیراعلی کی مدد کرنی چاہیے، سابق سندھ حکومت تنہائیوں کا شکار ہوگئی تھی، اس لیے مراد علی شاہ کو فری ہینڈ ملنا چاہیے، انھیں داخلی طور پر اور پس پردہ مستقل آزمائش میں ڈالنے کے بجائے اس بات کی آزادی دی جائے کہ وہ اپنے مخالفین کا نقطہ نظر سنیں، ان کی دلجوئی کریں، ایسی سیاسی وکٹ بنائیں کہ جس پر تمام سیاسی کھلاڑیوں کو فیئر پلے اور اسپورٹسمین شپ کے گہرے احساس کے ساتھ کھیلنے کا لطف محسوس ہو۔
سندھ کو ساختیاتی تنظیم نو درکار ہے، جمہوریت اور جاگیردارانہ رعونت کبھی ساتھ نہیں چل سکتے،اسی طرح فسطائیت اور اربن وڈیرہ شاہی کی بھی ہر کوشش ناکام بنانی چاہیے، سندھ حکمت کوامن و امان، میرٹ، انتظامی شفافیت، سستے انصاف ، روزگار کی فراہمی اور کچی آبادیوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے جہاں بے شمار انسانی مسائل شہر قائد کی خوبصورتی ، قانون کی حکمرانی اور لائف اسٹائل کو تہہ وبالا کررہے ہیں۔
کراچی میں ایک کروڑ 30 لاکھ افراد دوسرے صوبوں سے آئے ہیں، وزیراعلی نے امیر وغریب کے فرق کا ذکر کیا ہے، وہ سماجی جمہوریت کے حامی ہیں، پچھلے این ایف سی ایوارڈ کی خرابیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں، ٹیکس نیٹ سسٹم میں مضمر خرابیوں سے واقف ہیں اور کہتے ہیں کہ صوبوں پر اعتماد نہیں ہوگا تو صوبے انتظامی ڈھانچہ فعال نہیں بنا سکیں گے،شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم، صحت اور زراعت میں کوئی کام نہیں ہوا، تمام عہدے اور وزرا نمائشی ہیں۔ اگر اس ادراک و ذمے داری سے مسائل پر نظر رکھی جائے گی تویقیناً سندھ کی نئی انتظامیہ اپنے گراں بارمسائل کا جمہوری حل تلاش کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیگی۔