میں اور استنبول کے دو واقعات
اس میں تین خودکش بمباروں نے جو داخل ہونے کی کوشش کی اس کے پیچھے کیا سازش تھی
کئی ہفتے گزرچکے ہیں، خبروں اور تجزیوں میں اختلاف بھی نظر آیا اور نظریاتی دہرا معیار بھی لیکن مجھے اس پر اظہار خیال نہیں کرنا، وقت گزرنے پر حقیقت خود بخود آشکار ہوجائے گی کہ 28 جون 2016ء کے دن ترکی کے اتاترک ایئرپورٹ میں جو یورپ کا تیسرا بڑا ہوائی اڈا ہے۔
اس میں تین خودکش بمباروں نے جو داخل ہونے کی کوشش کی اس کے پیچھے کیا سازش تھی اگرچہ وہ تینوں مارے گئے لیکن حملہ آوروں نے مختلف ملکوں کے پچاس سے زیادہ سیاحوں کو ہلاک کردیا اور کئی سو کو گولیوں سے زخمی و چھلنی۔ میرے لیے اس سانحے کی اس لیے بھی اہمیت اور دکھ کی بات تھی کہ اس کے چند ہی گھنٹے بعد میں اسی اتاترک ایئرپورٹ پر اپنی لندن کے لیے فلائٹ پکڑنے کے لیے جاپہنچا تھا اور پریشان حال تھا کہ جائے سانحہ پر موجود تھا اور وہ بھی اپنے وطن سے دور لیکن کمال کی بات کہ مقامی انتظامیہ نے چند گھنٹوں میں ہوائی اڈے کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور جائے وقوعہ کو اس حالت میں لے آئے جیسے وہاں اتنا بڑا سانحہ ہی نہ ہوا ہو اور پھر وہاں ہوائی سروس بھی فوراً بحال ہوگئی۔
اگرچہ مجھے دو تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا لیکن ایئرپورٹ حملے ہی کے دن اتاترک ایئرپورٹ سے لندن کے لیے فلائٹ مل جانا مقامی انتظامیہ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ حیران کن بات یہ بھی تھی کہ اتنے بڑے ایئرپورٹ پر کسی قسم کا خوف و ہراس کا عالم نہ تھا۔ مسافروں میں قطعی بھگدڑ نہ دیکھی، ریستوران چل رہے تھے۔ ڈیوٹی فری شاپس پر خریداری ہورہی تھی۔ مسافروں کے لیے چیک ان کاؤنٹروں کے سامنے لوگوں کی قطاریں تھیں جہاز میں سوار ہونے کے لیے کسی مسافر کو خوفزدہ یا عجلت میں نہ پایا۔
المختصر یہ ایئرپورٹ پر حملے والا دن تھا اور میں وہاں سے ہیتھرو کی فلائٹ پکڑنے کے لیے موجود تھا اور محفوظ و بے خوف تھا۔ شہر میں البتہ ایک بات باعث حیرت تھی کہ اتنے بڑے سانحے کے باوجود بڑی سڑکوں پر گاڑیوں کا رش اس روز معمول سے بے حد زیادہ تھا اور میرا ایئرپورٹ پہنچنے کا وقت جو عام حالات میں ایک گھنٹے میں طے ہوجانا چاہیے تھا ٹریفک جام کی وجہ سے سوا دو گھنٹے میں مکمل ہوا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے ایئرپورٹ والے مذموم واقعے کے باوجود شہر میں زندگی نارمل تھی اور کسی جگہ PANIC کی فضا نہیں تھی۔ میری ہیتھرو کی فلائیٹ بھی صرف ایک گھنٹہ لیٹ ہوئی جب کہ منسوخ ہونے والی کوئی فلائیٹ نہ تھی۔ لندن تک پرواز کے دوران کئی بار اتاترک ایئرپورٹ انتظامیہ اور ایئرلائن کے لیے دعائیں کیں اور کلمات تعریف دل سے نکلے کیونکہ ہمیں تو اپنی ایئرلائن کا ذرا سی بات پر کئی کئی گھنٹے کے لیے پرواز کے لیٹ ہوکر کینسل ہوتے دیکھنے کا بھی تجربہ ہے۔
سولہ جولائی 2016ء کی شام میری استنبول سے واپسی طے تھی اس لیے جبران نے 15 جولائی کی شام استنبول کے یورپ سائیڈ کے باسفورس کنارے ڈسٹرکٹ Sariyar چلنے کا پروگرام بنایا۔ غروب آفتاب کے بعد ڈرائیو کرتے ہم رومیلی حصار کے علاقے میں تھے۔ دائیں طرف قلعے کی دیواریں برج اور مینار نظر آرہے تھے۔ شروع میں یہ مناظر ہیبت ناک لگے۔ ان کے قریب جگہ جگہ ریستوران تھے۔ سیاح وہاں موجود اور کھانے پینے میں مصروف تھے۔ یہ قلعہ 1451-52 میں عثمانی سلطان محمد دوئم نے اپنے شہزادوں کی نگرانی میں تعمیر کرایا تھا۔ اس کے تین عظیم الشان مینار تھے جن کے نام شہزادوں کے نام پر رکھے گئے تھے۔
یہ قلعہ باسفورس کی سمندری ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے کا نقشہ یوں ہے کہ اگر اسے بلندی یعنی فضا سے دیکھا جائے تو وہ اسم محمدؐ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ قلعہ دائیں طرف اور ریسورانوں کے بعد پھر سڑک کے دوسری طرف باسفورس اور سمندر کے ساتھ ساتھ سڑک کے متوازی پچیس تیس فٹ چوڑا ہموار چہل قدمی کے لیے راستہ۔ ہم نے کار ایک جگہ پارک کی۔ عشاء کی اذان کی آواز آرہی تھی۔ ہم سمندر کے ساتھ پچیس تیس فٹ ہموار پتھریلے راستے پر سیر کرنے لگے۔
بہت سے لوگ پہلے سے اس سمندر کے ساتھ ساتھ سیر کررہے تھے۔ سمندر میں دو جہاز ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہے تھے جن میں Live موسیقی کے پروگرام چل رہے تھے۔ یہ دونوں چھوٹے جہاز دراصل سیاحوں کی تفریح کے لیے گھوم رہے تھے اور رقص و موسیقی کے علاوہ ریستوران کی سہولت سے بھی لیس تھے۔ ان میں روشنیاں جھلملا رہی تھیں جن کی وجہ سے ساحل پر چہل قدمی کرنے والے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔ یہاں ایک جانب شاہی قلعہ کی دیواریں اور مینار تھے۔
ان سے پہلے روشن روشن ریستوران ان سے نیچے سڑک اور اس کے متوازی ہموار پتھریلا سمندر کے ساتھ چلتا سیر کے لیے بنایا گیا راستہ اور اس کے بعد سمندر میں موسیقی اور روشنیاں بکھیرتے تفریحی جہاز، ہم وہاں ایک ڈیڑھ گھنٹہ لطف اٹھا کر واپس مڑے اور کار میں بیٹھ کر کسی اچھی جگہ رات کے کھانے کے لیے روانہ ہوئے۔
ابھی ہم رستے ہی میں تھے کہ ٹریفک کی رفتار بالکل آہستہ ہوگئی اور باسفورس پل پر سے آنے والی ٹریفک غائب ہوگئی۔ اس پل پر آنے والی گاڑیوں کا وہاں نظر نہ آنا باعث حیرت تھا۔ اسی اثنا میں ایک دوست کی ٹیلی فون کال آئی اور ساتھ مشورہ کہ اپنا روٹ تبدیل کرلو۔ اس دوست نے بتایا کہ فوج کے ایک گروپ نے بغاوت کردی ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کو یرغمال بنالیا ہے اور اہم تنصیبات پر بشمول باسفورس پل قبضہ کرلیا ہے۔ فون کال ختم ہوئی تو ہمیں دوسری طرف باسفورس پل پر باغی فوج نظر آئی۔
ہم نے فائرنگ کی آواز سنی تو رستہ تبدیل کرکے مقبوضہ علاقے سے نکل گئے۔ آدھی رات کو اپنی رہائش گاہ پہنچے جہاں مساجد میں تلاوت ہوتی سنی۔ رات ہی کو جمہوریت پسند عوام اور صدر طیب اردگان کے وفاداروں اور باغیوں کی مخالف جرنیلوں نے بغاوت کرنے والوں کو زیر کرلیا۔ 15 جولائی کو یہ ناکام بغاوت ہوئی اور 16 جولائی کو ہم اتاترک ایئرپورٹ پر تھے واپس لاہور آنے کے لیے۔ یوں دوبارہ ایسا ہوا کہ 28 جون کو خودکش حملے کے دن اور 15 جولائی کو فوجی بغاوت کے دن میں استنبول میں تھا۔
اس میں تین خودکش بمباروں نے جو داخل ہونے کی کوشش کی اس کے پیچھے کیا سازش تھی اگرچہ وہ تینوں مارے گئے لیکن حملہ آوروں نے مختلف ملکوں کے پچاس سے زیادہ سیاحوں کو ہلاک کردیا اور کئی سو کو گولیوں سے زخمی و چھلنی۔ میرے لیے اس سانحے کی اس لیے بھی اہمیت اور دکھ کی بات تھی کہ اس کے چند ہی گھنٹے بعد میں اسی اتاترک ایئرپورٹ پر اپنی لندن کے لیے فلائٹ پکڑنے کے لیے جاپہنچا تھا اور پریشان حال تھا کہ جائے سانحہ پر موجود تھا اور وہ بھی اپنے وطن سے دور لیکن کمال کی بات کہ مقامی انتظامیہ نے چند گھنٹوں میں ہوائی اڈے کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا اور جائے وقوعہ کو اس حالت میں لے آئے جیسے وہاں اتنا بڑا سانحہ ہی نہ ہوا ہو اور پھر وہاں ہوائی سروس بھی فوراً بحال ہوگئی۔
اگرچہ مجھے دو تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا لیکن ایئرپورٹ حملے ہی کے دن اتاترک ایئرپورٹ سے لندن کے لیے فلائٹ مل جانا مقامی انتظامیہ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ حیران کن بات یہ بھی تھی کہ اتنے بڑے ایئرپورٹ پر کسی قسم کا خوف و ہراس کا عالم نہ تھا۔ مسافروں میں قطعی بھگدڑ نہ دیکھی، ریستوران چل رہے تھے۔ ڈیوٹی فری شاپس پر خریداری ہورہی تھی۔ مسافروں کے لیے چیک ان کاؤنٹروں کے سامنے لوگوں کی قطاریں تھیں جہاز میں سوار ہونے کے لیے کسی مسافر کو خوفزدہ یا عجلت میں نہ پایا۔
المختصر یہ ایئرپورٹ پر حملے والا دن تھا اور میں وہاں سے ہیتھرو کی فلائٹ پکڑنے کے لیے موجود تھا اور محفوظ و بے خوف تھا۔ شہر میں البتہ ایک بات باعث حیرت تھی کہ اتنے بڑے سانحے کے باوجود بڑی سڑکوں پر گاڑیوں کا رش اس روز معمول سے بے حد زیادہ تھا اور میرا ایئرپورٹ پہنچنے کا وقت جو عام حالات میں ایک گھنٹے میں طے ہوجانا چاہیے تھا ٹریفک جام کی وجہ سے سوا دو گھنٹے میں مکمل ہوا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے ایئرپورٹ والے مذموم واقعے کے باوجود شہر میں زندگی نارمل تھی اور کسی جگہ PANIC کی فضا نہیں تھی۔ میری ہیتھرو کی فلائیٹ بھی صرف ایک گھنٹہ لیٹ ہوئی جب کہ منسوخ ہونے والی کوئی فلائیٹ نہ تھی۔ لندن تک پرواز کے دوران کئی بار اتاترک ایئرپورٹ انتظامیہ اور ایئرلائن کے لیے دعائیں کیں اور کلمات تعریف دل سے نکلے کیونکہ ہمیں تو اپنی ایئرلائن کا ذرا سی بات پر کئی کئی گھنٹے کے لیے پرواز کے لیٹ ہوکر کینسل ہوتے دیکھنے کا بھی تجربہ ہے۔
سولہ جولائی 2016ء کی شام میری استنبول سے واپسی طے تھی اس لیے جبران نے 15 جولائی کی شام استنبول کے یورپ سائیڈ کے باسفورس کنارے ڈسٹرکٹ Sariyar چلنے کا پروگرام بنایا۔ غروب آفتاب کے بعد ڈرائیو کرتے ہم رومیلی حصار کے علاقے میں تھے۔ دائیں طرف قلعے کی دیواریں برج اور مینار نظر آرہے تھے۔ شروع میں یہ مناظر ہیبت ناک لگے۔ ان کے قریب جگہ جگہ ریستوران تھے۔ سیاح وہاں موجود اور کھانے پینے میں مصروف تھے۔ یہ قلعہ 1451-52 میں عثمانی سلطان محمد دوئم نے اپنے شہزادوں کی نگرانی میں تعمیر کرایا تھا۔ اس کے تین عظیم الشان مینار تھے جن کے نام شہزادوں کے نام پر رکھے گئے تھے۔
یہ قلعہ باسفورس کی سمندری ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس قلعے کا نقشہ یوں ہے کہ اگر اسے بلندی یعنی فضا سے دیکھا جائے تو وہ اسم محمدؐ کی شکل میں نظر آتا ہے۔ قلعہ دائیں طرف اور ریسورانوں کے بعد پھر سڑک کے دوسری طرف باسفورس اور سمندر کے ساتھ ساتھ سڑک کے متوازی پچیس تیس فٹ چوڑا ہموار چہل قدمی کے لیے راستہ۔ ہم نے کار ایک جگہ پارک کی۔ عشاء کی اذان کی آواز آرہی تھی۔ ہم سمندر کے ساتھ پچیس تیس فٹ ہموار پتھریلے راستے پر سیر کرنے لگے۔
بہت سے لوگ پہلے سے اس سمندر کے ساتھ ساتھ سیر کررہے تھے۔ سمندر میں دو جہاز ادھر سے ادھر چکر کاٹ رہے تھے جن میں Live موسیقی کے پروگرام چل رہے تھے۔ یہ دونوں چھوٹے جہاز دراصل سیاحوں کی تفریح کے لیے گھوم رہے تھے اور رقص و موسیقی کے علاوہ ریستوران کی سہولت سے بھی لیس تھے۔ ان میں روشنیاں جھلملا رہی تھیں جن کی وجہ سے ساحل پر چہل قدمی کرنے والے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔ یہاں ایک جانب شاہی قلعہ کی دیواریں اور مینار تھے۔
ان سے پہلے روشن روشن ریستوران ان سے نیچے سڑک اور اس کے متوازی ہموار پتھریلا سمندر کے ساتھ چلتا سیر کے لیے بنایا گیا راستہ اور اس کے بعد سمندر میں موسیقی اور روشنیاں بکھیرتے تفریحی جہاز، ہم وہاں ایک ڈیڑھ گھنٹہ لطف اٹھا کر واپس مڑے اور کار میں بیٹھ کر کسی اچھی جگہ رات کے کھانے کے لیے روانہ ہوئے۔
ابھی ہم رستے ہی میں تھے کہ ٹریفک کی رفتار بالکل آہستہ ہوگئی اور باسفورس پل پر سے آنے والی ٹریفک غائب ہوگئی۔ اس پل پر آنے والی گاڑیوں کا وہاں نظر نہ آنا باعث حیرت تھا۔ اسی اثنا میں ایک دوست کی ٹیلی فون کال آئی اور ساتھ مشورہ کہ اپنا روٹ تبدیل کرلو۔ اس دوست نے بتایا کہ فوج کے ایک گروپ نے بغاوت کردی ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کو یرغمال بنالیا ہے اور اہم تنصیبات پر بشمول باسفورس پل قبضہ کرلیا ہے۔ فون کال ختم ہوئی تو ہمیں دوسری طرف باسفورس پل پر باغی فوج نظر آئی۔
ہم نے فائرنگ کی آواز سنی تو رستہ تبدیل کرکے مقبوضہ علاقے سے نکل گئے۔ آدھی رات کو اپنی رہائش گاہ پہنچے جہاں مساجد میں تلاوت ہوتی سنی۔ رات ہی کو جمہوریت پسند عوام اور صدر طیب اردگان کے وفاداروں اور باغیوں کی مخالف جرنیلوں نے بغاوت کرنے والوں کو زیر کرلیا۔ 15 جولائی کو یہ ناکام بغاوت ہوئی اور 16 جولائی کو ہم اتاترک ایئرپورٹ پر تھے واپس لاہور آنے کے لیے۔ یوں دوبارہ ایسا ہوا کہ 28 جون کو خودکش حملے کے دن اور 15 جولائی کو فوجی بغاوت کے دن میں استنبول میں تھا۔